تعلق قریب کا ہو یا دور کا،مختصر ہو یا طویل، خوشی کے موقعے پر سکھ کا اور غم کے موقعے پر دکھ کا احساس اس کی گہرائی پر منحصر ہوتا ہے۔ جب تک دنیا ہے دکھ اور سکھ کے سلسلےتو ہر زندگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ہاں کسی زندگی کا سلسلہ ہی تھم جائے تومتعلقین کے لیے اس سے بڑا دکھ کیا ہوگا اور اس سے زیادہ تکلیف کب ہوگی۔
میرے گاؤں سے قریب لیدوا(سدھارتھ نگر) میں یک شبی اجلاس تھا، آدھی رات سے پہلے ہی اعلان ہوا مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری صاحب کا انتقال ہوگیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب پورے جلسے میں کسی بھی فرد کے پاس موبائل فون نہیں رہا ہوگا۔ خبر مولانا الطاف حسین فیضی صاحب کے گھر لینڈ لائن فون پر موصول ہوئی تھی۔وہاں سے کسی نے جلسہ گاہ تک پہنچائی تھی۔
ہمارے مشفق ومحترم دوست برادرم اجمل الطاف حسین فیضی کی عنایت سے اور مولانا الیاس سلفی وغیرہ کی معیت میں اگلی صبح نماز جنازہ میں شرکت کی نیت سے روانگی ہوئی۔ جامعہ سے جنازے کے پیچھے قبرستان کی طرف چلے تو جھنڈانگر کی سڑکیں بھی ماتم کرتی ہوئی نظر آئیں۔ عورتیں اپنے اپنے گھروں کی چھتوں،کھڑکیوں اور دروازوں سے آخری دیدار کررہی تھیں۔
کسی نماز جنازہ میں اس سے زیادہ بھیڑ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ قبر کے پاس لوگ اپنے ہاتھوں کے دو دومضبوط گھیرے بناکر کھڑے تھے۔مٹی دے کر میں واپس دونوں گھیروں سے باہر آچکا تھا۔ یکایک ایسا دھکا لگا کہ پہلے گھیرے والے مجھے روک نہیں پائے اور آخری گھیرے کے حصار میں جاکر میں ایسا رکا کہ نظر کے سامنے قبر کی گہرائی تھی بس۔ وہ دن ہے اور آج کا دن۔ وحشت کا ایسا عالم ہوتا ہے کہ عام طور پر میں قبرستان میں قبر سے ذرا دور ہی کھڑا رہتا ہوں۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں صدر دراوزے سے پہلے ہی اندر بائیں طرف ایک لمبی نوٹ بک ایک قلم کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ اس میں لوگ تعزیت نامے لکھ رہے تھے۔ مجھے اس وقت نثر لکھنا نہیں آتا تھا، چند سطری نظم لکھ دی۔ ایک سطر بھی یاد نہیں ہے اب، مگر ذہن پر زور دینے سے اتنا ضرور یاد آتا ہے کہ اس وقت لگا تھا ماہنامہ السراج کے رحمانی نمبر میں جگہ مل سکتی ہے مگر اب سوچو توویسا نہیں لگتا۔ یہی ہوا بھی تھا، اس خصوصی شمارے میں مجھے وہ نظم نہیں ملی تھی۔
آج رات پھر اسی وقت اسی سے ملتی جلتی خبر ملی۔ اسی چمنستان علم سے پھر ایک تناور درخت ٹوٹا ہے۔ پھر اسی سے ملتا جلتا ایک بڑا علمی خسارہ ہوا ہے۔ آج پھر وہی دن ہے، اسی لیے شاید سالوں پرانا وہ منظر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا اور آج میں نے بیان کردیا۔
جس زمانے میں البلاغ، ترجمان اور نوائے اسلام جیسے رسالوں کا انتظار رہا کرتا تھا، السراج بھی اسی فہرست کا ایک اہم نام تھا۔ تبھی سے شیخ عبد المنان سلفی (رحمہ اللہ) سے استفادے کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر جب ذرا لکھنے کی مشق شروع ہوئی تو ان رسالوں میں چھپنے کی خواہش سے بھی ایک نئے سفر کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ فری لانسر کی اشاعت تک چلتا رہا۔
شیخ عبد المنان سلفی (رحمہ اللہ) مولانا شمیم احمد ندوی صاحب کے ساتھ ممبئی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ابن کلیم صاحب کو خبر ملی تو فری لانسر کا پہلا شمارہ لے کر شیخ کے پاس پہنچ گئے۔ شیخ مرحوم نے پرچے کے مشمولات کو نہ صرف دیکھا بلکہ پورے دل سے اپنے تاثرات بھی لکھ کر دیے جو دوسرے شمارے (اپریل ۲۰۰۹) میں شائع ہوئے۔
ایسے وقت جب لکھنے کی ہمت ہی کم نہیں تھی رسالے کا اجراءتو اوربہت بڑی جرأت کا کام تھا۔ اس ہمت وجرأت کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھاہمارے پاس، بجٹ نہ آفس اور نہ ہی کوئی فائنانسر۔ ایسی سچویشن میں شیخ عبد المنان سلفی (رحمہ اللہ) اور دیگر علماء کی دعائیں اور حوصلہ افزائیاں ہمارے لیے کسی ایوارڈ سے کم نہ تھیں۔جب اکثر بزرگ اور علماء خاموشی سے کام لیتے ہیں، کوئی مستند عالم دین، معروف ایڈیٹر، معتبر خطیب اور محترم مدرس حوصلہ بڑھادے، دعادے دےاور مشورے سے نواز دے تو پھر نہ کوئی خاموشی کھلتی ہے، نہ سرپرستی کی کمی کا احساس ویسا شدید رہ جاتا ہے اور نہ ہی قلت وسائل پیروں میں زنجیر پہنا پاتے ہیں۔
شیخ عبد المنان سلفی (رحمہ اللہ) کے کلمات یہ تھے:
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد!
عروس البلاد ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’دی فری لانسر‘‘ کا پہلا شمارہ دیکھنے کا موقع ملا اور اس کے ذمہ داران خصوصا مدیرالتحریر جناب ابن کلیم صاحب سے ہم کلامی کا شرف بھی حاصل ہوا، مجلہ کے مشتملات پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ پرچہ کے مدیران گرامی ابھی نوجوان اور نوآموز ہیں، بلکہ اگر ان سے ملاقات نہ ہوتی اور یہ اپنے احوال وکوائف سے ہمیں آگاہ نہ کرتے تو ہم یہی فیصلہ کرتے کہ ابوالمیزان اور ابن کلیم صاحبان معمر اور تجربہ کار صحافی اور قلم کار ہیں کہ ان کی تحریروں میں پختگی اور اسلوب میں ندرت ہے جو موجودہ زمانے کے ذہن ودماغ کو اپیل کرسکتی ہے۔
میں اپنے ان نوجوان اور عزیز صحافیوں کی جرأت وہمت کو سلام تشکر پیش کرتا ہوں جنھوں نے بغیر کسی مادی سہارا کے بذریعہ قلم کلمۂ حق اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا عزم کیا۔ اللہ تعالی ان کے عزائم کو بلند کرے اور صحافتی میدان میں انھیں مکمل جرأت کے ساتھ قلمی جہاد کی توفیق دے ۔(آمین)
میں اپنے عزیز بھائیوں کو یہ بھی مشورہ دوں گا کہ انھوں نے جس منزل کی جانب قدم بڑھایا ہے وہ مشکل بھی ہے اور صبر آزما بھی اس لیے وہ کبھی ہمت نہ ہاریں گے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہ کریں گے، ان شاء اللہ کامیابی ان کا قدم چومے گی۔
محبت ہمیں ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند (اقبال)
دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ
عبد المنان سلفی
تھوڑی دیر رک کر سوچو تو یہ کل کی دوسری پرسوں کی بات لگتی ہے، حساب کرنے بیٹھو توپتہ چلتا ہے دونوں باتوں میں تقریباً دس سال کا فاصلہ ہے۔ پہلی جتنی اہم اور حوصلہ افزا ہے اس سے کہیں زیادہ یہ دوسری بات شفقت آمیز اور سرپرستانہ ہے:
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
محبت ہمیں ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اپنی صحت کی ناہمواری کے باوجود دبستان اردو میں آپ کا انٹرویو دلچسپی سے پڑھتا رہا ، بہت خوشی ہوئی، اللہ آپ کو ملت و جماعت کے لیے مزید مفید بنائے۔
آپ نے دوران انٹرویو زمانہ طالب علمی میں ایک مشہور مدرسہ کے آرگن ماہنامہ میں شمس نذیری کے نام سے اپنی ایک نظم کی اشاعت کا تذکرہ کیا ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ غالبا وہ ماہنامہ ” السراج ” جھنڈانگر تھا، اس وقت یقینا یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی کہ بڑھے پوروا میں کون چھپا رستم بیٹھا ہوا ہے ، اب یہ عقدہ کھل گیا تو خوشی ہوئی۔
البتہ دوسری نظم یا غزل آپ نے کس ذریعہ سے بھیجی تھی کہ وہ ملی نہیں ، ورنہ اگر پہلی چھپی تھی تو دوسری بدرجہ اولی شائع کی جاتی۔
ڈھیر ساری دعائیں اور اچھی خواہشات آپ جیسے ہونہار عزیز کے لیے
عبد المنان سلفی جھنڈا نگر نیپال
اب نہ وہ گاؤں اپنا ہے ، نہ برادرم اجمل اپنے گاؤں بھولا پرسا میں ہیں اور نہ ہی اب جھنڈانگر چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے کہ کسی طرح پہنچا جاسکے۔ اب تو اپنا یہ ممبئی نگر ہے(جو پہلے سپنوں کا شہر لگتا تھا)اورمولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری صاحب کے آخری سفر کی وہ پرانی یادیں جو خود ہی اس نئے سانحے سے تازہ ہوگئیں۔
اللہ رب العالمین شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے، پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور ہم طالبان علم کو ایسے مشفق مربی کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین
Ameen