تزک بابری اور اس کے چند اہم تراجم

ایم اے فاروقی تعارف و تبصرہ

ظہیر الدین محمد بابر کی شاہ کار خود نوشت کو دنیا میں جو شہرت نصیب ہوئی وہ بہت کم آپ بیتیوں کو مل سکی، دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے، نئے تراجم میں اسپینش(Spanish)، آذر بائجانی اور عربی زبانوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ بابر نے اس کتاب کو ہندوستان میں فتوحات کے دوران اپنی مادری زبان چغتائی ترکی میں لکھا تھا۔ در اصل یہ کتاب ایک روزنامچہ اور ڈائری ہے، جس میں بابر نے اپنی جنگی مہمات سے متعلق واقعات نہایت دل چسپ اور دل کش انداز میں رقم کیا ہے ، یہ روزنامچہ تزک بابری، توزک بابری، بابر نامہ اور وقائع بابری کے ناموں سے مشہور ہے۔
تزک بابری یا بابر نامہ بابر کی وہ خود نوشت سوانح حیات ہے جس نے اسے عظیم الشان تاج دار ہونے کے ساتھ بے مثال مصنف بنادیا، اس نے نہایت سادہ اور آسان اسلوب میں اپنی زندگی کے حالات بیان کیے، تزک بابری کے ذریعے ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس نے کس قدر شدائد اور مصائب برداشت کرکے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو قندھار سے شمالی ہند تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ بابر صرف عظیم جنگجو ہی نہیں تھا بلکہ اعلی پائے کا شاعر، عالم، ماہر عروض اور جغرافیہ داں تھا، وہ تفریح و نشاط اور سیر و شکار کا شوقین تھا، خوبصورت باغات اور عمارتیں تعمیر کرنے کا اسے جنون تھا، وہ اپنے اعزہ ، اقربا، احباب اور رعایا کا پوری طرح خیال رکھتا تھا، ان کی بڑی سی بڑی غلطیوں کو معاف کردیتا مگر سزائیں بھی عبرت ناک دیتا۔ تزک بابری اس بات کا مکمل ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اس نے کبھی کسی عبادت گاہ کو منہدم نہیں کیا، وہ شمالی ہند کے جن مقامات سے گزرا اور جہاں قیام کیا، ان کا ذکر تفصیل سے کرتا ہے۔وہ14/فروری 1483ء کو پیدا ہوا اور 26/دسمبر 1530 کو فوت ہوا ، اس طرح اس نے کل 47 سال 10 ماہ کی عمر پائی۔
تزک بابری بابر کی زندگی کی مکمل داستان نہیں ہے، اس نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سالوں کی جد و جہد کی داستان ضرور بیان کی، لیکن اس میں تین اہم خلا ہیں، پہلے میں1503ء تا 1504مطابق 908ھ تا909ھ دوسرے میں1508ء سے1519ء تک اور تیسرے میں1520ء سے1525ء تک کا زمانہ شامل نہیں ہے۔ ان سالوں کے واقعات جاننے کے لیے دوسرے مصادر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، تزک بابری کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے والی مسز اے ایس بیوریج کا دعوی ہے کہ بابر نے مکمل روزنامچہ لکھا تھا، لیکن اس کے بہت سے اوراق مختلف حوادث کی نذر ہوگئے، 1512ء مطابق 918ھ میں حصار کے نزدیک اس کا کیمپ برباد ہوگیا، دوسرا واقعہ 1529ء میں پیش آیا، تیسرا شیر شاہ سوری کے عہد میں بے سروسامانی کی حالت میں ہمایوں کی جلاوطنی کے دوران پیش آیا۔(The Babur-nama in English (Memoirs of Babur)preface page xxxv)
عبد الرحیم خان خاناں کے فارسی ترجمہ سے اردو ترجمہ رشید اختر ندوی نے کیا۔ اس ترجمہ کے مطابق ابتدا میں فرغانہ کی بادشاہت، خاندانی حالات پھر 903ھ سے904 تک کے واقعات مذکور ہیں اس کے بعد 908ھ مطابق 1503ء، 909ھ مطابق 1504ء اور 910ھ مطابق 1505ء کے واقعات غائب ہیں،911ھ مطابق 1506ء سے 915ھ تک کے واقعات مسلسل ہیں، پھر 916ھ سے 931ھ تک کے واقعات موجود نہیں ہیں، دوبارہ 932ھ سے 935ھ تک کے واقعات تسلسل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں، رجب 936ھ میں بابر بیمار پڑا اور 5/جمادی الاولی 937ھ مطابق 26/ دسمبر 1530ء میں وفات پائی، یعنی آخر زندگی کے ڈیڑھ سال کے واقعات گم ہیں، مسز بیوریج نے اپنے ترجمہ میں 1508—-1519ء مطابق 916—925 ھ کے واقعات لکھ کر تسلسل قائم رکھنے کی کوشش کی ہے( صفحہ از 349—366) یعنی اس میں 1519 مطابق 925ھ تک کے واقعات آگئے ہیں، لیکن 1520ء مطابق 926ھ تا 1525ء مطابق931ھ کے واقعات سے تزک بابری خالی ہے، بابر کی زندگی کے ان تاریخوں کے واقعات جاننے کے لیے ہمیں معاصر مورخین کی کتابوں کا سہارا لینا پڑے گا۔
تزک بابری کے نسخے اور اس کے فارسی تراجم
تزک بابری کا ایک قلمی نسخہ سالار جنگ میوزیم حیدر آباد میں دوسرا نسخہ لندن برٹش میوزیم میں موجود ہے، ایک ترکی متن نکولائی ایوانوف المنسکی(Nikolai Ivanovich LL’Minskii 1822—1891) نے 1857ء میں شائع کیا، 1905ء میں مسز بیوریج نے دوسرا متن چھاپا، ایل ایف رش بروک ولیمز مصنف ظہیرالدین محمد بابر نے رائل جرنل ایشیاٹک سوسائٹی کے جرنل 1906 ص 87 کے حوالہ سے بتایا کہ موخر الذکر غالبا بابر کے خود نوشت متن کی براہ راست نقل ہے۔
ترکی زبان میں ہونے کی وجہ سے بیشتر اہل علم خصوصا ہندوستانی مورخین تزک بابری سے شاید مستفید نہ ہوپاتے، مگر اہل علم کی دنیا سدا عبد الرحیم خان خاناں کا احسان مند رہے گی جنھوں نے اکبر بادشاہ کی فرمائش پر اسے فارسی زبان میں منتقل کر کے ہندوستانیوں کو سلطنت مغلیہ کے بانی سے واقف کرایا۔ خان خاناں نے یہ ترجمہ اکبر کے حکم سے 998ھ مطابق 1589ء میں کیا، یہی ترجمہ اردو اور دیگر زبانوں میں تراجم کی بنیاد بنا، عہد مغلیہ کے مورخین نے اسی ترجمہ کو سامنے رکھ کر بابر کے حالات لکھے، بعض مورخین نے تزک بابری کے اس فارسی ترجمہ کو من و عن نقل کردیا، مولانا حبیب الرحمان شیروانی ( م1951) نے تذکرہ غازی ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے کتاب لکھی، جو غالبا 1927ء میں کتابی شکل میں شائع ہوئی، اس کے مقدمہ میں مولانا ذکر کرتے ہیں کہ آگرہ کی لائبریری میں عبد الرحیم خان خاناں کے ترجمے کو میں نے پڑھا، اس ترجمہ اور آئین اکبری کی مدد سے یہ کتاب ترتیب دی، مذکورہ کتاب 1890ء میں مضمون کی شکل میں حیدر آباد کے ایک رسالہ ’’محسن‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ خان خاناں کا اسلوب نہایت سلیس ، سادہ اور ایک خاص ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے، بروک ولیمز نے ماخذ خصوصی کے تحت خان خاناں سے پہلے کا ایک اور ترجمہ کا ذکر کیا ہے ، جس کا مترجم پائندہ خان ہے۔
تزک بابری کے انگریزی اور فرنچ تراجم
(۱)یورپین دنیا میں تزک بابری کو متعارف کرانے کا سہرا دو انگریز مستشرقین جان لیڈن ( John Leyden 1773—1811) اور ولیم ارسکن ( William Erskine 1775——1852) کے سر ہے، لیڈن اسکاٹ لینڈ کا باشندہ تھا، وہ شاعر اور مصنف تھا، اسے قدیم مخطوطات تلاش کرنے اور مشرقی زبانیں جاننے کا جنون تھا، وہ 1803ء میں ہندوستان آیا، ارسکن 1804ء میں ہندوستان وارد ہوا، انھوں نے تزک بابری کا ترجمہ انگلش میں کیا ، جس کا نام Memoirs Of Zahir-Ed-Din Muhammad Babur Empror Of Hindustanہے، 1817 میں یہ ترجمہ برطانیہ پہنچ گیا، لیکن شائع 1826 میں ہوا۔ تقریبا نوے سال بعد پروفیسر لوکاس کنگ ( Pr Lucas King 1856–1925 ) نے اس کی نظر ثانی اور تصحیح کی اور 1921 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے دو جلدوں میں شائع کیا، کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ لیڈن ، ارسکن کے سامنے صرف عبد الرحیم خان خاناں کا فارسی ترجمہ تھا، ترکی زبان یا ترکی متن سے وہ ناواقف تھے، یہ ترجمہ بہت زیادہ معیاری اور سلیس نہیں ہے ، اس کی حیثیت صرف تاریخی ہے۔
(۲)1871ء میں پاوے ڈی کورئیل (Povet De Courteille) نے المینسکی کے ترکی متن سے فرنچ زبان میں تزک بابری کا ترجمہ کیا۔
پاوے کا پورا نام Abel JeanBaptiste Michel Pavet De Courtelle (1821—1897) تھا انیسویں صدی کا مشہور فرانسیسی مشتشرق تھا، اسے ترکی زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔
المینسکی(Nikolai Ivvanovich LL’Minskii 1822——1891) مشہور روسی مستشرق اور ترکی زبانوں کا ماہر تھا، قازان میں پروفیسر تھا، اپنا علمی کیریر ترک کرکے روسی آرتھوڈوکس مشینری کے لیے خود کو وقف کردیا۔
(۳)تزک بابری کا سب سے مشہور و معروف ترجمہ اینٹ سو سننا بیوریج ( Annet Susannah Beveridge 1842——1929 ) کا ہے، مسز بیوریج نے اس ترجمہ کے لیے ترکی زبان سیکھی، ان کے شوہر مسٹر بیوریج آئی سی ایس افسر تھے جنھیں بڑی مراعات حاصل تھیں، ان کی کوششوں سے سالار جنگ میوزیم سے تزک بابری کا ترکی متن دریافت ہوا، جسے مسز بیوریج نے 1905 میں شائع کیا۔ مسز بیوریج نے اپنے ترجمہ کا نام The Babur Nama in English(Memoirs of Babur رکھا، درج ذیل خصوصیات کی وجہ سے انگلش تراجم میں یہ معتبر مانا گیا؛
۱۔یہ ترجمہ براہ راست ترکی متن ظہیر الدین محمد بابر غازی سے کیا گیا۔
۲۔اصل کتاب میں جہاں کہیں خلا تھااور جن سالوں کے واقعات بابر نے نہیں ذکر کیے تھے، موصوفہ نے دوسری معاصر تاریخ کی کتابوں کی مدد سے ان خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔
۳۔قیمتی حواشی لگائے تاکہ قاری کو سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔
۴۔ترجمہ 1912 سے 1921 تک چار مختلف دورانیوں میں کیا گیا، فرغانہ 1912، کابل 1914،ہندوستان 1917، مقدمہ فہرست وغیرہ 1921، 1922 میں لندن سے یہ ترجمہ شائع ہوا۔
(۴)Tuzak-I- Babari, The Autobiography Of Baber, Translated And Edited By H.M. Elliot(1808—1853), John Dowson(1820—1881)
ناشر: سنگ میل پبلیکیشن 2006ء
لیڈن ارسکن کے ترجمہ کے بعد تزک بابری کا یہ دوسرا ترجمہ تھا، جس کے مترجم سر ایچ ایم ایلیٹ تھے، جنھیں ہندوستانی تاریخ کا سب سے بڑا مورخ کہا جاتا ہے۔ایلیٹ کا ترجمہ بہت تاخیر سے منظر عام پر آیا، جس کی وجہ سے اسے قابل ذکر شہرت نہ مل سکی۔
ایلیٹ کا پورا نام سر ہنری میر ایلیٹ (Sir Henry Miers Elliot 1808——1853) ہے، ۲۶ سال تک ایسٹ انڈیا کمپنی میں سول سرونٹ رہے، ان کی سب سے مشہور کتاب The History of India As Told By Its Own Historian ہے جو آٹھ جلدوں میں 1867 سے 1877 کے دوران لندن میں شائع ہوئی۔
(۵)تزک بابری کا سب سے جدید انگلش ترجمہ پروفیسر ڈبلیو ایم تھیکسٹن کا ہے، موصوف بیس سال ہارورڈ یونیورسٹی میں فارسی اور دیگر السنہ شرقیہ کے مدرس رہے، آپ کے ترجمہ کا نام The Baburnama, Memoirs Of Babur Prince And Empror ہے ، یہ ترجمہ 1996 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس واشنگٹن سے شائع ہوا تھا، دوسری بار 2002 میں سلمان رشدی کے تفصیلی تعارف کے ساتھ شائع ہوا، دوسرے ایڈیشن میں مترجم نے کافی کچھ تبدیلیاں کیں، انگریزی میں اب تک جتنے ترجمے ہوئے ہیں ان میں یہ ترجمہ معیاری، رواں اور بہتر ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پروفیسر تھیکسٹن کی نظر میں پاوے کورنیل کا فرنچ ترجمہ، مانو کیوٹو (Eijo Mano Kyoto) کا جاپانی انگلش ترجمہ، مسز بیوریج کا ترجمہ، لیڈن کا ترجمہ سب کے سب تھے، مکمل کتاب چار حصوں اور 554 صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کے آخر میں منتخب تشریحات، حوالے، اشاریہ اعلام اور اشاریہ اماکن ہے، سلمان رشدی انگریزی کے ایک اچھے ناول نگار ہیں، ان کےمتنازع ناول ’’شیطانی آیات‘‘(Satanic Verses) نے انھیں مسلم معاشرہ میں معتوب اور مردود ضرور کردیا لیکن اس کتاب کے مقدمے میں انھوں نے بابر اور بابری مسجد سے متعلق جو تاریخی حقائق اور نقاط بیان کیے وہ یقینا ان کے وسیع مطالعہ کا عکاس ہیں، بابر کی حیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیےیہ ایک عمدہ کتاب ہے۔
تزک بابری کے اردو تراجم
اردو دنیا نے تزک بابری کی طرف اپنی توجہ خاصی تاخیر سے مبذول کی، اردو میں سب سے پہلا ترجمہ مرزا نصیر الدین گورگانی کا ہے، ان کا تعلق خاندان مغلیہ سے تھا، عربی، فارسی اور ترکی سے وہ اچھی طرح واقف تھے، انھوں نے تزک بابری کا ترجمہ 1898ء میں بمقام حیدر آباد مکمل کرلیا تھا لیکن ان کی زندگی میں یہ شائع نہ ہوسکا، ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی سلطانہ بیگم کی توجہ سے 1924ء میں مطبع محمڈن پرنٹنگ ورکس دہلی میں شائع ہوا، صفحات 364 ہیں اور حواشی سے مرصع ہے، دوبارہ 1962ء میں کراچی پبلشر بک لینڈ نے شائع کیا،2006 میں الفیصل اردو بازار لاہور سے بھی شائع ہوچکا ہے۔
بابر کے زمانے سے ہی کتابوں میں عناوین دینے کا رواج تھا لیکن گورگانی نے فلاں سال کے واقعات لکھنا کافی سمجھا، جو حیدر آباد کے اصل مخطوطے سے قریب سمجھا جاتا ہے، لیکن اکثر انگریزی ترجموں میں واقعات عنوان بنائے گئے ہیں، مسز بیوریج کا ترجمہ اور پروفیسر ڈبلیو تھیکسٹن کے ترجمہ میں ایسا ہی کیا گیا ہے۔ مرزا نصیر الدین کے ترجمہ میں شرحیں کافی ہیں، مترجم نے لیڈن ارسکن کے ترجمہ سے خاصا استفادہ کیا ہے اور بہت سے الفاظ کے ترجموں کو لیڈن کے ترجمہ سے باقاعدہ ملایا ہے۔
دوسرا ترجمہ رشید اختر ندوی کا ہے ان کی کتاب 1991ء میں سنگ میل لاہور میں شائع ہوئی تھی، ہندوستان میں مکتبہ الحسنات رام پور نے شائع کیا تھا، یہ ترجمہ اس فارسی نسخہ سے کیا گیا تھا جو چترا پر بھا پریس بمبئی میں چھپا تھا، اس کا فارسی قلمی نسخہ اودے پور کے راجہ کی لائیبریری سے ملا تھا، اس ترجمہ میں کوئی تشریحی نوٹ اور حاشیہ نہیں ہے، لہذا یہ کوئی علمی ایڈیشن نہیں ہے، اس میں بھی عنوانات دیے گئے ہیں جیسے سمرقند پر۔۔۔، آگرہ کی سمت، بلوچستان میں ہنگامہ، نیز کہیں کہیں واقعات کے سن دیے گئے ہیں جیسے 932ھ کے واقعات۔ رشید اختر ندوی اپنے ترجمہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’فارسی کی اصل کتاب دو سو چھیالیس صفحات پر مشتمل ہے، اس کے کئی صفحات کرم خوردہ ہیں، ہم یہ دعوی تو نہیں کرسکتے کہ ہم نے اس کتاب کے ترجمہ کے وقت وہی عرق ریزی کی ہے جو اس کے اصل مترجم عبد الرحیم خان خاناں نے کی، تا ہم ہم نے پوری کوشش کی کہ لفظی ترجمہ میں الجھے بغیر اس کے مافی الضمیر کو اردو میں منتقل کردیں۔‘‘
تزک بابری کا ایک ترجمہ محمد قاسم صدیقی نے کیا جو 1983ء میں ترقی اردو بیورو دہلی نے شائع کیا، اس کے کل صفحات چونسٹھ ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب تزک بابری کی محض تلخیص ہے۔
تزک بابری کا جدید اردو ترجمہ یونس جعفری ( انڈیا) کا ہے، اس کے حواشی حسن بیگ مقیم برطانیہ نے لکھے ہیں،یہ کتاب اردو کے دیگر اردو تراجم کے مقابلے میں زیادہ مستند اور علمی ہے، مترجم نے گورگانی اور رشید اختر کے ترجموں کو باریک بینی سے دیکھا اور جانچا، ان کی غلطیوں اور خامیوں پر غور کرنے کے بعد ترجمے کو ہاتھ لگایا، انھیں معلوم تھا کہ رشید اختر کی کتاب میں کوئی فٹ نوٹ نہیں ہے، گورگانی کے حواشی آج کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ہیں، پاکستانی محقق ، جو کراچی چھوڑ کر اسکاٹ لینڈ میں جا بسے ہیں، انھوں نے بڑی کد و کاوش اور عرق ریزی سے اس کتاب کے حواشی مرتب کیے، وسطی اور جنوبی ایشیا کے آٹھ نقشے، اشاریہ اور مآخذ کی فہرست شامل کتاب کیا، حسن بیگ نے افغانستان سے شمالی ہند تک ان تمام مقامات کا بذات خود مشاہدہ کیاجہاں بابر نے قیام کیا تھا، جہاں سے گزرا تھا، اس علاقے کے لباس میں فوٹو کھنچوا کر کتاب میں شامل کیا۔ تزک بابری کے کئی نام ہیں لیکن عبد الرحیم خان خاناں نے اس کا نام ’’وقائع بابری“رکھا تھا، اسی مناسبت سے یونس جعفری نے بھی اپنے ترجمے کا نام ’’وقائع بابری‘‘رکھا، یہ تین سو چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے اور انڈس پبلیکیشن کراچی نے اسے شائع کیا ہے ۔یونس جعفری کی کتاب تک میری رسائی نہیں ہوسکی، اس کتاب کے متعلق میں نے شار ہیمدو (ازبیکستان) کے ایک مضمون”تزک بابری کا ترجمہ گورگانی سے جعفری تک‘‘ سے مکمل استفادہ کیا ہے، یہ مضمون انٹر نیٹ کے کسی ویب سائٹ سے ہمیں دست یاب ہواتھا۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

بہترین. شیخ.

نور عالم محمد ابرہیم

ماشاءاللہ، تبارک اللہ!
بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے، شیخ!
جزاکم اللہ خیرا!

عبد الرحیم بنارسی

ما شاء اللہ

عبدالرحيم بنارسي

ما شاء اللہ