شریعت اسلامیہ میں محض اعمال بجا لانے کی ترغیب نہیں، بلکہ کچھ حدود و قیود اور شرائط کے مطابق اعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ان میں کوئی کمی کوتاہی واقع ہوگئی تو اعمال شرفِ قبولیت سے محروم رہ سکتے ہیں، چنانچہ ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کا ذکر کر رہے ہیں:
1- عمل خالص اللّٰه تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، نمود و نمائش یا ریاکاری اور دکھاوے یا لوگوں میں شہرت حاصل کرنے کے لیے نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ [صحیح مسلم:٢٥٦٤]
“اللّٰه تعالیٰ تمھارے جسموں اور شکلوں کو نہیں، بلکہ تمھارے دلوں (کو پرکھتا) اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”
2- عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو ورنہ ضائع و اکارت ہے۔ سیدہ عائشة صدیقة رضی اللّٰه عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ [صحیح مسلم:١٧١٨]
یعنی “جس نے کوئی ایسا کام کیا کہ اس پر ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے۔”
اللّٰه تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے ہٹ کر کیے گئے اعمال کو باطل قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَلا تُبطِلوا أَعمالَكُم [محمد:٣٣]
“اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللّٰه کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔”
اس آیت کی تفسیر میں اہل علم نے لکھا ہے کہ قبولیت اعمال کے لیے شرط یہ ہے کہ آدمی اللّٰه اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند رہے۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل اثر پر خوب غور وفکر کیجیے:
سیدنا حذیفہ رضی اللّٰه عنہ نے ایک آدمی کو (اس طرح نماز پڑھتے ہوئے) دیکھا کہ وہ رکوع وسجود مکمل نہیں کر رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا:
“مَا صَلَّيْتَ، وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَى غَيْرِ الْفِطْرَةِ الَّتِي فَطَرَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا.” [صحیح البخاری٧٩١]
تو نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تو اسی حالت میں (غیر مسنون نماز پڑھتا) مرگیا تو اس فطرت پر نہیں مرے گا جس پر اللّٰه تعالیٰ نے محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم کو پیدا فرمایا۔
اندازہ کیجیے صحابی رسول نے سنت کی خلاف ورزی پر کس قدر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح جب تین افراد نے اپنے تئیں اعلیٰ اعمال کرنے کی بات کی جو درحقیقت نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف تھی تو آپ نے ان کا واضح طور پر رد کرتے ہوئے فرمایا:
فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ منی [صحیح البخاری:٥٠٦٣]
“جس نے میری سنت سے انحراف کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔”
کتاب و سنت کے مطابق اعمال کے لیے ضروری ہے کہ حسب توفیق و استطاعت دین کا مناسب علم حاصل کیا جائے۔
اس کی فضیلت و اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، جیسا کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ
“عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے۔ الله اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعا کرتے ہیں۔”
عمل سے پہلے جب انسان علم حاصل کرے گا تو اسے دین کا صحیح فہم ملے گا اور ہم بارہا کہتے ہیں اس دور میں دین کا صحیح فہم ملنا الله کا بہت بڑا انعام ہے۔
ایک شیطانی وسوسہ کہ اتنے کثیر لوگ کتاب و سنت کے حکم کے خلاف اعمال کرتے ہیں، دین کے نام پر بدعات و خرافات میں مبتلا ہیں۔ ان سب کا انجام کیا ہوگا، کیا ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے؟ تو واضح رہے کہ حدیث رسول میں اس کا جواب موجود ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ [سنن ابن ماجه:٣٩٨٦]
یعنی اجنبی تھا عنقریب جلد اجنبی ہوجائے گا پس ایسے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔
حق اور باطل کو پرکھنے کا پیمانہ قرآن و حدیث ہے نہ کہ زیادہ لوگ اور تھوڑے لوگ۔ صعوبتیں جھیل کر اعمال کیے گئے مگر وہ اسلام شریعت اسلامیہ میں ناپید ہوں۔ قرآن پڑھیے، کتب احادیث کھنگالیں، آثار صحابہ و تابعین تبع تابعین، ائمہ دین، سلف صالحین کے فہم کی طرف نظر کریں اگر ہمارے اعمال ان میں موجود احکامات کے برعکس ہوئے تو الله نہ کرے ہم اس قرآنی آیت کے مصداق تو نہیں:
عاملة ناصبة (الغاشیة٣)
اور مارے مشقتوں کے تھک کر چور ہورہے ہوں گے۔
مشہور تابعی امام زہری فرماتے ہیں:
“ہم سے پہلے گزرنے والے علماء فرماتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔ (سنن دارمی:97)
اعمال پہاڑ جتنے مگر ثواب ایک ریت کے ذرے جنتا بھی نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اعمال کتاب و سنت کی کسوٹی پر پورے نہیں اتر رہے ہوتے۔
الله سے دعا ہے ہمیں ہر عمل کتاب و سنت کے مطابق کرنے کی توفیق دے۔ آمین
آپ کے تبصرے