کیا موسیقی روح کی غذا ہوسکتی ہے؟

ریاض الدین مبارک

نوٹ:
جمہور علماء موسیقی کی حرمت کے قائل ہیں:

“قال الامام الشوکانی فی ‘نیل الاوطار’ (۸۳/۸) ماملخصہ:
وقد اختلف فی الغناء مع آلۃ من آلات الملاھی, وبدونھا, فذھب الجمھور الی التحریم, مستدلین بما سلف (یعنی من الاحادیث), وذھب اھل المدینۃ ومن وافقھم من علماء الظاھر والصوفیۃ الی الترخیص فی السماع, ولو مع العود والیراع” (تحریم آلات الطرب للالبانی: ص۹۸)

جو ظواھر اور صوفیاء موسیقی کی کچھ مقدار کو مفید قرار دیتے ہیں ان کا حیلہ وہی ہے جس کا حوالہ آج بھی روشن خیال احباب کے لیے چور دروازہ ہے – امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب “ابطال التحلیل” میں حدیث استحلال (یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف…) کی بڑی چشم کشا تشریح کی ہے – معازف کے استحلال کی توضیح یوں کرتے ہیں:

“واستحلالھم المعازف باعتقادھم ان آلات اللھو مجرد سمع صوت فیہ لذۃ, وھذا لایحرم , کالحان الطیور” (بحوالہ: تحریم آلات الطرب للالبانی:ص۹۷)

“معازف” کیا ہے؟

“ھی الدفوف وغیرھا مما یضرب (بہ), کما فی “النھایۃ”………….قال ابن القیم فی “الاغاثۃ”: وھی آلات الھو کلھا, لاخلاف بین اھل اللغۃ فی ذالک” (بحوالہ: تحریم آلات الطرب للالبانی: ص۷۹)

زیر نظر مضمون میں چڑیوں کی چہچاہٹ کا حوالہ تو ہے مزید کچھ حوالے بھی ہیں – شرفاء کے مزاج کی تبدیلی کا حوالہ – زمانے کے بدلاؤ کا حوالہ – موسیقی کے سبب سکون ہونے پر سائنٹفک ریسرچ کا حوالہ – یہ سب حوالے “استحلال معازف” کے زمرے میں آتے ہیں

فاضل مضمون نگار ہمارے معزز قلم کاروں میں سے ہیں – سلفی عالم ہیں – بڑے تجربے کار ہیں – مختلف فیہ مسائل پر فریقین کی آراء پر نظر رکھتے ہیں اس کے باوجود زیر نظر مسئلے میں جمہور علماء سے مختلف رائے رکھتے ہیں-

اعلی حضرات! سلفی العقیدہ قلعے کی سیکیورٹی اور بڑھائیے…


موسیقی فنون لطیفہ کی وہ قسم ہے جس میں نغمات اور ترانوں کی تنظیم کچھ اس انداز سے ہوتی ہے کہ انسانی سماعتوں پر وہ ایک خوشگوار اثر چھوڑ سکے اور ان نغمات کی ترتیب اگر ایسی ہو کہ وہ کوئی اثر نہ چھوڑ سکے تو وہ محض شور وغوغا ہے! موسیقی کی ابتدا کب ہوئی اس کے رموز والحان سے انسان کب آشنا ہوا، کلی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں البتہ یہ بات حتمی ہے کہ موسیقی یعنی میوزک یونانی لفظ Mousike سے اخذ کیا گیا جس کا مفہوم ہے دیویوں کا فن۔ در اصل قدیم یونانی افسانوی کہانیوں میں Muses فنون لطیفہ کی دیویوں کو کہتے ہیں۔ ویسے ہندوؤں کی دیومالائی کہانیاں اور یونانیوں کے یہاں ہر فن اور مظہر قوت کا رمز سمجھے جانے والے افسانوی دیوی دیوتاؤں میں جہاں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے وہیں ایک بنیادی فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ ہندوؤں نے اپنے دیوی دیوتاؤں کو معبود برحق جانا، ان کی پرستش دل وجان سے کی اور اس عبادت میں تاحال کوئی تغیر رونما نہ ہوسکا جبکہ یونان میں قدماء نے تو ان دیوتاؤں کی عبادت کی، رسوم ادا کیے، تہوار منائے اور اپنے معبودوں کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی پیش کیں لیکن جلد ہی ان کی عقل ٹھکانے آگئی، انھوں نے ان دیوی دیوتاؤں کو تاریخ کے صفحات میں قید کردیا اور ان کی پرستش سے باز آگئے! اس سے پہلے کہ ہم راستہ بھٹک کر کسی اور ڈگر پر چل نکلیں موسیقی کی طرف لوٹتے ہیں۔ پہلے انسان فطرت سے زیادہ قریب تھا، نیچر کے متنوع مظاہر میں پائے جانے والے تمام عناصر سے اسے عشق تھا۔ بادل کی گرج ہو کہ بجلی کی کڑک، ہوا کی سنسناہٹ ہو یا توپوں کی دنادن، گھوڑے کی ٹاپ ہو یا شیر کی غراہٹ، کہیں کوئی پتہ کھڑکا، یا کوئی چڑیا چہچہائی، باد نسیم کی لطیف سرسراہٹ اس کے کانوں سے لمس کرتی ہوئی گزری، یا انسان کسی اور صوتی احساس سے دوچار ہوا کہ ساز فطرت کے اثرات اس پر مرتب ہونے لگتے ہیں۔ کوئی دھن کھردری لگی تو انقباض ہوا اور کوئی دھن سازگار آئی تو سرمست ہوگیا۔ گنگناتے آبشاروں اور چہچہاتی چڑیوں کی مترنم صداؤں نے انسان کو زمزمہ سنج بنادیا اور وہ فطرت کی ہر شے میں نغمات کا متلاشی بن گیا، رفتہ رفتہ موسیقی کو علم کا درجہ عطا کیا اور بے شمار آلات ایجاد کرکے نجانے کتنے ان گنت نغمات کی تخلیق کر ڈالی۔
موسیقی ذوق جمال کا عکس ہے اس میں غنائیت کا پایا جانا اولین شرط ہے جس سے افسردہ دلوں کو قرار آسکے اور پژمردہ دلوں کو سکون میسر ہو۔ اس کے برعکس سُروں کی ترتیب اور تنظیم میں اگر صرف ہنگامہ آرائی ہو تو وہ فقط شور ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں! اس غناء کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک موسیقی اور دوسرا شعر؛ اب شعر اور موسیقی دونوں گرچہ اسلامی مزاج کے خلاف نہیں لیکن اسے مکروہ سمجھا گیا، شعر کو تو پھر بھی کسی حد تک اذن سماح ملا، متعدد شعراء نے ہر دور میں اپنے فن کے جوہر دکھائے اور انھیں خوب پذیرائی بھی ملی۔ لیکن موسیقی کے تعلق سے سدّ ذرائع کے طور پر فقہاء نے شدت اختیار کی اور اسے حرام قرار دے دیا۔ عہد رسول میں كچھ واقعات ایسے مذکور ہیں جن سے مدد لے کر لوگوں نے کچھ خاص آلات موسیقی سے لطف اندوز ہونے کو منع بھی نہیں کیا۔ اس کے بعد عہد وسطی میں اس فن کو کافی عروج ہوا اور کئی لوگ اس فن کے ماہر اور رمز شناس بھی کہلائے۔ مغلوں کے دور میں تو اس فن کی تحصیل تکملۂ تہذیب کی علامت بن گئی اور شرفاء اپنے بچوں کو موسیقی کے ماہرین سے باضابطہ تعلیم دلوانے لگے۔ اس ضمن میں کئی معتبر علماء کے نام بھی آتے ہیں جنھوں نے علوم شرعیہ اور دیگر علوم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی دسترس حاصل کی اور لطیف موسیقی سے والہانہ شغف رکھا۔ شرعی اعتبار سے موسیقی کیا ہے، اس کا حکم کیا ہے، میں کوئی اتھارٹی تو نہیں لیکن اتنی بات ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ موسیقی کو لہو ولعب گردانتے ہیں وہ آج کے زمانے میں نہیں بلکہ اس زمانے میں جیتے ہیں جب لہو ولعب کا تصور صرف اوباشی سے تھا، بزرگ کہا کرتے تھے کھیلوگے کودوگے ہوگے خراب۔۔۔ پڑھوگے لکھو گے بنو گے نواب۔۔ ان دنوں کھیل کود کوئی پروفیشن نہ تھا صرف وقت کا ضیاع سمجھا جاتا تھا لیکن آج زمانہ بدل چکا ہے اور زمانے کے دوش بدوش ہماری قدریں بھی تغیر کا شکار ہوچکی ہیں۔ اب کھیل پیشہ ہی نہیں ایک صنعت بن گیا ہے، اس میں شراکت اور حصول مہارت شرافت کا معیار بن چکا ہے اور سماج کا ہر طبقہ وہاں اپنا وجود درج کرانا چاہتا ہے۔ اس ناحیے سے اگر غور کیا جائے تو لہو ولعب کا پیمانہ بدل گیا ہے اور اب کہیں سے کوئی عالم دین اس کی حرمت کا فتوی دینے میں نہ صرف تامل کرتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو اس کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
موسیقی کے تعلق سے کچھ افکار ایسے بھی ہیں جہاں لوگوں کا خیال ہے کہ موسیقی ایک ایسی پر مغز زبان ہے جو براہ راست روح سے ربط قائم کرتی ہے، کوئی ضروری نہیں یہ موسیقی ہمارے بنائے ہوئے روایتی کنونشنل آلات سے ہی نکلے، موسیقی کی صدا آبشاروں سے بھی آتی ہے اور طیور خوش گلو کے نازک چونچ سے بھی پروڈیوس ہوتی ہے، ہواؤں کی سرسراہٹ میں بھی اپنا نمود رکھتی ہے، کہساروں کے بیچ جا بجا پھوٹے ہوئے بہتے چشموں میں اور سمندر کی قابل دید لہروں میں حتی کہ جدید ماہرین نے اب تو روشنیوں کے واضح اور ملگجے اشارات میں بھی اس کے وجود کا ادراک کیا ہے ۔حافظ شیرازی کہتے ہیں :
بگوشِ گل چہ سخن گفتہ ای کہ خندان است
یہ عندلیب چہ فرمودہ ای کہ نالان است
مطلب:
پھول کے کان میں تو نے کیا کہا کہ ہنس پڑا
اور تو نے بلبل کے کان میں کیا کہہ دیا کہ رو پڑا

موسیقی شور و ہنگامہ کا نام بالکل نہیں موسیقی تو اک نغمۂ جانفزا ہے جو انسانی سماعتوں میں معانی ومطالب کا رس گھولنے اور ذہن کا غبار صاف کرکے اس میں فطرت کے مظاہر سے لگاؤ پیدا کرنے سے عبارت ہے۔ وہ مترنم نغمگی آلات موسیقی سے بھی آ سکتی ہے اور بغیر آلات کے بھی، یہ وہبی بھی ہوسکتی ہے اور کسبی بھی۔ کسی صوفی کا فرمان ہے کہ موسیقی اس شخص کے لیے راحت جان ہے جو اس کا اہل ہے اور اس کے لیے وبال جان ہے جو اس کا اہل نہیں اور اس بات سے شعوری طور پر ہر شخص واقف ہے کہ وہ اہل ہے یا نا اہل۔
قدیم یونان کے بیشتر مشاہیر؛ افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفر، فیثاغورس جیسا ریاضی داں، بطلیموس جیسا ماہر فلکیات اور جغرافیہ دان سب موسیقی کے دلدادہ تھے۔ پھر مسیحی پادریوں کا تسلط بڑھنا شروع ہوا اور گرجا گھروں کا پیغام موسیقی کی دھنوں پر ترتیب دیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں کے خلفاء نے موسیقی سے شغف بڑھایا اور پھر تصوف نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا تو موسیقی پر مزید نکھار آیا اور متعدد کتابیں وجود میں آئیں۔ وقت کی رفتار کے ساتھ انسان نے اس فن میں بھی اپنا جوہر خوب دکھایا۔ بعد میں طبعی غنائیت سے آگے بڑھ کر جب نغمات کو کسی سانچے میں ڈھال کر صوتی لہروں میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنے کا خیال آیا تو انسان کو موسیقی کا آلہ بنانے کی فکر تیز تر ہوئی اور سب سے پہلے بانسری کا ایجاد عمل میں آیا جو مختلف ادوار سے گزرتا ہوا کسی نہ کسی شکل میں آج بھی باقی ہے۔ چنانچہ مولانا رومی نے اسی بانسری کا سہارا لیا اور اپنی مثنوی کا آغاز حمد و نعت کے بجائے اس شعر سے کیا:
بشنو از نی چوں حکایت می کند
وز جدائیہا شکایت می کند
مطلب:
بانسری سے سن وہ کیا بیان کرتی ہے
اور وہ جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے؟

اس بدلتی دنیا کی روز افزوں ترقی دیکھ کر فن موسیقی نے جہاں اپنی نغمگی میں وسعت عطا کی وہیں موسیقی کے نئے نئے آلات بھی ایجاد کیے اور صناعی کا یہ سلسلہ اب تک تھما نہیں ہنوز جاری وساری ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق موسیقی نہ صرف دلوں کو گداز اور سامعین کو حقیقت کا ہمراز بناتی ہے، بلکہ جدید ترین ریسرچ بتاتا ہے کہ موسیقی مریضوں کے رنج والم میں تخفیف بھی کرتی ہے۔ اس طرح موسیقی پسند کرنے والے افراد دوسرے نارمل انسانوں کی بہ نسبت کم رنجور ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ موسیقی ان کے آلام کی شدت کو کشید کرکے انھیں یک گونہ راحت عطا کرتی ہے۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اس کی لذت سے آشنائی ہی اس کے درجات کا تعین کرسکتی ہے۔ وہ موسیقی جو قلب کو تسکین دیتی ہے وہ ذوق جمال کی آئینہ دار ہوتی ہے لیکن جب طبیعت میں مزید انقباض پیدا ہونے لگے اور روح کو فرحت نصیب ہونے کے بجائے انسان کا جسم ہی تھرکنا شروع کردے اور انسان اپنے اعضاء وجوارح پر کسی طور قابو نہ رکھ سکے تو وہ موسیقی سطحیت کا شکار ہوجاتی اور یہی وہ چیز ہے جو اس سے دوری بنائے رکھنے پر آمادہ کرتی ہے! فطرت کے بیشتر مظاہر میں موسیقی کارفرما ہے بس دیدۂ عبرت نگاہ چاہیے۔ بقول غالب ہماری زندگی ایک ساز ہے جو اپنے مخصوص نغمات میں پیہم بجتا رہتا ہے:
نغمہ ہائے زندگی ہی کو غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

بہر کیف موسیقی کو اپنے اعصاب پر مرض کی طرح سوار نہ کیا جائے، باد صرصر کی مانند اس کا آنا اور ہولے سے چلا جانا ہی باعث نجات ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موسیقی رعنائیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن وہ روح کی غذا نہیں ہوسکتی! روح کی غذا تو صرف ذکر الہی ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

بہترین مضمون

رحمت

علم زیادہ ہو اور مرض لگ جائے تو اس کا نقصان بڑا ہوجاتا ہے موسیقی کا مسئلہ بڑا ہے – واضح نصوص اور جمہور علماء کے اتفاق کا مسئلہ ہے چونکہ کچھ اہل مدینہ بھی اس کے قائل تھے اس لیے بعض لوگوں کو گمان گزرا کہ امام مالک بھی اسی میں شامل ہوں گے اس گمان کو یقین میں بدلنے کے لیے امام مالک سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: یہ فاسقوں کا کام ہے ………………….. ریاض بھائی ایسے عالم ہیں جن کو عربی بھی آتی ہے اور وہ بھی بسالت پور کے ہیں مزید رحمانی صاحب کے… Read more »