عظیم المرتبت صحابی حضرت ابو ہریرہ دوسی رضی اللہ عنہ: مناقب و فضائل

ابوتحسین خان تاریخ و سیرت

بے شک اولیاء و صالحین کی سیرت کا مذاکرہ و مطالعہ دلوں کو جلا بخشتا ہے، عزم و حوصلے بلند ہوتے ہیں، خیر میں ان کی اقتدا کرنے میں آسانی ہوتی ہے، انبیاء کرام و مرسلین عظام کے بعد دنیا میں اگر کوئی جماعت سب سے بہتر و برتر، افضل و اعلی ہے تو وہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ جنھیں اللہ جل شانہ نے select کیا ہے اور روئے زمین پر اپنی مخلوقات میں سب سے بہتر ہستی کی رفاقت کے لیے منتخب کیا ہے، چنانچہ یہ اعلی اخلاق کے پیکر نفوس قدسیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں، آپ پر نازل کردہ نور کی پیروی کی، آپ کے ساتھ مل کر اسلام کی سربلندی و سرخروئی کے لیے راہ خدا میں لڑائیاں لڑیں، اللہ جل شانہ نے جن کے ذریعے کتاب وسنت کی حفاظت فرمائی، جنھوں نے وحیین سے اپنے سینوں کو منور کرکے آنے والی نسلوں تک بلا نقص و نقصان اس امانت کو کما حقہ پہنچانے کا بیڑا اٹھایا، پس اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے!
علم و عمل، زہد و ورع کے علمبردار، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد بیان کرنے والے، دنیا سے بے تعلق رہنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے لوگوں کو روکنے والے، حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے، وارثین انبیاء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک قابل ذکر، جلیل القدر، عظیم المرتبت صحابی حضرت ابو ہریرہ عبدالرحمن بن صخر الدوسی- رضی اللہ عنہ- ہیں! آپ نے اپنی والدہ کی گود میں ہی نشو و نما پائی چنانچہ صغر سنی سے ہی آپ بکریاں چرایا کرتے تھے، کہا جاتا ہے کہ آپ کی ایک چهوٹی بلی تھی جس سے آپ کو بہت انسیت تهی، جب صبح ہوتی اور آپ بکریوں کو لے کر نکلتے تو اس ننھی بلی کو بھی اپنے ساتھ چراگاہ لے جاتے، اسی کے ساتھ کھیلتے، بلی سے یہ لگاؤ دیکھ کر اہل خانہ نے آپ کی کنیت ہی ابو ہریرہ رکھ دی پھر کیا تھا آگے چل کر آپ اس کنیت سے اتنا مشہور ہوگئے کہ یہ آپ اور آپ کے والد کے نام پر غالب آگئی!
آپ رضی اللہ عنہ کو اللہ جل شانہ نے اپنی توفیق و احسان سے دین اسلام کی ہدایت بخشی چنانچہ خیبر کے سال آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے بڑے حافظ و راوی ہیں، آپ کے مناقب و فضائل بے شمار ہیں۔ عصر حاضر میں خارجیت و ناصبیت کا ایک ٹولہ آپ رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشی کر رہا ہے،ایسا کرکے یہ ضمیر فروش افراد اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ حالانکہ دفاع صحابہ دفاع اسلام ہے، دفاع صحابہ دفاع سنت ہے، دفاع صحابہ عین ایمان ہے، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب امت کے سامنے پیش کیے جائیں، آپ رضی اللہ عنہ کی امت کے لیے پیش کردہ عظیم الشان و ناقابل فراموش خدمات جلیلہ اجاگر کی جائیں تاکہ مسلم نوجوان ہوش کے ناخن لیں، ان نفوس قدسیہ پر انگلی اٹھانے والے باطل افکار و نظریات کے حاملین کو معقول ودندان شکن جواب دیں، کیا پتہ یہ لوگ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں، واللہ ولی التوفیق!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کو دو بنیادی حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے :اول عام فضائل اور دوم: خاص فضائل!
(۱)عام فضائل یعنی وہ قرآنی آیات و احادیث پر مشتمل فضائل کہ جو عمومی طور پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعلق وارد ہیں۔ تو جو فضائل عمومی ہیں وہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت ہیں کیونکہ آپ بھی انھی نفوس قدسیہ میں سے ایک ہیں!
نیز اسی ضمن میں وہ فضائل بهی آئیں گی جو یمن و اہالیان یمن کے لیے وارد ہیں تو چونکہ آپ بھی ایک دوسی یمنی ہیں اس لیے آپ کے لیے بھی یہ فضائل ثابت ہیں چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے پاس اہل یمن آئے، وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے!(أخرجه البخاري حديث رقم 3302)
اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اے اللہ! تو ہمارے شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما! صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے لیے شام میں برکت عطا فرما! اے اللہ! ہمارے لیے یمن میں برکت عطا فرما!(صحيح البخاري حديث رقم 1003)
(۲)خاص فضائل: اس سے مراد وہ فضائل ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ کے لیے خصوصی طور پر ثابت ہیں اور جو حسب ذیل ہیں:
۱۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ اور آپ کی والدہ ماجدہ کے لیے دعا فرمانا:
چنانچہ ارشاد نبوی ہے: اے اللہ! اپنے ان بندوں یعنی ابو ہریرہ اور ان کی والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں (کے دلوں) میں ڈال دے اور ان (کے دلوں) میں مومنوں کی محبت!(صحيح مسلم:4/1938 حديث رقم 2491)
۲۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے برتن میں برکت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ میرے لیے ان میں برکت کی دعا فرما دیں، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو اپنی دونوں مٹھیوں میں رکھ کر دعا فرمائی اور مجھ سے کہا: ان کھجوروں کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور اپنا ہاتھ داخل کرکے بلا جھاڑے نکال لیا کرو، آپ فرماتے ہیں کہ میں اس سے کئی وسق(ایک وسق 180 سے 200 کلو گرام ہوتا ہے) نکالتا رہا اور کهاتا رہا وہ تھیلی کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوئی یہاں تک کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو یہ تھیلی مجھ سے ضائع ہوگئی!(أخرج أحمد والترمذي وحسنه الألباني)
ایک دوسری روایت ہے جس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں: میں اسلام میں تین بڑی مصیبتوں سے آزمایا گیا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے کوچ کرجانا، شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور توشہ دان!
صحابہ کرام نے استفسار کیا: اے ابوہریرہ! مزود یعنی توشہ دان کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا: تھیلی میں رکھے کھجور! آپ فرماتے ہیں کہ ایک غزوے میں میں شریک تھا، میں نے کچھ کھجوریں نکالیں اور انھیں لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوا اور اس میں برکت کی دعا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ لشکر کے دس لوگوں کو بلاؤ، چنانچہ میں نے دس صحابہ کو دعوت دی تو وہ آئے اور اس سے تناول فرمایا یہاں تک کہ آسودہ ہوگئے پھر اسی طرح پورے لشکر سے دس دس کرکے آتے گئے اور اس سے شکم سیر ہوتے گئے، اس کے باوجود بھی میرے پاس اس تھیلی میں کچھ کھجور باقی رہ گئے! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ہریرہ! جب کبھی تم اس میں سے کچھ لینا چاہو تو اپنے ہاتھ کو اس تھیلے میں داخل کرکے بغیر الٹ پلٹ کیے جھاڑے بغیر لے لیا کرو!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اس توشہ دان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں کھاتا رہا اور پھر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی کھاتا رہا یہاں تک کہ عہد عثمان میں جب حضرت عثمان شہید کردیے گئے تو میرے ہاتھ میں موجود تمام چیزیں چھین لی گئیں اور اسی کے ساتھ وہ برتن بهی چھین لیا گیا! کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ میں نے اس برتن سے کتنی کھجوریں کھائی ہیں، میں نے اس برتن سے دو سو سے زائد وسق کھجوریں تناول کی ہیں! (دلائل النبوة للبيهقي:6/110-111)
۳۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لیے اس بات کی گواہی دینا کہ ابو ہریرہ طلب علم کے بہت حریص ہیں:
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! قیامت کے روز لوگوں میں سے آپ کی شفاعت کی سعادت کا مستحق کون ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ہریرہ! مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ اس کے متعلق تم سے پہلے کوئی سوال نہیں کرے گا کیونکہ حدیث سے متعلق میں نے تمھیں سب سے زیادہ حریص پایا ہے، قیامت کے دن میری شفاعت کا سب سے حقدار وہ شخص ہوگا کہ جس نے لا الہ الا اللہ اپنے خالص دل سے کہا ہوگا! (أخرج البخاري وأحمد وغيرهما، صحيح البخاري:6229)
۴۔آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام وایمان سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کے ایک راستے میں میری ملاقات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حال میں ہوئی کہ میں جنابت میں تھا، لہذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کهسک گیا، پهر غسل کرکے واپس آیا، مجھے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابو ہریرہ تم کہاں چلے گئے تھے؟ میں نے جواب دیا: میں جنبی حالت میں تھا اسی لیے میں نے ناپسند کیا کہ ناپاکی کی حالت میں آپ کے ساتھ بیٹھوں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی پناہ! بے شک مومن ناپاک نہیں ہوتا ہے! (صحيح البخاري كتاب الغسل، باب عرق الجنب وأن المؤمن لا ينجس:279)
۵۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بیمار ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عیادت کے لیے آپ کے گھر تشریف لانا:
چنانچہ جب بھی حضرت ابو ہریرہ بیمار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت فرماتے جیساکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں عیادت کے لیے تشریف لائے اس حال میں کہ میں بیمار تھا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو ہریرہ! کیا میں تمھیں کچھ سکھا نہ دوں! عبدالرحمن! کیا میں تمھارا علاج اس چیز سے نہ کروں کہ جس کے ذریعے جبریل علیہ السلام نے میرا علاج کیا تھا! میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیوں نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ نے یہ پڑھ کر میرا علاج کیا: “بسم اللہ أرقيك والله يشفيك من كل داء يؤذيك ومن شر النفاثات في العقد ومن شر حاسد إذا حسد وقال عبدالرحمن من كل داء فيك”۔(أخرج أحمد وغيره)
۶۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرنا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! متقی بن جاؤ تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے، اور قناعت پسند بن جاؤ تم لوگوں میں سب سے زیادہ شکرگزار بن جاؤ گے، تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو اس طرح تم مومن بن جاؤ گے، اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرو اور کم ہنسا کرو اس لیے کہ زیادہ ہنسی دلوں کو مردہ بنا دیتی ہے! (أخرج أحمد والترمذي وابن ماجه وصححه الألباني)
۷۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی عبادت:
آپ رضی اللہ عنہ صوم وصلاة کے بڑے پابند تھے، چنانچہ آپ، آپ کی زوجہ اور خادم قیام اللیل کے لیے آپس میں باری متعین کرتے تھے! جیسا کہ ابو عثمان النھدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سات دن بحیثیت مہمان قیام کیا، تو میں نے پایا کہ آپ، آپ کی بیوی اور آپ کا خادم رات کے ایک پہر میں باری متعین کرتے تھے، ان میں ایک بیدار ہوتا، تہجد پڑھتا پھر دوسرے کو جگاتا!
امام احمد نے زیادہ کیا ہے کہ میں نے کہا: اے ابو ہریرہ! تم کیسے روزہ رکھتے ہو؟ تو آپ نے جواب دیا: میں مہینے کے ابتدائی تین دن روزہ رکھتا ہوں تاکہ اگر میرے ساتھ کوئی حادثہ درپیش ہوجائے تو مہینے کے آخری ایام میں روزہ رکھ سکوں! (أخرجه البخاري وزاد أحمد)
نیز اسی طرح ابن سعد نے صحیح سند سے عکرمہ سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ بے شک ابو ہریرہ یومیہ بارہ ہزار تسبیحیں پڑھتے تھے اور کہا کرتے تھے: میں اپنی لغزشوں کے بقدر تسبیح پڑھتا ہوں! (ذكره ابن سعد بسند صحيح)
اسی طرح ابن جریج سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اپنی رات کو تین حصوں میں بانٹتا ہوں، ایک حصہ تلاوت قرآن کریم کے لیے، دوسرا حصہ سونے کے لیے اور تیسرا حصہ احادیث نبویہ حفظ کرنے کے لیے! (تاريح دمشق:67/362)
تاریخ دمشق میں شراحیل سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے!(تاريخ دمشق:67/367)
سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ بازار میں چکر لگاتے پھر اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف لاتے اور دریافت کرتے: گھر میں کچھ ہے؟ اگر جواب ملتا: نہیں! تو آپ کہتے: کوئی بات نہیں! میں روزے سے ہوں! (حلية الأولياء:1/382 والبيهقي في السنن الكبرى:8172)
اسی طرح امام احمد نے الزھد میں حضرت ابو ایوب کی سند سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی چارپائی کے پاس ایک مسجد تھی، آپ کے گھر میں ایک مسجد، آپ کے کمرے میں ایک مسجد، آپ کے برآمدے میں ایک مسجد اور گھر کے باہر ایک مسجد تھی چنانچہ جب بهی آپ گهر میں داخل ہوتے تو ان سب میں نماز پڑھتے اور جب باہر نکلتے تو بھی ان سب میں نماز پڑھتے! (أخرج الإمام أحمد في الزهد ص 192)
۸۔آپ رضی اللہ عنہ کا اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کوجب وہ حالت شرک میں تھیں اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا چنانچہ حسب معمول ایک دن میں نے انھیں دعوت دی تو انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں بول دیں جو مجهے ناگوار گزریں لہذا میں روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا جسے ماننے سے وہ انکار کرتی تهیں آج بھی میں نے انھیں دعوت دی جس پر انھوں نے آپ کے بارے میں مجهے ناگوار گزرنے والی بات سنادیں لہذا آپ اللہ سے دعا کردیں کہ اللہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے، جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ!ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما! دعا نبوی سنتے ہی میں خوش ہوکر اپنے گھر کی طرف نکلا ، گھر پہنچتے ہی کیا دیکهتا ہوں کہ دروازہ بند ہے، اسی دوران میری ماں نے میرے قدموں کی آہٹ سن لی جس پر وہ برجستہ بول پڑیں: ابو ہریرہ! اپنی جگہ پر رک جاؤ! اسی دوران میں نے پانی کی آواز سنی! آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں(میری ماں) نے غسل کیا اور اپنی زرہ پہنی اور اپنے دوپٹے کو اوڑھا پھر دروازہ کھولا اور گویا ہوئیں: اے ابو ہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں! آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں وہاں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس لوٹا اس حال میں کہ میری آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے تر تهیں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ خوش ہوجائیں! اللہ نے آپ کی دعا کو قبول فرمالیا ہے، اللہ نے ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت بخش دیا ہے! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا کہ اچھا ہوا! پهر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! الله سے دعا فرمادیں کہ اللہ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور لوگوں کی محبت ہمارے دلوں میں ! جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی: اے اللہ! تو اپنے ان بندوں (ابو ہریرہ اور ان کی والدہ) کی محبت اپنے مومن بندوں میں ڈال دے اور ان میں مومنوں کی محبت ! چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی مومن ایسا نہیں پایا گیا کہ جس نے میرے بارے میں سنا ہو یا مجھے دیکھا ہو مگر اس نے مجھ سے محبت کی ہے! (أخرجه مسلم بسنده)
نیز اسی طرح طبقات ابن سعد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن میں اپنے گھر سے مسجد کی طرف نکلا تو راستے میں لوگوں کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی جنھوں نے مجھ سے دریافت کی کہ کس چیز نے تمھیں گھر سے نکالا ہے؟ میں نے جواب دیا: بھوک نے! جس پر انھوں نے بھی کہا: اللہ کی قسم! ہمیں بھی بھوک نے ہی نکالا ہے! حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چنانچہ ہم سب کهڑے ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: کس چیز نے تمھیں اس گھڑی آنے پر مجبور کیا ہے؟ ہم سب نے ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ٹوکری منگائی اور اس میں سے ہر ایک کو دو دو کھجوریں عطا کیں اور ارشاد فرمایا: تم لوگ یہ دو دو کهجوریں کھالو اور اس کے ساتھ پانی پی لو! عنقریب یہ دو دو کھجوریں تمھارے پورے دن کے لیے کفایت کرجائیں گی! ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک کھجور تناول کیا اور دوسرا چھپا لیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے مخاطب ہوئے: ابو ہریرہ ! تم نے دوسری کهجور کیوں چهپائی ہے؟ میں نے جواب دیا: اپنی والدہ کے لیے! جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تم کهالو! میں تمھیں تمھاری والدہ کے لیے دو کھجور (الگ سے) دے دیتا ہوں! (طبقات ابن سعد:4/328، 329)
۹۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا غلاموں کو آزاد کرنا:
نیکی واحسان کرنا آپ رضی اللہ عنہ کا نہایت ہی پسندیدہ مشغلہ تها، یہی وجہ ہے کہ آپ خیر کے کاموں میں پیش پیش رہتے تھے، چنانچہ جو اعمال آپ کو محبوب تھے انھی میں سے ایک غلام آزاد کرنا ہے کیونکہ اس کار عظیم کے بہت سارے فضائل وارد ہوئے ہیں!
امام احمد رحمہ اللہ نے الزهد میں ابو المتوکل سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک حبشی لونڈی تھی جو اپنی ذمہ داریاں صحیح سے انجام دینے میں کوتاہی کرتی تهی جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے ایک دن اس پر کوڑا اٹھا لیا پھر آپ کہنے لگے: اگر قصاص متعین نہیں ہوتا تو میں اس کوڑے سے تجھے بوجھل کردیتا لیکن میں تجھے ایسی جگہ فروخت کروں گا جہاں مجھے تیری قیمت سب سے زیادہ موصول ہوگی! تو جا! آج سے تو اللہ کی راہ میں آزاد ہے! (أخرج الإمام أحمد في الزهد ص:221)
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب میں ہجرت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو اسی دوران غلام بھی آپہنچا، آپ نے مجھ سے کہا: اے ابو ہریرہ! یہ تمھارا غلام ہے،تو میں نے کہا: وہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہے پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسے آزاد کردیا! (أخرج البخاري في صحيحه)
۱۰۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا زہد:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا جو ایک بکری کو ذبح کیے ہوئے تھے لوگوں نے آپ کو دعوت دی جس پر آپ نے تناول کرنے سے انکار کردیا اور ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوئے کہ آپ جو کی روٹی سے شکم سیر نہ ہوسکے!(أخرج البخاري:5414)
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ روایت کرتے ہیں حضرت ابو ہریرہ سے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمھیں ٹھنڈی مال غنیمت نہ بتادوں؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ جس پر آپ نے ارشاد فرمایا: موسم سرما میں روزے رکھنا! (أخرج الإمام أحمد في الزهد ص 221)
اسی طرح ابو سلیل سے روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے اپنے دلوں کی بات نہیں مانی تم لوگ ایسی آرزوئیں رکھتے ہو جسے تم پا نہیں سکتے اور اتنا مال جمع کرتے ہو جنھیں تم کھا نہیں سکتے! اور ایسے گھر بناتے ہو جس میں تم رہ نہیں سکتے! (أخرج الإمام أحمد في الزهد:221)
اسی طرح یزید بن الأصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ تم میں سے ایک انسان کو اپنے بھائی کی آنکھ کا میل تو نظر آجاتا ہے مگر وہ اپنی آنکھ کا ٹیڑھا پن بھول جاتا ہے! (أخرج الإمام أحمد في الزهد:222)
۱۱۔آپ رضی اللہ عنہ کا شکران نعمت:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کثرت سے ذکر الہی کرنے والے اور انعامات خداوندی پر اللہ کا شکر بجالانے والے کے طور پر جانے جاتے تھے، چنانچہ آپ سے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی پھر جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو بلند آواز سے کہنے لگے: تمام تعریف اللہ کے لیے ہے کہ جس نے دین کو سیدھا بنایا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو امام بنایا کہ جو غزوان کی بیٹی کا اپنے پیٹ کی آسودگی اوربوجھ کم کرنے کے عوض مزدور تھا! (حلية الأولياء:1/379)
نیز یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ برابر کہا کرتے تھے: میری نشو ونما یتیمی میں ہوئی اور ناداری کی حالت میں میں نے ہجرت کی اور میں بسرہ بنت غزوان کا اپنا پیٹ بھرنے اور بوجھ ہلکا کرنے کے بدلے مزدور تھا، پھر اللہ رب العالمین نے ان سے میری شادی کروادی، پس تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے کہ جس نے دین کو سیدھا و پائیدار بنایا اور ابو ہریرہ کو امام بنایا! (أخرجه ابن ماجه:2445)
۱۲۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور طلب علم:
آپ رضی اللہ عنہ کے طلب علم کی راہ میں حرص و شوق پر جو باتیں دلالت کرتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
(۱)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن لوگوں میں سے آپ کی شفاعت کا سب سے حقدار کون ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ہریرہ! مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ اس کے متعلق تم سے پہلے کوئی سوال نہیں کرے گا کیونکہ حدیث سے متعلق میں نے تمھیں سب سے زیادہ حریص پایا ہے، قیامت کے دن میری شفاعت کا سب سے حقدار وہ شخص ہوگا کہ جس نے لا الہ الا اللہ اپنے خالص دل سے کہا ہوگا!(أخرج البخاري وأحمد وغيرهما، صحيح البخاري:6229)
(۲)اسی طرح ابو نعیم نے معرفة الصحابة میں حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم مجھ سے ان اموال غنیمت سے متعلق نہیں پوچھتے ہو کہ جن کے بارے میں تمھارے ساتهی پوچھتے ہیں؟ تو میں نے کہا: میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے وہ چیزیں سکھلائیں جو اللہ نے آپ کو سکھلائی ہیں! (أخرج أبو نعيم في معرفة الصحابة)
(۳)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین سال صحبت اختیار کی چنانچہ ان ایام میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث حفظ کرنے میں سب سے زیادہ حریص رہا!(أخرج البخاري)
(۴)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کا علم حفظ کیا جن میں ایک میں نے پھیلا دیا جبکہ دوسرا اگر میں نے اسے پھیلایا تو میرا حلقوم کانٹ دیا جائے گا!(أخرجه البخاري)
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنے پیٹ میں محفوظ تمام باتیں بتلادوں تو تم مجھے گھور میں پھینک دو گے! امام حسن فرماتے ہیں: انھوں (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) نے سچ فرمایا! اللہ کی قسم! اگر وہ ہمیں یہ بتاتے کہ خانہ کعبہ منہدم کردیا جائے گا یا اسے جلا دیا جائے گا تو لوگ ان کی تصدیق نہیں کرتے!(الفقيه والمتفقه:1185)
اور اس کی مثال وہ روایت ہے کہ جسے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اگر میں نہر کے کنارے ہوتا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بڑھایا ہوتا تاکہ چلو بھر پانی لے لوں پھر (اسی دوران) میں تمھیں وہ تمام باتیں بتلاتا کہ جنھیں میں جانتا ہوں تو میرا ہاتھ میرے منہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مجهے قتل کردیا جاتا!(الفقيه والمتفقه:1186)
اسی طرح عمرو بن یحیی بن سعید الاموی سے روایت ہے وہ روایت کرتے ہیں اپنے دادا سے کہ ان کے دادا نے فرمایا: میں مروان اور ابو ہریرہ کے ساتھ تھا تبھی میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں نے صادق مصدوق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: میری امت کی ہلاکت قریش کے کچھ بچوں کے ہاتھ ہوگی، تو مروان نے (تعجب سے) کہا: بچوں کے ہاتھ؟ تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ چاہیں تو میں انھیں بنو فلاں اور بنو فلاں نام سے بتادوں!(أخرجه البخاري بسنده)
(۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے میں مجھ سے زیادہ روایت کرنے والا عبداللہ بن عمرو کے علاوہ کوئی نہ تھا اس لیے کہ وہ (حضرت عبداللہ بن عمرو حفظ کے ساتھ) لکھتے بهی تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ (صرف حفظ کرتا تھا)! (أخرجه البخاري)
(۶)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرأت کے درمیان ایک سکتہ لیتے تھے، چنانچہ میں نے آپ سے عرض کیا: میرے والدین آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول! آپ تکبیر و قرأت کے درمیان کے سکتے میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: میں یہ پڑھتا ہوں ” اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد”۔(أخرجه البخاري:744)
۱۳۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا دوسرے لوگوں کی دعوت و تعلیم پر اثر:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے علم و فضل کی وجہ سے لوگوں میں بہت محبوب تھے، احادیث نبویہ جیسی عظیم علمی کنجی آپ کے پاس تھی جسے امت تک نقل کرکے آپ رضی اللہ عنہ نے ہم سب پر بہت بڑا احسان کیا ہے، چنانچہ آپ کے علمی اثر کی ایک مثال حسب ذیل ہے:
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کا گزر مدینہ کے بازار سے ہوا، آپ وہاں تهوڑی دیر رک گئے اور کہنے لگے: اے بازار والو! کس چیز نے تمھیں عاجز بنا رکھا ہے؟ لوگوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: وہاں میراث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم ہورہی ہے اور تم لوگ یہاں پر ہو، وہاں جاکر اپنا حصہ کیوں نہیں لے رہے ہو؟ اس پر لوگوں نے پوچھا کہ وہ جگہ کہاں ہے؟ آپ نے مسجد نبوی کی طرف اشارہ کیا! چنانچہ لوگ جلدی جلدی مسجد کی طرف نکل پڑے، حضرت ابو ہریرہ لوگوں کے واپس آنے تک وہیں رکے رہے، چنانچہ تهوڑی ہی دیر میں لوگ واپس آگئے، تب آپ ان سب سے مخاطب ہوئے کہ واپس کیوں آگئے؟ لوگوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! ہم مسجد گئے اور داخل بهی ہوئے مگر ہم نے کوئی چیز تقسیم ہوتے نہیں پایا۔ اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچها: کیا تم نے مسجد میں کسی کو نہیں پایا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم نے دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت نماز پڑھ رہی ہے، ایک جماعت قرآن پڑھ رہی ہے، ایک اور جماعت حلال وحرام پر تبادلۂ خیال کر رہی ہے۔ اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان سے کہا: افسوس ہو تم سب پر! یہی میراث محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے!(الطبراني في الوسيط:1429)
(۱۴)نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا آپ رضی اللہ عنہ کو وکیل و گورنر بنانا:
(۱)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے زکاة کی حفاظت کے لیے متعین کیا، اسی دوران ایک شخص آیا اور وہ اپنے لیے غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اس پکڑلیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا، جس پر وہ شخص کہنے لگا: بے شک میں حاجتمند ہوں! میرے بال بچے ہیں اور مجھے سخت ضرورت آن پڑی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے یہ سن کر اسے چھوڑ دیا، پھر جب میں نے(دوسرے دن) صبح کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا: اے ابو ہریرہ! تم نے گزشتہ رات اپنے قیدی کے ساتھ کیا کیا؟ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا واسطہ دیا تو میں نے اس پر رحم کهاکر چھوڑ دیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بے شک اس نے تم سے جهوٹ بولا ہے وہ پھر واپس آئے گا! میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی بنا پر جان گیا کہ وہ شخص واپس ضرور آئے گا اس لیے میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا، جب وہ دوبارہ آیا اور اناج لینے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور اس سے کہا: میں تمھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضرور لے کر جاؤں گا، وہ کہنے لگا: مجھے چھوڑ دیں! بے شک میں تنگ دست ہوں، میرے ذمہ میرے بچے ہیں، اب میں نہیں آؤں گا اس پر میں نے رحم کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا، پھر میں نے صبح کی، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے ابو ہریرہ! گزشتہ رات تم نے اپنے قیدی کے ساتھ کیا کیا؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے اپنی سخت ضرورت اور (بھوکے) بال بچوں کی شکایت کی تو میں نے اس پر رحم کھاکر چھوڑ دیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بے شک اس نے تم سے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ آئے گا! چنانچہ میں نے تیسری بار اس پر تاک لگائی لہذا جب وہ آیا اور غلہ لینے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: میں تمھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر جاؤں گا، یہ تیسری اور آخری بار ہے تم کہتے ہو کہ واپس نہیں لوٹو گے اور پھر واپس آجاتے ہو! تو اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو! میں اس کے بدلے تمھیں ایسے کلمات سکھلاؤں گا کہ جن سے اللہ تمھیں نفع پہنچائے گا! میں نے کہا: وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا: جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی: (اللہ لا إله إلا هو الحي القيوم) البقرة:۲۵۵ مکمل آیت پڑھ لیا کرو اس لیے کہ یہ برابر اللہ کی طرف سے تمھاری حفاظت کرے گی اور صبح تک شیطان تم سے قریب نہیں ہوسکے گا! یہ سن کر میں نے اسے چھوڑ دیا پھر جب میں نے صبح کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے مجھ سے کہا: تمھارے قیدی نے کل رات کیا کیا؟ میں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے مجھے کچھ ایسے کلمات سکھلائے جس سے وہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اللہ کے یہاں مجھے فائدہ پہنچائیں گے لہذا میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے کہا: اس نے مجھ سے کہا: جب تم بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی شروع سے آخر تک مکمل پڑھ لو! ساتھ ہی اس نے مجھ سے کہا: یہ آیت اللہ کی طرف سے تمھاری حفاظت کرے گی اور صبح تک شیطان تم سے قریب نہیں ہوسکے گا! یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اس نے سچ بات کہی ہے مگر وہ جھوٹا ہے! ابوہریرہ! کیا تمھیں خبر ہے کہ تین رات سے تمھارا سابقہ کس سے ہے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شیطان تھا!(أخرجه البخاري)
(۲)ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علاء بن الحضرمی کو بحرین کا گورنر بنایا پھر اس کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بنایا!(أخرج أحمد في المسند:7977)
(۳)ابن سیرین روایت کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین کا گورنر بنایا!(أخرج عبدالرزاق في المصنف:20659، 11/323)
(۵)اسی طرح محمد بن زیاد سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ کو مدینہ کا امیر بنایا!(البداية والنهاية:8/121)
دینی بھائیو!
بلاشک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے طالبان علوم نبویہ کو ایک عظیم درس دیا ہے کہ کس طرح علم حاصل کیا جائے، آپ رضی اللہ عنہ کی علمی زندگی ہمارے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملازمت اور حفظ حدیث کی راہ میں بے شمار پریشانیاں، مشقتیں اٹھائی ہیں، کئی کئی دنوں تک آپ کو بھکمری کا بھی شکار ہونا پڑا ہے۔آپ نے یہ آلام و شدائد یونہی نہیں برداشت کیے ہیں چنانچہ اس کا ثمرہ نہایت ہی بار آور رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ روایت حدیث میں آپ رضی اللہ عنہ سب سے آگے بڑھ گئے ہیں آپ سے روایت کرنے والوں کی تعداد 800 سے زائد ہے!
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ مولی کریم آپ رضی اللہ عنہ کی تمام خدمات قبول فرمائے، آپ کو اجر عظیم سے نوازے اور ہم طالبان شریعت اسلامیہ کو آپ کی مرویات حفظ کرنے اور انھی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!تقبل یا رب العالمین!

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد عمر

ماشاء اللہ!
بہت عمدہ