شیخ‌ مقیم فیضی: اللہ انھیں جنت دے

ابوالمیزان منظرنما

کچھ خبریں غیر متوقع نہیں ہوتیں پھر بھی سینہ چیر کر رکھ دیتی ہیں۔ زخم نہ معلوم پڑتا ہے نہ ہی دکھائی دیتا ہے مگر درد جو محسوس ہوتا ہے وہ آسانی سے گزر جانے والا نہیں لگتا۔ لگتا ہے سینے میں کوئی پارٹ ایسا ہے جو مسلسل مروڑا جارہا ہے۔ یہ کیفیت خبر ملنے کے بعد ہوئی ہے۔
عید الاضحٰی کی وجہ سے نیند اور تھکان ایک ساتھ اس قدر جمع تھے کہ فرصت ملنے کی دیر تھی۔ ملی بھی تو دیر رات ایک بجے تک عجیب سی بے چینی تھی۔ پھر پتہ نہیں کب نیند آئی صبح آنکھ کھلی تو کھڑکی سے چھن کر آنے والے اجالے نے نیند اڑا دی۔ جاگنے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔ فون پر وقت دیکھنے میں وفات کی خبر پر نظر پڑی تب سے ہے وہ درد۔ شیخ کی وفات رات ایک بج کر بیس منٹ پر ہوئی تھی۔
جماعت میں شیخ مقیم فیضی رحمہ اللہ جیسے غیور و جاں باز داعی کی کمی ایک زمانے تک محسوس ہوگی۔
شیخ مقیم صاحب کو دور سے دیکھنے سے لے کر قریب بیٹھنے تک کا میرا سفر بڑا خوشگوار رہا۔ دن بدن ان کی عظمت دل میں بیٹھتی اور بڑھتی ہی چلی گئی تھی۔
جامعہ رحمانیہ میں جب وہ اونچی کلاسوں میں پڑھاتے تھے تو ہم انھیں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ گلشن نگر جوگیشوری کی اس پتلی سڑک پر جہاں ہم کچھ طلبہ ایک کونے میں کھڑے ہوکر ان کا خطاب سن رہے تھے کسی طرف سے وہ پتھر آیا تھا جس نے انھیں گرجنے پر مجبور کردیا تھا: “سینے میں بال ہیں تو سامنے آؤ…” اس رات جلسہ ختم ہونے کے بعد پتہ چلا کہ بسیں بند ہوچکی ہیں، رکشے بھر کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اپنے مدرسے جامعہ رحمانیہ تک پیدل واپسی دوسری وجہ تھی اس رات کے یادگار ہونے کی فیضی صاحب کے سینوں میں ہلچل مچا دینے والے خطاب کے علاوہ۔
فری لانسر کا اجراء ہوا تو انہی دنوں مرکزی جمعیت سے شیخ ممبئی تشریف لائے ہوئے تھے۔ میں اور ابن کلیم صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی آفس کرلا (فوزیہ ہاسپٹل کے سامنے) ان سے ملے، رسالہ پیش کیا، تاثرات جاننا چاہا تو شیخ نے لکھ کر دیا جو “نامۂ اعمال” میں شائع بھی ہوا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب اتنے قریب سے انھیں دیکھا تھا۔
پھر اللہ نے سبیل پیدا کی اور گذشتہ دو سالوں سے ہر ہفتے کم از کم تین بار ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی آفس کرلا (کنکیا زلین کے سامنے) میں استفادے کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ اسی دوران وہ علیل ہوئے۔ ایک بار میں نے خیریت پوچھی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے: جو ہے وہ ہے اب کیا کریں گے۔ ماتھے پر کوئی شکن نہیں، مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں۔ وہی آواز وہی لہجہ، مزاج کی وہی شگفتگی اور وہی مشفقانہ نظر۔
بلا کی ہمت تھی، غضب کی طاقت تھی زبان میں، انگلیوں میں۔ اسپتال میں جب وہ بولنے کی حالت میں نہیں تھے تو مولانا عبدالسلام سلفی صاحب کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قلم سے وہ ایسی باتیں کررہے تھے کہ ہاتھ دیکھو قلم دیکھو کاغذ دیکھو تو گمان بھی نہ گزرتا تھا کہ یہ کسی بیمار کا کام ہے۔
آپریشن کے لیے سیفی ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا جاچکا تھا۔ آپریشن سے ٹھیک ایک دن پہلے میں نے انھیں سوال بھیج دیا، جواب دیا شیخ نے۔ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے گذشتہ دو سالوں سے مختلف سوالوں کے مختصر جواب بلا ناغہ دیتے رہے۔ اردو، رومن اور انگریزی میں ٹیکسٹ/آڈیو ہر سوال میں بعینہ بھیج دیا کرتا تھا اور شیخ دیکھتے ہی جواب دے دیا کرتے تھے۔ آخری دم تک دین کے داعی تھے، آخری سانس تک اللہ کے سپاہی۔
اللہ انھیں جنت دے۔ آمین

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
صلاح الدین

اناللہ واناالیہ راجعون
آمین

آصف تنویر تیمی

اللہ شیخ محترم کی بال بال مغفرت فرمائے،بڑی خوبیاں تھیں شیخ محترم کی زندگی میں.بہادری، جواں مردی، ہمت اور کام کا لگن ان کی زندگی کا ماحصل تھا.
ان کے دور میں مرکزی جمعیت کی جتنی بھی مرکزی اور صوبائی کانفرنسیں ہوئیں سبھوں کی کامیابی میں شیخ محترم کی حصہ داری ہوتی تھی.
ان شاء اللہ ان کو ان کی قلمی ولسانی خدمات زندہ رکھیں گی اور ان کے حق میں صدقہ جاریہ ثابت ہوں گی.

alqoofi

إنا لله وإنا إليه راجعون. رحمه الله وغفر له وأسكنه فسيح جناته. آمين يارب

سراج عالم زخمی

اللٰہ شیخ کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ انھیں جنت نصیب کرے

افتخار احمد

إنا لله و إنا إليه راجعون
اللہ تعالیٰ شیخ کی مغفرت فرمائے