تابینِ فوت شدگان یا تقریظِ زندگان!

تسلیم حفاظ عالی متفرقات

دوہزار بیس کئی اعتبار سےحزن وغم کا سال ہے۔ کورونا کی مصیبتیں، لاک ڈاؤن کی تکلیفیں، اقتصادیات کا بحران اور جان و مال کی تباہ کاریاں ہی سال رواں کو “عام الحزن” قرار دینے کے لیے کافی تھیں ، لیکن ستم بالائے ستم اور مصیبت در مصیبت یہ کہ سال رواں میں متعدد جید و ممتاز علما و محققین کے انتقال پرملال نے اسے”عام الاحزان” بنادیا ہے ۔ مستقبل کا مؤرخ جب تاریخ نویسی کرے گا تو دوہزار بیس کے مصائب و آلام کی فہرست میں ان علماء دین کی رحلت کو یقیناً رقم کرے گا ۔
علما کی رحلت بطور خاص ان علما کی جن کی متنوع علمی و ادبی نگارشات اور مختلف دینی خدمات سے ایک امت مستفید ہورہی ہو، بڑے ہی خسارے کا سامان ہے۔ ان کے انتقال پر ملال پر علم دوست طبقے کا مغموم ہونا ایک فطری امر ہے ۔ شریعت کے دائرے میں رہ کر ان کی رحلت ِغم آگیں پر حزن و غم کا اظہار، ان کے محاسن و انجازات کی تذکیر اور ان سے استفادے کے طریقے کی توضیح ایک مستحسن اقدام ہے۔ ان کے متنوع علمی و دعوتی جہود کو سپرد قرطاس کرنا اور بوقلموں خدمات کو حیطۂ تحریر میں لانا مطلوبِ محبان علم و فن ہے۔ ان کی تصنیفات و تالیفات ، بیانات و خطابات اور دیگر کارہاے خیر کا دلکش اسلوب میں احاطہ و تذکرہ گلشنِ نسل نو کی آبیاری کا منبع ہے۔ حقیقی معنوں میں زندہ قومیں اپنے بڑوں کی خدمات و انجازات کی حفاظت کرتی ہیں اور انھیں مستقبل کے لیے مشعل راہ بناتی ہیں ۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں علما و محققین کے حقیقی قدردان رہے ہیں جنھوں نے اپنے وقت کے علما کی خدمات کو تحریر و نگارش کے قالب میں ڈھالاہے اور انھیں مختلف ذرائع سے محفوظ کرکے آنے والی نسلوں کے لیے سرمایۂ افتخار بنایا ہے ۔دور حاضر میں بھی اس سلسلے میں قابل قدر کام ہورہا ہے۔ارباب قلم اپنے اسلاف کی میراث کو محفوظ کرنے کےلیے کوشاں نظر آرہے ہیں ۔کسی عالم دین کے یوم وفات سے ہی تعزیتی مضامین نظرنواز ہونے لگتے ہیں۔قلمکار حضرات اپنے اپنے حساب سےفوت شدہ کی خدمات ِ بوقلموں کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرتے ہیں اور انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ مرور ایام کے ساتھ مقاصد تغیر پذیر ہوتے گئے، اسلوبِ تابین میں جدت پیدا ہوتی گئی، خدماتِ رفتگان کے طرزِ تعارف میں تنوع پیدا ہوتا گیا اور نوبت بہ ایں جارسید کہ تعزیتی تحریروں میں تابین سے زیادہ تمجیدِ ذات کی جھلکیاں نظر آنے لگیں ۔ دور حاضر کی بعض تعزیتی تحریروں کو پڑھ کر بسا اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ فوت شدگان کے محاسن کا تذکرہ ہے یا تحریر کنندہ کے کمالات کا بیان!!
کبیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ابھی بھی اس میں استثنائی صورت موجود ہے۔ بعض تعزیتی مقالات کو پڑھ کر واقعی فائدہ ہوتا ہے۔ گزرنے والے کی زندگی سے بہت ہی اہم اسباق اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ان کے منہج تصنیف و تالیف ، حصول علم کی خاطر کد و کاوش کے سچے حوصلہ انگیز اور ایمان افروز واقعات، موج حوادث سے لوہا لینے کی چشم کشاں مثالیں، مصائب و آلام کی تلخیوں کا پامردانہ مقابلہ، احقاق حق اور ابطال باطل کی راہ میں مثالی قربانیاں، اشاعت علوم و فنون کے کارنامے اور نئی نسل کی تربیت کے تئیں ان کےپر خلوص جذبات و احساسات کا ادراک ہوتا ہے ۔ اور بلا شبہ یہ چیزیں نسلِ نو کے اندر تحریک پیدا کرتی ہیں اور اس کے اندر کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔
اب فیصلہ قلمکارکو کرنا ہے کہ وہ کس مقصد سے فوت شدگان پر خامہ فرسائی کرتاہے۔ ان کی خدمات سے نئی نسل کو متعارف کرانے کے لیے یا پھر اپنے کارہائے نہفتہ کو نمایاں کرنے کے لیے۔اگر مقصد ثانی الذکر ہو تو میری رائے کے مطابق ایسا طرز نگارش تقریظ ِ زندگان پر محمول ہونا چاہیے نہ کہ تابینِ فوت شدگان پر۔

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
سعد

آپ کی یہ والی تحریر بامقصد ہی نہیں بلکہ اصل علماء والی شان اور جلال کے مطابق بھی ہے۔ شکریہ اس مضمون کے لئے۔ کئی دنوں سے اس نکتہ پر غور و فکر کر رہا تھا۔ ہمارے بڑے ڈاکٹر فواز (جے این یو ) نے بھی اس نکتہ کو کئی علمی اور منہجی انداز میں ذکر کرتے رہے ہیں۔ ہم اسے ایسی بدعت سمجھنے لگے تھے جسے سلفی علماء اب بدعت سمجھتے ہی نہیں۔ مگر آپ کا شکریہ اور احسان کہ آپ نے اس جانب توجہ دیا۔

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

شکریہ