کل حمد، ساری تعریف اس رب ذوالجلال کے لیے ہے جس نے سورج کو روشنی کی ردا اور چاند کو نور کی قبا پہنائی ،پھولوں کو مہک اور تتلیوں کو رنگ کا لباس پہنایا،تاروں کو چمک کی ادا اور کلیوں کو چٹک کی آواز عطا کی ،آسمان کو رفعت کا تاج اور سمندروں کو وسعت کا تخت بخشا ،زمین کو زر خیزی کی نعمت اور دریاؤں کو بہاؤ کا حسن عطا کیا اور جس نے انسان کو بیان کا وصف اور نزول قرآن کا شرف بخشا۔ان تمام عظیم نعمتوں کے باوجود انسان ان الانسان لکفور مبین کا مصداق ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اللہ کی ان تمام نعمتوں کا دل سے شکر بجا لائے اور کسی بھی طریقے سے حقوق اللہ یا حقوق العباد میں کوئی کمی نہ آنے دے، لیکن وہ غافل ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی تو دور وہ حقوق اللہ کے ادا کرنے میں بھی کسالت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
آج کے اس پرفتن اور پرآشوب دور میں اللہ کے نبیﷺ کی حدیث المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ اور من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقرکبیرنا فلیس مناکومسلم قوم نے بالائے طاق رکھ دیا اور اس وقت افسوس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب ہم طالبان علم نبوت اس حدیث پر عمل کرنے سے عاری نظر آتے ہیں ۔ ہمارے قیمتی اوقات دوسروں کی ہجو اور تحقیر میں صَرف ہوتے ہیں ، دوسروں پر فقرے کسنا ، دل شکنی کرنا اور بے جا تنقید کرنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔
یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ انسان کو اس دنیا میں دو چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے ، ایک تو خوشی اور دوسری غم۔ انسان خوشی کے موقع پر اللہ کا شکریہ ادا کرے اور جب اسے غم لاحق ہو تو ایسے موقع پرصبر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اس لیے کہ بسا اوقات کچھ بے صبرے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بھی برا بھلا کہہ دیتے ہیں، جو خالق ومالک اور پالنہار ہے جو سب کو روزی دیتا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔پھر ہماری اور آپ کی کیا حیثیت کہ ہم تو خطا کار ہیں، غلطیاں کرتے رہتے ہیں ،ہمیں تو لوگوں کی بے جا برائی اور تنقید کا سامنا کرنا ہی پڑے گا ،ہمیں برباد کرنے کے منصوبے بنیں گے، جان بوجھ کر اہانت کی جائے گی ،جب اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے قدم آگے بڑھائیں گے ،ترقی کی سیڑھیاں طے کریں گے تو لوگ آپ پر تنقید سے نہ چوکیں گےاور اس تنقید کا سلسلہ اس وقت تھمے گا جب کہ آپ زمین میں سما جائیں یا آسمان پر چڑھ جائیں اور ان کی نظروں سے دور ہوجائیں ۔جب تک آپ ان کی نظروں کے سامنے ہیں آپ کو اذیت ملتی رہے گی ،آنسو نکلیں گے ،نیند اڑے گی ۔بھلا بتائیے جو زمین پر بیٹھا ہوا ہے وہ گرے گا؟ ہر گز نہیں۔ گرتے ہیں شہہ سوار ہی میدان جنگ میں
لوگ آپ سے ناراض ہوں گے ،آپ سے بغض وحسد رکھیں گے ، آپ کونیچا ثابت کرنے اور بدنام کرنے کی ہر ممکن بلکہ نا ممکن کوشش بھی کریں گے اور صرف اس لیے کہ آپ علم ، صلاحیت ،حسن وجمال، اخلاق یا مال میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں ۔ انھیں سکون نصیب ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ آپ کی صلاحیتیں ختم نہ ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں آپ سے چھن نہ جائیں ۔آپ کی ساری اچھائیاں اور خوبیاں آپ سے کنارہ کش نہ ہوجائیں ۔پلید و کند ذہن ،بے کار ہوکر نہ رہ جائیں ۔ اور یہی ان کا ہدف اول ہوتا ہے ، جس پر کامیابی کے بعد جشن منائے جاتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ یہ مستقبل کے معمار لوگوں کی تنقید و تشنیع کو برداشت نہیں کر پاتے ، کیا نبی کریم کو گالیاں نہیں دی گئیں؟کیا اصحاب کرام پر مظالم کے پہاڑ نہیں توڑے گئے؟
لہٰذا آپ کو ان کی بے جا تنقید ،نارواباتوں اور تحقیر کو برداشت کرنا ہوگا اور حصول علم دین میں پوری جانفشانی اور محنت کے ساتھ لگے رہنا ہوگا ، ان کی بے جا تنقید کہیں آپ کے عزم کو متزلزل نہ کردے ، لہٰذاان کو نظر انداز کرنا ہوگا ۔احد پہاڑ کی طرح جم جایئے،ایسی چٹان بن جائیے جس پر اولے پڑتے ہیں اور ٹو ٹ کر بکھر جاتے ہیں ،لیکن چٹان اپنی جگہ جمی رہتی ہے ۔ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے۔
اگر آپ نے لوگوں کو تنقیدوں کو اہمیت دے دی تو آپ کی زندگی کو مکدر کر دینے کی ان کی منہ مانگی مراد پوری ہوجائے گی لہٰذا بہتر طور پر درگزر کیجیے، ان سے اعراض کیجیے اور ان کی باتوں میں نہ آئیے ۔ چارلی چیمپ کہتا ہے:
I never think what people thinking or saying about my self because I was’t born on this earth to please everybody.
کتنی عمدہ بات کہی ہے کہ آپ کسی کو اس دنیا میں خوش کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں، لوگوں کا تو کام ہی ہے برائی کرنا، لوگوں نے تو نبیوں تک کو نہیں بخشا ،پھر آپ کی کیا بساط ہے؟لوگوں کی باتوں کو برداشت کرنا سیکھیے، ممکن ہے کل کو ایک ایسا انسان جسے علم دین کا ع بھی نہیں پتہ وہ آپ پر انگلی اٹھانے لگے، تو کیا آپ بھی اس کو اسی کے رویے میں جواب دیں گے یا رسول کائنات کا طریقہ اپنائیں گے؟ کچھ تو لوگ کہیں گے ، لوگوں کا کام ہے کہنا۔ اب اگر ہم بھی یہ سوچنے لگے کہ لوگ کیا سوچیں گے تو پھر حقیقتاً لوگ کیا سوچیں گے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حتی الوسع اپنے دامن کو داغدار ہونے سے بچائیں ، بے جا تنقید کرنے والوں پر دھیان نہ دیں ، کیوں کہ تنقید کرنا ان کا کام ہے ، ہمیشہ اپنے ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہیں ۔ اس لیے کہ جن کا شیوہ ہو برائی کو جنم دینا ، آوازیں کسنا ، اپنے سے چھوٹوں کی تحقیر کرنا ،ان شاء اللہ وہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ، کیوں کہ یہی قانون الہی ہے۔
آپ کے تبصرے