ذہین: مادری زبان کی عالم کاریت کا ایک مظہر

ابوالمیزان منظرنما

ضرورت ایک ایسی آفاقی حقیقت ہے جو گہرے جذبات و احساسات تک کو اوورلیپ کرلیتی ہے۔ مذہب اتنا بڑا محرک اعمال ہے کہ کارل مارکس نے افیون کہہ دیا مگر داعیان مذہب کی اولاد عمومی طور پر اپنا کوئی اور ہی کیریئر چن رہی ہے۔ اس‌ بدلاؤ میں ضرورت کارفرما ہے۔ یہ صرف دعوتی نظام ہی کی ناکامی کا مظہر نہیں بلکہ مذہبی دائرہ کار کی غربت کا بھی ثبوت ہے۔ اردو زبان کو زندہ رکھنے کے جتن میں مرجانے والے کی اولاد اردو کی محبت پر انگریزی میں بات کرتی ہے، یہ بھی ذوق و ضرورت کی کشمکش کا نتیجہ ہے۔
دین دنیا‌ میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کی معرفت عام ہوگی تو باقی مظاہر خود ہی حرکت و عمل میں رہیں گے۔ زبان بھی انسان کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے، کس زبان سے یہ ضرورت پوری ہوگی اس کا علم کسی تبلیغ یا پروپیگنڈے کا محتاج نہیں ہوتا۔ جذبات و احساسات ہاتھ جوڑ لیں یا آنکھوں سے پانی بن کر بہہ نکلیں نہ ضرورتوں کا راستہ روک پاتے ہیں اور نہ ہی حقیقتوں کے سامنے بہت دیر تک ٹھہر پاتے ہیں۔
ضرورت وقت کے ساتھ اپنا سفر طے کرتی رہتی ہے۔ غیر ضروری حسرت اپنے چراغ کا بچا کھچا تیل جلتا ہوا دیکھتی رہتی ہے۔ انسانوں کی طرح اس فانی دنیا میں تمام چیزوں کی ایک ویلیڈٹی ہوتی ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا جیسے ہر چیز کی عمر کے تین مرحلے ہوتے ہیں۔ ضرورت پیٹ بھرنے کی ہو یا تن ڈھانکنے کی، سر پر چھت کے ساتھ اسباب زندگی کی حفاظت کے لیے دیواروں کی ضرورت ہو یا زمین میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے پاؤں میں پہیے باندھنے کی، یہ ساری بنیادی ضرورتیں تمام انسانوں میں مشترک ہیں اور بنا کسی پروپیگنڈے کے اپنی چال چلتی رہتی ہیں۔
مذہب یا زبان جہاں جہاں ضرورت ہے اچھی حالت میں ہیں۔ جہاں انسانی ضرورتوں کا حصہ ہیں وہاں بھی ٹھیک ٹھاک ہیں۔ اور جہاں غریب الدیاری سی سچویشن ہے وہاں حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ بچوں سے امیدیں ہوتی ہیں، جوانوں سے مطالبہ ہوتا ہے اور بوڑھوں پر رحم و کرم۔ کھیت کے لیے کسان پیدا کرنا پڑتا ہے، زبان کے لیے کاروبار یا سرکار اور دین کے لیے داعی۔ ضرورتیں ہی ایجاد کی ماں ہیں، افزائش نسل کے لیے ماں نہ ہوگی تو باقی سارا اہتمام نعروں کی طرح فضاؤں میں گونج کر صوتی آلودگی پیدا کرے گا اور بس۔
بچے سے ماں سب سے زیادہ باتیں کرتی ہے، اسی لیے بچہ سن سن کر پہلی زبان وہی سیکھتا ہے ماں کی زبان، مادری زبان۔ ضرورت ہی ایک بچے کو اشارے سے آواز تک لاتی ہے۔ آواز جو چیخ وپکار سے شروع ہوکر پہلے الفاظ اور پھر چھوٹے موٹے ٹوٹے پھوٹے جملوں تک پہنچتی ہے۔
آج سے کچھ سالوں پہلے یہ تصور ناممکن سا تھا کہ مادری زبان کا بھی کوئی بدل ہوسکتا ہے۔ کوئی ماں کی جگہ بھی لے سکتا ہے۔ باپ پہلا فرد ہوتا ہے مگر وہ بھی ماں اور دودھ پیتے بچے کے درمیان نہیں آسکتا۔ جو بچہ بول نہیں سکتا اس کی ساری ضرورتیں ماں سے جڑی ہوتی ہیں، ماں ہی اس کے اشارے سمجھتی ہے، ماں ہی اس کا ایکسپریشن بوجھتی ہے۔ ایسے بچے اور اس کی ماں کے بیچ آخر کون آسکتا ہے۔
کوئی آگیا ہے۔ اس کے دو ممکنہ اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ گھر میں اکیلی ماں ہے، شوہر کے ماں باپ بھائی بہن وغیرہ ساتھ نہیں رہتے ہیں۔ دوسرا سبب ماں کو بھی فرصت کے اوقات کم میسر ہیں، کام کرتے کرتے بات کرتی ہے، بات بات میں صبح شام میں بدل جاتی ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے رات ہوجاتی ہے۔
ایسی صورت حال میں اگر کوئی بچہ اپنا زیادہ تر وقت موبائل فون پر ویڈیو دیکھنے میں گزارتا ہے تو کیا بعید بات ہے کہ وہ زبان بھی موبائلی سیکھے۔ ماں باپ کی آپس میں گفتگو اور بچے سے دونوں کی علاحدہ بات چیت اگر اسے مادری زبان اردو میں بولنے کی پریرنا نہیں دے سکتے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بچہ موبائل فون کے ساتھ زیادہ رہتا ہے، یا موبائل فون کے ساتھ زیادہ کمفرٹیبل ہے یا اگر وہ پہلی اولاد ہے تو اسے ورچول بچوں کی صحبت میں زیادہ دلچسپی ہے۔
اس‌ میں تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ بچہ ویڈیو جن زبانوں میں دیکھے ان کی شدبد اسے ہوجائے۔ ہاں مادری زبان کا سرے سے کوئی لفظ ہی نہ آئے یہ تعجب کی بات ہے۔
ذہین کا یہی معاملہ ہے۔ دو سال پانچ مہینے بائیس دن کی یہ بچی اپنے والدین کی پہلی اولاد ہے۔ ماں باپ کے علاوہ گھر میں ساتھ اور کوئی نہیں رہتا سوائے ایک چھوٹی بہن کے جس کی عمر ابھی ایک سال اکیس دن ہے۔ چھوٹی بہن تو ابھی صرف گٹ پٹ کرتی ہے، دو ادھورے دانتوں سے اور ممکن بھی کیا ہے۔ ذہین سے تو اس نے موبائل فون ابھی چھیننا شروع کیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ویڈیو اردو ہندی میں نہیں بنائے جاتے یا دوسری زبانوں سے ڈبنگ نہیں ہوتی سب ہوتا ہے مگر یوٹیوب پر گلوبل زبانوں میں مواد زیادہ ہے۔ انگلش، اسپینش، فرنچ، جرمن، اٹیلین اور رشین (جنھیں گلوبل زبانوں کا درجہ حاصل ہے) کے علاوہ کورین اور چائینیز میں بھی بچوں کے لیے بڑی تعداد میں ویڈیو پائے جاتے ہیں۔
اردو ہندی ویڈیو اسکپ کردینے والی، زیادہ انگریزی، کبھی رشین، کبھی کورین اور کبھی کبھی چائینیز ویڈیو دیکھنے والی ذہین نے بولنا شروع کردیا ہے۔ مگر مادری زبان میں نہیں موبائلی زبان میں۔ممی اور ڈیڈی بولنے میں تو ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے البتہ
No
Where are you
What’s this
Thank you
Yes
Oh yeah
Welcome
Oh no
Shoe
Wash
یہ سب انگریزی الفاظ ہیں۔ ذہین نے یہ سارے الفاظ ویژول تعامل دیکھ دیکھ کر سیکھے ہیں اس لیے استعمال میں کوئی چوک نہیں ہوتی۔ جس لفظ یا جملے کا جو ایکسپریشن ہے اس کے ساتھ بالکل سٹیک بولتی ہے، ادائیگی تو ادائیگی استعمال سوفیصد درست ہوتا ہے یہ چونکانے والی بات ہے۔ پھر بھی ذہین کے ماحول میں مذکورہ تمام باتوں کی منطقیت پائی جاتی ہے۔ ہاں ایک سوال پھر بھی باقی رہتا ہے۔ مادری زبان اور ویڈیو کی باقی زبانیں چھوڑ کر ذہین انگریزی میں ہی کیوں بات کرتی ہے؟

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ایم۔ اے۔ فاروقی

بر محل اور بروقت مضمون آپ نے لکھا، اس بارے میں عام بیداری لانا ضروری ہے، ننھے بچے جب مختلف زبانوں کے الفاظ سے جملے بنتے ہیں، والدین بچوں کی یہ عجیب و غریب زبان سن کر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ان کے بچے چینی، تامل، ہندی سب ملا کر بولتے ہیں، غور کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین کی زبان ان بچوں کو کس قدر جناتی اور عجیب و غریب لگتی ہوگی، ان کے دماغ میں کس قدر کنفیوزن پیدا ہوگا، یہ کنفیوزن انھیں نفسیاتی مریض بھی بنا سکتا ہے، آج سے تیس چالیس سال قبل میں نے… Read more »

اام ھشام

ان باتوں پر کم ہی لوگ دھیان دے پاتے ہیں مضمون میں کئ جگہ آسان سی باتوں کو بہت زیادہ ثقیل بنادیا گیاہے۔ آپ کے مضمون کا ٹارگٹ بچے کے ساتھ پیرینٹس ہیں اور ہیرینٹس میں ماں مرکزی کردار ہے تو ماوں کو بھی آپ کے مضمون کا مدعا سمجھ میں آنا چاہیے۔ آسان لکھئے تاکہ خواتین سمجھ سکیں کہ بچوں کا ایک نا آشنا زبان کو خود بخود سیکھ جانے کے پیچھے کیا عوامل ہیں