ان کو تو چارہ گروں نے مارا
اتنے بیمار یہ بیمار نہ تھے!
#غوطہ دمشق کا وہ مضافاتی علاقہ جو کبھی رشک جناں تو کبھی زمین پر واقع خلد بریں سے تعبیر کیا جاتا تھا، کوہ قاسیون کے دامن میں بسنے والے شامی باشندے غوطہ کے باغوں سے نہ صرف قلبی لگاؤ رکھتے تھے بلکہ وہاں کے پھلدار درختوں کی ٹہنیوں پہ لدے ہوئے انواع واقسام بالخصوص شامی توت، خوبانی اور چیری جیسے پھلوں اور سبزیوں سے لطف اندوز بھی ہوا کرتے تھے! جغرافیائی اعتبار سے غوطہ شہر دمشق کو اپنی آغوش میں یوں سموئے ہوئے ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کو آنچل میں سمیٹ لیا کرتی ہے۔ غوطہ کی اہمیت کا اندازہ یوں کریں کہ اسکا تذکرہ ابن عساکر جیسے مورخوں نے اپنی کتابوں میں بڑے دلکش انداز میں کیا ہے، غوطہ کے باغوں سے نشاط کی چند کلیاں چن کر بحتری اور احمد شوقی جیسے عربی شعراء نے اپنے نغمات کو ضیاء بخشی اور اس کے حسن کی آمیزش سے اپنے شعروں کو جدت طرازی کا خلعت عطا کیا۔ سرزمین غوطہ کی سحر آفریں کیف ونشاط کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کی خوش مزاجی اور جوانمردی کا ذکر جا بجا موجود ہے وہاں کا ماحول نہایت سازگار وہاں کا موسم بڑا نشاط آگیں اور طرب انگیز ہے، وہاں کے خوشباش لوگوں کے شاداب چہروں سے سدا خوش مزاجی کے فوارے پھوٹتے ہیں۔ لیکن شومئ قسمت کا تماشہ دیکھیں کہ آج اس غوطہ کے باغوں اور میدانوں میں پھلوں اور سبزیوں کے بجائے انہی انسانوں کے لاشوں کی فصل کاٹی جارہی ہے جو کبھی اس گلشن کے مالی ہوا کرتے تھے! ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ دیگر اقوام کی طرح وہ بھی باعزت زندگی جینے کا خواب دیکھنے لگے تھے، ظلم وقہر کے جبر مسلسل سے انہوں نے رہائی مانگ لی تھی اور وہ ظلم واستبداد کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے تھے جو وقت کے ظالم فرمانروا کو کسی صورت منظور نہ تھا، آزادی کا نعرہ سنتے ہی اس کے ماتھے پہ بل آگیا، اس نے ظلم وجبروت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بغاوت سمجھا اور ان کو صفحۂ ہستی سے نیست ونابود کرنے کی سازش میں جٹ گیا۔ اس مغرور ونامراد شخص میں اتنی توانائی تو ہرگز نہ تھی کہ وہ آزادی کے ان جیالوں سے لوہا لیتا چنانچہ اس بزدل نے روسی بھیڑیوں کا ساتھ لیا جو سوویت یونین کی سطوت کھونے کے بعد اب صرف چند سکوں میں بک جایا کرتے ہیں اور اپنے ضمیر کا سودا کرکے کرایے پر لڑنے کے لئے تیار بھی ہوجاتے ہیں۔ روس پر ہی کچھ موقوف نہیں بشار کے ہم مشرب ایرانی رہنماؤں نے بھی لبنانی حزب اللہ کی سنگت میں روس کا بھر پور ساتھ دیا اور انجام کار شامیوں کے تروتازہ گلابی چہروں سے ہنسی نوچ ڈالی ! پچھلے کچھ دنوں سے مشرقی غوطہ بشار کی بزدل فوج کے ساتھ ساتھ بے شرم اور بے رحم روسی فوجوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ شدید زخموں سے کراہ رہے ہیں۔ ننھے ننھے معصوم بچوں کی بے بسی اور حرماں نصیبی کی خون سے لت پت تصویریں دیکھ کر ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور کلیجہ پھٹنے لگتا ہے لیکن ہم امن وامان میں ہوتے ہوئے بھی ان بچوں کو کچھ نہیں دے سکتے
اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم
اقوام متحدہ کا بچوں سے متعلق شعبہ کہتا ہے کہ سیریا میں لوگوں کی دل فِگار حالت بیان کرنے کے لئے اسکے پاس الفاظ نہیں اور بشار الاسد کی حالیہ زیادتیوں پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرنے کے لئے انہوں نے ایک بلینک اسٹیٹمنٹ یعنی بالکل کورا سادہ بیان جاری کیا تھا۔ ہندوستانی میڈیا جو عموما مڈل ایسٹ کے خبروں کا کوریج نہ کے برابر کرتی ہے، مشرقی غوطہ کی خبریں مسلسل نشر کر رہی ہے۔ ابھی ۲۷ فروری ۲۰۱۸ کے شمارے میں انڈین اکسپریس نے ایک خاص مضمون نشر کیا اور اسکا عنوان جلی تھا “سیریا کی خانہ جنگی ایک بار پھر آگ اگل رہی ہے اور مشرقی غوطہ میں قتل عام جاری ہے”! آج اگر فیض احمد فیض ہوتے تو ان کا عنوان جلی شاید یوں ہوتا
“تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں”
ان وحشیوں کی بربریت کا شکار صرف غوطہ ہی نہیں سیریا کے شمال مغربی حصے میں ادلب اور عفرین بھی ہے جہاں ترک فوجوں نے قتل وغارتگری کا الگ بازار گرم کر رکھا ہے! دنیا پوچھتی ہے کہ آخر ترکی کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ سیریا میں گھس پیٹھ کرکے وہاں کے نہتے عوام پر برّی اور فضائی حملے کرے؟ معصوم بچوں اور عورتوں پہ گولہ باری کرے اور وہاں کی سرسبز اراضی کو تہ و بالا کرے؟ نہتے اور بے یارومددگار کردوں پہ قوت بازو دکھانے والے ترک حکمرانوں کی مردانگی تب کہاں چلی گئی تھی جب چند سال پہلے اسرائیلیوں نے ایک ترکی امدادی بیڑے پر حملہ کرکے کئی ترکوں کو قتل کردیا تھا؟ آج اس دہکتے ہوئے الاؤ میں ملک شام کو جلانے میں امت اسلامیہ کے یہ تینوں رہنما برابر کے شریک ہیں! ایک طرف غوطہ کو برباد کرنے کے لئے بشار نے روسی اور ایرانی فوجوں کا سہارا لے رکھا ہے تو دوسری طرف ترکی سے متصل علاقے کو تاراج کرنے کا ذمہ ترکی نے لے لیا ہے جو بظاہر بشار کی پالیسیوں سے خوش نہیں اور جب بشار الاسد قتل وخون کی ہولی کھیل کر میدان خالی کرتا ہے تب مردہ لاشیں اٹھانے اور لٹے پٹے یا بچے کچے بے سروسامان لوگوں کی دلجوئی کے لئے ترکی ہلال احمر کی امدادی گاڑیاں بھیج دیتا ہے تاکہ باہر کی دنیا اسکی انسانیت نوازی کی ڈفلی بجاتی رہے اور بر صغیر کی سادہ لوح مسلم عوام ترک رہنماؤں کو ہمدردان ملت کے خطاب سے سرفراز کرتی رہے! آج غوطہ سے، عفرین سے مسلسل *وامعتصماہ* کی صدا آ رہی ہے لیکن بلا امتیاز ہمارے سبھی مسلم حکمرانوں نے بے حسی کا ایسا حجاب اوڑھ لیا ہے جس نے دل و نگاہ دونوں سے بصارت چھین لی ہے اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ سب کے سب اپنے دنیاوی آقاؤں کے احکام کی تعمیل میں اس مالک حقیقی کو بھلا بیٹھے ہیں جس نے بڑے بڑے جابروں کو خاک میں ملا دیا! ان مظلوموں کی دلدوز چیخیں ان کے کانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ اگر یہ حکام اتنے بے بس اور لاچار ہیں، اپنے اپنے ملکی مصلحتوں سے مجبور ہیں تو پھر کیوں مسلم کاز کے لئے یہ تنظیمیں بناتے ہیں؟ کیوں ہمارے ربانی علماء اپنے خطبوں میں پوری دنیا کے مومنین کو ایک ہی جسم سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں اور اپنے حکام سے کلمۂ حق کہنے میں کیوں اسقدر خوف کھاتے ہیں کہ بسا اوقات ناقض وضو کے بھی مرتکب ہوجاتے ہیں؟ جبکہ قول وعمل میں تضاد کی صورت پیدا ہونے پر اللہ کی طرف سے سخت وعید بھی ہے! بے مطلب ‘نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر’ کا نغمۂ وحدت کا راگ کیوں الاپا جاتا ہے؟ دنیا جہاں یہ جانتی ہے کہ اصل مجرم بشار الاسد ہے وہیں دنیا والے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بشار کا ساتھ دینے والے ایرانی اور ایران کے ساتھ غٹرغوں کرنے والے ترک بھی اس جرم میں برابر ملوث ہیں۔ تم نہ مانو مگر حقیقت ہے !
چونکہ دوسرے مسلم رہنماؤں نے اپنے اعصاب پر خوف کا ایسا نشہ طاری کر رکھا ہے کہ اب وہ زیست بھی دوسروں کی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ وقت آنے پر آگ کے یہ بگولے بلا رعایت سب کے آشیانوں کو جلا ڈالیں گے! امت کو تو اب ان سے کوئی توقع نہیں رہی اور جب توقع ہی اٹھ گئی تو کیا کسی کا گلہ کرے کوئی؟ ان مظلوموں کی نصرت کے لئے کیوں نہ ہم بشار الاسد، رجب اردوغان اور حسن روحانی کو ہر محاذ پر لتاڑ یں، ان معصوموں کے قتل پر ان کی گرفت کریں کیونکہ مسلم اُمّہ کے یہی تین مجرم ہیں جو سیریا کے جنوبی حصے شام و غوطہ سے لے کر شمال مغربی حصہ ادلب وعفرین تک نسل کشی اور قتل وغارتگری کے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں؟
دراصل سیریا کی یہ لڑائی ایک خاص نوعیت کی ہے یہاں عوام الناس پر چومکھ گولہ باری ہورہی ہے اور پڑوس کے سبھی ممالک یا تو اس جنگ میں کھلم کھلا بشار کا ساتھ دے رہے ہیں یا اگر بشار کے مخالف ہیں تو داعش کے نام ہر پوری بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے عوام پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ ہاں کچھ ایسے بھی پڑوسی ہیں جنہیں اللہ نے قوت و سلطنت عطا کی ہے اور وہ یک گونہ امن وسکون سے بھی مالا مال ہیں لیکن انہیں خدا کی یہ تقسیم راس نہ آئی اور انہوں نے عورتوں کی نسوانی صفت اپنا لی اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوئی سبیل نہ تلاش کی۔ ابھی حال میں اقوام متحده نے ہانپتے کانپتے ایک قرارداد پاس کی کہ پورے سیریا میں تقریباً ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کردیا جائے تاکہ انسانی امداد کا کام کرنے والے اداروں کو دوا اور دیگر سہولیات فراہم کرنے میں آسانی میسر آ سکے لیکن بشار کی فوجوں نے کہا کہ اس جنگ بندی میں غوطہ کا علاقہ شامل نہیں ہوگا ادھر رجب اردوغان کی فوجوں نے اعلان کردیا کہ عفرین کا علاقہ بھی اس میں شامل نہیں ہوگا تو آخر کار اس میں شامل کیا ہوگا ترکی کا وہ نیا صدر پیلیس یعنی انقرہ کا وہائٹ ہاؤس جو ہزار کمروں پہ داد عیش دیتا ہوا رجب طیب اردوغان کا آرامگاہ ہے جو امریکی وہائٹ ہاؤس اور فرانسیسی ایلیزیہ پیلیس سے زیادہ پرشکوہ ہے یا بشار الاسد کا وہ صدارتی پیلیس ہے جو دمشقیوں کے عرق جبین سے تیار کردہ ایک شاہکار ہے! قرارداد پاس کرنے کے بعد اسکو نافذ العمل بنانے کے لئے فرانس اور جرمنی روس کی دہلیز پر اپنی ناک رگڑ رہے ہیں کہ آقائے ویٹو اس قرارداد کی لاج رکھ لو بس چند دنوں کی ہی تو بات ہے ہم کچھ مریضوں کے زخموں کی مرہم پٹی کرلیں اور کچھ ادھ موئے انسانوں کو رسد فراہم کردیں تاکہ جب ان کی ہڈیوں پر گوشت چڑھ جائے کچھ فربہی آجائے تب دوبارہ شکار کرلینا! لعنت ہو ان نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں پر ! دھتکار ہو ان خود فریبوں پر!
خیر جو بھی ہو ہمیں معلوم ہے کہ ہماری یہ پکار صدا بصحرا ثابت ہوگی لیکن ہم نے اپنے دل کی آواز پہ لبیک کہا ہے، ہمارا ضمیر ابھی مرا نہیں، زندہ ہے اور ان لفظوں سے اپنی بساط بھر احتجاج بھی کر رہا ہے۔
کسی خزانۂ دنیا سے کیا غرض ہم کو
متاعِ جاں یہی لفظوں کی ریز گاری ہے
آپ کے تبصرے