کار خانوں کے لیے اور نہ مکانوں کے لیے

خمار دہلوی شعروسخن

کار خانوں کے لیے اور نہ مکانوں کے لیے

ہم تو مزدور ہیں لڑتے ہیں نوالوں کے لیے


ہے غنیمت ابھی آتی ہے اذانوں کی صدا

کل ترس جاؤ نہ تم لوگ اذانوں کے لیے


وقت سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے ابھی

وقت ضائع نہ کرو خام خیالوں کے لیے


شرط منزل ہے یہی حوصلہ قائم رکّھو

آہ و زاری نہ کرو پاؤں کے چھالوں کے لیے


جو پرانی ہیں مرمّت نہیں ممکن ان کی

پرزے ملتے ہیں کہاں ایسی مشینوں کے لیے


راہ تکتی تھیں مکینوں کی زمینیں پہلے

اب زمیں دار ترستے ہیں زمینوں کے لیے


چاند تاروں سے نہیں مانگا اجالا ہم نے

خوں چراغوں میں جلایا ہے اجالوں کے لیے


بیڑیاں کھولنے آئے کوئی ممکن ہی نہیں

چابیاں خود ہی بنا آہنی تالوں کے لیے


جاگی آنکھوں کو شب و روز تسلّی دے کر

نِت نئے خواب دکھاتا ہوں اجالوں کے لیے

آپ کے تبصرے

3000