اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مختلف حالات اور کیفیات میں پیدا کیا ہے۔ چنانچہ ان میں کوئی مالدار ہے کوئی غریب، کوئی سخی کوئی بخیل، کوئی اطاعت گزار کوئی نافرمان۔ اب جو دولت مند ہیں اللہ نے ان کی دولت میں اپنے تنگ دست بھائیوں کے لیے زکوۃ کا واجب شدہ حق مقرر فرمایا ہے۔ تاکہ ایمان کے دعوے داروں کی حقیقی پہچان ہوسکے، صدقہ وخیرات کرنے والے سخی لوگوں کا پتہ چل جائے، جلد باز طبیعت رکھنے والے بخیلوں کا اندرونی بخل نمایاں ہوجائے اور ہرکس وناکس کو یقین کی حد تک یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ نے دنیا کو پیدا فرمایا پھر بعض قوموں کے لیے یہ دنیا عطیہ اور انعام ثابت ہوئی جبکہ دوسروں کے لیے مشقت اور تھکن کا باعث رہی۔ ایسے بھی حلال طریقے سے مال کمانا اور حقوق کے مطابق اس کو خرچ کرنا لائقِ فخر کارنامہ ہے اور آخرت کے لیے یہ عمل توشہ ہے۔ دولت مند اجر وثواب سمیٹ لیتے ہیں اور اونچا مقام بھی انھیں حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا صدقہ وخیرات کرنا تنگدستی سے نجات کا ذریعہ ہے اور کافی نفع بخش سودا ہے ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے مال میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور اس کے اندر کوئی کمی لاحق نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وما أنفقتم من شيء فهو يخلفه وهو خير الرازقين(سبأ :۳۹)اور تم جس قدر چیز خرچ کروگے تو وہی اس کا عوض دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
ہر روز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے پکار کر کہتے ہیں لوگو! اپنے رب کی طرف چل پڑو اور خوب سمجھ لو کہ جو چیز تھوڑی ہو مگر کافی ہو وہ چیز زیادہ مگر ناکافی چیز سے بہتر ہے۔ اے اللہ خرچ کرنے والے کو عوض عطا فرما اور بخل کرنے والے کو ہلاک کر۔
یہ بھی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ياإبن آدم أنفق أنفق عليك (البخاري 4684/مسلم 993)اے آدم کے بیٹے! تم خرچ کرتے رہو میں تم پر خرچ کرتا رہوں گا۔
صدقہ وخیرات جہاں مالوں، بلندی درجات وقربت الٰہی کا باعث ہے وہیں صدقہ وخیرات سے بہت ساری مصیبتیں، پریشانیاں اور بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔جو لوگ مختلف قسم کے امراض ومصائب سے گھرے ہوئے ہیں ان کے لیے صدقہ وخیرات ایک بہترین نسخہ کیمیا ہے۔ کیونکہ صدقہ وخیرات بیماری دور کرنے کا ایک روحانی علاج ہے، اس کی دلیل ایک مشہور حدیث ہے:
وداؤوا مرضاكم بالصدقة (صحيح الجامع 3358) صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو۔
یہ بھی یاد رہے کہ افضل صدقہ بیماری سے پہلے دینا ہے کیونکہ موت کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور موت کے بعد آدمی کا مال اس کے وارثین کا ہوجاتا ہے جیسا کہ ایک صحابی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ سب سے افضل اور بڑا صدقہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا:
أن تصدق وأنت صحيح شحيح، تخشي الفقر، وتأمل البقاء، ولا تمهل حتي إذا بلغت الحلقوم، قلت : لفلان كذا ولفلان كذا، وقد كان لفلان ( صحيح مسلم 1032)تو صدقہ دے اور تو تندرست ہو اور حریص ہو اور خوف کرتا ہو محتاجی کا اور امید رکھتا ہو امیری کی، وہ افضل ہے اور یہاں تک صدقہ دینے میں دیر نہ کرے کہ جب جان حلق میں آجائے تو کہنے لگے : یہ فلانے کا ہے یہ مال فلانے کو دو اور وہ تو خود اب فلانے کا ہوچکا یعنی تیرے مرتے ہی وارث لوگ لے لیں گے۔
اس سلسلے میں ایک سچا واقعہ بیان کرنا افادہ سے خالی نہ ہوگا۔دمشق کے ایک ہسپتال میں ایک طبیب عیسٰی مرزوقی تھے اچانک ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور ان کو ہسپتال میں داخل کرادیا گیا۔ چیک اپ کے دوران معلوم ہوا کہ انھیں کینسر کا موذی مرض لاحق ہے ان کے ساتھی ڈاکٹروں نے علاج ومعالجہ شروع کردیا۔ ان کی طبی رپورٹس سامنے تھیں مرض مسسل بڑھ رہا تھا بورڈ کی رائے کے مطابق وہ محض چند ہفتوں کے مہمان تھے۔ ادھر ڈاکٹر عیسٰی نے نبی کریمﷺ کی حدیث پڑھ رکھی تھی: “داؤوا مرضاكم بالصدقة”۔ اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو۔ ایک دن وہ مایوسی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اسے اچانک مذکورہ حدیث یاد آگئی۔ وہ اس کے الفاظ پر غور کرتا رہا، سوچتا رہا، پھر اچانک اس نے سر ہلایا اور بول اٹھا کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو پھر مجھے اپنے مرض کا علاج صدقہ کے ذریعے ہی کرنا چاہیے۔ کیونکہ دنیاوی علاج بہت کرچکا اور بہت ہوچکا۔
ڈاکٹر عیسٰی کو ایک ایسے گھرانے کا علم تھا جس کا سربراہ وفات پا چکا تھا اور وہ لوگ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اپنے ایک قریبی دوست کی وساطت سے اس گھرانے کو ایک مخصوص رقم إرسال کردی، ان پر سارے قصے کو واضح کردیا کہ وہ اس صدقہ کے ذریعے اپنے مرض کا علاج کرنا چاہتا ہے لہذا مریض کے لیے شفا کی دعا کریں۔چنانچہ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث سچ ثابت ہوی اور وہ بتدریج تندرست ہوتا چلا گیا۔
ایک دن وہ ڈاکٹروں کے سامنے دوبارہ پیش ہوا۔ اس کی رپورٹ دیکھ کر سارے ڈاکٹر حیران رہ گئے جو اس کی مکمل صحتیابی کا اعلان کررہی تھیں۔ اس نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی ہدایت کے مطابق علاج کیا ہے۔جس کی وجہ سے اللہ نے مجھے مکمل شفا عطا کی۔
(اس واقعہ کو عبد المالک مجاہد حفظہ اللہ نے اپنی کتاب سنہرے اوراق کے صفحہ نمبر 45 میں عربی ہفت روزہ المسلمون شمارہ 181کے حوالے سے ذکر کیا ہے)
اس واقعہ سے ہمیں سبق لینا چاہیے اور اللہ پر ایمان وتوکل رکھ کر نبی اکرمﷺ کے بتائے ہوئے فرامین کے مطابق صدقہ وخیرات کرکے اللہ سے قریب ہوکر اپنے مرض کا علاج کرنا چاہیے، اللہ ضرور شفا عطا کرے گا۔آج ہمارے وہ بھائی جو اسپتالوں اور ڈاکٹروں کا چکر لگا لگاکر تھک چکے ہیں ان کو یہ نبوی نسخہ ضرور اپنانا چاہیے۔
اللہ سے دعا ہے ہم سب کو اپنے حفظ وأمان میں رکھے ، ہر قسم کی مشکلات، پریشانیوں اوربیماریوں سے محفوظ رکھے اور صدقہ وخیرات کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جزاك اللهُ