آج نصف برس سے زائد عرصے سے کرونا کی مہاماری نے ساری دنیا کو اپنے قبضے میں جکڑ رکھا ہے۔ ساری دنیا لاک ڈاؤن موڈ پر چلی گئی ہے۔ سوشل ڈسٹینسنگ کو قانون بنادیا گیا ہے۔ماسک لگانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ اسکول کالج اور پبلک پلیسزبند کردیے گئے ہیں۔ بے شمار لوگ کروناکے وائرس کووڈ ۱۹ کا لقمۂ تر بن کر خالق حقیقی کی جناب میں حاضر ہوچکے ہیں۔ ہمارے عربی کے بھی دو اساتذہ کرونا کی نذر ہوچکے ہیں۔ لیکن پھر بھی بہت سارے لوگ اسے حقیقت ماننے سے انکار کررہے ہیں۔ کل ایک صاحب سے فون پر بات ہوئی کہنے لگے ارے ہمارے یہاں آئیے گھوم جائیے۔ میں نے کہا آج کل کہیں جانا نہیں ہوتا۔کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن جو ہے۔ کہنے لگے ارے یہ کرونا شرونا سب فالتوباتیں ہیں۔ کہیں کوئی کرونا نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ تو مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیتے ہیں۔ بہت سارے لوگ بہت ساروں کے گلے بھی پڑجاتے ہیں۔ یہ اپنی عقل دوڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کرونا صرف غریبوں کو ہی کیوں پکڑتا ہے۔ بڑے بڑے لوگ اس سے کیوں نہیں متاثر ہوتے۔ حالانکہ ساری دنیا اس بیماری سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ اقتصادیات تباہ ہوگئی ہیں۔ نوکریاں ختم ہوگئی ہیں۔ جینا مشکل ہوگیا ہے لیکن کچھ لوگ اپنی عقل کا گھوڑا دوڑا کر لوگوں کو بے فکر رہنے کی بات کہتے ہیں۔
ایسے موقعے پر مجھے عربی کے مشہورادیب ابو عثمان عمروبن بحر الجاحظ کی یاد آجاتی ہے۔ جاحظ عباسی دور کا شہرۂ آفاقؒ ادیب تھا بلکہ اس عہد کا سب سے بڑا ادیب تھا۔ ۱۵۹ ھ میں بصرہ میں پیدا ہوا۔ ابتدائی زندگی میں مچھلی فروخت کرتا تھا۔ مطالعے کا اتنا شوقین تھا کہ کتابیں کرائے پر لے کر پڑھا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کوئی ایسی کتاب نہیں ہوگی جو اس کے ہاتھ لگی ہواور اس کا اس نے مطالعہ نہ کیا ہو۔ ہندستانی، یونانی اور عربی ثقافت کے ہر رنگ کو اس نے اپنے ذہن کی ہاڑڈ ڈسک میں محفوظ کرلیا تھا۔یہاں تک کہ وہ اپنے دور کا صاحب اسلوب ادیب بن کر منظر عام پر آیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں لکھیں۔ جن میں الحیوان اپنے موضوع پرسے سب پہلی اور سب سے زیادہ جامع کتاب تھی۔ البیان والتبیین ادب کی ان چار کتابوں میں سے ایک ہے جن کے مطالعے کے بغیر انسان ادیب نہیں بن سکتا۔بخیلوں کی خصوصیات پر کتاب البخلاء بھی اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔
اس کی کتابوں میں حقیقت نگاری بھی پائی جاتی ہے اور صوتیاتی تنوع بھی۔اس کی تحریروں میں ظرافت ومزاح اور سنجیدگی کے پیکر میں ایسا منطقی طرز استدلال پایا جاتا ہے جو قاری کی زمام عقل کو اپنا اسیر بنالیتا ہے۔ اس کی تحریروں سے قاری کبھی بوریت کا شکار نہیں ہوتا۔ جاحظ کی ذہانت نے اسے منطقی استدلال کی عجیب وغریب قوت سے آراستہ کردیا تھا جو اس کی تمام تحریروں میں واضح طور سے سامنے آتی ہیں۔ وہ ہر جگہ اپنی منطق کے سہارے باتیں کرتا ہے اور ہر بحث میں اپنی reasoningکو داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ ایک دن وہ ایک یوحنا بن ماسویہ کے ساتھ کسی وزیر کے دستر خوان پر حاضر تھا۔ مختلف قسم کے کھانوں کے ساتھ وہاں یخنی اور مچھلی پیش کی گئی۔ یوحنا نے مچھلی کے ساتھ یخنی کھانے سے انکار کردیا۔ جاحظ نے کہا اماں یار! مچھلی یا تو دودھ کی جنس سے ہوگی یا اس کے جنس مخالف سے ۔ اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے جنس مخالف سے ہیں تو ایک دوسرے کے لیے دوا ہوجائیں گے۔ اوراگر ایک ہی جنس سے ہیں تو یہ سمجھو کہ تم نے ایک ہی شے کھائی ہے۔ یوحنا نے کہا قسم ہے مجھے بہت زیادہ دماغ لڑانے کی عادت نہیں نہ ہی مجھے اس کا شوق اورضرورت ہے۔ ابو عثمان! تم کھاؤ اور دیکھو کل کیا ہوتا ہے۔ جاحظ ٹھہرا عقل ، منطق اور اپنی reasoning کے سہارے زندگی کرنے والا۔ لہٰذااس نے اپنے دعوے کو مدلل کرنے کے لیے مچھلی اور یخنی دونوں کھایا ۔چنانچہ اسی رات اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ جاحظ نے کہا خدا کی قسم! یہ قیاس محال کا نتیجہ ہے۔
انسان کو عقل کا استعمال کرنا چاہیے۔غو ر وفکر کی طاقت سے اپنی علمی استعداد کو صیقل کرنا چاہیے۔ منطقی استدلال سے اپنی باتوں کو مدلل بھی کرنا چاہیے مگر ہر جگہ عقل لڑانے سے کئی بار انسان ایسی مصیبتوں میں واقع ہوجاتا ہے جس سے نکلنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ شریعت کے بے شمار مسائل میں بھی لوگ اپنی عقل لڑاتے ہیں اور قرآن وحدیث کے رفض وانکار کے غیر دانستہ طور سے شکار ہوجاتے ہیں۔کرونا ایک سچائی ہے۔ ایک بیماری ہے۔ متعدی بیماری۔ اس لیے لوگوں کو اس حقیقت سے انکار کرنے کی جرات نہیں کرنی چاہیے۔ حزم واحتیاط کا دامن تھامے رہنا چاہیے ورنہ جہاں ساودھانی ہٹی تو درگھٹنا گھٹنے میں دیر نہیں لگ سکتی۔
اللہ تعالی ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور درست انداز میں سوچنے کی توفیق عطا کرے۔ تمام وبا اور بلا سے محفوظ رکھے۔آمین
So be it