تاج المحدثین زین المفسرین، امام المؤرخین جناب محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثناقتیبۃ، حدثنا اسماعیل بن جعفر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمرقال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: إنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لا يَسْقُطُ ورَقُهَا، وإنَّهَا مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِي ما هي قالَ: فَوَقَعَ النَّاسُ في شَجَرِ البَوَادِي قالَ عبدُ اللَّهِ: فَوَقَعَ في نَفْسِي أنَّهَا النَّخْلَةُ، فَاسْتَحْيَيْتُ، ثُمَّ قالوا: حَدِّثْنَا ما هي يا رَسولَ اللَّهِ، قالَ: هي النَّخْلَةُ
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله عليہ وسلم نے (صحابہ کرام کی موجودگی میں) فرمایا: درختوں میں ایک درخت ہے جس کے ورق نہیں گرتے اور وہ درخت ایک مسلم کی مانند ہے۔بتاؤ! وہ کون سادرخت ہے؟ عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ : لوگ (یعنی صحابہ)صحرائی درختوں کے نام بتانے لگے، لیکن مجھے خیال آیاکہ یہ کھجورکادرخت ہے، لیکن (کبارصحابہ کی موجودگی کی وجہ سے) محض حیا کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکا، پھرصحابہ نے کہا: یارسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ و سلم آپ ہی بتائیے! کون سادرخت ہے؟ آپ نے فرمایا: کھجورکادرخت ہے۔(صحیح البخاری مع الفتح :1/192)
اس روایت کوامام بخاری کتاب الاطعمۃ، کتاب التفسیر میں بھی لائے ہیں۔ صحیح بخاری کے باب الحیاء فی العلم میں جناب ابن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :میں نے جب یہ بات اپنے والد کوبتائی کہ میں مجلس میں اس درخت کوجان چکاتھا توآپ نے فرمایا:اگر تم مجلس میں اس درخت کانام بتادیتے توتمھارایہ جواب مجھے فلاں، فلاں چیزسے زیادہ محبوب ہوتا۔(رقم الحدیث :72) صحیح ابن حبان میں اس بات کی تصریح آگئی ہے کہ : عمررضی اللہ عنہ نے” سرخ اونٹ”کہاتھا۔
صحیح بخاری کی کتاب الاطعمۃ میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
ان من الشجرشجرۃ لمابرکتہ کبرکۃ المسلم
(یہ درخت بابرکت ہونے میں ایک مسلمان کی مثال رکھتاہے)
حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :کھجورکی برکت اس کے تمام اجزاء اورتمام حالات میں پائی جاتی ہے، خوشے سے نکلنے سے لے کر پک جانے تک مختلف اندازسے اسے تناول کیاجاتاہے، اس کے علاوہ اس کے تمام اجزاء سے فائدہ اٹھایاجاتاہے، یہاں تک کہ اس کی گٹھلیاں جانوروں کے چارے اوراس کاریشہ رسیوں وغیرہ بنانے کے کام آتاہے، جیساکہ یہ مخفی نہیں،ایک مسلمان کی برکت کی یہی مثال ہے تمام حالات میں عام ہوتی ہے، اس کانفع اورفائدہ زندگی اوراس کے مرنے کے بعد بھی اپنے اورغیرکے لیے جاری رہتاہے۔(فتح الباری :1/192-193)
ظاہر ہے جناب ابن عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذکرکردہ درج بالاباتوں کوہی ذہن میں رکھ کرکھجورکے درخت کاجواب نہیں سوچا، سوال ہے کہ پھرآخر ان کے سامنے ایساکون ساقرینہ اور چیزتھی جسے مدنظررکھ کرانھوں نے کھجورکانام لیا؟ یہ واقعتاًایک قابل غوربات ہے۔
دراصل ابن عمررضی اللہ عنہ نے محض اپنی حاضر دماغی اورایک قرینہ سے کام لیتے ہوئے کھجورکانام لیاتھا، جس کی صراحت صحیح ابوعوانۃ میں آچکی ہے، امام مجاہد ابن عمرسے نقل کرتے ہیں:
فظننت انھاالنخلۃ من اجل الجمار الذی اتی بہ
(میں نے کھجورکے درخت کا اندازہ “جمار” کومدنظررکھ کر کیاتھاجنھیں آپ کے پاس لایاگیا)[فتح الباری :1/193]
صحیح بخاری کی کتاب الاطعمۃ میں ابن عمررضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:
بینانحن عندالنبی صلی الله علیه وسلم اذ اتی بجمار
(ہم نبی صلی الله علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توآپ کے پاس” جمار” لائی گئیں)[فتح الباری :1/192]
اس سے ثابت ہواکہ جناب ابن عمررضی اللہ عنہ نے قرینہ سے سوال کردہ درخت کومعلوم کرلیا اور وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت” جمار” کاپیش کرنا۔ حافظ ابن حجر ابن عمر کے اس قرینہ کوذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وفیہ اشارۃ الی ان المغز لہ ینبغی ان یتفطن لقرائن الاحوال الواقعۃ عندالسؤال، وان الملغز ینبغی لہ ان لایبالغ فی التعمیۃ بحیث لایجعل للمغز بابا یدخل منہ، بل کلما قربہ کااوقع فی نفس سامعہ(کہ پہیلی دیےگیےشخص کوچاہیے کہ دوران سوال واقع ہونے والے قرائن کے حالات پر خوب توجہ دے، اوراسی طرح پہیلی دینے والے شخص کوبھی چاہیے کہ وہ مبالغہ آرائی سے کام نہ لے کہ پہیلی دیے گیے شخص کے لیے داخلے کاکوئی باب ہی نہ رہے، بلکہ پہیلی جس قدرقریب ترہوگی سامع کے دل کوسمجھنے میں اسی قدر آسانی ہوگی)[فتح الباری]
بہرحال! یہ تفصیل ثابت کررہی ہے کہ جناب ابن عمررضی اللہ عنہ نے دوران سوال قرائن کودیکھ کرہی دل میں کھجورکے درخت کاجواب سوچاتھااور یہی ان کی حاضردماغی ہے،اسی سے ان کی فضیلت اور مقام کااندازہ لگالیں کہ اللہ تعالی نے بچپن ہی سے انھیں اچھی خصلتوں، عادتوں اور عمدہ خوبیوں سے نوازرکھا تھا۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں استاد وشاگرد، سائل اور مجیب، طلاب وغیرطلاب سب کے لیے نصیحت اور سبق بھی ہے کہ سوال کااندازکیاہو، جواب کی کیفیت کیسی ہو،پھریہ بھی دیکھیے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے ابوبکروعمروغیرہ کبارصحابہ کی موجودگی سے شرماتے ہوئے جواب جاننے کے باوجود محض صغرسنی کی وجہ سے جواب نہیں دیا۔حالانکہ اگر اسی مجلس میں وہ جواب دےدیتے توآپ صلی الله علیہ و آلہ و سلم اور کبارصحابہ کی اس عظیم مجلس میں جوانھیں پذیرائی اور مقام ملتاوہ کسی سے مخفی نہیں۔ لیکن محض ادب واحترام کے تقاضوں کی وجہ سے وہ خاموش رہے۔ بہرحال اللہ تعالی ہم طلاب علم کوصحابہ کرام کے ان رویوں سے کماحقہ استفادہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
آپ کے تبصرے