موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس!

ابوتحسین خان تاریخ و سیرت

نصف شب کا وقت تھا، اپنے عزیز دوست سعود الفیصل عبدالقدوس مدنی ساکن سید الشہداء روڈ مدینہ منورہ کے یہاں پرلطف عشایئے کے بعد کافی کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ محترم سعود نے ایک واٹس اپ گروپ کے حوالے سے شیخ محترم محمد مقیم فیضی کی رحلت کی خبر دے کر مجھے ساکت کردیا، چاہ کر بھی انا للہ وانا الیہ راجعون کے علاوہ کچھ بھی بول نہیں پایا۔ ابھی اسی ہیجانی کیفیت میں تھا کہ اچانک موبائل بجنے لگا۔ اسکرین پر عزیز دوست انعام اللہ مکی کا نام دیکھ کر مزید حیرت ہوئی جلدی سے ریسیو کیا ادھر سے بھی نہایت مغموم آواز میں خبر کی تصدیق ہوگئی!
جی! شیخ محمد مقیم فیضی اب اللہ کو پیارے ہوچکے تھے، آپ اس دار فانی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ کر اپنے رب رحیم و کریم کی رحمت کے جوار میں جاچکے تھے اور جاتے ہوئے اپنے پیچھے نہ جانے کتنے شاگردوں اور چاہنے والوں کو روتا بلکتا چھوڑ گئے۔ کبھی خیال آتا کہ کیا بگڑ جاتا جو آہ مزید چند برس اور رہ لیتے لیکن فورا رب کریم کا فرمان یاد آیا: إذا جاء أجلهم لا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون، پھر یہ کہہ کر خود کو تسلی دینے لگا کہ ان کے مقدر میں اتنی ہی عمر لکھی تھی!
شیخ محمد مقیم میرے استاذ نہیں تھے مگر آپ سے میرا تعلق ایک شاگرد سے بھی بڑھ کر تھا، عمر کی ایک لمبی قسط آپ سے براہ راست یا آپ کی تحریروں و تقریروں سے فیضیاب ہونے میں گزری ہے!
مجھے یاد آرہا ہے کہ سن 2001 میں جب جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی میں مجھ ناچیز نے جماعت رابعہ میں داخلہ لیا تھا تو بدقسمتی ہی ہاتھ آئی تھی، آپ سے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا حسین موقع مجھ سے اس طور سے جاچکا تھا کہ آپ جامعہ چھوڑ جمعیت سے منسلک ہوچکے تھے مگر اس کے باوجود جرائد و رسائل و دینی اجلاس کے حوالے سے آپ کی تحریر و تقریر سے بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا اور رب کریم سے آپ سے براہ راست ملنے اور کچھ سیکھنے کی دعا کے ساتھ موقع کی تلاش میں جٹ گیا۔ بالآخر اللہ نے سن 2003 میں دین رحمت کانفرنس کی شکل میں مجھے یہ حسین موقع دے ہی دیا وہ یوں کہ ممبئی کے وسیع وعریض باندرہ کرلا کمپلیکس میں منعقد ہونے والی اس عظیم الشان کانفرنس میں ہم طلبہ جامعہ رحمانیہ بطور رضاکار شریک ہوئے، چنانچہ آپ سے پہلی ملاقات اسی کانفرنس کے توسط سے ہوئی کہ جو ملاقات مستقبل میں آپ سے تعلیم و تعلم، افادہ و استفادہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی!
2010 میں میری قسمت کیا خوب چمکی کہ جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں رب ذو الجلال کے فضل وکرم سے میرا داخلہ ہوا تو ویزا اٹیسٹیشن اور دیگر کارروائیوں کے لیے راجدھانی دہلی کا رخت سفر باندھنا پڑا، خوش قسمتی اینکہ بروقت آپ دہلی میں موجود تھے، آپ مرکزی جمعیت کے نائب ناظم اور تنظیمی امور کے نگراں تھے۔ یوں تو جمعیت کی آفس ہر زائر کے لیے کھلی رہتی ہے خصوصا طلبہ کے لیے سکن کا بھی نظم ہوا کرتا ہے مگر آپ کی موجودگی نے اس رہائش کو میرے لیے مزید پرلطف بنادیا۔
مجھے یاد ہے مرکزی جمعیت کی رہائش کا وہ پہلا دن تھا عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے ہم مرکز کی مسجد میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ امام کوئی اور نہیں بلکہ شیخ محمد مقیم فیضی ہیں، فرحت و شادمانی کی انتہا نہ رہی کہ آج تو آپ سے ملاقات ہوکر ہی رہے گی، ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ آپ کی آواز پردہ سماعت سے ٹکرائی آپ نے درس دینا شروع کیا تھا عنوان “طالب علم کے لیے صبر واستقامت کی اہمیت” تھا۔ آپ نے حصول علم کی راہ میں ہونے والی پریشانیوں پر صبر کی اہمیت وفضیلت اجاگر کی، سلف صالحین کا تذکرہ کیا کہ کس طرح ہمارے اسلاف طلب علم میں اپنی زندگی کے حسین ترین ایام وقف کردیتے تھے نیز علی سبیل المثال امام سرخسی رحمہ اللہ کا واقعہ بھی پیش کیا کہ جنھیں خاقان کو کیے گئے ایک نصیحت کی پاداش میں قید سلاسل کردیا گیا اور پھر کس طرح آپ نے دوران زنداں بلا مطالعہ 15 جلدوں پر مشتمل المبسوط نامی اپنی کتاب کا شاگردوں کو املا کرایا کہ آپ کال کوٹھری کی گہرائی میں ہوتے اور آپ کے شاگرد اس کے باہر!
آپ کے اس مختصر سے درس نے ہم 25 سے زائد جامعہ اسلامیہ کے مقبولین طلبہ پر گہرا اثر کیا (درس کے بعد سب کی زبانوں پر آپ کے درس کا ذکر جس کا بین ثبوت ہے) خاص طور سے میں آپ کی وہ نصیحت اب تک بھول نہیں پایا ہوں، آج بھی وہ گھن گرج والی آواز میری کانوں میں رس گھول رہی ہے اور مجھے دعوت سخن دے رہی ہے کہ اللہ والو! صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو! طلب علم کی راہ میں ہمیں پرخار وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے، آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، یہ راہ خواہ کتنی بھی پرپیچ ہو، اس راہ میں خواہ کتنی ہی رکاوٹیں آئیں، ہمیں پوری جفاکشی وتندہی اور تن من دھن کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، علم حاصل کرنا ہے۔ یقین مانیں اس درس کے بعد آپ کی ہیبت مجھ پر ایسی طاری ہوئی کہ درس کے بعد فوری ملاقات کی خواہش میں نے دل سے نکال دی۔ وہ تو اللہ جزائے خیر دے میرے ہر دلعزیز دوست محمد جاوید مدنی حفظہ اللہ کا کہ جن کی شناسائی اس وقت شیخ سے مجھ سے گہری تھی، آپ نے ملنے اور ملاقات کرانے کی ٹھان لی اور ہمت بھی بندھائی کہ ہم شیخ سے ایک بار خاص ملاقات ضرور کریں گے، یقین دلایا کہ شیخ ہمیں ضرور پہچان جائیں گے! چنانچہ اس کے بعد ہم اگلے دن آپ کے مرکز آنے اور ملاقات کے انتظار میں لگ گئے، وہ پیر کا دن تھا عصر کے بعد شام 6 بجے کا وقت تھا، اچانک سننے میں آیا کہ شیخ کا مرکز میں ورود مسعود ہوا ہے، فی الوقت آپ آفس میں پہنچ چکے ہیں بس پھر کیا تھا، میں محترم محمد جاوید مدنی کی پیشوائی میں سلام کرکے آفس میں داخل ہوگیا، آپ نے سلام کا جواب دیا، دفتری کام کاج میں مصروف ہونے کی وجہ سے آپ نے اوراق کی ایک بڑی فائل الٹتے پلٹتے اشارے میں ہمیں بیٹھنے کو کہا، پھر تھوڑی دیر بعد جب ہم دونوں کی طرف نظر اٹھائی تو فوری طور پر پہچان گئے، خیریت دریافت کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں منظوری پر مبارکباد پیش کی اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا اور پھر کسی مشغولیت کی بنا پر جلدی میں ہونے کے باوجود آپ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک پرتکلف عشایئے کا نظم کیا یہی نہیں بلکہ آپ اس میں بنفس نفیس شریک بھی ہوئے، من سلک طریقا یلتمس فیہ علما سہل اللہ لہ طریقا الی الجنہ کی روشنی میں مختصر ومفید نصیحتیں بھی کیں۔
اس کے بعد ہم مدینہ یونیورسٹی آگئے، وقت کا پہیہ تیزی سے یونہی گھومتا رہا، جماعتی آرگن جریدہ ترجمان کے توسط سے آپ کی تحریروں سے استفادہ کرتے رہے، زندگی یونہی آگے بڑھتی رہی، آپ سے ملاقات موقوف رہی۔ آپ دعوتی، تعلیمی، صحافتی اور تنظیمی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے اور ہم اپنی دنیا میں مصروف رہ کر شیخ محترم کی درازئ عمر اور دوبارہ ملاقات کی امید باندھے رب العزت سے دعائیں کرتے رہے۔ پھر آخرکار قسمت نے پلٹی ماری، اللہ نے آپ سے استفادے کا وہ زریں وناقابل فراموش موقع نصیب فرمایا کہ جو میری زندگی کے حسین ترین ایام ثابت ہوئے!
ہوا یوں کہ سن 2018 میں حج کی غرض سے اپنے عزیز دوست اور شیخ کے داماد انعام اللہ مکی کے دولت کدہ مکہ مکرمہ پہنچا۔ پیشگی علم تھا کہ شیخ فیملی کے ساتھ حج کے لیے تشریف لائے ہیں، پہنچتے ہی شیخ نے والہانہ استقبال کیا، دعائیں نچھاور کیں اور اس طرح ہمارا اور آپ کا محبتوں بھرا ایک استاذ وشاگرد کا سنہرا سفر چل پڑا، حج سے پہلے کئی ملاقاتیں ہوئیں، دعوتیں ہوئیں اور پھر ایام حج میں منی میں مبیت(رات گزارنا)، رمی جمرات(جمرہ کبری، جمرہ وسطی اور جمرہ صغری کو کنکری مارنا)، طواف افاضہ، صفا ومروہ کی سعی ایک ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچیں۔ یہ سلسلہ مدینہ میں آپ کی زیارت، ناچیز کے غریب خانے پر آپ کے چند روزہ قیام اور پھر وطن عزیز کی جانب آپ کے سفر پر ختم ہوا۔

موسم حج کے اس ایک ہفتے کی ملاقات اور سایہ عاطفت نے مجھے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع مہیا کیے، جو باتیں دور سے سنتا اور پڑھتا تھا وہ خود آپ سے قریب رہ کر براہ راست سنا۔ دوران حج آپ سے کئی بار علمی گفتگو ہوئی، منی میں مبیت کے تعلق سے علمی مباحثہ بھی ہوا، ہر بار میں نے پایا کہ آپ کے پاس علامہ البانی، علامہ ابن عثیمین، علامہ ابن تیمیہ رحمہم اللہ جمیعا کے فتاوی کی شکل میں مکمل و مقنع جواب موجود ہیں، آپ ہمیشہ اپنے ساتھ ایک ٹیب رکھتے جو جدید وسائل تحقیق و تدقیق سے لیس ہوتا جسے وقت ضرورت فورا پیش کرتے اور خود ہی بحث کرنے کا مشورہ دیتے، کبھی آپ سے الجھ جاتا تو فورا ڈانٹ پلاتے اور پھر فوری طور پر نہایت ہی مشفقانہ انداز میں سمجھاتے: پرویز! ارے اللہ والے! ان مشائخ عظام کے فتاوی کتابی شکل میں نہ سہی، پی ڈی ایف فائل کی شکل میں اپنے موبائل میں ڈاؤن لوڈ کرلو! علم میں گہرائی وگیرائی انہی اسلاف کرام کے اقوال کی روشنی ہی میں حاصل کی جاسکتی ہے، علم میں تبحر حاصل کرو، ہرفن مولا بنو! یہ عمر ہے کچھ کر گزرنے کا، یہی وقت ہے کچھ بننے کا، اسے یونہی ضائع نہ جانے دو!
ان ایام میں آپ سے جو کچھ سیکھنے ملا وہ بے مثال اور ناقابل فراموش ہے! مجھے یاد آرہا ہے وہ دن، حج کا تیسرا دن تھا ہم پیدل جمرات کنکری مارنے جارہے تھے کہ اچانک راستے میں عصر کی اذان ہونے لگی، آپ نے کہا چلو نماز پڑھ لیتے ہیں، میں نے بہانہ بنانا چاہا، آپ سے کہا کہ شیخ پہلے کنکری مار لیتے ہیں، پھر آکر آرام سے نماز پڑھ لیں گے، آپ نے فورا ڈانٹ پلائی کہ ارے اللہ والے! دیکھو سامنے مسجد نظر آرہی ہے پہلے چل کر نماز پڑھ لیتے ہیں پھر چلتے ہیں، خیر پہلے نماز پڑھی گئی پھر جمرات پہنچ کر کنکری ماری گئی!
فرائض و سنن کا اہتمام، ہر پریشانی کا حل کیسے کیا جائے، ایک دوسرے کو بلا تکلیف دیے اور بلا تکلف کے معاملات کیسے استوار کیے جائیں، حق بات بلا خوف لومة لائم کہنا اور منوانا یہ سب میں نے آپ سے سیکھا، محبتوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی!
آپ کے اندر قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا، علماء ودعاة کو اتنا سپورٹ، ملت کے نونہالوں کے لیے اتنی تڑپ، طلبہ مدارس کے لیے اتنی فکر، اتنی بے قراری، بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، مدارس میں تعلیمی انحطاط سے ہمیشہ ملول خاطر نظر آتے، طلبہ کی ترقی کے لیے اکثر نت نئے طریقے تلاش کرتے، ضلعی و ذیلی تنظیموں کو مزید مستحکم بنانے کی انتھک تگ ودو کرتے!
آپ جب بھی ملتے، مسلسل مطالعہ اور پڑھنے پڑھانے کو اپنا نصب العین بنانے کی تلقین کرتے۔ ارشاد فرماتے: میرے عزیز! اللہ والے! زندگی ہے تو مسائل آئیں گے! لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسائل کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں من جانب اللہ مواقع کی ایک ٹمٹماتی روشنی ضرور ہوتی ہے۔ تم پختہ ایمان و یقین کے ساتھ مسائل سے سہمے بغیر خدا کے عطاکردہ موقع کی اسی روشنی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو، مسائل سے جوجھنا اور ان کا توڑ اور کاٹ تلاش کرنا سیکھو! وہ ہم طلبہ کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے کہ حالات کے زخم سے چور لنگڑاتے ہوئے طالب علم میں بھی دوڑنے کی للک اور قوت پیدا ہوجاتی، طلبہ و اہل علم حلقے کو خود سے قریب کرتے!
ایک طرف جہاں آپ کا امتیاز تھا کہ عبادات و فرائض و واجبات اور سنن کی پابندی کرتے تو وہیں دوسری طرف معاملات اور اخلاقیات میں دور اول کی یاد تازہ کردیتے۔ اخلاقی زوال کے اس تاریک ترین عہد میں جہاں مادیت کے پہلو بہ پہلو آنے والی خود غرضی کے تلاطم خیز تھپیڑوں نے بڑے بڑے شرفا کے اخلاق کی نیا غرق کردی ہے اتنی پختہ اور با اصول و با اخلاق سماجی زندگی گزارنے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں، حالات کی پریشانیاں اچھے اچھوں کی پیشانی کے نقشے بگاڑ دیتی ہیں لیکن اس عظیم المرتبت انسان کے حوصلے کو صدہا سلام کہ برے سے برے وقت میں بھی اپنی خندہ پیشانی اور ہونٹوں کی مسکراہٹ کو خود سے الگ نہ ہونے دیا!
آج ان کے جانے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ انھوں نے عزت و وقار کے سرمایہ کا انبار اکٹھا کرلیا تھا یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کی زبان پر ان کی خوبیوں کے قصے ہیں، ان کے اخلاق اور دین داری کا تذکرہ ہے اور چونکہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے یہی امید ہے کہ بارگاہ ذو الجلال میں بھی ان کے درجات بلند اور بہت بلند ہوں گے!
اللہ سے دعا ہے کہ رب ذو الجلال آپ کے درجات مزید بلند کرے، آپ کی دینی، علمی، تدریسی، تالیفی، صحافتی، دعوتی اور تنظیمی گراں قدر خدمات کو شرف قبولیت بخشے، جماعت اہل حدیث کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے، آپ کی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ پسماندگان خصوصا اہلیہ محترمہ، صاحبزادے مولانا عبدالنافع، عبداللہ، حمید اور صاحبزادیاں امیمہ، بثینہ سلمہم اللہ جمیعا اور آپ کے برادر عزیز مولانا عبدالمبین فیضی وجملہ اعزہ و اقارب نیز تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
ورنہ دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
افتخار احمد

رحمه الله رحمة واسعة

ابو حسان مدنى

رحمه الله رحمة واسعة

حافظ سمير احمد جامع

مولانا مقیم فیضی رحمہ اللہ سے متعلق کافی معلوماتی مضمون ہے
اللہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے
بارك الله فيكم

فاروق عبد الله النَّرَايَنْفُوري

رحمه الله رحمة واسعة
وجزاكم الله خيرًا