حماد انجم ایڈوکیٹ کی رباعی نگاری

ڈاکٹر شمس کمال انجم ادبیات

حماد انجم ایڈووکیٹ نے مشرقی یوپی کے قصبہ لوہرسن بازار ضلع سنت کبیر نگر میں ۱۹۵۶ء میں ایک پڑھے لکھے گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد محترم مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم (۱۹۳۲ء-۲۰۱۳ء) ایک متنوع الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ آپ بیک وقت شاعر، ادیب، عالم، خطیب، صحافی اور طبیب تھے۔شاعری میں آپ سرشارکسمنڈوی اور مولانا لطافت علی ہما صدیقی کے شاگرد تھے۔ یہ دونوں حضرات علامہ محوی لکھنوی کے شاگرد تھے۔ حماد انجم نے اپنے والد کے زیر سایہ ۱۹۷۲ء میں اس وقت میدان شعر وسخن میں قدم رکھاجب وہ ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔شاعری کاآغاز حمد ونعت سے کیا۔ اس کے بعد شاعری کی منجملہ اصناف میں طبع آزمائی کی۔ بہار حمد کے نام سے آپ کا سب سے پہلا شعری مجموعہ دسمبر ۱۹۸۱ء کے اخیر میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد شمع حرا کے عنوان سے ۱۹۸۹ء میں ان کا دوسرا مجموعہ منظر عام پر آیاجو نعتوں پر مشتمل تھا۔اس کے بعد ’’خوشۂ کشت حرم‘‘ کے عنوان سے حمد ونعت او رنظموں کا تیسرا مجموعہ۲۰۰۶ء میں اور ’’شاخ گل تر ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۸ء میں ایک اور شعری مجموعہ منظر عام پرآیاجس میں حمد ونعت کے علاوہ میر ؔوغالبؔ کی زمینوں میں کہی گئی غزلیں شامل کی گئی ہیں۔۲۰۱۴ء میں ان کی نظموں کا ایک مجموعہ ’’نور نادیدہ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔آپ پیشے سے وکیل تھے مگر شعر وسخن ہی آپ کی اصل شناخت تھے۔آپ کے مقالات کا مجموعہ ’’مقالات حماد انجم‘‘ کے نام سے اسی سال ۲۰۲۰ء میں منظر عام پر آیا ہے۔فروری ۲۰۱۵ء میں مختصر علالت کے بعد انسٹھ سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہوجانے سے آپ کا انتقال ہوا۔
آپ نے حمد ونعت، غزلیں،نظمیں (پابند اور آزاد)، گیت، رباعی، قطعات، ثلاثی، دوہے، ہائیکو، ماہیے اور ترانے جیسے اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔رباعی کا ایک مجموعہ آپ نے ’’بربط بردوش‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھامگر وہ ابھی بھی تشنۂ طباعت ہے۔یر نظر مضمون میں ہم حماد انجم کی رباعیات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
رباعی اردو شاعری کی ایک معتبر صنف سخن ہے۔قطعہ کی طرح رباعی بھی چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔لیکن ان دونوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ قطعہ کے برخلاف رباعی کے اپنے مخصوص اوزان ہیں اور انھی اوزان میں ہی رباعی کہی جاتی ہے۔یہ ایک مشکل فن ہے۔ ہر کس وناکس کے زیر دام نہیں آتی ہے۔جوش ملیح آبادی کے بقول ’’رباعی چالیس پچاس برس کی مشاقی کے بعد ہی قابو میں آتی ہے‘‘۔رباعی کے بارے میں حماد انجمؔ اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’رباعی شاعری کی مشکل ترین اور دشوار صنف ہے۔ یہ کوزے میں دریا سمونے کا کام ہے۔ رباعی کا پیکر بڑا ٹھیٹ اور آرٹ بہت دقت طلب ہوتا ہے۔ لفظوں کے برتاؤ، نزاکت وموسیقیت میں توازن قائم ہونا چاہیے۔ چاروں مصرعوں کو باہم مربوط اور ایک سانچے کا ڈھلا اور ایک کانٹے کا تلا ہوا ہونا چاہیے ورنہ لطافت زائل ہوسکتی ہے۔ تیسرے مصرعے میں اسی عروج کی طرف لطیف اشارہ ہونا چاہیے جسے چوتھے مصرعے میں بے نقاب کیا جاتا ہے۔ جو شاعر تیسرا مصرع جتنی قوت سے کہے گا وہ رباعی کے آرٹ کا اتنا بڑا ماہر ہوگا۔ اردو کے مشہور رباعی نگاروں کے یہاں یہ جمال وجلال درجۂ کمال پہ نظر آتا ہے‘‘۔ (مقالات حماد انجم ص ۱۸۲)
مزید لکھتے ہیں:
’’رباعی کہنا بڑا مشکل کام ہے۔ شاعری کی اس وادی سے ہمیشہ ’’ ہل من مبارز‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ شہسواران فن اس میدان کارزار میں اترے تو کچھ شہید ہوئے تو کچھ غازی کہلائے۔ اسے کوئی مدار المہام مکمل فتح نہ کرسکا لیکن میدان کبھی رجز خوانوں سے خالی بھی نہ رہا‘‘۔ (مقالات حماد انجم ص ۱۷۱)
چنانچہ شروع سے لے کر آج تک بہت سارے شاعروں نے اس فن میں ہنر آزمائی کی اور نام بھی کمایا۔ بہت سارے رباعی نگاروں کی طرح حماد انجم نے بھی بہت ساری رباعیاں کہی ہیں۔
حماد انجمؔ کی رباعیاں مختلف موضوعات ومضامین کو محیط ہیں۔حمد نعت، سیرت مصطفیﷺ کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے مختلف مسائل وموضوعات کو انھوں نے اپنی رباعیوں کا موضوع بنایا ہے۔کچھ رباعیوں کو انھوں نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ مقالات حماد انجم میں ’’میر ی رباعی‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ رباعیاں گویا فی نفسہ رباعی کی تعریف وتوصیف بھی ہیں۔ ان کی رباعی گوئی کے فکر وفن کا اشاریہ بھی ہیں ۔کہتے ہیں ؎
برگِ گل و لالہ ہے رباعی میری!
مہتاب کا ہالا ہے رباعی میری
پھولوں کا ستاروں کا ہے سنگم اس میں
خوشبو ہے ، اجالا ہے رباعی میری
——
پیمانے میں ڈھالی ہے رباعی میری
پھولوں نے اجالی ہے رباعی میری
خیام کے باسن کی جھلک ہے اس میں
پُرکھوں کی پیالی ہے رباعی میری
——
الہام ہے آمد ہے رباعی میری
بے ساختہ سر زد ہے رباعی میری
تم جو بھی کہو گے وہ سنائی دے گا
آواز کا گنبد ہے رباعی میری
——
غالب کی غزل ہے کہ رباعی میری
کاغذ پہ کِنول ہے کہ رباعی میری
اک حسن پہ سو حسن فداہے انجمؔ
یہ تاج محل ہے کہ رباعی میری
یہ رباعیاں حمادانجم کی رباعی گوئی کے معیار کا تعین کرتی ہیں۔ یہ سادی رباعیاں نہیں ہیں۔ ان میں شعریت ہے۔ معنویت ہے ۔ تہ داری ہے۔ یہ رباعیاں حماد انجم کی رباعیوں کا قصیدہ بھی ہیں اور ان کی رباعی گوئی پر قدرت کا تعلیانہ اظہاربھی۔
پہلی رباعی میں حماد انجمؔ کہتے ہیں کہ ان کی رباعیاں یوں ہی سادی سی نہیں ہوتیں۔اسی لیے انھوں نے اپنی رباعی کو عام درختوں کے پتوں سے نہیں بلکہ گل ولالہ کی پتیوں سے تشبیہ دی ہے۔ گل ولالہ خوشبو سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کی پتیوں کو اگر کہیں جھاڑ دیا جائے۔ کسی شاہراہ پر ، کسی بستر پر، کسی حجرے میں اگر انھیں بکھیر دیا جائے تو وہاں سے گزرنے والے کی مشام جاں معطر ہوجاتی ہے۔ حماد انجم کہتے ہیں کہ میری رباعیوں کو پڑھ کر انسان کا ذہن ، اس کا دل اور اس کے قلب وجگر معطر ہوجاتے ہیں۔ وہ ان کی بھینی بھینی خوشبوؤں سے مدہوش ہوجاتا ہے۔دوسرے مصرعے میں انھوں نے اپنی رباعیوں کو چاند کے ہالے سے تشبیہ دی ہے۔ چاند تو فی نفسہ حسن وجمال کا استعارہ ہے۔ اور اگر چاند کا ہالہ ہی کہیں بنادیاجائے تو موسم کتنا کیف آگیں بن جاتا ہے۔ یہی حال ان کی رباعیوں کا ہے۔ یہ رباعیاں نہیں مہتاب کا ہالہ ہیں۔ تیسرے اور چوتھے مصرعے میں رباعی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ان دونوں مصرعوں میں لف ونشر مرتب کی صنعت پائی جاتی ہے۔ پھولوں کے ساتھ خوشبو، ستاروں کے ساتھ اجالے کی صفات کو مرتب کیاگیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میری رباعی گل ولالہ کی پتیوں سے عبارت ہے۔ مہتاب کے ہالے کی طرح ہے۔ یعنی میری رباعی پھولوں اور ستاروں کا سنگم ہے۔ پھول اور ستارے جہاں ایک ساتھ اکٹھا ہوجائیں تو وہاں خوشبوہی خوشبو اور اجالا ہی اجالا ہوگا۔ کیا کمال کی رباعی کہی گئی ہے۔ سبحان اللہ۔ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
دوسری رباعی میں دیکھیے شاعر نے کیا خوب استعارے کا میخانہ سجایا ہے۔ شاعر نے یہاں اپنی رباعی کو کاس میں ڈھالے گئے جام سے تشبیہ دی ہے۔ رباعی کے فارمیٹ کو پیمانہ اور اس میں پیش کیے گئے تخیل اور احساس کو جام سے تشبیہ دیتے ہوئے بتایاہے کہ میری رباعی کسی پیالے میں کسی کاس میں کسی پیمانے میں پروسے گئے جام کی مانند ہے جو اسے پی لے گا مدہوش وسرمست ہوجائے گا۔ دوسرے مصرعے میں شاعر اپنی رباعیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری رباعی کو پھولوں نے اجالا ہے۔ یعنی یہ رباعیاں فکر واحساس کی خوشبو سے معمور ہیں۔تیسرے اور چوتھے مصرعوں نے واقعۃً اس رباعی کو آسمان پر اٹھادیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میری رباعی میں خیام کے رباعیوں کی جھلک ہے۔ وہ خیام جو رباعی کے لیے ہی شہرت رکھتا ہے۔ اسی خیام کی رباعیوں کی جھلک ہے میری رباعی میں یعنی اسی کیف وکم اور معیار واعتبار کے ساتھ میری رباعیاں بھی کہی گئی ہیں۔ یہاں خیام کے باسن کے استعارے نے تلمیح کے جمال میں جلال پیدا کردیا ہے۔ اور پھر جب وہ کہتے ہیں کہ پرکھوں کی پیالی ہے رباعی میری تو پرکھوں سے بشمول خیام جتنے بھی رباعی نگار ہیں سب اس مصرعے میں خیمہ زن ہوجاتے ہیں۔ اتنی بڑی تعلیانہ خو کے ساتھ یہ رباعی کہی گئی ہے کہ یہ شعریت سے معمور ہوگئی ہے۔ تہ دار ہوگئی ہے۔
تیسری رباعی میں شاعر نے اپنی رباعی کو الہام اور آمد کہا ہے۔ اسے آواز کے گنبد سے تشبیہ دی ہے۔اپنی رباعیوں کو الہام اور آمد کہہ کر شاعر نے دو باتیں کہنی چاہی ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ رباعیاں اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہوتی ہیں۔ اسی لیے ان میں بڑا فنی کمال ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ان رباعیوں کو کہنے کے لیے کسی غور وفکر یا شاعرانہ ماحول اور فضا بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔بلکہ یہ برجستہ نازل ہوتی ہیں۔ اور پھر تیسرے اور چوتھے مصرعوں میں اس رباعی کا خلاصہ یوں پیش کیاگیا ہے کہ میری یہ رباعیاں جام جمشید کی طرح آواز کے گنبد سے عبارت ہیں۔ ان میں آپ جو بولیں گے وہی سنائی دے گا۔گویا کہ شاعر کی رباعیاں ایسی تہ دار ہیں کہ آپ ان میں جس مفہوم کو بھی ٹٹولیں گے وہ مفہوم اس رباعی میں آپ کو نظر آئے گا۔ اب اس سے بڑا شعر یا اس سے بڑی رباعی بھی کوئی ہوسکتی ہے جوذہن میں آنے والے ہر مفہوم کی متحمل ہو۔
چوتھی رباعی میں شاعر نے اپنی رباعی کو غالب کی غزل اور تاج محل سے تشبیہ دی ہے۔ آپ بتائیے کہ اردو شاعر ی میں غالب کی غزل اورہندوستان کی تاریخ میں تاج محل سے بھی بڑی چیز کوئی اور شے ہوسکتی ہے کیا؟ شاعر کہتا ہے کہ میری رباعیاں بالکل غالب کی غزلوں کی طرح بے انتہا معنی خیز اور شعریت سے معمور ہوتی ہیں۔ میری رباعیوں کا ایک ایک لفظ کاغذ پہ اس طرح کھِلا کھلا سا لگتا ہے جیسے کہ کاغذ پہ کنول کھِلاہوا ہو۔ اور پھر اس کی معنویت دیکھیے کہ یہ بالکل تاج محل کی طرح بے انتہا حسین وجمیل ہیں اتنی حسین وجمیل اور ذو معنی کہ ان پر ساری دنیا کا جمال فدا ہوجائے۔ ایک شعر میں کسی شے کو غالب کی غزل ، کاغذ پہ کنول اور تاج محل سے تشبیہ دے کر اپنی رباعی کے محل کو تاج محل کے مساوی قراردینا یہ شاعرانہ فنکاری کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا ۔ حماد انجمؔ نے اپنی رباعیوں میں یہی فنکاری دکھاکر کمال کیا ہے۔
ایک نعت رباعی بھی ملاحظہ کریں ؎
وہ مہر عرب ماہ عجم نجم ہُدیٰ
وہ ابرِ کرم کالی گھٹا بادِ صبا!
سرسبز ہے شاداب ہے موسم اس کا
وہ نکہتِ گل بُوئے ختن رنگ حنا
اس رباعی میں شاعر نے رسول اکرمﷺ کی نعت کے پیرائے میں آپ کی تعریف وتوصیف کے موتیاں بکھیرے ہیں اور’’ مہر عرب، ماہ عجم، نجم ہدی، ابرکرم، کالی گھٹا، باد صبا،نکہت گل، بوئے ختن اور رنگ حنا‘‘ کے استعارے استعمال کیے ہیں۔ چار مصرعوں میں دس استعاروں کا استعمال شاعرانہ ہنر مندی کے سوااور کیا ہوسکتا ہے؟ شاعر کہتا ہے کہ میرے رسولﷺ اتنے خوب صورت ہیں کہ وہ عرب وعجم کے چاند ہیں۔ ہدایت کا ستارہ ہیں۔ عرب وعجم کے چاند سے شاعر نے رسالت مآب کی جامعیت کی طرف اشارہ کیاہے کہ آپ کسی خاص خطے کے نہیں، کسی خاص طبقے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی روشنی سارے عالم کے لیے ہے۔ آپ پوری دنیا کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے ہیں۔جس طرح چاند جب نکلتا ہے تو عرب وعجم ہر جگہ طلوع ہوتا ہے اسی طرح مہر رسالت بھی عرب وعجم سب کو محیط ہے۔ نجم ہدایت کے استعارے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح پہلے زمانے میں لوگ ستاروں سے وقت کا ، مہینے کا اور راستے کا تعین کرتے تھے اسی طرح آپﷺ کے ذریعے ہدایت کے راستے کا تعین ہوتا ہے۔آپ کی آمد سے ہدایت کا راستہ ملا۔ صراط مستقیم پر لوگ اسی طرح گامزن ہوئے جس طرح کہ پہلے زمانے میں ستاروں سے راستے معلوم کیے جاتے تھے۔دوسرے مصرعے میں آپ کو’’ابرکرم، کالی گھٹا اور باد صبا‘‘ کہہ کر یہ مراد لیا گیا ہے کہ آپ کی رحمت وسیع تر تھی۔ ہر کس وناکس ، اپنے اور غیر سب کے لیے اسی طرح تھی جس طرح کہ بارش جب برستی ہے تو کائنات کی ہر شے اس سے مستفید ہوتی ہے۔ کالی گھٹا سے دو معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ پہلا معنی یہ ہے کہ جس طرح جب گھٹا چھاتی ہے تو وہ آہستہ آہستہ پوری فضا کو اپنے احاطے میں لے لیتی ہے اسی طرح جب آپ نبی بن کر تشریف لائے تو آپ نے آہستہ آہستہ سارے عرب میں اپنا پیغام اسی طرح پہنچادیا جس طرح پوری فضا میں گھٹا چھا جاتی ہے۔دوسرا معنی مفہوم یہ ہے کہ اس سے آپ کے حسن وجمال اور آپ کی زلف عنبریں کا استعارہ بھی مرادلیا جاسکتا ہے۔ کہ آپ کی زلفیں بالکل کالی گھٹا کی طرح تھیں۔ باد صبا کے استعارے سے بھی کم وبیش یہی مفہوم مراد لیا گیا ہے۔جیسے پروائی چلتی ہے تو انسان کو بہت اچھا لگتا ہے اسی طرح آپ کی آمد سے ساری دنیا کو راحت نصیب ہوئی۔ امن وچین کی سانس لی گئی۔ بے راہ روی کا جو بازار گرم تھا اس پر قابو پایاگیا۔ ظلم وستم کی جو آندھیاں چل رہی تھیں ان کا خاتمہ ہوگیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ابر کرم، کالی گھٹا اورباد صبا کی مناسبت سے تیسرے مصرعے کی شاعر نے تخلیق کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بعثت کے بعد موسم انسانیت سر سبز وشاداب ہوگیا ۔ اور آپ نکہت گل، بوئے ختن بن کر ساری دنیا کو مہکاگئے۔ رنگ حنا کی طرح ساری دنیا کی ہتھیلیوں کو رنگ ونور سے آراستہ کرگئے۔نکہت گل ، بوئے ختن اور رنگ حنا کا استعارہ بھی بے انتہا بلیغ ہے۔ نکہت گل کا بھی دو مفہوم ہے۔ پہلا ظاہری۔ یعنی آپ کی خوشبو۔ آپ کا پسینہ جو کہ کسی بھی خوشبو سے سوا ہوتا تھا۔ مشک وعنبر سے بھی بڑھ کر ہوتا تھا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی دعوت ، نبوت اور رسالت ساری دنیا میں پھول کی خوشبو کی طرح سارے زمانے میں پھیل گئی۔ اسی طرح بوئے ختن کا بھی دو مفہوم ہوسکتا ہے کہ آپ کی خوشبو مشک سے بھی فزوں تر ہے۔ یا پھر آپ کی رسالت کی خوشبو مراد ہے۔ اسی طرح رنگ حنا سے بھی لفظی اور معنوی دونوں حسن وجمال کو مراد لیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا حماد انجمؔ کی رباعیوں کے موضوعات عصری حسیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے شاعر جس سماج میں سانس لیتا ہے اسی سماج کے مسائل کو آئینہ دکھاتا ہے۔ شیخ وبرہمن پر طنز کے تیر برسانے کی ایک قدیم روایت رہی ہے۔ حما د انجمؔ کی غزلوں میں بھی ہم نے اس موضوع پر کئی اشعار دیکھے۔ اسی روایت کوآگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے ایسی کئی رباعیاں کہی ہیں جن میں شیخ وبرہمن ، علماء اور داعیوں پر طنز کیاگیاہے۔ کچھ رباعیاںملاحظہ فرمائیں ؎
اعمال نہ مذہب کے موافق دیکھے
واعظ کی جماعت میں منافق دیکھے
پردہ جو ہٹایا ہے تو حیرت نہ گئی
احرام میں بھی فاجر و فاسق دیکھے!
——
یہ لہو و لعب ہے میاں فتویٰ تو نہیں
مذہب ہے کوئی کھیل تماشہ تو نہیں
دنیا کے لیے دین کا سودا انجمؔ
فتنہ ہے، خبردار! یہ تقویٰ تو نہیں
——
بازار میں اللہ قسم بکتے ہیں!
ایمان سے! پتھر کے صنم بکتے ہیں
یہ شیخ و برہمن ہیں دھرم کے تاجر
تم دیر خریدو کہ حرم، بکتے ہیں
——
وہ عیب سے آگاہ بھی ہو سکتا ہے
ضیغم کوئی روباہ بھی ہو سکتا ہے
نباض نہ داعی ہو تو مدعو انجمؔ
خطرہ ہے کہ گمراہ بھی ہو سکتا ہے
ان رباعیات میں شاعر نے مسلمانوں کے نہایت اہم اور معتبرطبقے کو اپنے طنز کا نشانہ بنایاہے۔ آج جس طرح سماج میں نفاق کا بازار گرام ہے۔ مادیت کی آندھی نے جس طرح روحانیت کے چھتنار درختوں کو اکھیڑ کر پھینک دیا ہے وہ ہمارے سماجی اور معاشرتی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ اگر اعمال بھی مذہب کے موافق نہ ہوں۔ واعظ قوم ہی نفاق کے جبے میں ملبوس ہوں ، احرام کے زیر جامہ فسق وفجور کی گرم بازاری ہو تو پھر آپ کیا کرسکتے ہیں۔ یہی بات شاعر نے پہلی رباعی میں اجاگر کی ہے۔
دوسری اور تیسری رباعی میں بھی کچھ اسی طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ آج جس طرح اہل جہالت فتوؤں کی مسند پر بیٹھ کر فتوے صادر کررہے ہیں۔ ہر کوئی اسلام کے بارے میں اظہار خیال کرتاہوا نظر آتا ہے۔ صحیح غلط احادیث بیان کرتا ہے۔ اس کی شناعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر اس رباعی میں ملت کے ٹھیکیداروں کو خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فتوی دینا لہو ولعب نہیں ہے۔ فتوی ایک ذمے داری کا کام ہے۔یہ کھیل تماشہ نہیں ہے۔ دنیا کے بدلے میں دین کا سودا کرنا درست نہیں ہے۔ نہ ہی تقوی اور طہارت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔
یہی سب وجوہات ہیں کہ آج مرد مومن بیمار ہوگیا ہے۔ اس کے سینے میں جو دل ہے وہ ایمان کی حرارت سے خالی اور عاری ہے۔ یعنی دریا تو ہے لیکن کوئی طوفان نہیں ہے۔ دل تو ہے مگر ایمان نہیں ہے۔ مرد مومن زندہ تو ہے مگر ایمانی حرارت غائب ہے ۔یعنی جسم تو ہے مگر زندگی کی حرارت سے عاری ہے۔رباعی ملاحظہ کریں حماد انجم کہتے ہیں ؎
دریا تو ہے لیکن کوئی طوفان نہیں
سینے میں تو دل ہے مگر ایمان نہیں
دیوارو درو بام ہیں سونے انجمؔ
ہے جسم تو موجود مگر جان نہیں
اس رباعی کے پہلے دو مصرعوں میں لف ونشر مرتب کی صنعت استعما ل کرتے ہوئے دل کو دریا سے اور ایمان کو طوفان سے تشبیہ دیتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ہمارے سینے ایسے ہی ایمان سے خالی ہوگئے ہیں جیسے کہ طوفان سے خالی کوئی دریا ہو۔ ظاہر ہے جب دریا طوفان سے خالی ہوگا، دل ایمان سے تو دل کی دنیابھی سونی سونی سی ہوگی۔ جسم ایسے ہوگا جیسے کہ اس میں جان ہی نہ ہو۔ اسی کیفیت کو تیسرے اورچوتھے مصرعے میں شاعرنے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ؎
دیوارو درو بام ہیں سونے انجمؔ
ہے جسم تو موجود مگر جان نہیں
ظاہر ہے جسم ہو اور جان نہ ہو تو ایسا جسم تو مردہ مانا جائے گا۔ گویا شاعر نے مرد مسلماں کو بلا روح بتایاہے اور کہا ہے کہ امت مسلمہ کے تن میں آج روح ہی نہیں ہے۔اس کی فضاؤں میں رونق نہیں۔ اس کے بحر دل کی موجوں میں اضطراب نہیں۔
حالانکہ شاعر کہتا ہے کہ ہمارا ماضی ایسا نہیں تھا۔ ہمارے دلوں میں ہمیشہ اضطراب کی کیفیت رہی۔ ہم نے باطل کی کلائی کو مروڑا۔ بہتے پانی کے دھارے کو موڑا۔ سوئے ہوئے سورج کوجھنجھوڑا۔ رباعی ملاحظہ کریں ؎
باطل کی کلائی کو مروڑا ہم نے
رُخ بہتے ہوئے پانی کا موڑا ہم نے !
حالات سے چلتی ہی رہی ہے اپنی
سوئے ہوئے سورج کو جھنجھوڑا ہم نے
اس کی وجہ ہماری مادیت پرستی ہے۔ ایمان سے ہمارے دلوں کا رخصت ہونا ہے۔ اعمال سے ہمارے سینوں کا خالی ہوجانا ہے۔ قارون کے خزانے کی طرح دنیا کی حرص وہوس کو دل میں بیٹھانے کی وجہ سے ہم نے ہر ہر بات میں حیلے بہانے، مکر وفریب کا سہارا لینا شروع کردیا اور ذلت وخواری ہمارا مقدر بن کر رہ گئی۔ اسی بات کو شاعر نے درج ذیل رباعی میں یوں بیان کیا ہے ؎
دیکھو تو ذرا کیسا زمانہ آیا!
ہر بات میں سو حیلہ بہانہ آیا
ایمان نہ اعمال بچے ہیں انجمؔ
قارون کا قدموں میں خزانہ آیا
مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا حالانکہ اتنا بھی اچھا نہیں لیکن سوچتا ہوں لکھ دوں۔ میں نے لکھا تھا ؎
ہمیں بہانوں کی عادت ہے پڑگئی ایسی
جو کوئی سچ بھی کہے تو بہانہ لگتا ہے
حیلے بہانے ہماری سرشت اور ہماری طبیعت کا حصہ ہیں۔جھوٹ فریب، مکر ، دغا اور کذب وافترا ہماری شناخت ہیں۔ کیونکہ قارون کے خزانے کو اپنے قدموں تلے لانے کے لیے ہم ہر جتن کرتے ہیں۔ اگر جتن نہیں کرتے تو بس ایمان کی۔ ایمان ہی وہ شے جو ہمارے ہر اہتمام سے باہر ہے۔
حماد انجمؔ نے جہاں سماج کے نہایت معتبر طبقے شیخ وملا پر طنز کے تیر چلائے ہیں۔ وہیں آج کے شاعروں کی بھی انھوں نے خبر لی ہے۔ ادب کے گرتے معیار پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔اور اس حوالے سے انھوں نے کئی رباعیاں کہی ہیں۔ کچھ رباعیات اس طرح ہیں ؎
لفظوں میں غزالوں کا تو رم رہنے دو
پھولوں کے تبسُّم کا بھرم رہنے دو
ہر بات سلیقے سے کہو تم ورنہ
یہ پرورشِ لوح و قلم رہنے دو
——
عجلت میں وہ یارائے تحمل نہ رہا
چہروں پہ تو غازہ ہے تَجمُّل نہ رہا
ہیں میر تقی میرؔ پشیماں انجمؔ
غزلوں میں ذرا سا بھی تغزل نہ رہا
——
بلّور کے ساغر کو ذرا چھلکا دو
نافے کو نئے ڈھنگ سے تم مہکا دو!
ہے آج نمائش سرِ بازار ہنر
الفاظ کو معنی کی قبا پہنا دو!
یہاں’’لفظوں میں‘‘استعارہ ہے اصناف شعر وسخن کااور غزالوں کا رم استعارہ ہے تخیل کی بلندی اور احساس کی نزاکت وندرت کا۔پھولوں کا تبسم استعارہ ہے شعر کے اسلوب اور اظہار کے طریقے کا۔ شاعر شعراء کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ شاعری ایسی کرو کہ اس کے مضامین دل میں گھر کرجائیں۔ پڑھنے یا سننے والے کو لگے جیسے یہ کوئی شعر نہیں غزالوں کا نافہ زار کھل گیا ہے او رشعر کو سن کر یا پڑھ کر مشام جاں معطر ہوگیاہے۔احساس کے ساتھ اظہار میں فکر کے ساتھ اسلوب میں ایسی کشش ہو کہ شعر سن کر ہر کوئی اس کی بھینی بھینی خوشبو سے مدہوش وسرمست نظر آئے۔ وہ یہ سمجھے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ شاعر کہتا ہے اگر کوئی شاعر اس طرح شعر کی تخلیق نہیں کرسکتا ۔ سلیقے سے کوئی بات نہیں کہہ سکتا ہے تو پرورش لوح وقلم اس کے بس کی بات نہیں۔ اسے یہ مشغلہ چھوڑ دینا چاہیے۔ وقت کے ضیاع کے علاوہ اسے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر شعر وسخن کا شغل رکھنے والے اس معیار پر پورا اترنے سے قاصر ہیں۔ایسی شاعری ہورہی ہے جو نری قافیہ پیمائی سے عبارت ہے۔ شعریت سے عاری ہے۔ معنویت سے خالی ہے۔ شعر وسخن کا یہ حال دیکھ کر ناخدائے سخن بھی پشیمان سے ہیں۔ وہ آج کی شاعری دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔ شکوہ کناں ہیں کہ آخر یہ کیسی شاعری ہے۔ کیسا کلام تخلیق کیاجارہا ہے جسے غزل تو نام دیا جاتا ہے لیکن وہ تغزل سے عاری او رخالی ہوتا ہے۔اور اسی بات کو شاعر نے دوسری رباعی میں کہنے کی کوشش کی ہے۔اور کہا ہے ؎
عجلت میں وہ یارائے تحمل نہ رہا
چہروں پہ تو غازہ ہے تَجمُّل نہ رہا
ہیں میر تقی میر پشیماں انجمؔ
غزلوں میں ذرا سا بھی تغزل نہ رہا
آج جس طرح کورونا کا قہر سارے عالم پر طاری ہے ایک زمانہ ایسا بھی آیا تھا جب سونامی نے مختلف علاقوں میں قیامت کا سماں باندھا ہوا تھا۔ایسے خوفناک اور پُر ہول مناظر سے آنکھوں کا سامنا ہوا تھا جو صور اسرافیل کا ٹریلر لگ رہا تھا۔ ساحل سمندر پر شور تھا۔خوفناک نظاروں سے نظر کانپ رہی تھی۔ پانی کی لہریں اٹھتی تھیں اور آس پاس کی تمام اشیاء کو خس وخاشاک کی طرح نگل لیتی تھیں۔ بڑے بڑے مکانات اور گاڑیاں سونامی کے طوفان میں کاغذ کی ناؤ کی طرح تیرتی نظر آئیں۔ اللہ نے وہ عذاب نازل کیا کہ تہذیب وتمدن کا غرور خاک آلود ہوگیا تھا۔انھی سب خیالات کا اظہار حماد انجمؔ نے متعدد ایسی رباعیات میں کیا ہے جنھیں سونامی رباعی کا نام دیا ہے۔ بطور نمونہ چند رباعیات یہاں آپ کی ظرافت طبع کے لیے پیش ہیں۔ ملاحظہ کریں ؎
تھا شور سونامی کہ سرافیل کا صُور
کس مس ڈے نہیں بلکہ وہ تھا یومِ نشور
ساحل پہ سمندر کے تھا محشر برپا
اللہ نے توڑا ہے تمدن کا غرور!
——
ساحل کے نظارے سے نظر کانپ گئی
خاموش سمندر کی لہر کانپ گئی!
بے پردگی آوارہ ہوئی یوں انجمؔ!
غُصّے میں مشیت تھی بھنور کانپ گئی
——
سیلابِ سونامی نے غضب ڈھایا ہے
اک نوح کا طوفان نظر آیا ہے
اب جا کے کھلی آنکھ نظر والوں کی
کیا مار کے اللہ نے سمجھایا ہے
شاعر کہتا ہے کہ وہ کرسمس کا دن تھا۔ساحل سمندر پہ یوں محشر بپا تھا جیسے کہ کرسمس ڈے نہیں بلکہ یوم نشور ہو۔ قیامت بپا تھی۔ صور اسرافیل پھونکا جاچکا تھا۔ سونامی کے سیلاب میں ہر شے خس وخاشاک کی طرح بہہ رہی تھی۔ انسان اس وقت خود کو اس قدر بے بس محسوس کررہا تھا کہ سائنس وٹکنالوجی کی ترقی کی تہذیب کاغرور خاک میں مل گیا تھا۔ یہی بات شاعر نے پہلی رباعی میں کہی ہے۔
دوسری رباعی میں شاعر کہتا ہے کہ ساحل سمندر پر وہ نظارہ تھا کہ نظر کانپ رہی تھی۔ سمندر کی لہروں میں وہ جوش تھا جیسے وہ تھر تھر کانپ رہی ہو۔ اگلے دوسرے تیسرے مصرعے میں شاعر نے اسی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ساحل سمندر پر جو عریانیت عام طور سے ہوتی ہے ، اسی وجہ سے مشیت خداوندی غضبناک ہوگئی تھی۔ بھنور کانپ رہی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ ساری دنیا کو غیض وغضب سے نگل جائے۔
اور پھر تیسری رباعی میں اسی سونامی کو شاعر نے طوفان نوح علیہ السلام سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سونامی تو حضرت انسان نے اس طوفان کا نام رکھ دیا تھا۔ در اصل یہ طوفان نوح کا ٹریلر تھا۔ اللہ تعالی نے اس سونامی کی ضرب سے انسانوں کو اسی طرح درس عبرت دینے کی کوشش کی تھی جس طرح آج کورونا کے عذاب نے سارے انسانوں کے ناک میں دم کررکھا ہے۔
ان رباعیات میں بھی شاعر کا احساس بڑا گہرا ہے۔ اس کا تخیل بڑا ندرت آمیز ہے۔سونامی کو صور اسرافیل سے تعبیر کرنا۔ اسے یوم نشور کی طرح نفسانفسی کی تصویر بتانا، ساحل پر محشر کا عالم ہونا، ساحل سمندر کے نظارے سے نظر کا کانپنا، خاموش سمندر کی لہروں کے لیے کانپنے کی تعبیر استعمال کرنا۔ مشیت کا غصے میں ہونا، بھنور کا کانپنا، سونامی کا غضب ڈھانا، اسے طوفان نوح سے تشبیہ دینا۔ سونامی کو اللہ کی ضرب اور مار سے تشبیہ دینا وغیرہ ایسے استعارے ہیں جو ان تینوں رباعیات میں شعریت، معنویت اور تہ داری کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ قاری ان تمام پر ہول مناظر کو دیکھ کر لرز لرز جاتا ہے۔ کانپ کانپ جاتا ہے ۔ وہ ایک بار پھر اسی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے جس سے اس وقت دوچار ہوا تھا۔ اور یہی شعریت حماد انجمؔ کے تمام کلام کی خصوصیت اور خوبی بن کر ان کی ہر صنف میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔
چلتے چلتے آئیے میں آپ کو دوچار رباعیاں اور سنائے دیتا ہوں۔ یہ رباعیاں اس شاعرکے حوالے سے لکھی گئی ہیں جو خود رباعی نگار تھا۔رباعی پر جسے دستگاہ تھی۔ فن پر بھی عبور تھا اور رباعی گوئی پر بھی۔ اور وہ شاعر تھے کشمیر کے جناب فرید پربتی۔ فرید پربتی کے انتقال پر حماد انجمؔ نے کئی رباعیاں لکھ کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ دونوں میں عالمانہ مراسلت اور صداقت تھی۔ ایک دوسرے سے علمی وادبی اخذ وعطا اور افادے واستفادے کے علاقات ان کے درمیان قائم تھے۔ ان کے انتقال سے حماد انجمؔ کا غم والم سے دوچار ہونا اور رباعی کے اس شاعر کو رباعی ہی کے آہنگ اور اسٹرکچر میں خراج عقیدت پیش کرنا فطر ی تھا۔ چنانچہ انھوں نے ان پر کئی رباعیاں کہیں۔ جن میں سے چند یوں ہیں ؎
کچھ کہنے کا یارا نہ رہا ، اف نہ رہا
منہ پھیر لیا ، گویا کہ تعارف نہ رہا
اے یوسفِ کنعانِ رباعی ہیہات
وہ وادی کشمیر کا یوسف نہ رہا
——
پابستہ شب و روز کی زنجیر سے تھا
وابستہ کفِ دستِ عناں گیر سے تھا
رکنا ہی نہیں تھا اسے تا دیر یہاں
عقبیٰ کا سفر وادی کشمیر سے تھا
——
تھا شعرو ادب کا جواں فنکار فرید
کہتا تھا بہت ڈوب کے اشعار فرید
کچھ بول مشیت تجھے جلدی کیا تھی
کچھ اور بھی جی لیتا مرا یار فرید
——
وہ نکتہ سَرا نکتہ فگن نکتہ فروش
خیام رباعی کا تھا سنطور بدوش
آہنگ سے بھر پور تھا نغمہ اس کا
گہہ قلقل مینا گہے دریا کا جوش
کہتے ہیں کہ ہائے افسوس !میرے دوست تم منہ موڑ کر ایسے چلے گئے جیسے کہ کبھی تم سے تعارف ہی نہ تھا۔ہائے افسوس کہ مملکت کنعان رباعی اور وادی کشمیر کا یوسف ہم سے رخصت ہوگیا۔ پہلی رباعی کے تیسرے اور چوتھے مصرعے سے شاعر نے فرید پربتی کی اس رباعی کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ؎
واقف میں ہر اک خواب کی تعبیر سے ہوں
میں حسن ہوں اور حسن کی جاگیر سے ہوں
کہتے ہیں مجھے یوسف ثانی اے دوست
کنعاں سے نہیں میں وادی کشمیر سے ہوں
فرید نے کہا تھا کہ میں کنعاں سے نہیں کشمیر سے ہوں۔ یوسف کنعاں نہیں بلکہ یوسف کشمیر ہوں میں۔ حماد انجم نے ان کی اسی رباعی سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں وادی کشمیر کے یوسف کے ساتھ ساتھ رباعی کی مملکت کنعانی کے یوسف سے تشبیہ دی ہے۔
دوسری رباعی میں حمادانجمؔ کہتے ہیں کہ میرا دوست شب وروز کی زنجیر سے بندھا ہوا تھا۔ کف دست عناں گیر سے وابستہ تھا۔لیکن یہ زنجیریں ، یہ کف دست عناں گیر کس کام کے ۔ جس کو جانا ہے اسے لوہے کے پنجرے سے بھی موت اٹھاکر لے جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم نے کہا ہے۔ کشمیر کے اس یوسف کو بھی یہاں تادیر قیام نہیں کرنا تھا سو وہ کشمیر کے ایئر پورٹ سے سفر عاقبت کے لیے ٹیک آف کرگیااور ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔اس رباعی کے پہلے مصرعے میں شاعر نے شب وروز کی زنجیر سے پابستہ ہونے کااستعارہ استعمال کرکے گویا دنیا میں محو ہونے اور ا س کی بھاگ دوڑ میں مصروف کار ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود شاعر کہتا ہے جسے تادیر یہاں نہیں رکنا ہے وہ تمام زنجیریں توڑ کر عالم فانی سے عالم باقی کی طرف سفر کرجاتا ہے۔ اس میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہوتی ۔
تیسری رباعی میں کچھ اسی طرح کا خیال پیش کیاگیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ رباعی گو جس کا نام فرید تھا۔ پربتی جس کا لقب تھا۔ جو بہت ڈوب کر شعر کہتا تھا۔ اے مشیت بول تجھے اسے لے جانے کی کیا جلدی تھی۔ کچھ روز اور میرا یار فرید جی لیتا تو کیا کمی ہوجاتی؟ اور پھر آخری رباعی میں حماد انجمؔ نے فرید اور ان کی رباعیوں کی تعریف کی ہے۔ انھیں نکتہ سرا، نکتہ فگن اورسنطور بدوش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اشعار کا اپنا اسلوب تھا۔ ایسا اسلوب جس میں کبھی قلقل مینا تو کبھی دریا کا جوش سمایا ہوا ہوتا تھا۔ اس رباعی کے دوسرے مصرعے ’’خیام رباعی کا تھا سنطور بدوش‘‘ کہہ کر فرید پربتی کے اس خیال کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سنطور پر رباعی کو گایاجانا چاہیے۔حالانکہ حماد انجم نے اپنے ایک مضمون ’’اردورباعی چند ملاحظات‘‘ میں اس کی تردید کرتے ہوئے بہت تفصیل سے لکھا ہے (دیکھیے مقالات حماد انجم ص۱۸۰)لیکن اس رباعی میں ’’خیام رباعی کا تھا سنطور بدوش‘‘ کہہ کر ان کی اسی رباعی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔
حماد انجمؔ کی رباعیات میں اکثر ایسی ہیں جن پر گفتگو کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہر چند کہ مجھے رباعی کی صنف بڑی خشک لگتی ہے ۔ مجھے اس میں کوئی خاص لطف اور حظ محسوس نہیں ہوتا لیکن اس مضمون کے قلمبند کرنے سے قبل میں نے حمادانجمؔ کی رباعیات کا مجموعہ ’’بربط بردوش‘‘ ایک نشست میں پڑھ ڈالا اور اپنی پسند کی چند رباعیات کا آپ کی ضیافت طبع کے لیے انتخاب کرڈالا۔ ان کی اکثر رباعیات میں شعور واحساس کی گہرائی بھی ہے اور اظہار کی جمالیات بھی۔فن کی پختگی بھی ہے اور فکر کی بالیدگی بھی۔ موضوعات کا تنوع بھی ہے اور مضامین کی تازگی بھی۔عصر حاضر کی ترجمانی بھی اور عصری حسیت کی گھن گرج بھی۔ان کی رباعی گوئی کی لو بڑی تابندہ اور روشن ہے۔’ان کی تخلیقی جودت اور فنکارانہ ہنر مندی کی لو ان کے آبگینے میں جھلملاتی رہتی ہے‘۔ میں نے ان کی رباعیوں کے مجموعوں کو کبھی بغور نہیں پڑھاتھا لیکن جب پڑھنا شروع کیا تو ان کی رباعیوں کے حسن وجمال میں کھوکر رہ گیا۔ ان کی خوشبو سے مشام جاں معطر ہوگیا۔ روح سرشار ہوگئی۔ دل بہل گیا۔ جاں فدا ہوگئی۔ داد دینے کو جی چاہا۔ لیکن اب داد بھی دی تو کیادی۔ جب داد سننے والا ہی نہ رہا۔ وہ جو کل فرید پربتی کواپنی رباعیوں سے خراج عقیدت پیش کررہا تھا وہ خودبھی انھی کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ خراج عقیدت کا محتاج بن گیا۔ یہی کارخانۂ ازل کا قانون لافانی ہے۔ جب تک یہ کائنات ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لوگ آتے اور جاتے رہیں گے۔خراج عقیدت پیش کیے جاتے رہیں گے۔

آپ کے تبصرے

3000