اگر آپ چاہتے ہیں کہ طلاق کی نوبت نہ آئے تو…

آصف تنویر تیمی سماجیات

طلاق فی نفسہ مشروع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے طلاق دینا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ لیکن طلاق دینے میں پیش قدمی اور عجلت یا بلا وجہ طلاق دینا غیر مرغوب عمل ہے۔ بلکہ مرد کو اپنی مردانگی اور صبر وضبط کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ طلاق کی نوبت نہ آئے، حتی الوسع ان اسباب پر قابو پایا جائے جن کی وجہ سے طلاق دینے یا عورت کو خلع لینے کی سچویشن پیدا ہوتی ہے۔ خاندان کے اجاڑنے سے بسانا اور پریشانی ہونے یا پریشان کرنے سے پُرسکون زندگی بسر کرنا کہیں بہتر ہے اور یہی مطلوب اور مقصود بھی ہے۔ لیکن اس کی خاطر میاں بیوی دونوں کو کافی غور وفکر اور سنجیدگی برتنے کی ضرورت ہوتی ہے خاص طور سے دونوں فریق میں اعتماد اور بھروسے کی ایسی مضبوط دیوار ہونی چاہیے کہ لاکھ کوشش کے باوجود نہ گرے۔
ذیل میں چند وہ امور اور نبوی ہدایات اختصار کے ساتھ قلمبند کیے جاتے ہیں جن کو اگر میاں بیوی اول دن سے بروئے کار لائیں تو شاید طلاق کی نوبت ہی نہ آئے۔
یاد رکھنے کی چیز ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ لطف اور مزہ طلاق کا راستہ ہموار کرنے میں آتا ہے اور ابلیس اپنے ایسے چہیتے شاگرد کو اپنے سے قریب تَر بھی رکھتا ہے۔
1-دیندار اور اخلاق مند عورت کا نکاح کے لیے انتخاب:
اس لیے کہ عورت کی دینداری اسے محرمات کے ارتکاب سے روکے گی اور اس کا عمدہ اخلاق اسے ہر اس چیز سے دور رکھے گا جو اس کے یا اس کے شوہر کے شایان شان نہ ہو۔ ہر حال میں عورت دونوں وصف کی وجہ سے اپنے شوہر کو دنیا و آخرت کی سعادت سے ہم کنار کرانا چاہے گی، جو کہ نکاح کا مقصدِ اولین ہے۔
ایسے ہی عورت اور اس کے ولی(سرپرست) کو چاہیے کہ وہ دیندار اور اخلاق مند مرد کا انتخاب کریں تاکہ عورت کو نکاح کے بعد پُر مسرت زندگی حاصل ہوسکے۔ اس لیے بھی کہ جو قدر اور عزت ایک دین دار شخص اپنی بیوی کو دے سکتا ہے اتنی عزت دوسرا آدمی نہیں دے سکتا۔
مشاہدے میں یہ بات ہے کہ جتنے عائلی مسائل ایک غیر دین پسند شخص کے گھر میں پیدا ہوتے ہیں اتنے مسائل ایک دین پسند گھرانے میں رونما نہیں ہوتے۔
2-مخطوبہ کو دیکھنا:
ہمارے مسلم معاشرے میں مخطوبہ(وہ لڑکی جس کو نکاح کا پیغام دیا جائے) کو دیکھنا ناپسند سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ایسے لڑکے جو اپنے والدین سے شرعی حدود وقیود میں رہ کر بھی مخطوبہ کو دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں انھیں لعن طعن اور سماج کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ سنت رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ اگر لڑکا نکاح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو لڑکی کے ولی کی موجودگی میں وہ لڑکی کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن بعض معاشرے میں مخطوبہ کو دیکھنے کے نام پر جو رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں، ملک وبیرون ملک کا دورہ کیا جاتا ہے وہ سارے غیر شرعی افعال ہیں، شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک انصاری خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے فرمایا: “جاؤ اور اسے دیکھ لو، اس لیے کہ انصار کی آنکھوں میں کوئی چیز(عیب وغیرہ) ہوتی ہے”۔ (صحیح مسلم)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اگر تم میں سے کسی کے دل میں کسی عورت سے نکاح کا خیال پیدا ہو تو اسے دیکھ لے، اس لیے کہ دیکھنا رشتے کو دوام اور پائیداری عطا کرتا ہے”۔ (علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سلسلہ صحیحہ میں نقل کیا ہے)
3- نکاح ان عورتوں اور مردوں سے کیا جائے جو دنیاوی اعتبار سے کمتر ہوں:
عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ مرد یا عورت یا دونوں کے ذمہ داران ایسی لڑکی یا ایسے لڑکے کا انتخاب کرتے ہیں جو سماجی اعتبار سے اعلی رتبہ اور مقام رکھتے ہوں۔ لڑکے کے بالمقابل لڑکی کی پوزیشن، یا لڑکی کے بالمقابل لڑکے کی پوزیشن میں بڑا فرق ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیر یا سویر رشتے نہایت نازک بن جاتے ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کا خیال رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، بسا اوقات گھریلو حالات اتنے خراب ہوجاتے ہیں کہ نباہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، جس کی وجہ سے طلاق ہی واحد حل ہوتا ہے۔ اس لیے لڑکے اور لڑکی والے کو خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر کسی لڑکی کا نکاح ایسے لڑکے سے ہوگیا کہ اس میں کسی قسم کا عیب ہے تو لڑکی کو گلہ شکوہ کرنے کے بجائے صبر کا دامن تھامنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ شادی بیاہ دنیاوی معاملہ ہے، اس دنیا میں بہت ساری ایسی بھی لڑکیاں ہیں جن کے شوہر اس کے شوہر سے بھی زیادہ کمتر ہیں۔ اس کے برعکس دینی طور پر ہر حال میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ لڑکے سے زیادہ دیندار لڑکی اور ایسے ہی لڑکی سے کہیں زیادہ دیندار لڑکا ہو تاکہ گھر کا ماحول جنت نشاں ہو۔ اور دونوں کے ذریعہ پیدا ہونے والی نسل دین واخلاق سے آراستہ ہوسکے۔
4-گارجین حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں سے ان کی مرضی معلوم کرلیں: نکاح کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ لڑکی کنواری ہو یا بیوہ اس کا نکاح کرتے وقت ان سے ضرور ان کی مرضی معلوم کرلیں۔ بسا اوقات شہروں خاص طور سے دیہاتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی بلا ان کی رضامندی حاصل کیے کردیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ شریعت میں بار بار گارجین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ لڑکی کی رضامندی لے لیں اور رضامندی حاصل کرنے کا ولی(گارجین، جیسے باپ بھائی چچا وغیرہ کو ہے) جس کی نیابت نکاح کے وقت قاضی صاحب کرتے ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ چند ناسمجھ قسم کے ولی رشتہ طے کرتے وقت لڑکی سے اس کی مرضی معلوم نہیں کرتے اور جب قاضی صاحب لڑکے کا نکاح پڑھانا شروع کرتے ہیں تو غیر محرم کی ایک ٹیم لڑکی کے پاس جاتی اور روایتی انداز میں نکاح کے کلمات اسے سنائےجاتے ہیں۔ بھلا نکاح کے وقت کون سی عقلمند یا باحیا لڑکی اپنے نکاح کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی سے متعلق اپنا فیصلہ سنائے گی۔ لڑکی کے نکاح سے متعلق لڑکی کی ماں اور اس کی بہن سے بھی مشورے کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے کہ لڑکیاں بہت ساری راز ونیاز کی باتیں اپنی والدہ اور بہنوں کو بتلاتی ہیں۔
5-ولی کو چاہیے کہ لڑکی کا نکاح اس کے شایانِ شان لڑکے سے کرے: ولایت ایک امانت ہے، امانت میں کسی بھی طور خیانت درست نہیں۔ ہر حال میں ولی کو اللہ سے ڈرنا اور خوف کھانا چاہیے۔ ولی ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی من مانی کی جائے، جان بوجھ کر لڑکی کی زندگی سے کھیلا جائے، اس کا سودا کیا جائے، اپنے فائدے کی خاطر اس کو گڑھے میں ڈال دیا جائے۔
بلکہ ولی کے اوپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لڑکی کا نکاح کرتے وقت لڑکے کے اخلاق وکردار اور دینداری کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔
6-شوہر اور بیوی دونوں اپنی اپنی حفاظت کریں: کہا جاتا ہے کہ ہزار بیماریوں کا علاج تحفظ اور بچاؤ میں ہے۔ جب تک آدمی خود برائی بے حیائی سے بچنے کی کوشش نہیں کرے گا اس وقت تک خارجی تدابیر سود مند ثابت نہیں ہوسکتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں اپنے تئیں محتاط رہیں، کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ان کی پُر عیش زندگی کو گھُن لگتا لگتا ہو، نکاح کا مضبوط بندھن ڈھیلا ہوتا ہے۔ ہمیشہ ذہن میں یہ بات رہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہمارے ایک ایک عمل کا حساب آخرت میں ہونا ہے۔ اگر اچھا کام کیا تو جنت کا باغ وبہار ہوگا، بصورت دیگر جہنم کی شعلہ زن آگ ہوگی، جس کو برداشت کرنا انسانوں کے بس میں نہ ہوگا۔
میرے خیال میں اگر مذکورہ نبوی ہدایات پر عمل کیا جائے تو طلاق کی سماج میں کافی کم نوبت آئے گی۔ ساتھ ہی ہم دشمنوں کے اس طعنے سے بھی بچ جائیں گے کہ مسلمانوں کے مابین کثرت سے طلاق کے مسائل رونما ہوتے ہیں۔ آج کل تو بعض سیاسی لوگوں کی طرف سے یہ راگ بھی الاپا جارہا ہے کہ جب سے تین طلاق پر پابندی لگی ہے اس کے بعد سے شرحِ طلاق میں کافی کمی واقع ہوئی ہے، حالانکہ یہ دعوی سرے سے غلط ہے، اسلام کبھی بھی طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، طلاق آخری حل ہے جب کہ زوجین کے نباہ کی کوئی شکل دِکھتی نہ ہو۔
تین طلاق کا موضوع پیش کرکے در اصل سیاسی سیانے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور شریعت میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں، ان کی اس عیاری اور مکاری سے ہمیں ہشیار رہنا ہے اور دین ودنیا سے جڑا ہوا ہر کام کتاب وسنت کی روشنی میں ہمیں انجام دینا ہے، چاہے وہ طلاق کا مسئلہ ہو یا دیگر مسائل۔

آپ کے تبصرے

3000