گذشتہ دنوں امام حرم نبوی، مدینہ یونیورسٹی میں حدیث کے سابق پروفیسر شیخ عبد الرحمن علی الحذیفی کے انتقال کی خبر اڑا دی گئی۔ لیکن جب وہ مسجد نبوی میں جمعہ کے خطبے کے لیے تشریف لائے تو لوگ حیران رہ گئے اور تب لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔
شیخ حذیفی کو میں نے ایک دو مرتبہ مدینہ یونیورسٹی میں دیکھا ہے۔اور بارہا ان کے پیچھے مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ کئی خطبے بھی ان کے سنے ہیں۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ان کی آواز میں بڑی انفرادیت، کشش اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ وہ ان کی اپنی مخصوص طرز کی حامل آواز ہے۔ہمیشہ اسی ردم اور اسی رفتار میں وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
گذشتہ دنوں جب ان کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تو مدینہ طیبہ میں گذرے ہوئے وہ ایام مجھے رہ رہ کر یاد آنے لگے جب میں مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اکثر وبیشتر مغرب اور عشاء کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ اس وقت مغرب اور عشاء کی نماز شیخ حذیفی ہی پڑھایا کرتے تھے۔
در اصل بڑی شخصیات کے ساتھ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے کہ ان کے انتقال کی افواہ اڑا دی جاتی ہے۔کئی وجوہات کے سبب ایسا ہوتا ہے جن کے ذکر کی یہاں مناسبت نہیں۔ ہر چند کہ امام حرم اور ادیبوں میں کوئی نسبت نہیں بنتی لیکن شخصیات کی عظمت کے وجہ شبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہاں انیس منصور کی کتاب ’’معنی الکلام‘‘سے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ مصر کے مشہور ادیب ، ادب عربی کے عمید ڈاکٹر طہ حسین کے بھی انتقال کی خبر اڑا دی گئی تھی۔ انیس منصور کہتے ہیں کہ اخبار والے نے مجھ سے طہ حسین کے بارے میں میرے تاثرات پوچھے تو میں نے بہت تفصیل سے ان کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ طہ حسین اسی سال پیدا ہوئے جب عقاد، مازنی، عبد الرحمن رافعی، ہٹلر، نہرو، مارسل، ہیڈگر، چارلی چپلن، ککٹو، اخمے ٹووا جیسے عظیم شاعر اور ادیب پیدا ہوئے تھے۔ انیس منصور کہتے ہیں کہ فجر کے وقت مجھے پتہ چلا کہ وہ خبر درست نہیں ہے چنانچہ میں نے اخبار والے کو فون کیا اور کہا کہ میرے تاثرات کا عنوان بدل دیا جائے جس سے یہ نہ معلوم ہو کہ ان کی وفات پر یہ تاثرات ہیں۔ اور پھر طہ حسین کے سکریٹری کو فون کیا کہ یہ مضمون انھیں نہ سنائیں لیکن طہ حسین صبح ہی اخبار میں میرے تاثرات پڑھ چکے تھے۔ انھوں نے فون کیااور انیس کو خوب باتیں سنائیں۔
امریکی ادیب ہمینگوئے نے بھی اپنی موت کی خبر پڑھی۔ ہوا یوں کہ جس جہاز سے وہ جارہا تھا وہ کریش ہوگیا۔ اس کے علاوہ کوئی بھی مسافر زندہ نہ بچا۔ لیکن لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ باقی ماندہ مسافر وں کے ساتھ وہ بھی جاں بحق ہوگیا۔اور پھر لکھ دیا گیا کہ فلاں ادیب بھی اسی جہاز کے سقوط میں لقمۂ اجل بن گیا۔اسی طرح برٹرینڈ رسل جیسے فلسفی کی موت کی خبر بھی برطانوی اخبارات نے اڑا دی تھی۔جب کہ وہ زندہ تھا۔
عبد الرحمن شکری مصر کا بہت بڑا ادیب اور شاعر تھا۔ مصر کے مشہور ادیب، شاعراور نقاد عباس محمود عقاد کے ساتھ مل کر اس نے ’’مدرسۃ الدیوان‘‘ جیسےتنقیدی مکتب فکر کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ کئی برس لوگوں سے مخفی رہا تو لوگوں نے مشہور کردیا کہ اس نے خود کشی کرلی۔ کسی نے کہا اس کی وفات ہوگئی ہے۔عبد الرحمن شکری نے اپنے بارے میں لکھی گئی طرح طرح کی کہانیاں خود پڑھیں تو اسے بے انتہا تکلیف ہوئی۔بعد میں لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ زندہ ہے۔اور پھر اس کا انتقال ہوا۔ انیس منصور کہتے ہیں کہ شکری کے انتقال کے بعد میں نے عباس محمود عقاد کو فون کیا تو وہ رو رہے تھے۔ میں فون پر ان کے رونے کی آواز سن رہا تھا۔ انھوں نے فون پر ہی شکری کے بارے میں برجستہ شعر کہے۔ میں بھی ان کو مغموم دیکھ کر غم والم کا شکار ہوگیا۔(معنی الکلام)
موت تو اٹل حقیقت ہے۔ایک دن سب کو مرنا ہے لیکن جان بوجھ کر کسی کی موت کی غلط افواہ اڑانے والے دماغی دیوالیہ پن کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ سوچیے کہ آخر اس پر، اس کے اہل خانہ پریا اس کے معتقدین پر کیا گزرتی ہوگی جس کی موت کی غلط خبر اس کے اہل خانہ تک یا اس تک پہنچتی ہوگی۔ لوگوں کو اس طرح کی اوچھی حرکتیں کرنے سے باز رہنا چاہیے۔
آپ کے تبصرے