صنف نازک کی نزاکت کا تقاضہ

محمد مظہر الاعظمی تعلیم و تربیت

عورت اور مرد دو لفظ ہیں، دونوں کو ان کی جسمانی طاقت و توانائی اور لطافت و نزاکت کے اعتبار سے صنف نازک اور صنف قوی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کو ان کی نزاکت کی وجہ سے شیشہ سے تشبیہ دی ہے:
عن انس ابن مالك رضي الله عنه قال اتي النبي صلي الله عليه سلم علي بعض نساءه ومعهن ام سليم فقال ويحك ياانجشة رويدك سوقا بالقوارير (صحيح البخاري:6149)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر کے موقع پر) اپنی عورتوں کے پاس آئے ان کے ساتھ حضرت انس کی والدہ ام سلیم بھی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انجشہ شیشوں کو آہستہ لے چلو۔
معلم انسانیت نے صرف ایک لفظ میں پوری دنیا کو درس دے دیا کہ عورتیں کیسی ہوتی ہیں اور ان کی اس نزاکت کا کیا تقاضہ ہے۔
شعرائے کرام نے بھی صنفی نزاکت کو مختلف پہلوؤں اور انداز سے ذکر کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے شاعرانہ مزاج کے لحاظ سے ہمیشہ مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے:
حنا کا رنگ بھی ہو بار جس نازک طبیعت پر
بھلا پہنے وہ کیونکر پاؤں میں جراب کا جوڑا
صنف نازک کی نزاکت کا تقاضہ ہے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انھیں شیشہ ہی سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ اسی میں زوجین کی، اہل خانہ کی اور پورے معاشرے کی بھلائی ہے۔ وہ پسلی کی ہڈی ہے، اس کو پسلی کی ٹیڑھی ہڈی سمجھ کر برتاؤ کرنے میں کامیابی ہے، آپ اسے سیدھی نہیں کرسکتے مگر اس کی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں، زندگی گزار سکتے ہیں اور ایک پوری فیملی کی مشترکہ تعاون سے کفالت کر کے نسل انسانی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
یہ باتیں منطق و فلسفہ کی کوئی پیچیدہ گتھی نہیں ہیں جو سمجھ میں نہ آئیں مگر آج کا یہ تعلیم یافتہ دور اپنے علمی زعم کے باوجود نہیں سمجھ پاتا ہے اور صنف نازک کے ساتھ برتاؤ صنف قوی سے بدتر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون خانہ کو مارنے پیٹنے کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ علم و معرفت میں تفوق و برتری اپنی جگہ پر مگر اس علم کا نفاذ ایک دوسری چیز ہے۔ اسی لیے دنیا تو علم سے منور ہوگئی مگر اندرون خانہ اب بھی تاریک ہی ہے اور ہمارا خواتین کے ساتھ برتاؤ دور جاہلیت کی طرح ہے۔ اس لیے حدیث رسول: خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي (جامع الترمذی:3895) کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کے مطابق صنف نازک کو شیشہ سمجھ کر ہی استعمال کرنا چاہیے تاکہ زندگی کے دو پہیے ایک ساتھ اسلامی پٹری پر رواں دواں رہیں اور غیروں کو بھی خواتین کے معاملے میں انگشت نمائی کا موقع نہ ملے۔

آپ کے تبصرے

3000