زندگی نام کر نہ جاؤں کہیں

فیضان اسعد شعروسخن

زندگی نام کر نہ جاؤں کہیں

اس تبسم پہ مر نہ جاؤں کہیں


بے رخی سے تری یہ خدشہ ہے

عشق سے ہی مکر نہ جاؤں کہیں


شہر نے اتنی وحشتیں بھر دیں

دیکھ کر گاؤں ڈر نہ جاؤں کہیں


دیکھ کر واعظوں کو میں اک دن

خوف یہ ہے سُدھر نہ جاؤں کہیں


ہر گھڑی واپسی کی راہ تکوں

جانے کیا ہو جو گھر نہ جاؤں کہیں


دل شکن ہی ملا جسے چاہا

ایک دن میں بکھر نہ جاؤں کہیں


تُو سے کہنے لگا ہوں آپ تجھے

میں نظر سے اتر نہ جاؤں کہیں


یاد جاناں کی قید میں اسعؔد

زندگی سے گزر نہ جاؤں کہیں

آپ کے تبصرے

3000