نبیﷺ اور صحابہ کرام سے خبر واحد کی عدم حجیت کے ثبوت پر منکرین سنت کے دلائل کا جائزہ
منکرین سنت کہتے ہیں کہ خبر واحد کی عدم حجیت صحابہ کرام سے ثابت ہے اور چند دلائل سے استدلال کرتے ہیں:
1- پہلی دلیل:
عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْءٌ، وَمَا عَلِمْتُ لَكِ فِي سُنَّةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ. فَسَأَلَ النَّاسَ، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهَا السُّدُسَ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُو بَكْرٍ…. (سنن أبي داؤود: 2894)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے دادی کے میراث کے معاملے میں شہادت مانگنا اور اس کی تصدیق طلب کرنا۔
2- دوسری دلیل:
عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَكَأَنَّهُ كَانَ مَشْغُولًا، فَرَجَعَ أَبُو مُوسَى، فَفَرَغَ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، ائْذَنُوا لَهُ. قِيلَ: قَدْ رَجَعَ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِذَلِكَ. فَقَالَ: تَأْتِينِي عَلَى ذَلِكَ بِالْبَيِّنَةِ. فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسِ الْأَنْصَارِ فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: لَا يَشْهَدُ لَكَ عَلَى هَذَا إِلَّا أَصْغَرُنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، فَذَهَبَ بِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَقَالَ عُمَرُ: أَخَفِيَ هَذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلْهَانِيَ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ. يَعْنِي الْخُرُوجَ إِلَى تِجَارَةٍ (صحیح البخاري :2062)
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے استیذان کے مسئلے میں متابعت اور تصدیق طلب کرنا۔
3- تیسری دلیل:
عن عمرة (بنت عبد الرحمن) أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ، أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: “إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا” (سنن الترمذي: 1006)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی حدیث رونے سے میت کو عذاب ملنے کے مسئلے میں رد کرنا۔
استدلال:
یہ سب اخبار آحاد کے قبیل سے ہیں اور اگر یہ علم کا فائدہ دیتے اور قابل عمل ہوتے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اول وہلہ ہی میں قبول کرلیتے اور اس تحقیق اور بحث کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن برعکس اس کے ان خبروں پر تصدیق طلب کرنا دلالت کرتا ہے کہ وہ خبر واحد کو حجت نہیں مانتے تھے۔
اس کا جواب:
باجی رحمہ اللہ موطأ کی شرح المنتقى میں کہتے ہیں:
ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سوال کرنا اس طور پر تھا کہ وہ حدیث میں مزید تحقیق اور تاکید چاہتے تھے کیوں کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ فاضل اور فقہائے صحابہ میں سے تھے اس لیے اگر کسی اور سے تصدیق نہ بھی ہوتی تو بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی حدیث رد نہیں کرنے والے تھے اور جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اتفاق کیا تو معاملہ مزید واضح ہوگیا اور اپنے اجتہاد سے رک گئے۔ (چوں کہ دلیل آ گئی اس لیے اجتہاد کی ضرورت نہیں رہی) (المنتقى شرح موطأ إمام مالك لأبي الوليد سليمان بن خلف بن سعد الباجي المعروف ب_الباجي. :6/238)
مصطفی سباعی کہتے ہیں:
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سوال کرنا اس لیے تھا کیوں کہ موجودہ معاملہ میں ان کو یا تو اب تک اس کی دلیل قرآن کی آیت سے نہیں ملی تھی یا دوسری کوئی دلیل یا اس مسئلے کی کوئی نظیر اب تک ان کی نگاہ سے نہیں گزری تھی اور وہ شریعت میں کسی زیادتی کا بانی نہیں بننا چاہتے تھے اس لیے لازم تھا کہ اس کی تحقیق کرلی جائے اور احتیاط سے کام لیا جائے اور جب محمد بن مسلمہ نے ان کی تصدیق کی تو شک یا وہم کا ازالہ ہوگیا اور مغیرہ کی حدیث کو قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں کیا بلکہ فوراً اس روایت پر عمل کیا۔ (السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي مصطفى السباعي:193،194) یہی معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔
آمدی کہتے ہیں:
ان صحابہ کرام نے جن خبروں کو قبول نہیں کیا یا ان کے قبول کرنے میں توقف اختیار کی وہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ خبر واحد کی عدم حجیت کے قائل تھے بلکہ یہ بعض دیگر خارجی اسباب اور تقاضوں کی بنیاد پر تھا جیسے کوئی سبب لاحق ہو یا کوئی شرط مفقود ہو نہ کہ عدم حجیت کی بنا پر نیز اس کے باوجود وہ سب متفق تھے کہ خبر واحد کی بنیاد پر عمل درآمد کیا جائے گا اور اس لیے بھی کہ اس بات پر اجماع ہے کہ قرآنی آیات کا ظاہری مفہوم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجت ہیں اور انھیں کسی خارجی سبب کی بنا پر ان کی قبولیت پر توقف اختیار کرنا جائز ہے۔ (الإحكام 1/61)
مجموعی طور پر ان اقوال اور دیگر کتب کو سامنے رکھتے ہوئے نتیجہ یہ نکلتا ہے:
1- اولا صحابہ کا ان خبروں کو رد کرنا یا قبول کرنے سے توقف اختیار کرنا اور ان کی تصدیق طلب کرنا اس لیے نہیں تھا کہ یہ اخبار آحاد ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک اس طرح کے مصطلحات کا وجود ہی نہیں تھا اور اس طرح کی کوئی تفریق تھی ہی نہیں (یہاں پھر یہ نہ کہیں کہ حدیث کی سند کی طرح یہ اصول و ضوابط بھی بعد میں ایڈ کر دیے گئے جیسے مستشرقین اور ان کے دم چھلے کہتے ہیں کہ حدیث کی سندیں بعد میں حدیثوں سے جوڑی گئی ہیں یا پہلی صدی میں حدیث کے قبول کرنے یا رد کرنے کے کوئی اصول ہی نہیں تھے بلکہ یہاں مقصود ہے کہ اس طرح کی کوئی تفریق تھی ہی نہیں ورنہ اصول و ضوابط موجود تھے جیسا کہ اس سے قبل کے موضوعات میں بیان کیا گیا ہے کہ خبر واحد اور متواتر کی تفریق یہ متکلمین کی اصطلاح ہے جو کہ بعد میں وجود میں آئی ہے اسی کی نفی مراد ہے کیوں کہ صحابہ کرام کا عمل ہے کہ اگر خبر دینے والا معروف ہے یا کوئی صحابی ہے تو فورا اسے قبول کرتے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے واضح ہے:
إِنَّا كُنَّا مَرَّةً إِذَا سَمِعْنَا رَجُلًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَدَرَتْهُ أَبْصَارُنَا، وَأَصْغَيْنَا إِلَيْهِ بِآذَانِنَا، فَلَمَّا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَا نَعْرِفُ(جب ہم کسی کو سنتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہا تو ہماری نگاہیں اس کی طرف متوجہ ہوجاتیں اور ہمارے کان کھڑے ہوجاتے اور بغور سنتے لیکن جب معاملہ مختلف ہوگیا اور لوگ حدیث کے معاملے میں سستی کرنے لگے اور جہاں ملا اخذ کرلیا اور بیان کردیا ایسا ہونے لگا تو پھر ہم جسے جانتے اسی کی بات قبول کرنے لگے۔ (مقدمة صحيح مسلم)
اور محدثین کے نزدیک کوئی بھی روایت صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو وہ قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ بلکہ ان کا ان خبروں کو قبول کرنے سے توقف کرنا اس لیے تھا کہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے معاملے میں تاکید زیادہ ہو، احتیاط کی راہ اختیار کی جائے اور اس کی تحقیق میں کوئی کمی نہ رہے تاکہ ہر کوئی بلا تحقیق اور یوں ہی بلا کسی چھان بین کے یا کسی کی بھی بات حدیث رسول کا نام دے کر بیان کرنے کی جرات نہ کرسکے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی بات پر دلیل طلب کی تو ان سے کہا تھا:
أَمَا إِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ، وَلَكِنْ خَشِيتُ أَنْ يَتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن أبي داؤود:5184)
(میں آپ پر تمہت نہیں لگا رہا ہوں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ بھی ایسے ہی کوئی نسبت نہ کرنے لگ جائے)
اور یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے دوسرے اقوال سے واضح ہوتی ہے جب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے آکر ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی اور ان کے بعد جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہا عمر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر زیادتی کر رہے ہیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں یہ سب اس لیے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ذرا دقت طلب ہے اور شدید ہے۔ پھر یہ حدیثیں جب کسی ایسے شخص سے سنتے جس پر اعتماد ہو اور وہ بلا تحقیق کے بیان نہیں کرتا ہو تو قبول کرلیتے جیسا کہ اوپر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول گزرا۔
2- ثانیاً (بفرض محال) اگر مان لیتے ہیں کہ انھوں نے خبر واحد ہونے کی بنیاد پر تصدیق طلب کی پھر قبول کرلیا تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں گرچہ انھوں نے شہادت اور تصدیق کے بعد قبول کرلیا لیکن پھر بھی تو وہ آحاد ہی کے قبیل سے برقرار رہ جاتی ہیں کیوں کہ وہ تواتر کی حد تک نہیں پہنچتی ہیں اور یہ ان واقعات سے واضح ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ منکرین حدیث میں سے وہ افراد جو احادیث آحاد کو یا تو سرے سے حجت نہیں مانتے ہیں یا عقائد کے باب میں حجت نہیں مانتے ہیں اور اپنے اس منہج و موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے جن دلائل سے استدلال کرتے ہیں خواہ ان کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ہو یا اس خبر واحد کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے ہو ان سے خبر واحد کی عدم حجیت پر اولا استدلال ہی غلط ہے بلکہ یہ روایات خود اس کی حجیت کے دلائل میں سے ہیں اور رہی بات ان سابقہ احادیث یا اخبار کا فی الفور قبول کرنے سے توقف کرنا تو وہ خبر واحد ہونے کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس کے اسباب کچھ اور تھے جیسا کہ اوپر آپ نے ملاحظہ کیا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صیانت اور اس کی حفاظت کے لیے ایسا منہج اختیار کیا گیا اور ایسا بھی نہیں کہ ایسا ہر وقت ہوتا تھا بلکہ صحابہ کا عام معمول تھا کہ اگر کوئی حدیث رسول بیان کرتا تو ان کے کان کھڑے ہوجاتے اور پورے ادب و احترام کے ساتھ اسے سنتے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرتے جیسا کہ اوپر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول گزرا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر مرحلے میں منہج سلف کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مراجع و مصادر
1- مكانة السنة في التشريع الإسلامي دكتور محمد لقمان السلفي ص:160،161
2- السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي مصطفى السباعي :193،194
3- المنتقى شرح موطأ إمام مالك لأبي الوليد سليمان بن خلف بن سعد الباجي المعروف ب_الباجي. :6/238
آپ کے تبصرے