عربی زبان پرکورونا کے اثرات

ڈاکٹر شمس کمال انجم عربی زبان و ادب

کرونا کے وبائی مرض نے ساری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر شعبۂ حیات پراس نے اپنا اثر مرتب کیا ہے۔حکومت ہویاعوام، امیرہویا غریب، مردہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، حاکم یا عوام سبھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔اس نے ہمیں اپنے اپنے گھروں میں قید کردیا ہے۔ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ہمارے اخلاق وعادات رہن سہن کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے کے اوقات کو بدل دیا ہے۔ سیاسیات وسماجیات، صنعت وحرفت اورہماری اقتصادیات پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ برسوں اس سے نکلنا مشکل ہوگا۔ہمارے جذبات واحساسات ، ہماری زبان، تہذیب اور کلچر پر بھی اس کے اثرات کافی طویل عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ ہمارے شعراء ، ادباء ، کہانی کاروں نے جتنا اس وبائی مرض کو اپنے افکاروخیالات اورجذبات واحساسات کے پیکر میں ڈھالا ہے ماضی قریب میں اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ بے شمار شعر، غزلیں اور قصیدے کہے گئے۔ نظمیں لکھی گئیں۔ کہانیاں لکھی گئیں۔ الغرض زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں بچا جہاں اس وبائی مرض کے اثرات نہ پڑے ہوں۔

عربی زبان بھی کرونا کے اثرات سے اچھوتی نہیں رہی۔ اس پر بھی کرونا کے بہت واضح اثرات مرتب ہوئے۔ شاعروں ادیبوں اور کہانی کاروں نے اردو کی طرح عربی میں بھی اس وبائی مرض پر بہت کچھ لکھاہے۔ اس وبائی مرض کے زیر اثر عربی میں آج کل کچھ الفاظ بہ کثرت استعمال کیے جارہے ہیں۔خاص طور سے عربی صحافت میں ان الفاظ کا بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ان میں سے کچھ الفاظ ایسے ہیں جنھیں غیر عربی زبانوں سے عربی میں داخل کیا گیا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو عربی الاصل ہیں مگر انھیں نئے مفہوم میں استعما ل کیا جارہا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو دو فصیح عربی الفا ظ کے امتزا ج سے ایک نئی ترکیب کی شکل میں مستعمل ہورہے ہیں۔کچھ ایسے ہیں جو فصیح تو ہیں مگر انھیں فصیح معنی کے بجائے کسی نئے مفہوم میں استعمال کیے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چنانچہ کرونا کے وبائی مرض سے متعلق جو الفاظ فی الحال عربی زبان میں بہ کثرت استعمال میں لائے جارہے ہیں وہ یوں ہیں:

تفشِّی:یہ خالص عربی لفظ ہے۔فشا یفشو سے مشتق ہے۔فشی المرضُ کا معنی ہوتا ہے بیماری کا پھیلنا۔ ظاہر ہے کرونا کاوبائی مرض جس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے اسی قدر اس لفظ کابھی استعمال کثرت سے کیا جارہا ہے۔تفشی فیروس کورونا کی ترکیب عربی میں خوب خوب استعمال کی جارہی ہے۔

الفَیروس:یہ لاطینی لفظ Virusکا معرب ہے اور اپنے اصطلاحی مفہوم میں مستعمل ہے۔

کورونا:کرونا کولاطینی زبان میں تاج کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسی کو کراؤن کہاجاتا ہے۔ چونکہ اس وائرس کی شکل تاج کی طرح ہوتی ہے اس لیے اسے کرونا کہتے ہیں۔ اس کے بہت سارے خلیے ہیں جس میں سے کووڈ ۱۹ بھی ہے۔

کوفید۱۹:یہ لفظ Covid کا معرب ہے۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس لفظ کو CORONAکے پہلے دوحرف CO ۔ VIRUS کے پہلے دو حرف VIاور Desease کے پہلے حرف Dسے ملاکر بنایاگیا ہے۔ چونکہ سنہ ۲۰۱۹ء میں اس کووڈ وائرس کا انکشاف ہوا اس لیے اسے کووڈ ۱۹ کہا جاتا ہے۔

الجائحۃ:اس لفظ کا آج کل وبا کے معنی میں خوب استعمال کیاجارہا ہے۔ حالانکہ بعض علمائے لغت کے مطابق اس کا استعمال اس معنے میں درست نہیں ہے۔ المعجم الوسیط میں ہے:’’الجائحۃ: وہ مصیبت جو آدمی کے مال کو بالکل ختم کردے۔ فقہاء کی اصطلاح میں وہ آفت سماوی جو کل یا بعض پھل کو ضائع کردے۔یعنی یہ لفظ آفت اور مصیبت کے معنی میں آتاہے نہ کہ وبا کے معنی میں۔

التباعد الاجتماعی:یہ لفظ Social Distancing کا ترجمہ ہے۔جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے اور لوگوں کو آپسی میل ملاپ سے منع کردیا گیاہے، سوشل ڈس ٹینسنگ کے معنی میں اس ترکیب کا خصوصی استعمال کیا جارہا ہے۔

الحجر الصحی:یہ ترکیب انگریزی لفظ quarentine کے معنی میں مستعمل ہے۔ وہ جگہ جہاں مریض کو ایک متعینہ مدت کے لیے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔

الحجر المنزلی:یہ ترکیب’’ گھر قورنطینہ‘‘ کے معنی میں مستعمل ہورہی ہے۔

حظر التجمہر: یہ ترکیب دو لفظ حظر اور التجمہر سے مل کر بنائی گئی ہے۔اکٹھا ہونے کی ممانعت کے معنی میں بالکل اسی طرح جس طرح حظر التجول کرفیو کے معنی میں استعما ل کیا جاتا ہے۔

العزل:یہ ایک فصیح لفظ ہے۔ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں مستعمل ہوتا آیا ہے لیکن آج کل اسے isolation یعنی الگ تھلگ رہنے کے معنی میں استعمال کیا جارہا ہے۔

اللقاح:یہ لفظ Vaccine کے معنی میں مستعمل کیا جارہا ہے۔

اسی طرح سے کچھ اور بھی الفاظ ہیں جن کا کرونا کے اس وبائی مرض کے دوران بہ کثرت یا تھوڑا بہت استعمال کیا جارہا ہے۔

در اصل زبانیں ایک دوسرے کا تاثر قبول کرتی ہیں۔ان سے متاثر ہوتی ہیں اوران کے اثرات قبول کرتی ہیں۔وہ زبانیں جو اس خوبی سے محروم ہوتی ہیں وہ کمزور زبانیں مانی جاتی ہیں اور مرور ایام کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں کہیں روپوش ہوجاتی ہیں۔ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ عربی ان زندۂ جاوید زبانوں میں سے ایک ہے جو شروع سے ہی مختلف زبانوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہے اور دیگر زبانوں کے اثرات بھی قبو ل کرتی ہے۔ دنیابھر کی غیر عربی زبانوں کے بے شمار معرب اور دخیل الفاظ کی ایک طویل فہرست ہے جنھیں عربی میں مستعمل کیا جارہا ہے۔ اسی لیے عربی زبان کی شوکت وقوت اور اس کی رعنائی وشگفتگی آج بھی برقرار ہے اور تاقیام قیامت برقرار رہے گی۔ ان شاء اللہ تعالی

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Shahzad Ahmad parra

الله يحفظك ويرحم عليك شيخنا .
زادك الله علما وخيرا