دینی‌ معاملات میں علماء سے وابستگی کی ضرورت

کاشف شکیل تعلیم و تربیت

از: شیخ عبدالسلام سلفی (امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)
تلخیص: کاشف شکیل


علماء کی رہنمائی اور سرپرستی میں رہنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے، امام ابن قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اگر سمندر کی موجوں کے مثل شبہات اور فتنے آئیں تو علماء ہی ثابت قدم رہ پاتے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس علم، فہم سوجھ بوجھ اور بصیرت ہوتی ہے، جس کی بنا پر وہ ہر طرح کے حالات میں خود کو سنبھال لیتے ہیں۔”
یہی اللہ کی سنت بھی ہے اس لیے کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ سلم کو نبوت و رسالت کے قلعہ کی آخری اینٹ اور ختم الرسل بنا کر بھیجا اور آپ کے بعد علماء کو آپ کا وارث بنادیا، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ دنیا کے حالات، عصرِ حاضر کے چیلنجز، بَرنِنگ اِیشوز اور فتنوں میں علماء صحیح معرفت نہ حاصل کرسکیں اور امت کی صحیح رہنمائی نہ کرسکیں، جب بھی کوئی فتنہ اٹھتا ہے علماء حتی المقدور امت مسلمہ کو اس سے آگاہ کرتے ہیں، تجربہ بھی اس پر شاہد ہے۔
انبیاء کے بعد علمائے حق ہی قوم کو راہ نجات کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد کے نام پر فساد، خلافت کے نام پر ہلاکت اور دیگر جو بھی فتنے آئے خواہ وہ داعش کا فتنہ ہو یا دیگر دہشت گرد تنظیموں کا، علماء نے ابتدا میں ہی اس کی تردید کی، گرچہ بعض جوشیلے لوگوں کو بعد میں پتہ چلا کہ صحیح رائے علماء ہی کی تھی، لہذا علماء سے وابستگی ازحد ضروری ہے۔
ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جو کام کرنا چاہتا ہے، اس کام کے ماہرین سے تائید لے کہ یہ کام درست ہے یا نہیں؟؟ خصوصا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ جو بھی ایکٹیویٹی یا موومنٹ کریں تو یہ ضرور دیکھیں کہ اس میں ان کی تائید کرنے والے کون لوگ ہیں؟
امام مالک کہتے ہیں: “ضروری ہے کہ ہر شخص جو کام کرے وہ اس فیلڈ کے معتبر لوگوں کو دیکھے کہ وہ اس کے کام اور طریقہ کار کی تائید کرتے ہیں یا نہیں۔”
خود امام مالک فرماتے ہیں کہ جب تک مجھے افتاء کے لیے امام زمانہ ربیعہ الرائے اور یحییٰ بن سعید نے اور بعض روایتوں میں ہے کہ جب تک 70 مشایخ نے اجازت نہیں دی تب تک میں نے افتاء کا کام شروع نہیں کیا،
معتبر لوگوں کی تائید کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے، صحیح بخاری (1367) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
مَرُّوا (الصحابة) بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “وَجَبَتْ”. ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا، فَقَالَ: “وَجَبَتْ”. فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا وَجَبَتْ. قَالَ: “هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ”.

یعنی صحابہ کی جماعت کا ایک جنازہ سے گزر ہوا تو صحابہ نے اس کا ذکر خیر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “واجب ہوگئی”، ایک دوسرا جنازہ گزرا تو صحابہ نے اس کی برائیاں ذکر کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا “واجب ہوگئی”،
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! کیا چیز واجب ہوگئی؟؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس کی اچھائیاں تم نے بیان کیں اس پر جنت اور جس کی برائیاں تم نے بیان کیں اس پر جہنم واجب ہوگئی، تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو”۔
یعنی تم جس کے خیر کی گواہی دو وہی معتبر ہے۔ آپ دیکھیں کہ فی الحال دعاۃ، رائٹرز، مقررین اور مبلغین کی جو کھیپ ہے ان کی تائید کون کر رہا ہے؟ محض دلکش اسلوبِ کلام، دِلنشیں طرز تحریر، عوامی مقبولیت اور کثرتِ مطالعہ کسی کے معتبر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا کہ قرآن کے قاریوں کی کثرت ہوگی مگر وہ قرآن کو سمجھیں گے نہیں”
اسی طرح اسلام کی پہلی بدعتی جماعت خوارج کے بارے میں نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا:
يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ (بخاری3343)

یعنی وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے۔
طلباء ہر مسئلہ میں اپنے بڑوں سے جڑے رہیں اور ان سے رجوع کرتے رہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ نے جب لوگوں کو حلقہ بنا کر کنکریوں کے دانے پر مسجد میں تسبیح کرتے دیکھا تو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے گھر آئے اور بتایا، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا کہ آپ نے انھیں روکا کیوں نہیں؟ تو ابوموسیٰ اشعری نے کہا کہ آپ کے مشورے اور حکم کے انتظار میں، اس لیے کہ آپ بڑے ہیں۔ (سنن دارمی:210)
ہر شخص کو ہر جگہ بولنا نہیں چاہیے۔ ہر شخص یہ نہ سوچ لے کہ ہر سوال کا جواب مجھے دینا ہے، آج کل مشکل سے 25 فیصد لوگوں کے خطبات منہجی اور معتبر ہوتے ہیں۔
علمی گہرائی وگیرائی کے لیے علماء اور اکابرین سے جڑنے کی سخت ضرورت ہے، جب فہم اور تفقہ ہوگا تو حالات کی نبض شناسی میں کوئی دشواری نہیں ہوگی، جلد بازی سے گمراہی اور انحراف آتا ہے، عجلت شیطان کی طرف سے ہے، ہم اپنے آپ کو آگے لے جانے کی کوشش نہ کریں جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ ہمارے پاس کتنی تائید ہے۔
آپ دیکھیں ممبئی اور اطراف میں بلکہ ہر جگہ دعاۃ کا ایک ٹرینڈ چلا اور یہ ہوا کہ ہم خود کو اہل حدیث کے بجائے صرف مسلمان کہیں گے، تو علماء نے سمجھایا کہ یہ نسبت بہت پاکیزہ ہے، ڈیڑھ ہزار سال سے سلف کا یہی طریقہ رہا ہے، آخرکار علماء ثابت قدم رہے اور لوگوں نے رجوع کیا۔
دین و دنیا دونوں کی بھلائی علماء سے جڑنے میں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ہر اقدام کے سلسلے میں علماء سے تائید لیں۔

آپ کے تبصرے

3000