بر صغیر میں تذکرہ نویسی کی روایت

ایم اے فاروقی تاریخ و سیرت

الحمدﷲ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ أجمعین، أما بعد:

تذکرہ، سیر اور سوانح ان اہم فنون میں سے ہیں جنھیں مسلم علما نے بامِ عروج پر پہنچایا، ان موضوعات پر اس قدر عظیم الشان لٹریچر فراہم کر دیا کہ آج تک دنیا کی کوئی قوم اور مذہب اس کا عشرِ عشیر مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ امتِ مسلمہ، خصوصاً علما، شہداء اﷲ فی الارض ہیں، ان کی ثقاہت اور استناد کے لیے تذکرہ نگاری اور اس کی اشاعت ایک دینی و شرعی فریضہ ہے۔ حضرت نواب صدیق حسن خان بھوپالی (وفات: ۱۳۰۷ھ) فرماتے ہیں:
’’أن الاشتغال بنشر أخبار الأخیار من أھل العلم والآثار من علامات سعادۃ الدنیا و سیادۃ الآخرۃ اذ ھم شہود اﷲ في أرضہ ولھم المراتب الفاخرۃ‘‘ (التاج المکلل، ص۳)

ان علوم کی معاشرتی اور علمی افادیت و اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اسلاف کے تذکرے اور کارنامے ہمیں جینے کا حوصلہ دیتے ہیں، جدوجہد اور مشقت کا درس دیتے ہیں۔ قومیں جب رو بہ زوال ہوتی ہیں تو یہی تذکرے ہماے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مؤرخین اور تذکرہ نگار اپنی کتابوں میں ان شخصیات کے کارناموں کو منظر عام پر لانے میں خصوصی توجہ دیتے ہیں جو تاریخ ساز ہوں، جنھوں نے تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کی ہو، معاشرے پر انھوں نے گہری چھاپ چھوڑی ہو، ان کا فیض، رفاہی، سیاسی یا علمی کارنامہ نمایاں ہو، ان کی زندگی آئیڈیل اور مثالی ہو۔
فنی اعتبار سے تراجم نگاری اور سوانح نگاری، انتہائی حساس، نازک اور مشکل ترین فن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سوانح نگاری تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ سوانح نگار اور تذکرہ نویس کو سچا فن کار، منصف مزاج، وسیع القلب ہونا چاہیے۔ اس مملکت میں صرف صداقت اور حقائق کی حکمرانی چلتی ہے۔ اکاذیب، مبالغہ آرائی اور غلو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ذاتی رجحانات، توہمات، تصورات، اوہام، داستان سرائی اور افسانہ طرازی فن تذکرہ نویسی کے لیے زہر ہلاہل ہے، تذکرہ نگاری کے صرف فنی، علمی اور تحقیقی اصول اور دیانت داری ہی اس کے معیار اور قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے۔
تذکرہ نگاری کی روایت کافی قدیم ہے، اسلام سے قبل بھی اس فن کا ثبوت ملتا ہے۔ اپنے عہد اور بزرگوں کے واقعات اور کارناموں کو بیان کرنا گذشتہ اور قدیم اقوام کی ثقافت کا ایک حصہ رہا ہے۔ انھی سے تاریخیں بنیں اور رفتہ رفتہ تاریخ نویسی ایک فن بن گئی، تاریخ سے مختلف شاخیں پھوٹیں جو صدیاں گزرنے کے بعد مستقل فن اور صنف کی حیثیت اختیار کر گئیں۔
تذکرہ نویسی، تراجم نگاری، سوانح نگاری، شخصیت نگاری یا مرقع نگاری اور خود نوشت فنی اعتبار سے ایک دوسرے سے آج مختلف ضرور ہیں، لیکن مخرج اور مقصد کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان سب کا تعلق شخصیت اور اس کے احوال سے ہے اور سب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی کا نقش ابھار کر سامنے لایا جائے۔ سوانح حیات میں زندگی کی تمام جزئیات سمٹ کر آ جاتی ہیں، شخصی خاکے یا مرقع نگاری میں لفظی کفایت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اس میں آثار و خدمات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے، مرقع نگار زیرِ بحث شخصیت کو اپنے نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے۔ خود نوشت یا آپ بیتی میں مصنف اپنے متعلق ایک خاص زاویۂ نگاہ رکھتا ہے، اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ جن واقعات کو مناسب سمجھے بیان کرے اور ایسی تمام چیزوں کو چھپا لے جن کے ذکر سے اس کی شخصیت متنازع اور مبغوض بن جاتی ہے۔
تذکرہ نگاری ایک عمومی لفظ ہے، تذکرہ میں معاشرے کی ایسی شخصیات کے احوال تحریر کیے جاتے ہیں، جنھوں نے سماج پر اپنی چھاپ چھوڑی ہو، ان سے ہمیں معاشرہ کے مختلف پہلوؤں اور ثقافت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، عام تاریخی کتب سے یہ ممکن نہیں ہے۔
تذکرہ نگاری کو عربی میں علم التراجم اور علم اسماء الرجال کہتے ہیں۔ فی زماننا تذکرہ فارسی کے زیر اثر اردو میں ایک صنف کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس لفظ کی عمومیت کو محدود کر دیا گیا ہے، اصطلاحاً تذکرہ متعدد اشخاص کے حالات اور کارناموں کو جمع کرنے کا نام ہے۔ یہ اشخاص کسی بھی شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے ہو سکتے ہیں، وہ مذہبی بھی ہو سکتے ہیں، سیاسی، سماجی اور ادبی بھی ہو سکتے ہیں اور ایسی کوئی بھی کتاب جس میں ایک نوع کے افراد کے حالات اور انفرادی خصوصیات کو جمع کر دیا جائے، اسے تذکرہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مصنف کتاب کے نام میں لفظ تذکرہ شامل کرے، عربی اردو اور فارسی کے بے شمار ایسے تذکرے ہیں جن کے نام میں لفظ تذکرہ شامل نہیں ہے، لیکن وہ تذکرے ہیں۔
تذکرہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے نصیحت اور یاد دہانی کا معنی مراد لیا گیا ہے، چنانچہ سورۃ مزمل کی آیت نمبر ۱۹؍ میں اﷲ رب العالمین نے فرمایا:
اِنَّ ھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا [المزمل: ۱۹]

’’یعنی بے شک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کر لے۔‘‘
ھٰذِہٖ سے اشارہ سورۃ المزمل ہے، بعض مفسرین کے نزدیک پورے قرآن کی طرف اشارہ ہے۔ یہ لفظ اپنے عمومی معنی میں مفرد اور مرکب دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ عرب مصنّفین نے علما، فقہا، شعرا اور رواۃ کے جو تراجم ترتیب دیے، ان میں سے بیشتر عہد بہ عہد کسی خاص علم و فن کے لوگوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے طبقات کے نام سے منظرِ عام پر آئے، جیسے ’’طبقات الحفاظ‘‘، ’’طبقات المفسرین‘‘: علامہ جلال الدین سیوطی (وفات: ۹۱۱ھ)، ’’طبقات الاولیاء‘‘ مرتبہ سراج الدین عمر ابن الملقن (وفات: ۸۰۴ھ)، ابن سلام الجمحی، ابن قتیبہ اور ابن المعتز کی’’طبقات الشعراء‘‘وغیرہ۔
تاریخ و تذکرہ میں فرق:
تذکرہ میں محض ابتدائی قسم کی ضروری معلومات درج ہوتی ہیں، اس کے برخلاف مورخ حالاتِ زندگی کو متوازن شرح و بسط کے ساتھ قلم بند کرتا ہے اور اس کی سرگذشت حیات کے منتشر سلسلوں کو ایک تنظیم اور تربیت کے تحت لانے کا فریضہ انجام دیتا ہے، تذکرہ میں مصنف زیادہ سے زیادہ شخصیات کے حالات فراہم کرتا ہے، جب کہ تاریخ میں نمائندہ افراد ہی کو جگہ دی جاتی ہے۔
سوانح نگاری اور سیرت نگاری معنوی طور سے ایک ہی ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ فنون کے ارتقا کے ساتھ لفظ سیرت اور سیرت نگاری کی اصطلاح نبی آخر الزماں رسول اﷲﷺکے حالات و واقعات کے ساتھ خاص ہو گئی، لیکن بزرگانِ دین کے حالات پر مشتمل کتابوں میں بھی’’سیرۃ‘‘ کا استعمال کتاب کے عنوان کے جز کے طور پر رائج ہے، جیسے’’سیرۃ النعمان‘‘:علامہ شبلی۔
اسلام سے قبل یہودیوں، عیسائیوں اور یونانیوں میں بزرگوں کے حالات اور واقعات بیان کرنے کا رواج تھا، لیکن تحریر کی شکل میں اس کے ارتقائی سفر کا آغاز سرزمینِ عرب سے ہوا، عرب کے قبائل پہلے تحریر کے فن سے ناآشنا تھے، انھیں اپنے بے مثال حافظے پر ناز تھا، اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے تحریر کا سہارا لینا وہ ننگ اور عار سمجھتے تھے پھر رسول اﷲﷺ کی بعثت ہوئی۔ اسلام نے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا، اقدار بدل گئے، ماحول میں تبدیلی آ گئی، نئی نئی ضروریات پیش آنے لگیں، رسول اﷲﷺکے تربیت یافتہ اصحاب نے خطابت کی حکمرانی کے پہلو بہ پہلو تحریر سے بے اعتنائی ترک کر دی۔ آیات، احادیث، شرعی احکام، خطوط، فرامین اور صلح ناموں کی کتابت کے ساتھ تحریر کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
بنو امیہ کے عہدِ خلافت تک فتوحات اور تسخیری مہمات کے سبب سے اس عمل میں زیادہ تیزی نہ آسکی۔ بنو عباس کے دور میں اشاعتِ حدیث اور اس کی تدوین میں تیزی آئی تو نئے نئے علوم وجود میں آئے، اﷲ نے اسوۂ نبیﷺ اور اتباعِ سنت امتِ مسلمہ کے لیے ناگزیر ٹھہرایا، ضروری ہوا کہ آپ کی زندگی کے ایک ایک لمحہ، ہر حرکت اور ہر کیفیت کو تحریروں میں محفوظ کر دیا جائے۔ اس طرح سیرت نگاری کا چلن عام ہوا، سیرت نگار ایک طرف آپ ﷺ سے متعلق تفصیلی جزئیات کا اہتمام کرتے، دوسری طرف محدثین روایات کی صحت اور عدمِ صحت کی مکمل جانچ پڑتال کرتے، اس کے لیے راویوں کے احوالِ زندگی سے باخبر ہونا ضروری تھا، انھوں نے اس کے لیے اصول و ضوابط بنائے، اس طرح فن تراجم یا اسماء الرجال کا ایک مستقل فن وجود میں آیا۔ ابتدائے اسلام سے عہدِ بنو عباس تک سیر و سوانح اور تراجم سے متعلق تین مستقل علم وجود میں آئے۔
(۱) سیرت نگاری:
تدوین حدیث کے ساتھ محدثین نے رسول اﷲﷺ کی سیرت لکھنے کی طرف بھرپور توجہ دی اور اس فن کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا، سیرت کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں رسول اﷲﷺکی زندگی کے ہر گوشے اور عہدِ نبوی کے تمام واقعات اور تاریخ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔
سیرت نگاری کا ایک اہم حصہ المغازی بھی ہے، جس میں عہدِ نبوی کے غزوات اور جنگوں کا حال بیان کیا جاتا ہے، سیرت نگاری کا آغاز مغازی کی تالیف و تدوین سے ہوا۔ محدثین احادیث کے مجموعوں میں مستقل طور سے مغازی کا باب کتاب المغازی کے نام سے شامل کرتے۔
تدوین مغازی کا آغاز خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے ابان (وفات: ۱۰۵ھ) نے کیا، آپ نے چند صحیفوں میں رسول اﷲﷺ کی حیات اور مغازی سے متعلق احادیث لکھی تھیں، اس سلسلہ کو مشہور تابعی عروہ بن الزبیر بن العوام (وفات: ۹۵ھ) نے اپنی روایات سے برقرار رکھا۔
عہدِ بنی امیہ کے سب سے اہم سیرت نگار اور مغازی کے مدون امام محمد بن شہاب الزہری ہیں جو کتبِ صحاح، سنن اور مسانید کے معتبر راوی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (وفات: ۱۰۱ھ) کے حکم سے آپ نے تدوین مغازی کا منظم طور سے آغاز کیا، سیرت میں اول تصنیف آپ کی ہے جو آنے والے سیرت نگاروں کا ماخذ بنی۔ ان کے علاوہ اس فن کو ترقی دینے والے عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری (وفات: ۱۱۹)، عبداﷲ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم انصاری (وفات: ۱۳۵ھ)، موسیٰ بن عقبہ (وفات: ۱۴۱ھ)، محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی (وفات: ۱۵۱ھ) ہیں۔ محمد بن اسحاق اپنے دور میں مغازی کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ کی کتاب ’’المغازی‘‘ فنِ مغازی پر سب سے پہلی اور سب سے قدیم کتاب ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ مشہور ہے کہ محمد بن اسحاق نے یہ کتاب خلیفہ منصور عباسی کے حکم سے لکھی۔ کتاب کی طوالت کی وجہ سے منصور نے اسے مختصر کرنے کی ہدایت کی تو آپ نے اس کا اختصار لکھا، دوسری صدی ہجری کے دیگر اہم سیرت نگار اور مغازی کے ماخذ محمد بن عمر بن واقد مولی بنی ہاشم (وفات: ۲۰۷ھ) ہیں جو واقدی کے نام سے معروف ہیں۔ بحیثیت راویِ حدیث وہ اگرچہ سخت ضعیف ہیں لیکن مغازی اور سیرت کی ایسی تفصیلات اور جزئیات کے لیے ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جن کا عقائد و احکام سے تعلق نہیں۔ واقدی نے تاریخ و تراجم میں کئی کتابیں لکھیں جن میں سے صرف ان کی’’المغازی‘‘ باقی رہ گئی جو مورخین کا ماخذ بنی۔ اس کے بعد سیرت و مغازی کی تالیف کا سلسلہ چل پڑا جو آج تک جاری ہے۔ تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد کے ادوار میں اس موضوع پر درج ذیل اہم کتابیں لکھی گئیں:
(۱) سیرت ابن ہشام: یہ کتاب عبدالملک بن ہشام بن ایوب (وفات: ۲۱۸ھ) کی تصنیف کردہ ہے۔ سیرت ابن ہشام دراصل سیرت ابن اسحاق کا اختصار ہے۔ سیرت ابن ہشام کی بے نظیر شرح امام ابو القاسم عبدالرحمن بن عبداﷲ سہیلی الاندلسی (وفات: ۵۸۱ھ) نے ’’الروض الانف‘‘کے نام سے کی جو آج بھی متداول ہے۔
(۲) تیسری صدی ہجری کے سیرت نگاروں میں ایک بڑا نام محمد بن سعد (وفات: ۲۳۰ھ) کا ہے، ابن سعد واقدی کے شاگرد تھے اور کاتب واقدی کے لقب سے معروف تھے۔ ابن سعد کی سب سے اہم کتاب ’’کتاب الطبقات الکبیر‘‘ ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی ابتدائی دو جلدیں سیرت رسول اﷲﷺاور مغازی پر مشتمل ہیں۔
(۳)جوامع السیرۃ۔ مصنف: ابن حزم الاندلسی (وفات: ۴۵۶ھ)
(۴)الدرر فی اختصار المغاری والسیر، تالیف ابن عبدالبر (۴۶۳ھ)
(۶)السیرۃ النبویۃ، تالیف عبدالغنی مقدسی (ت ۶۰۰ھ)
(۶)دلائل النبوۃ: از بیہقی (ت ۴۵۸ھ) یہ دلائل و معجزات کے علاوہ سیرت کی مکمل کتاب ہے اور پچھلی تمام کتب سیرت کی جامع ہے۔
(۷)السیرۃ۔ تالیف: عبدالمومن بن خلف الدمیاطی (وفات: ۷۰۵ھ)
(۸)عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر۔ تالیف: ابن سید الناس (وفات: ۷۳۴ھ)
آٹھویں صدی ہجری کے تین مشہور مصنفین: ذہبی، ابن القیم اور ابن کثیر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
(۹)المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ۔ تالیف: علامہ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی (وفات: ۹۲۳ھ) اس کتاب کی شرح متعدد علما نے کی، جس میں سب سے معروف شرح محمد بن عبدالباقی بن یوسف الزرقانی مصری مالکی (متوفی (۱۱۲۲ھ) کی ہے۔
سبیل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، المعروف بہ سیرت شامیہ، تالیف شمس الدین محمد بن یوسف الشامی (متوفی ۹۴۲ھ) یہ سیرت کی بہت ہی اہم کتاب ہے۔
انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون المعروف بہ سیرت حلبیہ۔ تالیف: شیخ برہان الدین حلبی (وفات: ۱۰۴۴ھ)
(۱)تراجم علما و محدثین یا اسماء الرجال:
فن سیرت نگاری کی طرح علم التراجم کا آغاز بھی عہدِ نبوی کے بعد ہو گیا تھا، ذخیرہ احادیثِ نبویہ کی حفاظت اس کا محرک بنا۔ اس کے لیے محدثین نے اصول و ضوابط مقرر کیے، رواۃ اسناد کی زندگی کے حالات معلوم کیے۔ ان کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات، حصولِ علمِ حدیث، اساتذہ اور ان کی زندگی سے متعلق ہر چیز کی چھان پھٹک کی، تراجم کا میدان اس قدر وسیع ہے اور اس موضوع پر محدثین نے اتنی کتابیں لکھی ہیں کہ ان کا استقصا کرنا مشکل ہے۔ تراجم کے تالیفی سلسلے میں تنوع بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ واضح رہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں افراد کی سوانح عمریوں سے زیادہ طبقوں اور گروہوں کے تراجم کا رواج تھا۔
تراجم کی وہ اہم اقسام یا صورتیں جو محدثین کے درمیان رائج تھیں، درج ذیل ہیں:
(۱)سیر صحابہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت اور سوانح سے متعلق کتابیں:
’’معرفۃالصحابہ‘‘ تالیف ابن مندہ (وفات: ۳۹۵ھ)،
’’معرفۃ الصحابہ‘‘ لابی نعیم (وفات: ۴۳۰ھ)،
’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘لابن عبدالبر (وفات: ۴۶۳ھ)،
’’اسد الغابہ‘‘ لابن الاثیر (وفات: ۶۳۰ھ)،
’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘لابن حجر العسقلانی (وفات: ۸۵۲ھ)۔
(۲)طبقات: تراجم کی ترتیب کا یہ انداز متعدد تذکرہ نویسوں میں عام تھا۔ اس طرز کی کتابوں میں زمانی اور تاریخی اعتبار سے علما اور رواۃ کی تقدیم و تاخیر کو مدنظر رکھتے ہوئے علاحدہ علاحدہ طبقات قائم کیے جاتے تھے۔ بطور نمونہ چند کتابیں ذکر کی جا رہی ہیں: ’’الطبقات الکبریٰ‘‘، تالیف: ابن سعد۔
’’الطبقات‘‘، مولف: خلیفہ بن خیاط۔
’’طبقات علماء الحدیث‘‘، تالیف: ابن عبدالہادی۔
’’تذکرۃ الحفاظ‘‘، تالیف: امام ذہبی۔
’’طبقات الحفاظ‘‘، مولف: امام سیوطی۔
(۳)معاجم: موسوعاتی یا حروفِ تہجی کے اعتبار سے یہ کتابیں لکھی جاتی تھیں، جیسے معجم الأدباء لیاقوت (متوفی۶۲۶ھ) وغیرہ۔ محدثین کی اصطلاح میں ان کتابوں کو معجم کہا جاتا ہے جنھیں مصنف اپنے شیوخ کے اعتبار سے ترتیب دے جیسے: ’’المعجم الصغیر‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ للطبرانی،
’’معجم‘‘ ابن الاعرابی،
’’معجم ابی یعلی‘‘۔
(۴)مخصوص فن اور اختصاص کے اعتبار سے تراجم: ’’طبقات الحفاظ‘‘للذہبی،
’’معرفۃ القراء الکبار‘‘ للذہبی،
’’طبقات المفسرین‘‘ تالیف: امام سیوطی،
’’طبقات الصوفیہ‘‘ للسلمی۔
(۵)مناقب: صحابہ کرام، تابعین اور محدثین کی مستقل اور مفصل سوانح عمریاں جیسے:
’’مناقب الامام احمد‘‘، تالیف: ابن الجوزی۔
’’مناقب الامام شافعی‘‘، تالیف: امام بیہقی، ابن ابی حاتم الرازی اور ابن حجر عسقلانی،
’’مناقب الامام ابی حنیفہ‘‘، تالیف: موفق المکی۔
’’مناقب الامام مالک‘‘، تالیف: زواوی۔
(۶)تراجم بقید عہد اور زمان:
’’الدرر الکامنہ فی اعیان المائۃ الثامنہ‘‘:ابن حجر عسقلانی۔
”الضوء اللامع لأھل القرن التاسع”، تالیف سخاوی۔
’’البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع‘‘، تالیف: امام شوکانی۔
’’الکواکب السائرۃ باعیان المئۃ العاشرۃ‘‘، تالیف: شیخ غزی۔
’’سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی عشر‘‘، تالیف: شیخ مرادی،
’’حلیۃ البشر فی أعیان القرن الثالث عشر‘‘ للبیطار۔
(۷)تراجم حسب وفیات: اس قسم کے تذکروں میں تاریخ وفات کے مطابق تراجم ذکر کیے جاتے ہیں، جیسے: ’’الوفیات‘‘: ابن رافع،
’’الوفیات‘‘ لابن قنفذ،
’’التکملۃ لوفیات النقلۃ‘‘منذری۔
تراجم شعرا کی روایت:
سیرت نگاری اور فن اسماء الرجال کے متوازی عربی شعرا کے تذکروں کا بھی آغاز ہوا۔ محققین کی متفقہ رائے ہے کہ ابن سلام الجمحی (وفات: ۲۳۲ھ) پہلا صاحبِ قلم ہے جس نے عربی شعرا کے تذکروں کا سنگِ بنیاد رکھا اور طبقات فحول الشعراء کے نام سے جاہلی اور اسلامی شعرا کے حالات قلم بند کیے۔
تیسری صدی ہجری کے تذکرہ نگاروں میں محمد بن حبیب (وفات: ۲۴۵ھ)، ابو زید عمر بن شبّہ البصری (وفات: ۲۶۲ھ)، ابو عبداﷲہارون بن علی بن یحییٰ بن ابی منصور المنجم البغدادی (وفات: ۲۸۸ھ)، ابو محمد عبداﷲ بن مسلم بن قتیبہ (وفات: ۲۷۶ھ)، ابو العباس عبداﷲ ابن المعتز (وفات: ۲۹۶ھ) کے نام آتے ہیں۔
ابن قتیبہ کی تصانیف میں ’’ادب الکاتب‘‘اور ’’الشعر والشعراء‘‘کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسی طرح ابن المعتز کی ’’طبقات الشعراء‘‘بھی مشہور ہوئی۔ تذکرہ نگاری کے میدان میں ابو الفرج اصبہانی (وفات: ۳۵۶ھ) نے غیر معمولی قدم اٹھایا، اس نے چوبیس جلدوں میں ’’کتاب الاغانی‘‘ لکھی جس کا ایک معتد بہ حصہ شعرا کے تراجم پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد اس راہ میں بھی تذکرہ نویسوں کا قافلہ آگے بڑھتا رہا۔ عبدالملک بن محمد اسماعیل ثعالبی (متوفی ۴۲۹ھ) کی ’’یتیمۃ الدھر فی محاسن اہل العصر‘‘علی بن حسن الباخرزی (وفات: ۴۶۷ھ) کی ’’دمیۃ القصر‘‘، عماد الدین (متوفی۵۹۷ھ) الکاتب کی تصنیف ’’خریدۃ القصر و جریدۃ العصر‘‘ کو بھی شعرا کے تذکروں میں خاص مقام حاصل ہے۔
…………
ہندوستان میں تراجم علما سے متعلق تالیفات اور ان کے تذکرے لکھنے کی روایت خاندانِ غلامان سے خاندانِ مغلیہ تک ہر دور میں رہی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستانی علما کے سامنے عربوں کا جمع کیا ہوا تذکروں کا پورا ذخیرہ موجود تھا لیکن انھوں نے عربوں کی تصنیفات سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا۔ قدیم ہو یا جدید، کسی بھی تذکرہ اور سوانح عمری میں عربوں کی تحقیق و تدقیق کا اسلوب نہیں ملتا۔ شاید اس کی سب سے اہم وجہ یہ رہی ہو کہ ہندوستانی مسلم تہذیب براہِ راست عربی زبان و ادب کی ریزہ چین نہیں تھی۔ اس کی مکمل اساس فارسی تہذیب و زبان تھی اور خالص عجمیت کے زیرِ اثر وہ پروان چڑھی۔ فارسی ادب تراجم و تذکروں کے سرمایہ سے تہی دامن تھا۔ فارسی میں اس کی بنیاد کافی عرصہ بعد تصوف کے زیر اثر پڑی۔ ابو الحسن علی بن عثمان الہجویری الغزنوی (وفات: ۴۶۵ھ) کی کتاب ’’کشف المحجوب لارھاب القلوب‘‘نیز عبداﷲبن محمد انصاری خزرجی الہروی (وفات: ۴۸۱ھ) نے سلمی کی کتاب طبقات الصوفیہ میں کچھ اضافے کیے۔ تاہم فارسی میں تذکروں کا آغاز فرید الدین عطار کی کتاب ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘سے ہوا۔ تذکرۃ الاولیاء مشہور مستشرق نکلسن کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ کیمبرج سے ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی، لیکن اس سے قبل ہی ہندوستان میں میر تفضل علی کی تصحیح کے ساتھ مطبع محمدی جناب مفتی حسین میاں صاحب بندر بمبئی سے ۱۲۸۰ھ / ۱۸۶۴ء میں شائع ہو چکی تھی۔ اردو ترجمہ عبد الرحمن صدیقی نے ۱۹۲۵ء میں کیا۔
چوتھی صدی ہجری کے بعد تصوف کی لہریں ہندوستانی علما کو علمی اور تحقیقی منہج سے بہت دور بہا کر لے گئیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پانچویں صدی ہجری سے بارہویں صدی ہجری تک اس فن میں کوئی قابلِ قدر اضافہ نہیں ہوا، تراجم کے موضوع پر جو بھی کتابیں لکھی گئیں، ان میں عقیدت مندی کے جذبات، خرق عادات پر مشتمل واقعات، بزرگوں کی کرامات، ان کے اقوال و ملفوظات تو موجود ہیں، مگر حیات و آثار کی اصل تصویریں ناپید ہیں۔ بارہویں صدی ہجری تک اس موضوع پر جو کام ہوئے، ان میں سے چند اہم تذکروں اور سوانح عمریوں کی فہرست یہ ہے:
(۱)فوائد الفواد، تالیف: امیر حسن سجزی (۷۰۷ھ / ۱۳۰۷ء) یہ کتاب نظام الدین اولیا کے ملفوظات پر مشتمل ہے، اس میں بدایوں کے ۲۲؍علماءومشائخ کا تذکرہ ہے۔
(۲)سیر الاولیاء مرتبہ امیر خرد کرمانی (وفات: ۷۹۰ھ) موضوع: اکابر مشائخ چشت کے حالات و ملفوظات۔
(۳)خیر المجالس (خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کے ملفوظات) مرتبہ حمید شاعر المعروف بہ قلندر سنہ تالیف ۷۵۶ھ۔
(۴)نفائس الانفاس (خواجہ برہان الدین غریب کے ملفوظات)۔
(۵)جامع العلوم: مخدوم جہانیان سید جلال الدین بخاری (در عہدِ سلطان محمد تغلق، فیروز تغلق) کے ملفوظات اور مختصر حالات۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا ذوالفقار احمد بھوپالی (م۱۳۴۰ھ) نے الدر المنظوم کے نام سے کیا جو ۱۳۰۹ھ میں طبع ہوا۔
(۶)جوامع الکلم مرتبہ سید محمد اکبر حسینی (خواجہ سید محمد گیسو دراز کے ملفوظات) ۸۰۱ھ تا ۸۰۴ھ۔
(۷)سیر محمدی مرتبہ محمد علی سامانی (وفات: ۸۳۱ھ) سوانح حضرت خواجہ گیسو دراز، اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا حکیم سید شاہ نذیر احمد قادری نے ’’تحفہ احمدی‘‘کے نام سے کیا اور ۱۳۴۷ھ میں یونانی دواخانہ پریس سبزی منڈی الٰہ آباد سے شائع ہوا۔
(۸)تاریخ حبیبی و تذکرہ مرشدی تالیف عبدالعزیز ملک شیر واعظی سنہ تالیف: ۸۴۹ھ۔
(۹)محبت نامہ (ملفوظات شاہ ید اﷲ، وفات: ۸۵۲ھ نبیرہ خواجہ گیسو دراز)مرتب سید محمود فضل اللہ۔
(۱۰)شوامل الجمل در شمائل الکمل (ملفوظات خواجہ شاہ منّ اﷲحسینی (وفات: ۸۷۹ھ) نبیرہ حضرت خواجہ گیسو دراز۔
(۱۱)لطائف اشرفی (محمد اشرف جہاں گیر سمنانی کے حالات و ملفوظات)
(۱۲)سیر العارفین مرتبہ مولانا جمالی ۹۳۷ھ / ۱۵۳۰ء۔
(۱۳)گلزار ابرار: عہدِ جہاں گیری کا یہ ایک نادر تذکرہ ہے اس کا مصنف محمد غوثی بن حسن ابن موسیٰ شطاری ہے۔ ۹۶۲ھ میں مانڈو (مالوہ) میں پیدا ہوا، تذکرہ گلزار ابرار ۱۰۱۴ھ اور ۱۰۲۲ھ کے درمیان لکھا گیا، اس میں ساتویں صدی ہجری کے آغاز سے کتاب کے سنہ تالیف تک (چار سو بائیس سال کے دوران) کے اولیاء اور بزرگانِ دین کے حالات جہاں تک مصنف کو ملے بیان کر دیے۔ کل چھ سو بارہ بزرگوں کا ذکر ہے۔ گلزارِ ابرار کا پہلا اردو ترجمہ جناب فضل احمد نے کیا اور ۱۳۲۶ھ میں مطبع مفید عام آگرہ میں شائع ہوا۔
(۱۴)اس عہد کا سب سے معروف تذکرہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا ’’اخبار الاخیار فی احوال الابرار‘‘ ہے، اس میں برصغیر کے تقریباً تین سو علما، مشائخ اور صوفیا کے احوال مذکور ہیں۔ اخبار الاخیار ہندوستانی علما (متقدمین) کے متعلق اہم ماخذ ہے۔ چونکہ مذکورہ تذکرہ کا بنیادی مقصد ہدایت و رہنمائی اور حکمت و نصائح ہے، اس لیے صوفیا کے کشف و کرامات کے واقعات کا زیادہ ذکر ہے۔
(۱۵)عہدِ جہاں گیری کا ایک اور تذکرہ ’’حدیقۃ الاولیاء‘‘ تالیف سید عبدالقادر بن سید ہاشم بن سید محمد ٹٹوی ہے جو ۱۰۱۶ھ کی تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ ۱۹۶۷ء میں سید حسام الدین راشدی کی تصحیح کے ساتھ سندی ادبی بورڈ حیدر آباد سندھ پاکستان نے شائع کیا۔
(۱۶)تحفۃ الکرام مولفہ علی شیر قانع تالیف ۱۱۸۱ھ طباعت ۱۳۰۴ھ۔
(۱۷)سفینۃ الاولیاء مولفہ دارا شکوہ (قلمی، کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد) سنہ تالیف: ۱۰۴۹ھ
(۱۸)خلاصۃ العارفین (قلمی، کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد ) سنہ تالیف: ۱۱۹۳ھ
بارھویں صدی ہجری سے تذکرہ نویسی کی نئی تاریخ کا آغاز ہوا۔ اس کا سنگِ بنیاد نواب صمصام الدولہ شاہ نواز خان نے تذکرہ ’’مآثر الامراء‘‘ لکھ کر کیا۔ یہ پہلا تذکرہ تھا جس میں صوفیا کے بجائے امرا کے احوال بیان کیے گئے۔ یہاں پر ’’مآثر الامراء‘‘ کا مختصر تعارف ضروری سمجھتا ہوں۔
’’مآثر الامرا‘‘کے مصنف شاہنواز خان مغل سلطنت کے عہدِ زوال کے مورخ اور دکن میں نظام کے وزیر تھے۔ ۱۷۰۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ نظام الملک آصف جاہ اول نے انھیں برار صوبے کا دیوان مقرر کیا، بعد میں آصف جاہ کی نظرِ عتاب کے شکار ہو گئے۔ ۱۷۵۷ء میں فرانسیسیوں سے ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے۔ معتوبی کے دوران انھوں نے سلطنتِ مغلیہ کے امرا کی سوانح اورنگ زیب کے عہد تک مرتب کی۔ مآثر الامراء تذکرہ نویسی میں اپنے طرز کی منفرد کتاب ہے۔ کتاب کا مسودہ ناتمام تھا اور فرانسیسیوں سے لڑائی کے دوران گم ہو گیا۔ ان کے دوست اور معروف تذکرہ نگار مولانا غلام علی آزاد نے اسے تلاش کیا، از سر نو ترتیب دیا، اس کے بعد شاہنواز خان کے صاحب زادے میر عبدالحی خان (۱۱۴۲ھ / ۱۷۲۹ء ۔ ۱۱۹۶ھ ۱۷۸۲ء) نے مسلسل محنت اور عرق ریزی کر کے ۳۴۰ امرا کے سوانحی حالات کا مزید اضافہ کیا اور اسے ۱۷۸۰ء تک پہنچا دیا، اس طرح ’’مآثر الامراء‘‘میں ۵۳۰ تراجم امرا ہو گئے۔ مآثر الامراء کا فارسی نسخہ مطبع اردو گائیڈ کلکتہ سے مولوی عبدالرحیم مدرس مدرسہ عالیہ کلکتہ کی تصحیح کے ساتھ ایشیاٹک سوسائٹی بنگالہ نے ۱۸۸۸ء میں شائع کیا۔
بارہویں صدی ہجری میں جن تذکرہ نویسوں نے اس فن کو نئی جہت دی، ان میں سرفہرست مولانا غلام علی آزاد بلگرامی (۱۱۱۶ھ / ۱۷۰۴ء – ۱۲۰۰ھ / ۱۷۸۵ء) کا نام ہے۔ تذکرہ نویسی کے موضوع پر آپ نے جو کتابیں لکھیں ان میں روایتی انداز کو ترک کر کے تحقیق و صداقت کی سمت موڑ دیا۔ وہ عربی اور فارسی کے اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ انھیں مورخین نے ’’حسان الہند‘‘ کا خطاب دیا۔ عربی تراجم نگاری اور اسماء الرجال کے منہج سے واقف تھے۔ شیخ محمد حیات سندھی (وفات: ۱۱۶۳ھ) کے شاگرد تھے۔ مولانا آزاد نے علاقائی اعتبار سے علما اور شعرا کے تذکرے لکھے۔ آپ کے مرتب کیے ہوئے چار تذکرے آج بھی مورخین کے لیے اہم اور معتبر مآخذ ہیں۔ ان کا مختصر تعارف حسبِ ذیل ہے:
(۱)مآثر الکرام فی تاریخ بلگرام: مولانا آزاد نے اس میں بلگرام کی تاریخ ااور اس علاقہ کے اولیا اور علما کے احوال اور خدمات تفصیل سے بیان کیا، اسے آپ نے مآثر الکرام کا دفتر اول قرار دیا، یہ کتاب مطبع مفید عام آگرہ میں ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئی۔
(۲)سرو آزاد: یہ کتاب فارسی اور ہندی شعرا کا تذکرہ ہے۔ اسے آزاد نے مآثر الکرام کا دفتر ثانی قرار دیا۔ اس میں ۱۴۳ فارسی شعرا اور ۸ ہندی شعرا کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ مطبع دخانی رفاہ عام لاہور میں باہتمام مولوی عبدالحق ۱۹۱۳ء میں طبع ہوا۔
(۳)تذکرۃ الاولیاء: یہ اورنگ آباد کے بزرگانِ دین کا تذکرہ ہے۔
(۴)سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان: مولانا آزاد کی یہ سب سے اہم کتاب ہے جو چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل قرآن اور حدیث میں ہندوستان کے ذکر سے متعلق ہے۔ دوسری فصل میں ہندوستان کے تقریباً پینتالیس ان علما کا ذکر ہے جنھیں عربی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ تیسری فصل عربی اور سنسکرت زبان کے وجوہ بلاغت کا تذکرہ ہے۔ چوتھی فصل اس اعتبار سے نادر ہے کہ ہند کے اسرار زنان کی تفصیلات پہلی بار عربی زبان میں بیان کی گئی ہیں۔
اس کتاب کو مولانا نے ۱۱۷۷ء میں تحریر کیا، بمبئی کے سنگی مطبع میں پہلی بار ۱۳۰۲ھ / ۱۸۸۵ء میں میرزا محمد شیرازی کے اہتمام میں شائع ہوئی۔ دوسرا اڈیشن فضل الرحمن ندوی سیوانی کی تحقیق کے ساتھ ۱۹۷۶ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے دو جلدوں میں شائع کیا، لیکن ابھی اس میں تصحیح اور تحقیق کی ضرورت باقی ہے۔
ان تذکروں کی تالیف میں مولانا آزاد نے متداول تاریخ و تذکرہ کی کتابوں تک اپنی تلاش و جستجو کو محدود نہیں رکھا بلکہ متعلقہ شخصیت کے اقربا اور اہالیانِ شہر سے بھی حالات دریافت کیے۔ بیاضوں سے بھی مدد لی، علما کی علمی خدمات پر روشنی ڈالی، ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کا خاص دھیان دیا۔ ان کی اس کتاب سے بہت سی غیر معروف اور گم نام کتابوں کا پتا چلا۔ بعض واقعات کی صحیح تاریخ کے تعیین میں مدد ملی۔ انھوں نے جو لکھا، مستند لکھا۔
بارہویں صدی ہجری کا ایک اور اہم تذکرہ ’’بحر زخار‘‘ہے۔ اس کے مولف شیخ وجیہ الدین اشرف اودھی (عہدِ شجاع الدولہ) تھے، ان کے تذکرہ میں ۲۸۰۰ علما اور صوفیا کے احوال بیان کیے گئے ہیں جو بیشتر ہندوستانی ہیں۔ یہ تذکرہ ۱۲۰۲ ھ / ۱۷۸۸ء میں لکھا گیا۔ اس نایاب تذکرے کا جدید اڈیشن پروفیسر آذر می دخت کی تصحیح اور تدوین کے ساتھ مرکز تحقیقات فارسی علی گڑھ یونیورسٹی سے ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔
اسی عہد میں شاہ ولی اللہ نے ’’انفاس العارفین‘‘ بھی لکھی جو چار رسالوں کا مجموعہ ہے، اس میں شاہ صاحب کے خاندان اور اساتذہ کے کافی احوال آ گئے ہیں۔
تذکروں اور تراجم کے باب میں ہندوستان پر لکھی گئی کچھ اہم تاریخ کی کتابوں، شعرا اور انساب کے تذکروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ اور تذکروں میں فنی اعتبار سے فرق جدید زمانہ کی ایجاد ہے۔ تاریخ میں شخصیات کا ذکر ضمنی طور سے ہوتا ہے۔ لیکن ان کے ذکر کے بغیر تاریخ کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی ہے۔ اس کے برعکس سوانح نگار کو بادشاہ اور اس کے دربانوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے، اس کا موضوع فردِ واحد یا چند افراد ہوتے ہیں جو ملک و معاشرہ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں پر نظر ڈالی جائے تو عہدِ تیموری تک کئی ایسی کتابیں ضرور مل جائیں گی جن میں علما کے حالات اور واقعات پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ عہدِ غلامان میں قاضی منہاج السراج جوزجانی سب سے بڑے مورخ ہیں۔ ان کی کتاب ’’طبقات ناصری‘‘(مطبوعہ کلکتہ ۱۸۶۴ء) میں اگرچہ علما کے تذکرے نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن خراسان، غور، شمالی ہند نیز چنگیز خان کی طوفانی یلغار، بغداد کی تباہی (۶۵۶ھ) کی دلدوز داستان اور عرب علما کے لیے ہندوستان کا دروازہ کھولنے کے بارے میں ایک اہم ماخذ ہے۔
تاریخ فیروز شاہی مولفہ ضیاء الدین برنی (ف ۷۵۸ھ) فیروز شاہ تغلق کے عہد کے دینی ماحول کا عکاس ہے۔ عبدالقادر بدایونی کی منتخب التواریخ اور عہدِ جہاں گیری کے مشہور مورخ محمد قاسم فرشتہ کی تاریخ ’’گلشن ابراہیمی‘‘ المعروف بہ تاریخ فرشتہ میں ہندوستان کے ابتدائی دور اور عہدِ تیموریہ تک کے علما و مشائخ کے حوالے سے اچھا خاصا خام مواد موجود ہے۔
تراجم علما کی جستجو میں ہم شعرا کے تذکروں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے ہیں، کیوں کہ زیادہ تر علما اور اولیائے کرام کو شعر و سخن سے ذوق تھا، ان کے احوال شعرا کے تذکروں میں ہمیں مل جاتے ہیں۔ ابتدائی دور میں ان تذکروں میں زیادہ تر صرف اشعار کے انتخاب ہوتے۔ ان میں شعرا کے احوال کا اہتمام بہت کم ہوتا تاہم ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستانی فارسی تذکرہ نویسی میں اولیت عوفی یزدی کے تذکرہ ’’لباب الالباب‘‘ کو حاصل ہے۔ یہ تصنیف فارسی میں تذکرہ نگاری کی روایت کا سنگِ بنیاد ہے۔’’لباب الالباب‘‘دو جلدوں میں تین سو شاعروں کے ذکر پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد حنیف نقوی (م۲۰۱۲ء) کے بیان کے مطابق اس نے یہ تذکرہ دلی آنے سے قبل اس وقت لکھا جب وہ اوچ میں مقیم تھا اور ناصر الدین قباچہ کے دربار سے وابستہ تھا۔ (تذکرہ شعرائے اردو۔ مقدمہ)
ہندوستان میں عمومیت اور تسلسل کے ساتھ ادبی تذکرہ نگاری کی ابتدا عہدِ اکبری میں ہوئی، اکبر اور اس کے درباریوں کی علم پروری کی وجہ سے اس کا دربار ملک و بیرون ملک کے ارباب فن اور صاحبان کمال کا مرکز بن گیا۔ اکبر کے تخت نشین ہونے سے کچھ قبل مولانا سلطان محمد فخری ہروی نے ایک تذکرہ ’’روضۃ السلاطین‘‘ کے نام سے لکھا، جو ان سلاطین کے ذکر پر مشتمل تھا جو شاعری کے میدان میں اپنا جوہر دکھاتے تھے۔ مولانا ہروی کا ایک اور تذکرہ ’’تذکرہ جواہر العجائب‘‘ہے، جس میں ۲۳ شاعرات کے تراجم تھے۔ اس کے علاوہ اکبری عہد کے تذکرے ’’نفائس الماثر‘‘مولفہ میر علاء الدین قزوینی، ’’مجمع الفضلا‘‘مرتب محمد عارف بقائی، ’’بزم آرائی‘‘مولف سید علی بن محمود الحسینی اور امین احمد رازی کا تذکرہ ’’ہفت اقلیم‘‘ہے۔
عوفی کے بعد دوسرا ہم تذکرہ نویس امیر دولت شاہ سمر قندی ہے، جس نے ۱۴۸۷ء میں ’’تذکرۃ الشعرا‘‘کے نام سے فارسی شعرا کے حالات و کوائف درج کیے، ۱۹۲۴ء میں ’’تذکرۃ الشعراء‘‘بہ تصحیح و تمہید شیخ محمد اقبال صافی مطبع کریمی لاہور میں شائع ہوا۔
بارہویں صدی ہجری سے اردو شعرا کے تذکروں کی تالیف کا بھی رواج ہوا، جن میں کچھ اہم تذکرے یہ ہیں۔
’’نکات الشعراء‘‘(فارسی) مولفہ میر تقی میر، ’’تذکرہ گلشن ہند‘‘ تالیف مرزا لطف علی، ’’تذکرہ شعرائے اردو‘‘ مولفہ میر حسن دہلوی، ’’تذکرہ معاصرین‘‘ و ’’سخن شعرا‘‘ مولف عبدالغفور نساخ، ’’مجموعہ نغز‘‘ مولف قدرت اﷲقاسم، ’’تذکرہ ریختہ گویان‘‘، تالیف فتح گردیزی، ’’تذکرہ گلشن بے خار‘‘ مولفہ نواب مصطفی علی خان شیفتہؔ، ’’مخزن نکات‘‘ مولفہ محمد ابراہیم خلیل، ’’انتخاب یادگار‘‘ مرتب امیر مینائی، ’’انتخاب دواوین‘‘مرتبہ امام بخش صہبائی، ’’آبِ حیات‘‘مصنفہ مولوی محمد حسین آزاد، ’’گل رعنا‘‘مصنفہ مولوی عبدالحی حسنی۔
تیرہویں صدی ہجری تذکرہ نگاری کے لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مغربی علوم و فنون کی درآمد اس فن پر بھی اثر انداز ہوئی۔ تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے فنی خد و خال واضح ہوئے۔ ہر شعبہ حیات کی مبسوط اور سنجیدہ سوانح عمریوں کا رواج ہوا۔ تذکرہ کی زبان میں بھی فرق آگیا۔ فارسی زبان کے ساتھ اردو میں بھی تذکرہ نویسی عام ہونے لگی۔ اس صدی میں نواب صدیق حسن خان بھوپالی پہلے مورخ اور تذکرہ نگار ہیں جنھوں نے تاریخ، سیر اور سوانح کی جملہ اصناف میں ضخیم کتابیں لکھیں، قرآنی علوم ہوں یا حدیث، اسلامی علوم و فنون ہوں یا تذکرہ نویسی اس صدی میں کوئی بھی آپ کا ہم پلہ اور ہم پایہ نظر نہیں آتا ہے۔
تذکرہ نگاری میں نواب صاحب نے عرب مورخین کے منہج اور اسلوب کو مدنظر رکھا۔ اس موضوع پر آپ کی تصنیفات عربی یا فارسی میں ہیں۔ صرف خود نوشت اردو میں تحریر کی۔ آپ کی نظر میں علما کے تذکرے اور ان کی اشاعت سعادت اور دینی خدمت ہے۔ تاریخ و تذکرہ میں بارہ سے زائد آپ کی مستقل تصنیفات ہیں جو ہندوستان کے تاریخی، ثقافتی حالات اور علما کے تراجم اور واقعات کے بارے میں معتبر مآخذ ہیں، ان کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے:
(۱)الفرع النامی فی اصل السامی (فارسی) مطبوعہ مطبع صدیقی بھوپال ۱۳۰۱ھ۔
(۲)تقصار جیود الاحرار من تذکار جنود الابرار، مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال۔
(۳)ابقاء المنن بالقاء المحن (خود نوشت اردو) مطبع شاہجہانی بھوپال ۱۳۰۵ھ۔
(۴)اتحاف النبلاء المتقین باحیاء مآثر الفقہاء المحدثین (فارسی) مطبوعہ کان پور ۱۲۸۸ھ۔
(۵)التاج المکلل من جواہر مآثر الطراز الآخر والاول (عربی) مطبع صدیقی بھوپال ۱۲۹۸ھ۔
(۶)جلب المنفعۃ فی الذب عن الائمۃ المجتہدین الاربعہ (فارسی) مطبوعہ مطبع مفید عام آگرہ۔
(۷)ریاض الجنۃ فی تراجم اہل السنۃ (عربی)۔
(۸)سلسلۃ العسجد فی ذکر مشائخ السند (فارسی)۔
(۹)تذکرہ شمع انجمن (تذکرہ فارسی شعرا) مطبوعہ بھوپال۔
(۱۰)صبح گلشن (فارسی) آپ کے فرزند اصغر نواب علی حسن خان کے نام سے شائع ہوا۔
(۱۱)نگارستان سخن تذکرہ شعرا فارسی۔
(۱۲)ابجد العلوم (عربی) مطبوعہ بھوپال ۱۲۹۵ھ۔
مؤخر الذکر کتاب علوم و فنون کی مختصر انسائیکلو پیڈیا ہے جو تین جلدوں میں ۹۷۳ صفحات پر مشتمل ہے، پہلی جلد کا نام ’’الوشی المرقوم‘‘دوسری کا نام ’’السحاب المرکوم بانواع الفنون و اقسام العلوم‘‘ہے۔ تیسرا حصہ ’’الرحیق المختوم فی تراجم ائمۃ العلوم‘‘ہے، اس جلد میں علاقوں اور علوم و فنون کے مولفین و ماہرین کے اعتبار سے تراجم ذکر کیے گئے ہیں، مثلا علماء اللغۃ، علماء التاریخ، علماء الہند، علماء قنوج وغیرہ، کتاب کا یہ حصہ تدوین تاریخ ہند اور تراجم علما پر ایک اہم اور معتبر ماخذ ہے۔ اس موضوع پر نواب صاحب کی تصنیفات سے ہندوستان کی علمی، ادبی اور ثقافتی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔
نواب صاحب کے معاصرین میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی (وفات: ۱۳۰۴ھ) کا نام بھی قابلِ ذکر ہے، اس فن میں آپ کی تصنیفات میں ’’طرب الاماثل بتراجم الافاضل‘‘، ’’خیر العمل بذکر تراجم علماء فرنگی محل‘‘(قلمی) ، ’’انباء الخلان بابناء علماء ہندوستان‘‘(مفقود) اور ’’الفوائد البھیۃ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ اہم ہیں، موخر الذکر کتاب محمود بن سلیمان کفوی (وفات تخمینا: ۹۹۰ھ) کی کتاب ’’طبقات الحنفیۃ‘‘ کی تلخیص ہے جس میں آپ نے حذف و اضافہ بھی کیا، مذکورہ دونوں کتابیں مختصر ہیں اور صرف حنفی علما کے تراجم پر مشتمل ہیں۔ اس دور کے دیگر اہم تذکروں میں سرسید احمد کا ’’تذکرہ خانوادۂ ولی اللّٰہی‘‘ہے جو آپ کی مشہور کتاب ’’آثار الصنادید‘‘کا چوتھا باب ہے۔ اس جز کی پہلی تحقیق ڈاکٹر خلیق انجم نے کی اور پھر ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے اپنی پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا۔ مولوی محمد حسین آزاد نے علما کا بھی ایک تذکرہ ’’تذکرہ علما‘‘کے نام سے لکھا جو ناقص رہ گیا۔ اس کا پہلا اڈیشن ۱۹۲۲ء میں خواجہ حسن نظامی کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوا۔ مولوی فقیر محمد جہلمی (وفات: ۱۹۱۶ء) نے ’’حدائق الحنفیہ‘‘کے نام سے ایک ضخیم تذکرہ لکھا۔ یہ تذکرہ دراصل ’’الفوائد البہیہ‘‘ کا چربہ ہے۔
۱۸۵۷ء کے بعد علامہ شبلی اور مولانا حالی نے جدید سوانح نگاری کا ایک قالب تیار کیا۔ ’’حیات جاوید‘‘ کے نام سے مولانا حالی نے سرسید احمد کی ضخیم سوانح عمری لکھی۔ ’’حیات سعدی‘‘ اور ’’یادگارِ غالب‘‘ لکھ کر سعدی اور غالب کی شہرت میں اضافہ کیا۔ علامہ شبلی فنِ تاریخ کے امام تھے، انھوں نے سوانح نگاری کو مکمل تاریخ بنا دیا، جن شخصیات پر قلم اٹھایا ان کے پورے عہد کو زندہ کر دیا۔ ’’الفاروق‘‘، ’’المامون‘‘، ’’الغزالی‘‘، ’’سوانح مولانائے روم‘‘اور ’’سیرۃ النعمان‘‘میں پورے عہد کو سمیٹ لیا۔
چودہویں صدی کی ابتدا میں دو اہم تذکرے شائع ہوئے، جو اختصار کے باوجود آج بھی اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مرجع بنے ہوئے ہیں، پہلا تذکرہ مولوی رحمان علی ناروی (وفات: ۱۹۰۸ء) کا ہے جو پہلی بار ۱۸۹۴ء میں مطبع منشی نول کشور لکھنو سے شائع ہوا، دوسری بار اسی مطبع سے ۱۹۱۴ء میں چھپا۔ فارسی میں ہونے کی وجہ سے ایک زمانہ تک اردو خواں علمی طبقہ اس سے کم ہی فیض یاب ہو سکا۔ اس تذکرے میں کہیں کہیں مصنف کی جانبداری اور عصبیت کی جھلک نمایاں ہے، تاہم تذکرہ نویسی کے روایتی دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔ آزادی کے بعد پروفیسر محمد ایوب قادری نے اسے اردو قالب میں ڈھالا اور ان کی تحقیق و تدوین کے ساتھ ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی پاکستان نے ۱۹۶۱ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد اس تذکرے سے استفادے کی راہ آسان ہو گئی۔ ۱۸۹۷ء میں مطبع منشی نولکشور لکھنو سے مولوی محمد ادریس نگرامی (م۱۳۳۰ھ) کا مرتب کردہ ’’تذکرہ علمائے حال‘‘شائع ہوا، جو صرف با حیات علما کے تراجم پر مشتمل تھا۔ اس میں بہار اور شمالی ہند کے علمائے اہلِ حدیث کا اچھا خاصا ذکر ہے۔ استناد کے اعتبار سے یہ مختصر تذکرہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
۱۸۹۷ء میں بدایوں کے ایک عالم مولانا سید محمد حسین بدایونی (م۱۹۱۸ء) نے ’’مظہر العلماء فی تراجم العلماء والکملاء‘‘کے نام سے ہندوستانی علما کا ایک مفصل تذکرہ لکھا، یہ تذکرہ زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوسکا تھا۔ ۲۰۱۸ء میں ڈاکٹر خوشتر نورانی نے اسے ایڈٹ کر کے ’’تذکرہ علمائے ہندوستان‘‘کے نام سے مکتبہ جام نور دہلی سے شائع کیا۔ اس تذکرے میں کئی علمائے اہلِ حدیث کے بھی تراجم ہیں۔
تقسیم ہند (۱۹۴۷ء) تک زمانی، مکانی، خانوادوں اور عمومی تذکروں کا انبار لگ گیا، جن میں بیشتر کا اسلوب روایتی ہے، ان میں ’’تذکرہ علماء کاکوری‘‘، ’’تذکرہ کاملان رام پور‘‘اور ’’تذکرہ علمائے فرنگی محل‘‘اہم مصادر بنے، لیکن ایک ایسے موسوعاتی تذکرے کی شدید ضرورت تھی جو بلاتفریق مسلک غیر منقسم ہندوستان کے تمام علما کے تراجم کو محیط ہو۔ اس عظیم منصوبے کو سرانجام دینے کا بیڑہ مولانا عبدالحی بن فخر الدین الحسنی (۱۲۸۶ھ ۔ ۱۳۴۱ھ) نے اٹھایا۔ تاریخ، سیر اور تراجم سے آپ کو فطری دلچسپی تھی، عربی، فارسی اور اردو زبان و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اپنی حیات کا بیشتر حصہ اس کام کے لیے آپ نے وقف کر دیا، ہر مسلک کے علما سے قریبی تعلقات تھے۔ سید احمد شہید کے خانوادے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علمائے اہلِ حدیث سے کافی قریب تھے، بہار کے علمائے اہلِ حدیث، خصوصاً علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ بھرپور علمی تعاون کیا، مولانا نے آٹھ جلدوں میں ’’نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر‘‘کے نام سے عربی زبان میں یہ تذکرہ لکھا، ہندوستان کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں تراجم علما پر یہ پہلی کتاب ہے، جس میں پہلی صدی ہجری سے مصنف کی وفات (۱۹۲۳ء) تک ساڑھے چار ہزار ہندوستانی علما کے حالات مذکور ہیں۔ مولانا نے تراجم اور تحقیق کے اصولوں کی بڑی حد تک پابندی کی، تعریف و تنقیص میں اعتدال، توازن اور احتیاط سے کام لیا۔ اس گراں مایہ تصنیف کی اشاعت ایک عرصہ تک معرضِ التوا میں رہی، انتالیس سال میں اس کے مکمل اجزا شائع ہو سکے۔ سب سے پہلے دوسری جلد علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ’’الدررالکامنہ فی اعیان المائۃ الثامنہ‘‘کے تکملہ کے طور پر ۱۹۳۱ء میں دائرۃ المعارف حیدر آباد سے شائع ہوئی۔ بقیہ جلدیں مولانا ابوالکلام آزاد (م۱۹۵۸ء) کی خصوصی توجہ سے ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۹ء تک مختلف مراحل میں شائع ہوئیں، آٹھویں جلد ۱۹۷۰ء میں شائع ہو سکی۔ اس طرح آزادی کے بیس سال بعد اس کتاب سے مکمل استفادے کی صورت نکل سکی۔ اہلِ حدیث علما خصوصاً حضرت میاں صاحب کے تلامذہ کے احوال کی معرفت میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘آج بھی اہم ماخذ ہے۔
اس موضوع پر علمائے اہلِ حدیث کے تصنیفی سرمائے کا جہاں تک تعلق ہے، نواب صدیق حسن خان بھوپالی کی تصنیفات نے تیرہویں صدی ہجری میں ہی نہ صرف سنگِ بنیاد رکھا، بلکہ ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کر دی، لیکن آپ کے بعد اس سلسلہ میں انقطاع آ گیا۔ علمائے اہلِ حدیث خصوصاً حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے علمی سرمایہ کا ڈھیر لگا دیا۔ لیکن تراجم کے فن میں ان کی دلچسپی کم رہی۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیکڑوں ایسے علما کے حالات زندگی گم نامی کی دبیز چادروں میں چھپ گئے، جنھوں نے کتاب و سنت کی اشاعت کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا، اس فن میں علمائے اہلِ حدیث کی عدمِ توجہ کے متعدد اسباب تھے۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی جماعت اہلِ حدیث کا ارتقائی دور تھا، ہندوستان میں تاریخِ اہلِ حدیث نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہو رہی تھی، ایک صدی تک علمائے اہلِ حدیث بیک وقت کئی محاذوں پر مصروفِ عمل تھے، ہندوستان کو استعماریت کے چنگل سے آزاد کرانے کی تحریک، معاشرے سے بدعات کا خاتمہ، دعوت و تبلیغ، قرآن و احادیث کی اشاعت، مختلف محاذوں پر مناظروں کے ہنگامے، مدارس کا جال بچھانا، منہج سلف کا تعارف، تصنیف و تالیف، ان بے پناہ مشغولیات میں تراجم نگاری کا موقع کہاں سے نکالتے۔
دوسرا اہم سبب یہ تھا کہ کتاب و سنت کے یہ شیدائی مختلف مصالح کے پیش نظر اپنے احوال سے باخبر کرنے اور ان کی تشہیر کرنے سے اجتناب برتتے تھے۔ یہ کام انھوں نے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ دیا۔
تیسرا سبب یہ تھا کہ تاریخ بنتی ہے تو تاریخ نگاری جنم لیتی ہے۔ شخصیات کے کارنامے منظر عام پر آتے ہیں تو وہ قرطاس کی زینت بنتے ہیں۔ اس وقت تو تاریخی عمل شباب پر تھا۔
تاہم ایسا نہیں ہے کہ علمائے اہل الحدیث نے اس طرف سے مکمل طور سے نظر پھیر لی ہو۔ مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی کو یہ اولیت حاصل ہے کہ آپ نے اس طرف سب سے پہلے دھیان دیا اور ’’تذکرۃ النبلا فی تراجم العلما‘‘کے نام سے اہلِ حدیث علما کے تراجم لکھنے کا آغاز کیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ مولانا عبدالحی حسنی یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں تو آپ نے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مسودہ برائے استفادہ ان کے حوالے کر دیا۔ مولانا حسنی نے تقریباً تیس مقامات پر آپ کی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ ’’غایۃ المقصود‘‘کے مقدمہ میں آپ نے اپنے اساتذہ کے مفصل حالات لکھے، آپ ہی کی تحریک، ترغیب اور تعاون سے مولانا فضل حسین بہاری (وفات: ۱۹۰۸ء) نے مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کی پہلی مکمل سوانح عمری لکھی، جس میں حضرت میاں صاحب کے پانچ سو تلامذہ کے اسمائے گرامی اور اہم شاگردوں سے متعلق واقعات محفوظ ہو گئے، مولانا عبدالرحیم صادق پوری (وفات: ۱۹۲۴ء) نے ’’الدر المنثور فی تراجم علماء صادق فور‘‘۱۳۱۹ھ / ۱۹۰۱ء میں لکھی جو علمائے صادق پور کی معرفت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مولانا جعفر تھانیسری (وفات: ۱۹۰۵ء) نے ’’تواریخ عجیبہ‘‘ الموسوم ’’سوانح احمدی‘‘کے نام سے سید احمد شہید کے حالات قلم بند کیے جس کے ضمن میں متعدد علماء اہل حدیث کے حالات مل جاتے ہیں۔ مولانا ذوالفقار احمد بھوپالی (م۱۳۴۰ھ) نے ’’الروض الممطور فی تراجم علماء شرح الصدور‘‘لکھی۔ ۱۹۰۸ء میں علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی نے اپنے والد مولانا سعید بنارسی کے حالاتِ زندگی ’’تذکرۃ السعید‘‘کے نام سے لکھے، ’’حیات العلماء‘‘کے نام سے مولانا سید عبدالباقی سہسوانی (م۱۳۵۴ھ؍۱۹۳۶ء) نے علمائے سہسوان کے تراجم لکھے جو ۱۹۲۲ء میں مطبع منشی نول کشور لکھنو سے شائع ہوا، ڈاکٹر محمد حنیف نقوی (وفات: ۲۰۱۲ء) نے ازسر نو اس کی تحقیق و تدوین کی۔ یہ مدون نسخہ ۲۰۱۰ء میں قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی سے شائع ہوا۔
آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے قیام کے بعد علمائے اہلِ حدیث کے سوانحی حالات کی کمیابی کا شدت سے لوگوں کو احساس ہوا، مولانا عبدالسلام مبارک پوری اور مولانا سیف بنارسی نے اس طرف توجہ مبذول کی۔ اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘امرتسر میں تقریبا اسّی کے قریب علما کے تراجم شائع ہوئے۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے اوپر تاریخ اہلِ حدیث مرتب کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ مختلف عوائق کی وجہ سے یہ کام تاخیر سے ہوا اور پہلی جلد ہی منظرِ عام پر آ سکی جس میں مسلک اہلِ حدیث کی تاریخ اور محدثین عظام کے حالات ااور علمی خدمات پر روشنی ڈالی، اس سلسلے کی سب سے اہم کاوش ۱۹۳۸ء میں ’’تراجم علمائے حدیث‘‘جلد اول جید برقی پریس دہلی میں چھپ کر منظرِ عام پر آئی، اس کے مرتب مولانا ابویحییٰ امام خان نوشہروی (وفات: ۱۹۶۶ء) تھے، آپ نے بہت محنت اور عرق ریزی سے یہ تذکرہ مرتب کیا، اس کے ذریعے سے شمالی ہند کے علمائے اہلِ حدیث کے احوال تک رسائی آسان ہو گئی، تذکرہ نگاری آپ کا خاص موضوع تھا۔ اتر پردیش اور دہلی کے تقریباً دو سو علما کے احوال اور علمی خدمات پر مشتمل یہ تذکرہ علمائے اہلِ حدیث کو جاننے کا واحد ماخذ بن گیا۔ یہ واضح رہے کہ اس وقت تک ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کی صرف دوسری جلد منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس تذکرے کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ مذکورہ دونوں صوبوں میں حضرت میاں صاحب کے بیشتر احوال اور خدمات پر جو کچھ مواد آپ کو مل سکا آپ نے جمع کر دیا۔
برصغیر کے علمائے اہلِ حدیث کے عمومی تذکرہ کا یہ نقش اول تھا، سنین اور تاریخی واقعات میں غلطیاں ہونا لازمی امر تھا۔ اس کا مقدمہ علامہ سید سلیمان ندوی جیسی قد آور شخصیت نے لکھا۔ کاش کہ کوئی اہلِ علم اس شاہکار تذکرے کی از سرِ نو تحقیق اور تحشیہ سے اس کی علمی حیثیت کو مزید مستحکم کر دے۔ دوسرے حصہ میں آپ علمائے بہار کا تذکرہ لکھنے والے تھے، علما کی فہرست بھی پہلے حصہ کے آخر میں آپ نے شامل کر دی تھی، لیکن اﷲ کو منظور نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار ’’الہدیٰ‘‘دربھنگہ میں آپ نے ایک مکتوب شائع کیا تھا جس میں آپ نے مسودہ کے گم ہونے کی اطلاع دی تھی اور بہار کے علما سے علمی تعاون کی اپیل کی تھی، بعد میں پھر دوسری جلد کا مسودہ مل گیا، لیکن وہ خستہ حالت میں ہے اور گوجرانوالہ میں جناب ضیاء اللہ کھوکھر صاحب کے یہاں محفوظ ہے۔(مستفادشیخ عزیز شمس حفظہ اللہ) ۱۹۴۲ء میں ’’حیاتِ شبلی‘‘کے نام سے علامہ سید سلیمان ندوی نے مولانا شبلی کی ضخیم سوانح عمری لکھی، اس کتاب میں علمائے اہل حدیث کے متعلق کافی معلومات مولانا نے درج کر دی ہیں۔
تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں ہولناک فسادات کی وجہ سے علمی اثاثے لٹ گئے، بڑے بڑے کتب خانے نذرِ آتش کر دیے گئے۔ علما دو ملکوں میں بٹ گئے، ڈھائی عشروں کے بعد کچھ سکون ملا تو تراجم نگاری کے کام میں تیزی آئی۔ اس وقت تک تذکرہ نویسی کے معیار، تحقیقی اصولوں اور رویوں نے کافی ترقی کر لی تھی، جس کے سبب تذکروں کی ترتیب و تدوین اور تحقیقی طریق کار میں کافی بہتری آئی مگر افسوس ہے کہ مذہبی تذکروں کا روایتی انداز برقرار رہا۔ ضرورت تھی ایسے تذکروں اور سوانح عمریوں کی جن میں تحقیقی اصولوں کو بروئے کار لایا جائے، تاکہ جو بھی کتاب منظرِ عام پر آئے وہ معیاری اور مستند ہو۔
۱۹۷۷ء میں شیخ عزیر شمس کی کتاب ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘جامعہ سلفیہ بنارس سے شائع ہوئی۔ یہ ایک معیاری سوانح عمری تھی جس میں تحقیقی اصولوں کی پابندی کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی موضوع پر ان کی دوسری کتاب ۱۹۸۴ء میں پاکستان سے شائع ہوئی جس کا انداز بھی خالص تحقیقی تھا۔ اس کے بعد علمائے اہلِ حدیث میں تذکرہ نگاری نے اپنی رفتار پکڑ لی، پاکستان میں منظم طریقے سے یہ کام عمل میں آیا۔
۱۹۷۵ء کے بعد منظرِ عام پر آنے والے اہم تذکرہ نگاروں میں عبدالرشید عراقی، میاں محمد یوسف سجاد سیالکوٹی (تذکرہ علمائے اہلِ حدیث دو جلدیں) شیخ عزیر شمس، مولانا محمد مستقیم سلفی (علمائے اہلِ حدیث کی تصنیفی خدمات)، شیخ رفیع احمد مدنی، مولانا عبدالرؤف ندوی، ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی، مولانا اسحاق بھٹی اور ڈاکٹر بہاء الدین ہیں۔
مولانا اسحاق بھٹی اردو کے بڑے ادیب، صحافی، مورخ، مرقع نگار اور سوانح نگار تھے۔ دس جلدوں میں تیرہویں صدی ہجری تک کے علماء کا تذکرہ ’’فقہائے ہند‘‘کے نام سے لکھا، جن میں علمائے اہلِ حدیث کے متعلق اچھا خاصا مواد موجود ہے۔ آپ نے قاضی سلیمان منصور پوری، مولانا غلام رسول قلعوی ، مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا محمد حنیف ندوی کی سوانح عمریاں لکھیں۔ ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘، ’’کاروانِ سلف‘‘، ’’قافلۂ حدیث‘‘، ’’ہفت اقلیم‘‘اور ’’بزمِ ارجمنداں‘‘لکھ کر مرقع نگاری کی صنف میں بیش قیمت اضافے کیے۔ ’’برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن‘‘کے نام سے اہلِ حدیث مفسرین کے احوال لکھے، ’’دبستان حدیث‘‘، ’’گلستانِ حدیث‘‘، ’’چمنستانِ حدیث‘‘اور ’’بوستانِ حدیث‘‘ کے ناموں سے ضخیم کتابیں لکھیں، جن میں علومِ حدیث پر لکھنے والے علما کے کوائف بیان کیے۔ آپ بیتی کی صنف میں آپ کی کتاب ’’گزر گئی گزران‘‘بہترین ادب پارہ ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں تذکرہ و تراجم کے میدان میں دو بڑی شخصیتیں سامنے آئیں۔ پہلا نام ڈاکٹر بہاء الدین کا ہے جو ۱۹۷۰ء سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ برمنگھم سے ماہنامہ ’’صراطِ مستقیم‘‘نکالا اور علمی دنیا میں شناخت بنائی۔ آپ کا کام قاموسی نوعیت کا ہے۔ تاریخِ اہلِ حدیث اور تحریکِ ختمِ نبوت کے نام سے ہندوستانی علمائے اہلِ حدیث کے علمی تراث کو ضخیم جلدوں میں جمع کر رہے ہیں۔ تاریخِ اہلِ حدیث کی آٹھ جلدیں اور تحریکِ ختمِ نبوت کی ۵۲ جلدیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔
دوسرا اہم نام نوجوان محقق اور تذکرہ نگار محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا ہے جو ’’دبستانِ نذیریہ‘‘کے نام سے شیخ الکل فی الکل مولانا سید نذیرحسین محدث دہلوی کے تلامذہ کے احوال و آثار پر مفصل کتاب لکھ رہے ہیں جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، الحمدللہ اس کی پہلی جلد منظر عام پر آچکی ہے اور پورے برصغیر کے علمی حلقوں سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہے۔
محترم تنزیل صاحب کا آبائی وطن ڈیانواں عظیم آباد بہار ہے۔ آپ صاحبِ عون المعبود علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی کے پڑپوتے ہیں، علامہ شمس الحق کی علمی شخصیت سے عرب و عجم کا ہر اہلِ علمِ واقف ہے۔ کتاب و سنت کی اشاعت اور مسلکِ اہلِ حدیث کی ترویج اور فروغ میں حضرت میاں صاحب کے بعد آپ کا اہم اور نمایاں کردار ہے۔ حضرت میاں صاحب کے بعد اس مشن کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی، پوری جماعت آپ کے علمی احسانات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہے۔
اس خانوادے کے روشن چراغ محمد تنزیل صدیقی صاحب ہیں جو نہ صرف دادا کی علمی وراثت کے امین ہیں بلکہ اس کی اشاعت میں مصروف ہیں۔ آپ اعلیٰ ادبی اور تحقیقی ذوق رکھتے ہیں۔ دینی اور عصری علوم پر گہری نظر ہے۔ تذکرہ اور تاریخ خاص موضوع ہے۔ جماعتی تاریخ کی بازیافت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ عنفوانِ شباب ہی سے تصنیف و تالیف کی دنیا میں آ گئے۔ ۲۰۱۰ء میں ایک معیاری رسالہ ’’الانتقاد‘‘کے نام سے جاری کیا۔ ان کا منصوبہ تھا کہ ہر شمارہ مستقل ایک کتاب ہو جو دو حصوں پر مشتمل ہو، پہلے حصے میں کسی ایک شخصیت پر تحقیقی مقالے ہوں اور دوسرا حصہ معاصر کتابوں کے تبصرہ پر مشتمل ہو، پہلا شمارہ علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی کے حالات اور علمی خدمات پر شائع کیا۔ افسوس کہ اس سلسلہ کو آپ آگے نہ بڑھا سکے۔ ۲۰۱۲ء میں ’’الواقعہ‘‘کے نام سے دوسرے رسالے کا اجرا کیا جو بحمد ﷲ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ رسالہ پاکستان میں اپنے معیار اور وقیع مقالوں کی وجہ سے خاصا مقبول ہے۔ ’’الواقعہ‘‘کے خصوصی نمبرات قرآن کریم، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، ختمِ نبوت نمبر اور فتنہ دجالیت دستاویزی حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ کی اہم مطبوعات یہ ہیں:
(۱)بیت المقدس کس کا حق ہے؟ (مطبوعہ کراچی ۲۰۰۱ء)
(۲)اسلام اور عصرِ جدید (مطبوعہ کراچی ۲۰۰۹ء)
(۳)اﷲکی تلاش میں (مطبوعہ کراچی ۲۰۰۵ء)
(۴)برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق (مطبوعہ لیسٹر برطانیہ چوتھا اڈیشن ۲۰۱۴ء)
(۵)اصحابِ علم و فضل (مطبوعہ کراچی ۲۰۰۵ء)
(۶)مولانا محمد جونا گڑھی (مطبوعہ لاہور ۲۰۰۳ء)
(۷)ہم قرآن کا مطالعہ کیوں کریں؟ (مطبوعہ کراچی دوسرا اڈیشن ۲۰۱۶ء)
(۸)مولانا شاہ عین الحق پھلواروی احوال و آثار
(۹)دبستان نذیریہ (جلد اول، ۲۰۱۷ء)
متعدد کتابوں پر آپ نے مقدمے اور تحقیقی حواشی لکھے، جن میں ’’امام ابن تیمیہ‘‘از علامہ شبلی و مولانا الطاف حسین حالی (مطبوعہ کراچی)، ’’ام المومنین سیدہ ماریہ قبطیہؓ‘‘از مولانا حسن مثنیٰ ندوی (مطبوعہ کراچی ۲۰۱۰ء)، ’’اثر قدم کی تاریخی و شرعی حیثیت‘‘از سید نذیر حسین محدث دہلوی (مطبوعہ لیسٹر برطانیہ ۲۰۱۷ء) علمی اہمیت رکھتے ہیں، ان کے علاوہ سیکڑوں تحقیقی مقالات و مضامین لکھے، چند بین الاقوامی سیمینار میں بھی مقالے پیش کر چکے ہیں۔
ان کی مذکورہ تصانیف اور مقالوں سے علمی میدان میں ان کی شخصیت کے تنوع، توسع اور قد و قامت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ ہر موضوع پر لکھتے ہیں لیکن ان کا اصل میدان تراجم، سیرت اور سوانح نگاری ہے، انھوں نے اس صنف میں عام تذکرہ نگاروں سے الگ اپنی راہ نکالی ہے۔ تاریخ و تحقیق کے جدید اصولوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔ زبان و بیان میں شستگی اور روانی کا خاص دھیان دیتے ہیں۔ دینی و جماعتی غیرت اور بے پایاں خلوص نے ان کی کاوشوں کو مقبولیت عطا کی ہے۔
تنزیل صاحب سے میری غائبانہ شناسائی ان کی تصنیف ’’برصغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق‘‘کے ذریعے ہوئی۔ اس کتاب میں آپ نے اعیانِ جماعت پر لگائے گئے الزامات کا تاریخی حقائق کی روشنی میں بھرپور تنقیدی جائزہ لیا تھا۔ یہ کتاب آپ کے وسیع مطالعہ اور تنقیدی صلاحیتوں کا عکسِ جمیل ہے۔
۲۰۱۷ء میں آپ کی شاہکار تصنیف ’’دبستانِ نذیریہ‘‘کی پہلی جلد مرکزی جمعیت اہلِ حدیث دہلی سے شائع ہوئی جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ دراصل خانوادۂ سعیدی کے علما کے بارے میں لکھتے ہوئے شدت سے احساس ہوا کہ وہ علاقے جو حضرت میاں صاحب کے تلامذہ کے مراکز ہیں، کاش کہ کوئی صاحب فکر و نظر ان کا تفصیلی تذکرہ مرتب کر دیتا تو ہماری دشواریاں ختم ہو جاتیں، سلسلۂ ’’دبستان نذیریہ‘‘ کی پہلی جلد ہاتھ آئی تو مسرت سے جھوم اٹھا، میں نے اس گراں مایہ کتاب سے بھرپور استفادہ کیا، فاضل مؤلف نے صوبہ بہار کے معروف اور غیر معروف تلامذۂ میاں صاحب کے مستند حالات اور ان کی خدمات کو تحقیق و تدقیق کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کر دیا۔
الحمد ﷲسلسلہ ’’دبستان نذیریہ‘‘ کی دوسری اور تیسری جلد کا کام بھی انھوں نے مرحلہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے جو علی الترتیب مشرقی اور مغربی اتر پردیش کے تلامذہ میاں صاحب پر مشتمل ہے۔ آپ کی محبت اور عنایت تھی کہ طباعت سے قبل کتاب کے اکثر مشمولات سے استفادے کا شرف حاصل ہوا، جزاہ اللہ احسن الجزاء۔
آپ نے پہلی جلد کی طرح ان دونوں حصوں کی تالیف میں بھی جو بے پناہ عرق ریزی اور کدوکاش کی ہے وہ آپ کے اعلیٰ تحقیق ذوق، فنی و ادبی مہارت اور تذکرہ نویسی کے میدان میں فطری صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
محترم تنزیل صاحب ان تذکرہ نگاروں میں سے ہیں جو صرف اس موضوع کی معتبر کتابوں سے خام مواد نہیں تلاش کرتے ہیں بلکہ اس کی جستجو میں ہر ممکنہ وسائل کا استعمال کرتے ہیں، اہم واقعات، روایات اور سنین کی تصدیق، متعلقہ شخصیت کے اخلاف اور بیانات سے کرتے ہیں، شعرا کے تذکروں، بیاضوں، ادبی و مذہبی رسائل کی فائلوں کو کھنگالتے ہیں۔ معاصرین کی تصنیفات سے مدد لیتے ہیں۔ اس طرح آپ نے متعدد ایسے علما بازیافت کیے ہیں جن کے نقوش مٹ چکے تھے، جن کے نام سے بھی ہم ناواقف تھے۔ تراجم نگاری کے موضوع پر آپ کا یہ عظیم کارنامہ ہے جس کا مرہون منت برصغیر کی جماعت اہلِ حدیث ہمیشہ رہے گی۔ سلسلہ ’’دبستان نذیریہ‘‘ کی مطبوعہ جلدیں اپنے منفرد انداز، تحقیقی اسلوب، خصوصیات اور امتیازات کی وجہ سے تاریخ تذکرہ نگاری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور بلاشبہ ہم انھیں مستند حوالہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
اﷲسے دعا ہے کہ مصنف کی اس خدمتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے، مصنف، ان کے معاونین اور اس نیک کام میں تمام حصہ لینے والوں کے حق میں اسے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
محمد ابو القاسم فاروقی
۹ رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ
مطابق ۱۴ مئی ۲۰۱۹ء بروز سہ شنبہ

4
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحمن صدیقی

ہر مکتب فکر کے عالم صرف اپنے مسلک کے علما کی خدمات ہی بتاتا ہے ۔دوسروں کا ذکر بھی نہیں کرتا ۔۔۔عام عطا ہے

عامر انصاري

شاید آپ نے فاروقی صاحب کا مضمون مکمل نہیں پڑھا

عبدالرحيم بنارسي

قیمتی معلومات یکجا کر دیا آپ نے جزاک اللہ

Abu Hayyan Saeed Al zaydi Al Hashmi

All about fake stories.