امام بخاری رحمہ اللہ اپنی مایہ نازتصنیف”الجامع الصحیح”کے “باب الإغْتِبَاطِ فِي الْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ”(علم اور حکمت پررشک کرنا) کے تحت فرماتے ہیں:
وَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا۔ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ البخاري رحمه الله: وَبَعْدَ أَنْ تُسَوَّدُوا وَقَدْ تَعَلَّمَ أَصْحَابُ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِبَرِ سِنِّهِمْ(سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سرداربننے سے قبل علم حاصل کرلو۔ ابوعبداللہ بخاری کہتے ہیں کہ سرداربننے کے بعدبھی علم حاصل کرو، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب نے کبرسنی کے باوجودعلم حاصل کیا)
حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الحَقِّ ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا(جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: حسد(رشک) صرف دو باتوں میں جائز ہے ۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو) [صحیح البخاری مع الفتح:1/ 218]
معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص علم کا حصول کیے بغیر شیخ، استاذ، محقق، مصنف اور علامہ جیسے بلندمقام پراپنے آپ کو فائزسمجھناشروع کردے توایسا شخص مشکل ہی سے علماکی جماعت سے علم حاصل کرنے پرآمادہ ہو، کیونکہ(عام طورپر) بڑے مرتبے والا اپنے سے کمتریا نچلے درجے یا طبقے سے علم حاصل کرنے کواپنے لیے معیوب اورعارسمجھتاہے، وہ شرم کے مارے اب بلندمقام سے نیچے اترنے کے لیے تیارہوہی نہیں سکتا،طلباء کے ساتھ بیٹھ کرعلم سیکھنے میں اسے عار محسوس ہوگی۔ جناب ابن عمرکے قول میں اسی بات ہی کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی عمرکے درج بالااثر کے متعلق رقمطرازہیں:
وأثر عمر أخرجه ابن أبي شيبة وغيره وإسناده صحيح، وإنما عقبه البخاري بقوله: ” وبعد أن تسودوا ” ليبين أن لا مفهوم له خشية أن يفهم أحد من ذلك أن السيادة مانعة من التفقه، وإنما أراد عمر أنها قد تكون سببا للمنع، لأن الرئيس قد يمنعه الكبر والاحتشام يجلس مجلس المتعلمين، ولهذا قال مالك عن عيب القضاء: إن القاضي إذا عزل لا يرجع إلى مجلسه الذي كان يتعلم فيه، وقال الشافعي: إذا تصدر الحدث فاته علم كثير. وقد فسره أبو عبيد في كتابه: ” غريب الحديث ” فقال: معناه تفقهوا وأنتم صغار، قبل أن تصيروا سادة فتمنعكم الأنفة عن الأخذ عمن هو دونكم فتبقوا جهالا(عمر(رضی اللہ عنہ) کااثرالمصنف لابن ابی شیبہ میں سند صحیح کے ساتھ مروی ہے، امام بخاری کا عمر کے اثر کے بعدان الفاظ ” وبعد أن تسودوا ” کوبیان کرنے کامقصد دراصل یہ ظاہرکرناہے کہ ان کایہ مفہوم (مخالف) نہیں کہ مباداکوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ “سیادت”(دین میں) تفقہ سے مانع ہے، بلکہ عمر(رضی اللہ عنہ) کی مراد یہ ہے کہ یہ”سیادت” تفقہ میں ممانعت کے لیے سبب بن سکتی ہے،کیونکہ رئیس زادے کواس کا کبراورحیاسیکھنے والوں کی مجلس میں سیکھنے سے مانع ہوتے ہیں، اسی وجہ سے (امام) مالک نے عہدہ قضا کے عیب کے متعلق کہا کہ:قاضی معزول ہوجانےکے بعدجس مجلس میں کسب فیض کرتاتھااس میں (علم حاصل کرنے کے لیےدوبارہ جاکر) نہ بیٹھے۔ شافعی کہتے ہیں: کم عمرنوجوان جب صدرنشین بن جائے تواس سے بہت ساراعلم فوت ہوجاتاہے۔ ابوعبید اپنی کتاب(غریب الحدیث) میں اس کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ : بچپن میں ہی تفقہ حاصل کرلو،کیونکہ بڑے ہوکرجب سرداربن جاؤگے توکبراپنے سے کمترسے اخذعلم سے مانع ہوگا اوراس طرح تم جاہل کے جاہل ہی رہوگے۔[فتح الباری:1/ 218]
درج بالاتفصیل سے ثابت ہواکہ اگرچہ بڑاہونے یاسیادت حاصل ہوجانے کےبعد علم حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بڑی عمراور سیادت کی وجہ سے شرم کے مارے یاکبرکی وجہ سے علم حاصل کرنے سے محروم ہوجانے کے چانسز زیادہ ہیں، اسی لیے بچپن میں ہی علم حاصل کرلیاجائے، ورنہ پھر اگر کوئی بڑاہوکر یاسیادت حاصل ہوجانے کےبعد بوجوہ اگر علم حاصل نہ کرسکا توپھر بہت حدتک ممکن ہے کہ ایساشخص اہل علم سے حسد اور بغض کے مرض میں مبتلاہوجائے جوکہ شرعاممنوع اور ناجائز ہے۔اس کی وجہ سے اہل علم کی تحقیر، ان کے خلاف اپنی ضد پراڑجانا اور انھیں برا بھلاکہنا اس کےلوازمات بن سکتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی درج بالاحدیث اور عمررضی اللہ عنہ کے اثر سے امام بخاری کایہ لطیف اورباریک اشارہ ملتاہے کہ انسان کوکسی بھی عمر میں یاکوئی بھی عہدہ حاصل کرنے کے بعد شوق علم ہوسکتاہے، لہذا بعدکے افسوس، پشیمانی اور علم سے محرومی کی وجہ سے اہل علم کی جماعت سے حسد اور بغض کرنے سے بہترہے انسان بچپن ہی میں علم حاصل کرلے۔ورنہ جومفاسد ہمارے سامنے ہیں وہ یقینی طورپر وہ ثابت کررہے ہیں جن کی طرف امام بخاری لطیف اشارہ فرمارہے ہیں۔
آپ کے تبصرے