نظام وقف کے قیام میں امام شافعی کا قائدانہ کردار

سفیان قاضی مدنی متفرقات

امام الموحدین، ناصر الحدیث، رئیس الفقہاء حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں، اسلامی علوم و فنون کا شاید کوئی ایسا باب ہو جس میں آپ کی رہنمائیاں اور مستنبط مسائل کا حصہ نہ رہا ہو۔ علوم حدیث وفقہ میں آپ کی بصیرت افروز کتابیں تاہنوز دینی درسگاہوں، ہائی کورٹ اور اسلامی حکومتی اداروں کا حصہ ہیں۔ آپ متبحر فقیہ ومجتہد اور متعدد علوم و فنون میں سنت و اتباع کے عظیم پیکر تھے۔ امام اسحق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے علم حدیث میں گفتگو کی تو ان سے بڑا عالم حدیث کسی کو نہ پایا، علوم قرآن پر مباحثہ کیا تو آپ سے بڑھ کر مفسر کسی کو نہ پایا، فقہ میں بحث کی تو آپ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہ دیکھا، علم لغت و ادب میں تو آپ لاثانی تھے، غرضیکہ میری آنکھوں نے آپ جیسا عالم وفقیہ نہ دیکھا۔ (تاریخ دمشق: ج51، ص 331)
نیز امام ابو ثور اور دیگر علماء عراق سے مروی ہے کہ اگر عقیدہ کے باب میں امام شافعی ہماری اصلاح نہ فرماتے تو ہم اپنے رب سے اس حال میں ملتے کہ ہمارا رب ہم سے ناراض ہوتا۔
گزشتہ مضمون میں وقف سسٹم کی اہمیت پر سیر حاصل بحث گذر چکی ہے، اوقاف کا بابرکت سسٹم ہمارے مدارس و مساجد کی معاشی زبوں حالی کا مستقل حل ہے، اب موجودہ زمانہ میں وقف سے متعلق ایک اہم مسئلہ وقف کا سرکولر اور دستاویز کی قانونی تیاری ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے جہاں وقف کے فضائل و برکات کا ذکر کیا ہے وہیں تاریخی حوالہ سے صحابہ و تابعین کے اوقاف پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اور قانون وقف سے متعلق جزئیات کی مشروعیت اور اس کے اقتصادی، معاشی اور دینی فائدوں پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ نیز جو لوگ آپ کے زمانے میں وقف سسٹم پر معترض تھے ان کا سخت لہجے میں جواب بھی دیا ہے۔
اس ضمن میں امام شافعی رحمہ اللہ کے تیار کردہ دستاویز سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ امام شافعی نے اپنی بیشتر جائداد بیٹیوں اور رشتہ داروں میں چند قوانین وضوابط کے ساتھ وقف کی تھی۔
دستاویز وقف کا ایک نمونہ جو حضرت امام نے اپنی معرکہ آراء کتاب میں ذکر فرمایا ہے ملاحظہ کیجیے۔ بطور خلاصہ یہاں ذکر کیا جارہا ہے، مزید تفصیل اصل کتاب کی طرف رجوع کرکے دیکھی جاسکتی ہے۔
حضرت ربیع بن سلیمان بیان فرماتے ہیں کہ استاد محترم امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے ہمیں املا کراتے ہوئے فرمایا: یہ دستاویز میں نے (یا فلاں بن فلاں) نے بحالت صحت وعافیت اور عقل ودانشمندی کے ساتھ فلاں مہینہ اور فلاں سال میں تحریر فرمائی کہ: میں نے مصر کے شہر فسطاط (حالیہ قاہرہ ۔ مصر کا مشرقی حصہ) میں واقع میرے مکان کو جس کی چوڑائی شمال و جنوب، مشرق و مغرب سے اتنے اور اتنے میٹر ہے، اور اس میں موجود ساز وسامان کی اتنی اور اتنی قیمت ہے، نیز اس کی چھوٹی بڑی ضرورتوں کے ساتھ اس کے ہر چھوٹے بڑے نقصان و منافع کی اتنی اور اتنی قیمت ہے جسے میں نے مذکورہ مقدار سمیت اللہ کی راہ میں وقف کردیا۔
یہ صدقہ خالص ثواب کے لیے اللہ کی راہ میں وقف ہے، نہ میں اس میں رجوع کروں گا اور نہ ہی نظر ثانی، بلکہ یہ صدقہ محرمہ ہے نہ اسے بیچا جائے گا، نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ ہی وراثت سے اس کا کوئی تعلق ہے، اب یہ میری ملکیت سے خارج اور فلاں بن فلاں کی ملکیت میں ہوجائے گا جن کے ناموں کی صراحت کے ساتھ میں وقف کررہا ہوں اور جس کے مندرجہ ذیل شرائط ہوں گے۔ ان میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ میں نے اسے اپنی حقیقی اولاد پر وقف کردیا خواہ وہ حیات ہوں یا آج کی تاریخ کے بعد وہ اس دنیا میں آئیں گے، خواہ مرد ہوں یا عورتیں، چھوٹے ہوں یا بڑے، سبھی اس وقف میں برابر کے شریک ہوں گے، کسی کو کسی پر ترجیح نہ ہوگی، تا آنکہ میری بیٹیاں شادی نہ کرلیں۔ جب میری بیٹیاں اپنے شوہروں کے ساتھ آباد ہو جائیں تو اس وقف سے استفادہ کا سلسلہ ان کے لیے منقطع کردیا جائے، پھر اگر خاوند کی وفات کے بعد وہ میرے اس وقف کا حصہ بننا چاہیں تو انھیں دوبارہ اس میں حصہ دیا جائے جیسا کہ شادی سے پہلے اس کا حق تھا، پھر میری بیٹیوں میں سے جو بھی نکاح کرے تو اس وقف شدہ صدقہ کی مستحق ٹھہرے گی، تا آنکہ شوہر کے ساتھ اس کی رخصتی نہ ہوجائے، اب رخصتی کے بعد اسے کوئی حق نہ ملے گا، پھر خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد اگر وہ گھر آئے تو دوبارہ اسے وقف میں شامل کیا جائے گا۔
ایک شرط یہ بھی ہے کہ میرا کوئی صلبی بیٹا فوت ہوجائے تو اس کا حصہ اس کے بچوں میں یکساں تقسیم کیا جائے گا، یہ حکم صرف بیٹوں کی اولاد کے لیے ہے، بیٹیوں کی اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں کیونکہ وہ اپنے شوہروں کے تابع ہیں، نیز اس وصیت سے وہ عورتیں دھیرے دھیرے خارج ہوتی جائیں گی جن کی شادیاں ہوجائیں، تآنکہ وہ طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد دوبارہ گھر لوٹ آئے، پھر یہی سلسلہ خاندان میں چلتا رہے گا اور لوگ اس جائیداد سے مستفید ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ میرے صلبی خاندان کے سارے افراد رخصت ہوجائیں، یہ وقف میں( امام شافعی) اور میرے والدین کی طرف سے اللہ کی راہ میں وقف ہے اسے نہ بیچا جائے گا، نہ ہبہ کیا جائے گا، بلکہ یہ مجرد صدقہ ہے۔
جب میری اولاد و خاندان میں کوئی نہ بچے جو اس سے مستفید ہو تو اسے ان غلاموں میں تقسیم کیا جائے گا جن پر میرے خاندان کے افراد نے دست شفقت رکھ کر ان کو پالا تھا، ان کی تمام اولادیں مرد و زن اس میں برابر کے شریک ہوں گے، پھر جب غلاموں میں سے کوئی نہ بچے تو یہ مکمل جائداد فقراء ومساکین( خاص کر جو میرے شہر فسطاط کے رہنے والے ہوں) یا مسلمان غازیوں اور مسافروں کی خدمت کے لیے استعمال میں لایا جائے گا تا آنکہ اللہ رب العالمین اس کا وارث ہوجائے۔
اس جائداد کا متولی میرا فلاں بیٹا ہوگا جو مکمل امانتداری کے ساتھ اس وصیت کو نافذ کرے گا، پھر کسی وجہ سے وہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں سست پڑ جائے تو قاضی وقت کی ذمہ داری ہوگی کہ اس شخص کو متولی بنائے جو سب سے زیادہ صاحب فضیلت ہو، میں اس وصیت پر فلاں اور فلاں کو گواہ بناتا ہوں۔
(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: کتاب الام للشافعی ج4، ص62)
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے نہ صرف نظام وقف کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی، بلکہ ان سارے شبہات کا جواب بھی دیا جو وقف اور صدقہ میں خلط مبحث کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے قانون وقف سے متعلق حنفی ائمہ کے رد عمل کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے اور انتقال ملکیت کا ایک ایسا نظام ذکر فرمایا جو قرآن وسنت کے صریح و صحیح نصوص کی عین ترجمانی کرتا ہے۔ ایسے ایک نہیں سینکڑوں مسائل ہیں جن میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے مسلک احناف کو مرجوح قرار دیتے ہوئے کتاب وسنت و عمل صحابہ کو اپنا حرز جاں بنایا اور اسی کی طرفداری کرتے رہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ تھا کہ وقف نہ تو انتقال ملکیت کا ذریعہ ہے اور نہ ہی قاضی وقت کے علاوہ کسی اور کو عقد لازم کا حق حاصل ہے، آپ کے استنباط کردہ مسائل کے تحت عقد وقف کے بعد بھی جملہ تصرف واقف کو حاصل ہیں تا آنکہ اس کی وفات نہ ہوجائے، تاہم مسجد اس قانون سے مستثنی ہے۔
چونکہ اس بیان کردہ قانون میں واقف وموقوف کی چند جزئیات کتاب وسنت کے دلائل سے میل نہ کھاتی تھیں اس لیے نہ صرف امام شافعی نے بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے معزز شاگردوں نے بھی اپنے استاد کا یہ قول ناقابل اتباع سمجھا۔ اسی ضمن میں امام سرخسی کا وقف سسٹم سے متعلق ذکر کردہ مکالمہ کافی دلچسپ ہے، جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم علماء احناف اپنے بزرگان کے لیے بے وجہ عذر تلاش نہ کرتے بلکہ کتاب وسنت کی صریح تعلیمات کے آنے پر سر تسلیم خم کرتے۔
امام سرخسی حنفی رحمہ اللہ صحابہ کرام کے اوقاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے وقف سسٹم کی بنیاد رکھی جو تاہنوز جاری ہے، حتی کہ ابراہیم الخلیل علیہ السلام کا وقف بھی اب تک موجود ہے، بلکہ ہمیں تو ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ فرمان الہی ہے: واتبعوا ملة ابراهيم حنيفا، نیز اہل اسلام اب تک اس سنت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی بساط بھر اوقاف و رباط بناتے رہتے ہیں، لہذا لوگوں کا اس سسٹم سے جڑے رہنا اور اس پر عمل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابوحنیفہ کی رائے اس بارے میں قابل اتباع نہیں ہے، چنانچہ امام محمد نے وقف سے متعلق ابوحنیفہ کی رائے کو مسترد قرار دیا ہے اور بغیر حجت وبرہان کے اسے تحکم سے تعبیر کیا ہے۔ اور فرمایا کہ لوگ تو امام ابوحنیفہ کا مسلک اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ یہاں تحکم و زبردستی نہیں پائی جاتی، پھر جب وہ خود ہی لوگوں پر دلیل و قیاس کے بغیر تحکم کرنے لگ جائیں تو پھر تقلید کا کیا معنی؟ اور اگر اس طرح کی تقلید دین میں مقصود ہوتی تو امام ابوحنیفہ سے زیادہ مستحق اس تقلید کے امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی رحمہما اللہ ہیں، پھر امام محمد رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے قول کو چنداں اہمیت نہ دی بلکہ اپنے آپ کو ان مسائل سے دور ہی رکھا۔
( مکمل مناقشہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں: کتاب المبسوط للسرخسی الحنفی رحمہ اللہ، ج12، 28)
غرضیکہ ایسے سینکڑوں مسائل ہیں جن میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سنت و حدیث کے پابند تھے اور بزور شمشیر زباں، صاحب ملامت کی پرواہ کیے بغیر سنت پر عمل کی دعوت دیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے امام شافعی سے بڑھ کو اتباع سنت کا پابند کسی کو نہیں پایا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی بصیرت افروزی کا نتیجہ یہ تھا کہ سلف صالح کے زمانہ میں جہاں بھی آپ کی فقہ کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی اوقاف و رباط کے مستحکم سسٹم وہاں نافذ ہوئے اور مصر و شام کی گلیوں میں انسان تو کیا جانوروں کی ضروریات تک کا خیال رکھا گیا، اعلی مسافر خانے، وادیاں، نہریں اور باغات قائم ہوئے جن کا سارا محصول چندوں پر نہیں بلکہ نظام وقف کی برکتوں پر منحصر تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے فقہ حنفی کے قانون پر اعتراض کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ سنت واتباع کی اہمیت کھل کر لوگوں کے سامنے آگئی اور متلون مزاج حکمراں دانستہ ونادانستہ طور پر بھی جائداد اوقاف کے ساتھ کھلواڑ نہ کرسکے اور سب ہی لوگوں کو مساوی طور پر استفادہ کا موقع ملتا رہا۔ تاریخ دمشق و دیگر کتابوں میں اس کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000