سن ۱۹۹۵ء کی بات ہے۔ لندن برطانیہ کے ایک روزنامہ اردو اخبار میں تحریک ختم نبوت کے حوالے سے ایک مکتبہ فکر کے حامل بزرگ شخصیت نے اپنی ایک تحریر شائع کروائی تھی جس میں صاحب تحریر نے تاریخ بیان کرنے کی بجائے تاریخ سازی کی کوشش کی تھی۔ اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ صاحب مضمون نے تحریک ختم نبوت کے کام کو نہ صرف ایک مکتب فکر کا کام ٹھہرایا تھا بلکہ یہاں تک لکھ ڈالا تھا کہ یہ کام حاجی امداد الله مہاجر مکی صاحب کی “الف” سے شروع ہوکر مولانا یوسف بنوری صاحب کی “ی” پر ختم ہوتا ہے۔ یعنی کہ کسی دوسرے مسلک کے حامل بزرگوں نے اس ضمن میں کوئی کام کیا ہی نہیں۔
برمنگھم برطانیہ میں حضرو اٹک کے ہمارے ایک معتقد بزرگ دوست شیر بہادر خان صاحب رہتے ہیں۔ جن سے میرا گہرا تعلق ہے۔ مسئلہ مسائل کے دریافت کے لیے مجھ سے مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں۔ جن کا سینہ قرآن وحدیث کی محبت سے بھرا ہوا ہے اور آپ کو مطالعہ کا بھی بہت شوق ہے۔ خالص سلفی العقيدة علماء سے ہمیشہ رابطہ میں رہتے ہیں۔ پیر داد، حضرو، ضلع اٹک میں علامہ حافظ زبیر على زئی رحمه الله کے “مدرسہ اهل الحدیث” کے شریک بانی ہیں۔ برطانیہ میں رہ کر اس مدرسہ کی آبیاری کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ انھوں نے اردو اخبار میں جب یہ مضمون پڑھا تو حیران رہ گئے۔ آپ کا دل بے چین اور بے قرار ہوگیا کیونکہ صاحب مضمون نے اس مراسلہ میں سراسر غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ شیر بہادر خان صاحب پہلے ہی سے ڈاکٹر بہاءالدين محمد سلیمان اظہر صاحب اور ان کے تاریخ اہل حدیث اور تحریک ختم نبوت کے موضوعات پر مہارت رکھنے کے قائل تھے۔ ڈاکٹر بہاءالدين صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ ان کے برمنگھم کے قیام کے دوران شیر بہادر خان صاحب سے اچھے مراسم تھے اور خان صاحب انھیں اپنے گھر لے جاکر تواضع و تکریم بھی کرتے رہے ہیں۔ اگست ۱۹۹۳ء میں ڈاکٹر صاحب برمنگھم سے دور دراز شہر نیوکاسل میں جا بسے تھے۔ خان صاحب کے پاس ڈاکٹر صاحب کا نہ پتہ تھا اور نہ ہی فون نمبر۔ لہذا آپ اخبار کا یہ تراشہ لے کر مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے مرکزی دفتر برمنگھم پہنچے تاکہ اس تحریر کو ذمہ داروں کے علم میں لاکر ڈاکٹر محمد سلیمان اظہر صاحب سے اس کا جواب لکھوایا جاسکے۔ دفتر میں خان صاحب کی ملاقات اتفاقاً مولانا ثناءالله سيالكوٹی صاحب سے ہوگئی جو اس وقت جمعیت کی ایک برانچ اسکپٹن کے امام وخطیب تھے۔ آپ کسی میٹنگ میں شرکت کے لیے اسکپٹن سے برمنگھم تشریف لائے ہوئے تھے۔ شیر بہادر خان صاحب نے سیالکوٹی صاحب کو اخبار میں چھپی اس غلط بیانی کی روداد سنائی اور اخبار کا وہ تراشہ دے کر درخواست کی کہ اسے ڈاکٹر سلیمان اظہر صاحب تک پہنچایا جائے اور ان سے اس کا تفصیلی جواب لکھوایا جائے۔ مولانا نے اخبار کے اس تراشہ کو میرے دوست محسن جماعت وملت ڈاکٹر بہاءالدين محمد سليمان اظہر صاحب حفظه الله کے نام پوسٹ کردیا تاکہ وہ اس کا جواب لکھ ڈالیں۔ شیر بہادر خان صاحب کے بقول انھوں نے بھی ڈاکٹر بہاءالدين صاحب کا نمبر لے کر فون پر انھیں اس اخباری تراشہ کا بھر پور جواب دینے کے لیے متحرک اور قائل کر لیا۔ سبحان اللہ اس طرح سے شیر بہادر خان صاحب ڈاکٹر بہاءالدين محمد سليمان اظہر حفظه الله کے عظیم پروجیکٹ “تحریک ختم نبوت” کے حقیقی محرک ٹہرے۔
ڈاکٹر بہاءالدين صاحب نے جب اس غلط بیانی پر مبنی بیان کو پڑھا تو وہ بھی حیرت میں پڑگئے کہ اتنے بڑے بڑے لوگ کس قدر دیدہ دلیری سے غلط تاریخ بیان کرنے کی جرأت کرلیتے ہیں!
یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۸۷ءکی بات ہے۔ ڈاکٹر بہاءالدين صاحب ایڈنبرا یونیورسٹی میں فیلو شپ کررہے تھے جہاں آپ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خوش باش اور آسودہ زندگی گذار رہے تھے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے مجدد اور روح رواں حضرت مولانا محمود احمد میرپوری رحمه الله جو پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج میں آپ کے ساتھی رہ چکے تھے، انھیں ایڈنبرا سے برمنگھم کھینچ لائے، تاکہ اس مؤرخ سے جماعتی تاریخ لکھوانے کا کام لیا جائے۔ کچھ ابتدائی خاکے اور خطے بھی بنا دیے گئے تھے۔ ان خاکوں اور خطوں کے تعلق سے ایک مرتبہ برادر مولانا عبدالکریم ثاقب مدنی، صاحبِ الہجرہ ٹرسٹ برمنگھم نے بھی مجھے ان کی تفصیلات بتاکر مہر تصدیق ثبت کی تھی کیونکہ انھوں نے بھی ان خاکوں اور خطوں کے بنانے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ لیکن قدرت کو اس وقت ڈاکٹر صاحب سے یہ کام لینا منظور نہ تھا۔ ما قدر اللہ وشاء مولانا محمود احمد میرپوری رحمه الله اکتوبر ۱۹۸۸ء میں ایک سڑک حادثہ میں شہید ہوکر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اور ادھر ذمہ داران جمعیت نے ڈاکٹر صاحب کو جمعیت سے رخصت دے دی۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول اسی اہم کام کی خاطر وہ اڈنبرا کی settled زندگی کو خیرباد کرکے برمنگھم منتقل ہوئے تھے۔ لیکن مولانا محمود صاحب کی وفات بعد نہ صرف ان کے خواب بلکہ ان کا گھر بھی بکھر کر رہ گیا۔ (یہ دکھ بھری داستان ڈاکٹر صاحب کی خود کی آواز میں میرے پاس محفوظ ہے)
برادر عبدالکریم ثاقب نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی جمعیت سے علیحدگی کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر جاکر انھیں مولانا محمود میرپوری رحمه الله کی موجودگی میں جماعتی تاریخ کی تیاری کے جو خاکے اور خطے بنائے گئے تھے اس پر الگ سے مل کر کام کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کی تصدیق ڈاکٹر صاحب نے بھی کی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب جمعیت کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کئی الجھنوں اور مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔ چنانچہ آپ اچھی ملازمت پانے کے لیے سوشل اسٹڈیز کے ایم اے کورس کی تکمیل اور اس کی سند کے حصول کے لیے لیسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لے کر مصروف ہوگئے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے پھر کسی موقع پر اس کی تفصیلات پر روشنی ڈالوں گا۔ ان شاءالله
ڈاکٹر صاحب کے لیے تاریخ اہل حدیث اور تاریخ تحفظ ختم نبوت کا موضوع کوئی نیا نہیں تھا۔ آپ ۱۹۷۰ء کی دہائی کی ابتدا ہی میں اس میدان میں بہت سارا کام کرکے جماعت کے اکابرین کی نظر میں آچکے تھے۔ تحریک ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث، ان دونوں موضوعات پر آپ کے کئی ایک معرکہ آراء مضامین اخبار اہل حدیث، الاعتصام، المنبر، ترجمان الحديث، محدث وغیرہ میں جگہ پا کر جماعتی حلقوں میں داد تحسین حاصل کر چکے تھے۔ فن تاریخ کے ماہرین مثلاً مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا اسحاق بھٹی رحمهم الله وغیرھم آپ کے مضامین کو قطع و برید کے بغیر من وعن شائع کرکے سند دے چکے تھے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کا بتایا ہوا ایک اہم تاریخی واقعہ یاد آرہا ہے جس کا تعلق براہ راست موضوع سے ہے۔ ۱۹۸٤ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جہاں آپ پروفیسر تھے اس وقت آپ نے اپنے شاگرد رشید جناب غلام رسول صاحب کے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مقالہ کا جو عنوان تجویز کیا تھا وہ یہی “تحریک ختم نبوت” تھا۔ آپ نے اس مقالہ کے مشرف و نگران بن کر صاحب مقالہ کی مکمل رہنمائی و سرپرستی کی۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اس کے حکومتی عصری اداروں میں اس عنوان پر یہ پہلا مقالہ تھا۔ اور پورے پاکستان میں ڈاکٹر صاحب پہلے شخص تھے جو تحریک ختم نبوت کے موضوع کو دینی مدرسوں اور مسجدوں سے نکال کر ملک کے مین اسٹریم حکومتی اداروں میں متعارف کروایا۔ لیکن ستم ظریفی کہیے یا تاریخ مسخ کرنے کا نام دیجیے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے مقالات کی فہرست میں اس مقالہ کا ذکر محذوف ہے۔
بات اخبار کے تراشہ کی چل رہی تھی جو کہیں اور نکل گئی۔ بہرحال ڈاکٹر بہاءالدين صاحب کے لیے اس اخبار کے مضمون کا جواب لکھنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔
چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ کے ریکارڈ کو درست کرنے کی خاطر خلوص دل سے چند صفحوں پر مشتمل ایک جواب لکھ کر جمعیت کے ماہنامہ “صراط مستقیم” برمنگھم میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔ یہ حکایت اس قدر دلچسپ تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے دوسری، تیسری پھر چوتھی قسط لکھ ڈالی۔ الغرض یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے ساٹھ قسطوں تک جا پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ محض کام کی ابتدا تھی۔ لیکن افسوس برطانیہ میں مقیم بعض معزز دیوبندی بزرگوں کے مسلسل زبانی وتحریری مطالبہ پر مجلس ادارت ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم نے فروری ۲۰۰۱م میں اس سلسلہ مضامین کی اشاعت کو روک دیا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس سلسلہ کی اگلی کئی قسطوں کا مواد تیار ہوچکا تھا جو ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم میں شائع ہونے سے رہ گیا تھا۔ جس کی ضخامت شائع شدہ ساٹھ قسطوں کا ایک ثلث تھی۔ ادارہ صراط مستقیم برمنگھم نے اپنے میگزین میں چھپی ساٹھ قسطوں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا اور جب یہ مسودہ نظر ثانی کے لیے ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے اس مسودہ میں اپنے پاس موجود غیر شائع شدہ ایک ثلث حصہ کو بھی شامل کرکے ادارہ صراط مستقیم کے ذمہ داروں کے حوالے کیا۔ چنانچہ ادارہ صراط مستقیم نے جناب قاسم رضوی صاحب بلیک پول، جناب جاوید صاحب مانچسٹر اور مرحوم جناب محمد اظہر صاحب کے مالی تعاون سے یہ مسودہ پاکستان بھیج کر مکتبہ قدوسیہ لاہور سے کتابی شکل میں اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شائع کروایا۔ جو بعد میں ڈاکٹر صاحب کی تحریک ختم نبوت کی پہلی جلد بن گئی۔ بعد میں اسی جلد کو ڈاکٹر صاحب نے دو مرتبہ اپنے خرچہ پر شائع کروایا۔
ڈاکٹر بہاءالدين صاحب کے مضامین نے جہاں ہزاروں محبین کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی تھی، وہیں کئی ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میرا انڈیا جانا ہوا۔ اس سفر میں مادر علمی جامعہ دارالسلام عمرآباد بھی جانا ہوا جہاں میرے مربّی خاص واستاد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا ظہیرالدین اثری رحمانی رحمه الله سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جن سے بیسوں سالوں سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ آپ نے میری اور والدین کی خیریت دریافت کرنے کے بعد فرط محبت سے جو پہلا سوال کیا تھا وہ ڈاکٹر بہاءالدين صاحب ہی کی بابت تھا۔ استاذ محترم ڈاکٹر صاحب کے تاریخی، تحقیقی اور دقیق مضامین سے بہت متأثر تھے۔ اور آپ نے ڈاکٹر صاحب کی جماعتی تاریخ دانی کو بھی کافی سراہا۔
ڈاکٹر بہاءالدين صاحب سے میرا تعلقِ خاطر ۱۹۸۸ء سے تھا ہی، لیکن استاد محترم شیخ الحدیث مولانا ظہیرالدین اثری رحمانی رحمه الله کی تعريف وتوثیق کے بعد میرے نزدیک ان کی قدر و منزلت مزید بڑھ گئی۔
ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم میں تو اس سلسلہ مضامین کی اشاعت بند ہوگئی تھی، لیکن لوگوں کا مطالبہ جاری تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب میں ڈاکٹر صاحب کے پروجیکٹ میں شامل ہوکر اس سلسلہ کو آگے بڑھانے میں جٹ گیا۔ مواد کو اکٹھا کرنے اور ڈاکٹر صاحب کو منانے میں لگ بھگ تین سال لگ گئے، اللہ کریم کے وعدہ “والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا” کے مطابق بالآخر مجھے کامیابی مل گئی۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے دوسری جلد تیار کردی جس کو میں نے اپریل ۲۰۰۵ء میں اپنے مخلص دوست حافظ شکیل میرٹھی صاحب حفظه الله کے ذریعہ ان کے ادارہ اشاعة السنة دہلی سے شائع کروایا۔ جنھوں نے میرے ذریعہ ڈاکٹر صاحب سے اجازت لے کر پہلے ہی جنوری ۲۰۰٤ء میں جلد اوّل شائع کرنے کا شرف حاصل کرلیا تھا۔ حافظ شکیل میرٹھی صاحب خالص جماعتی ذہن رکھنے والی شخصیت ہیں، میں نے کسی بڑی مصلحت کے تحت حافظ شکیل میرٹھی صاحب کو اعتماد میں لے کر تیسری جلد مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند سے دسمبر ۲۰۰۵ء میں شائع کروایا۔ اس کے بعد ۲۰۰٦ء میں ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلہ کو پاکستان سے اپنے ذاتی سرمایہ سے شائع کروانا شروع کیا۔ اللہ عزوجل نے اس پروجیکٹ میں اس قدر برکت عطا کی کہ سلسلہ مضامین، سلسلہ کتب بنا، پھر یہ سلسلہ کتب ایک Reservoir انسائکلوپیڈیا کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ الحمدلله اب تک ساٹھ جلدیں پاکستان سے شائع ہوچکی ہیں۔ مركزى جمعيت اہل حدیث ہند سے بھی یہ انسائکلوپیڈیا دھیرے دھیرے چھپ رہا ہے۔ معلوم رہے ڈاکٹر صاحب نے اپنی ویب سائٹ drsuleman.com پر تحریک ختم نبوت کی ۷٤ جلديں اپلوڈ کردی ہیں۔ اسی طرح سے آریہ سماج کی تردید پر ہمارے اسلاف کرام رحمهم الله نے جو بھرپور خدمت انجام دی ہے، اس کا معتدبہ حصہ بھی ڈاکٹر صاحب نے بشکل پی ڈی ایف اپنی اسی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔ شائقین خواتین و حضرات یہاں سے جب چاہیں استفادہ کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی یہ بھی ایک اہم ترین خدمت ہے جس کو لوگ صدیوں یاد رکھیں گے اور انھیں دعائیں دیں گے۔ان شاءالله
ڈاکٹر صاحب کی تحریک ختم نبوت انسائکلوپیڈیا کی ایک یونیک اور بے مثال خصوصیت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک انصاف پسند، دیانتدار مؤرخ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تحریک ختم نبوت کی اپنی کتب میں اہل حدیث حضرات کے علاوہ جن جن لوگوں نے اس ضمن میں کام کرکے حصہ ڈالا ہے ان سب کی خدمات کا بھی کھلے دل سے تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتب میں آپ کو دیوبندی، بریلوی، بہائی، پارسی، عیسائی حتی کہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اس ضمن میں کوئی حصہ ڈالا ہے تو اس کا بھی ذکر آپ کو ان کتب میں ملے گا۔ ایسی مثال اور کشادہ ظرفی آپ کو کہیں اور نہیں مل پائے گی۔
اسی اثنا میں محبی ڈاکٹر عزیر شمس صاحب حفظه الله مکہ نیز اس حقیر سمیت شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا ثناءالله سيالكوٹی وغیرھم کی خواہش اور تحریک پر ڈاکٹر صاحب نے “تاریخ اہل حدیث” کو مرتب کرنے کا کام بھی شروع کردیا۔ چنانچہ تاریخ اہل حدیث کی پہلی جلد مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند سے ۲۰۰۷ء میں اور پاکستان سے ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی۔ الحمدلله یہ کام بھی حیرت انگیز طور پر پھیل چکا ہے۔ جس کی آٹھ ضخیم جلدیں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے مکتبہ ترجمان دہلی سے شائع ہوکر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ جبکہ پاکستان سے ابھی تک چار جلدیں چھپ سکی ہیں۔
الحمدلله دونوں پروجیکٹ پر مزید کام جاری ہے۔
اس تعارفی تمہیدى کلمات کے بعد اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
پچھلے کچھ عرصہ میں دنیا بھر میں ڈاکٹر بہاءالدين صاحب کی خدمات جلیلہ کا اعتراف کرتے ہوئے انڈیا، پاکستان، برطانیہ وغیرہ کی جمعیتوں کے علاوہ مختلف ادارے اور شخصیات نے ڈاکٹر صاحب کو توصیفی اسناد اور تمغوں سے سرفراز کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دست راست اور معاون اوّل و خاص ہونے کی وجہ سے مخلصین نے اس حقیر کو بھی فراموش نہیں کیا۔ انڈیا کی مرکزی جمعیت اور کچھ اداروں سمیت پاکستان کے کچھ اداروں نے بھی اس حقیر کو تمغوں اور اعزازات سے نواز کر حوصلہ افزائی کی ہے۔ فجزاھم الله خيرا
اللہ جزائے خیر دے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے میرے ہمعصر ساتھی، جوشیلے نوجوان، شعلہ بیان مقرر، جماعت کے متحرک کارکن، دوست ومحب شیخ عبدالصمد معاذ مدنی حفظه الله کو جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کے وفا شعار اطاعت گذار فرزند چوہدری سہیل اظہر صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے بھانجہ ڈاکٹر حسن رشید صاحب سے مل کر ایک اعزازی ادارہ بنام “ختم نبوت ریڈرز کلب” کی داغ بیل ڈالی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد ڈاکٹر صاحب کی کتب کو بلا تفریق مسلک و مکتبِ فکر تمام اہل علم تک پہنچانا ہے۔ تاکہ اس علمی اور تحقیقی کام کا وسیع پیمانے پر فائدہ ہو اور یہ ذخیرہ صحیح مقام تک پہنچ جائے۔ اللہ جزائے خیر دے چوہدری سہیل اظہر صاحب کو جو رات دن اس پروجیکٹ کے پیچھے لگے رہتے ہیں، اپنی کار میں پندرہ پندرہ گھنٹے تک کا سفر کرکے دور دراز مقامات پر پہنچ کر اہل علم کو یہ کتب پہنچا آتے ہیں۔ اسی طرح پچھلے کچھ عرصہ سے اس پلیٹ فارم سے ڈاکٹر بہاءالدين صاحب کی تجویز، مشورہ اور تعاون سے ایک نیا کام اور ایک نئی خدمت کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ ملک میں کئی اہم شخصیات جو “عقیدہ ختم نبوت” پر گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس ضمن میں ان کی خدمات کو منظر عام پر لایا جائے۔ ان کے اعزاز میں تکریمی توصیفی تقریب منعقد کرکے انھیں شیلڈ دی جائے اور جو سفید پوش ہیں، انھیں مالی اکرامیہ سے بھی نوازا جائے۔ اس ضمن میں خصوصی طور پر “ڈاکٹر بہاءالدين ايوارڈ” متعارف کرایا گیا جو منتخب شدہ تمام افراد کو دیا جائے گا۔ حقیقت میں یہ بہت اہم اقدام ہے۔ جو بڑے بڑے اداروں اور تنظیموں کے کرنے کا کام تھا لیکن خوش نصیبی سے یہ ڈاکٹر صاحب اور ختم نبوت ریڈرز کلب کے ذمہ داروں کے حصہ میں آیا ہے۔ الحمد للّٰه اب تک دو خواتین اور کئی علمائے کرام کو ڈاکٹر بہاءالدين ايوارڈ دیا جاچکا ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک تقریب ۱٦ آگست ۲۰۲۰ء کو فیصل آباد شہر کے وسط میں واقع جماعت کے قدیم دینی ادارہ “کلیة دارالقرآن والحديث” میں منعقد کی جارہی ہے۔ جس میں جماعت کے علاوہ دیگر مکتب فکر کے اہل علم بھی حاضر ہوکر اس تقریب کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے اس سے قبل اور اس تقریب میں جن جن علمائے عظام اور معزز خواتین کو ان کی خدمات کی بدولت اس اعزاز سے نوازا گیا ہے، ان سب کی خدمت میں میں تہ دل سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو روز محشر میں رسول اکرم خاتم النبیین صلی الله عليه وسلم کی شفاعت کا مستحق بنائے اور جنت الفردوس میں جوار نبی کائنات میں جگہ نصيب كرے۔ آمین
ختم نبوت ریڈرز کلب کے چیئرمین شیخ عبدالصمد معاذ صاحب حفظه الله اور ان کے رفقاء کا بھی میں تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے اس خاکسار کو بھی اس تقریب کی مناسبت سے کچھ کلمات لکھنے اور بالواسطہ اس پروگرام میں شریک ہونے کا موقع عنایت کیا۔ فجزاهم الله خيرا
اخیر میں اپنے دوست محسن جماعت وملت ڈاکٹر بہاءالدين محمد سلیمان اظہر صاحب حفظه الله کا شکریہ ادا کیے بغیر اپنی بات مکمل نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر صاحب کا جماعت کی تاریخ لکھنا اور اس کا اہل ہونا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے۔ لیکن دنیا ان سے اس سے زیادہ اس بات پر حیران ہے اور ان پر رشک کر رہی ہے کہ یہ شخص یہ کام خود کا سرمایہ لگاکر کر رہا ہے۔ پاکستان میں تحریک ختم نبوت کی ساٹھ جلدیں اپنے سرمایہ سے شائع کروائی ہیں۔ پھر ان کو مفت تقسیم کروارہا ہے اور اسی شخصیت کے سرمایہ سے آج کی تقریب کا ایک ایک حصہ بھی وجود میں آیا ہے۔ میرے علم کے مطابق جماعت کی تاریخ میں نواب صدیق حسن خان آف بھوپال رحمه الله کے بعد ایسی مثال مجھے کہیں نہیں ملتی! ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء
اس موقع پر تحديث نعمت کے طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ کی توفیق سے اور اللہ کے لیے میں ڈاکٹر صاحب سے محبت کرتا ہوں، ان کا راز دار ہوں، معاون خاص ہوں، غمخوار ہوں، معتمد ہوں، خوشی اور غم میں شریک، بیماری اور مشکلات میں ساتھ دینے والا۔ آپ کے دونوں پروجیکٹ میں حتی المقدور ہر قسم کا تعاون کرتا چلا آرہا ہوں۔ آپ کے مطلوبہ مواد کو جگہ جگہ سے تلاش کر کے آپ کے قدموں میں ڈالا ہے۔ آپ کو یاس اور ذہنی الجھنوں سے نکال کر پر امید بناکر متحرک رکھتا ہوں اور آپ سے بھرپور کام لینے کا شرف حاصل کرچکا ہوں۔ سچ پوچھیے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ الحمدلله مجھے فخر ہے پچھلے بیس سالوں میں عصائے موسی بن کر میں نے آپ کا ساتھ دیا ہے اور الحمدلله یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے صاحبزادے چوہدری سھیل اظہر صاحب نے صاف دلی اور کھلے الفاظ میں اعتراف کرتے ہوئے کئی جگہوں پر اس کا مختصر وطویل تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور میں ایک دوسرے کے تعلق اور دوستی کو اللہ کا انعام سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں ڈاکٹر صاحب سے تعلق اور ان کے ساتھ تعاون میرے لیے ایک بڑا اعزاز بن گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک مرتبہ مجھے مخاطب ہوکر لکھا کہ شیرخاں صاحب! “میرے تذکرہ کے ساتھ آپ کا بھی نام آتا ہے اور میرے ساتھ احباب آپ کو بھی دعائیں دیتے ہیں”۔ ڈاکٹر صاحب کے تعاون اور ان کا مسلسل ساتھ دینے پر ان کے صاحبزادہ برادر مکرم چوہدری سھیل اظہر صاحب نے بھی کئی مرتبہ مجھے حوصلہ افزا باتیں لکھی ہیں۔ اس موقعہ پر “صاحب البيت ادرى بما فيه” کے مصداق ان کے دو تبصرے یہاں کوٹ کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ جناب سھیل اظہر صاحب لکھتے ہیں:
”برادرم شیرخان جمیل احمد عمری حفظه الله – الله آپ کے علم وعمل اور عمر میں برکت دے۔ اگر برطانیہ میں ڈاکٹر صاحب کو آپ جیسے مخلص انسان کا ساتھ نصیب نہ ہوتا تو شاید یہ سلسلہ کتب آج ہم تک نہ پہنچتا۔۔۔۔آپ نے نہ صرف خود بلکہ آپ کے اہل خانہ نے بھی ڈاکٹر صاحب کا اتنا ساتھ دیا ہے جس کے لیے مجھے یقین ہے اللہ تعالی آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ إن شاءالله(۲۱ ستمبر ۲۰۱۹ء)”
ایک دوسری جگہ سہیل صاحب لکھتے ہیں:
“ماشاءالله! الله تعالى شيرخان جميل احمد عمرى حفظه الله کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے آمین۔ انھوں نے جس طرح سے مؤرخ اہل حدیث کے لیے دن رات ایک کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی ان پر اپنی خاص رحمتوں کا نزول فرمائیں گے۔ مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں کہ اگر شیرخاں صاحب جیسے مخلص ہمدرد انسان کا ساتھ نہ ہوتا تو یقینی تھا کہ بر صغیر پاک و ہند کے دور دراز مقامات پر بکھرے موتی چن چن کر یہ ڈاکٹر صاحب کے پاس جو لاتے رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب ان کی چھان بین کرکے ہم اہل حدیثان پاک و ہند کی خدمت میں پیش کرتے رہے ہیں یہ وقت کے ساتھ مٹی کی زینت بن جاتے تھے۔ جناب ببر شیر صاحب کا ایک قدم ہند میں ہوتا ہے تو دوسرا برطانیہ میں، لیکن آپ ہمہ وقت ڈاکٹر صاحب کی دل جوئی میں لگے رہتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالی ہی ان کو اجر عظیم عطا فرمائیں گے إن شاءالله”۔
میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر دے تاکہ آپ بقیہ کام بھی مکمل کرسکیں۔ انھیں دنیا میں مزید عزتوں سے نوازے اور جنت الفردوس میں جوار رحمت عالم خاتم النبیین صلی الله عليه وسلم میں جگہ دے۔ آمین
سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين
(۱۵ اگست ٢٠٢٠ء)
تقبل الله جهودكما