وبائی مرض کورونا (COVID19) کے بعد ہم اقتصادی، سماجی، دینی ہر محاذ پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ تعلیم، زراعت، صنعت وحرفت، تجارت اور آئی ٹی فیلڈ اب ایک نئی معیشت کی دہلیز پر ہے۔ خاص کر مسلم قوم کی کمزور معیشت نے زندگی کے ہر قدم پر انھیں دوسری اقوام سے پیچھے چھوڑا ہے۔ ایسے حالات میں دینی مدارس و مساجد اور دعوتی اداروں کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ کسی بھی قوم و سماج کی ترقی کے تین بنیادی ارکان ہوتے ہیں: فرد، سماج، حکومت۔ ان تینوں ارکان کے اپنے اپنے کردار ہوتے ہیں۔ اگر ایک بھی ان میں سے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرلے تو سماجی تنزلی یقینی امر ہے۔
حکومت کے مسلمانوں کے تئیں رویہ پر بات کرنا اب فضول ہے۔ حکومت کے زیر اثر وقف بورڈ پر گفتگو مجھ جیسے احقر کا کام نہیں۔ حالات کے پیش نظر حکومت کی تائید وتعاون کا خواب نہ دیکھتے ہوئے اب ہم معاشی استحکام کے لیے مقامی طور پر کیا اقدام کرسکتے ہیں اس کے امکانات پر غور کرنا ایک اہم سوال ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلم تربیتی اداروں کا قحط ہے۔ اور جو ہیں بھی انھیں حکومتی سطح پر کوئی سرپرستی حاصل نہیں۔ یہ ادارے پرائیویٹ سیکٹر کے طور پر صدقات و زکات کی مدوں پر زندہ رہتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم کو تعلیمی و تربیتی معیار نہیں دے پاتے اور نہ ہی حکومتی پیمانے پر وظیفہ رسانی میں ان کے ساتھ انصاف ہوتا ہے۔
میڈیا اور فلم انڈسٹری، حکومتی تعلیمی اسٹرکچر اور بعض مخصوص ادارے اپنے مذموم وپوشیدہ ایجنڈا کے تحت امت مسلمہ کو دھوکہ دیے بیٹھے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور قانون فطرت کو اسکولوں میں کوئی جگہ نہیں۔ توحید باری تعالی کا تصور، کائنات کی خلقت، رب باری تعالی کی ذات وصفات کا کوئی تربیتی خاکہ نصاب تعلیم میں نہیں ہے، اسلامی سائیکلوجی وتربیت نام کے لیے بھی نہیں ہے، بے چارے اہل مساجد و مدارس یا بعض زندہ دل اسکولوں کے ذمہ داران ابتدائی دینی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں اور بس، باقی دینی تعلیم کا حال روح افزا کی بوتل میں مثل شراب کے ہے۔ تاہم ان مدارس کا حال کچھ یہ ہے کہ چندوں کے بنا ان کا چلنا ہی مشکل ہے۔ جبکہ مسلم قوم کے پاس سب سے زیادہ اوقاف کی زمینیں موجود ہیں۔ میراث وزکات کا سب سے مستحکم نظام ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کتابوں کی زینت محض ہے۔ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سیکولر و سوشلزم کا دیا ہوا قانون ہے۔ جبر و ظلم پر مبنی سرمادارانہ نظام ہے۔ اور پبلک کا نقطہ نظر صرف نوکری وملازمت کے لیے تعلیم حاصل کرنا رہ گیا ہے، دینی تربیت مل جائے تو ٹھیک، نہیں ملے تو اللہ کی مرضی۔
آخر کب تک ہم اس غفلت و لاپروائی کا شکار رہیں گے۔ ہمارے بزرگوں کی زمینوں اور اوقاف کا کب صحیح استعمال ہوگا۔ کب ہم اپنے ہاتھوں کو لینے والا نہیں بلکہ دینے والا بنائیں گے۔ کب ہماری رگوں میں زندگی کے توانا جذبوں کی نشونما ہوگی۔ ضرورت ہے کہ اسلامی وقف کے سسٹم پر نہ صرف ملک گیر کانفرنسیں ہوں بلکہ ہمارے بزرگوں کی پراپرٹیوں کو چیل و کبوتر کے حوالہ کرنے کے بجائے ٹریڈ و بزنس کے قابل بنایا جائے۔ تاکہ ان کا محصول قوم کی تعلیمی ترقی میں استعمال ہو۔ ادارے خود کفیل ہوں۔ اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات کے لیے در بدر پھرنے کی نوبت نہ آئے۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں کا پتہ نہیں تاہم کوکن کی زرخیز زمین پر اس کی تطبیق ممکن ہے۔ خاص کر وہ علاقے جہاں جماعت المسلمین کا قدیم سسٹم قائم ہے اور بزرگوں کی وسیع وعریض پراپرٹیاں وقف جیسے پراجیکٹ کی متحمل ہیں۔ بلکہ راقم کے پاس اس کی عملی تطبیق کا ناقص خاکہ بھی موجود ہے۔
چونکہ اوقاف پراپرٹی سے متعلق شرعی احکام مدارس اسلامیہ میں تفصیل سے نہیں پڑھائے جاتے اور نہ ہی وقف سے متعلق احکام و مسائل کے استنباط پر نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں۔ نیز علماء و ٹرسٹیان بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس لیے عوام بھی وقف کے مسائل سے نابلد ہوتی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں عوام وقف کے فضائل و برکات سے بے بہرہ ہے وہیں پرانے اوقاف خرد برد کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
تاہم اگر اس سمت کوئی پیش رفت ہو تو ایک وقت آئے گا کہ ان زمینوں کا صحیح استعمال ہوگا۔ ہر شخص اپنی اخروی فلاح وبہبودی کی خاطر غریب کو جز وقتی صدقہ دینے پر وقف کے سسٹم کو ترجیح دے گا۔
اسلامی دور اقتدار میں ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب انسان تو انسان رہے، جانوروں کے چارہ پانی کے لیے بھی متعدد اوقاف قائم تھے۔ اسپین و دمشق کے در ودیوار آج بھی ان آثار کی گواہی دیتے ہیں۔ شہر بغداد میں انسانی ہسپتال کے ساتھ ساتھ جانوروں کے علاج و معالجہ کے لیے بھی وقف شدہ شفاخانوں کی کثرت تھی۔
صحابہ کرام کے وقف کی پراپرٹیوں سے متعلق حضرت امام شافعی اور ابن ابی شیبہ رحمہما اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ ہر صحابی کا اپنا وقف تھا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ 80 سے زیادہ انصاری صحابہ کے اوقاف مدینہ میں موجود تھے۔ آپ وقف اور وصیت نامہ لے کر خانہ کعبہ کے سامنے بیٹتھے، لوگ آپ سے اپنی وصیتیں لکھوایا کرتے، اپنے خاندان کے لیے آپ نے مستقل وقف سسٹم بنایا تھا۔
ماضی قریب تک سینکڑوں اداروں اور مسجدوں کے اخراجات نیز طبی ضروریات صرف وقف کے محصول سے پوری ہوتی تھیں، اوقاف کے ادارے اسلامی حکومتوں کے دور میں نہایت وقیع حیثیت کے حامل رہے ہیں جو محض فقراء و مساکین کی حاجت روائی تک محدود نہ تھے بلکہ قرض حسنہ، اعزاء واقارب کے لیے خصوصی وقف، غلام کو آزاد کرنا، مسافر خانوں کا قیام، مساجد و مدارس کا تحفظ، نہر اور کنویں کی فراوانی، انسانوں اور جانوروں کے شفا خانوں تک کو محیط تھے۔ اور آج صورت حال یہ ہے کہ بجز چند دینی اداروں کے اس کا وجود ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اور قوم کے نا مہرباں اسے جائیداد متروکہ سمجھ کر بھیڑ بکریوں کے حوالے کر بیٹھے ہیں۔ ضرورت ہے کہ نظام وقف کا فائدہ اٹھایا جائے، کم سے کم مدارس و تعلیمی اداروں کو لیز پر دے کر ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ خاص طور پر آرٹیکل 30 کے نافذ ہونے سے پہلے مدارس اسلامیہ کی حفاظت کے لیے وقف کے طریقہ کو رواج دیا جائے، مدارس کی نظر چندہ سے ہٹاکر وقف کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے، چندہ بار بار کیا جاتا ہے اور ایک بار میں ختم ہوجاتا ہے، تاہم وقف سسٹم قائم کرنے میں ایک بار محنت کرنی پڑے گی اور اقتصادی مسائل کے حل کا سلسلہ چل پڑے گا۔ سعودی عرب میں برنامج واقف کے تحت وسیع وعریض پیمانہ پر اس ضمن میں کام ہوا ہے، لاکھوں یتیموں بیواوں کی رہائش، طعام وقیام کے لیے سینکڑوں عمارتیں وقف ہیں، تعلیم، صحت، دعوت، کفالت سے متعلق کئی اقتصادی پروجیکٹ وقف نظام ہی کے تحت کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ ایک سنت کا احیاء بھی ہے اور اقتصاد و معاش کا عظیم ذریعہ بھی، اب ہندوستان میں بھی ضرورت ہے کہ نظام وقف سے متعلق دستاویزات تیار ہوں، ہر گاؤں اور علاقہ میں سوشل پلیٹ فارم سے اس کے فوائد و فضائل پر پروگرام کرائے جائیں، جدید تقاضوں کے ساتھ وقف سے ہم آہنگی پیدا کی جائے اور ہر گاؤں، جماعت و ادارے کو ایسا مضبوط تطبیقی نظام بنانے میں مدد کی جائے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے محتاج نہ رہیں۔ راقم الحروف نے شخصی طور پر اس کا پاور پوائنٹ خاکہ تیار کیا ہے جس میں نظام وقف کو نافذ کرنے کی عملی تدابیر کا ذکر ہے۔
اللہ رب العالمین علم و عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین
السلام علیکم
جزاك الله
اس سے ایک نقطہ یے بھی سامنے آتا ہے کہ قوم کے سٹرٹپ تاجرین کو بھر پور فائدہ بھی ہوسکتا ہے جس سے نئے نئے مواقع فراہم ہوگے