مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ :تعلیم و دعوت سے معمور زندگی

مطیع اللہ بن حقیق اللہ مدنی تاریخ و سیرت

مولانا عبدالمنان سلفی)رحمة اللہ رحمة واسعة(ایک معروف ہستی کا نام ہے جن کی شہرت خوب عام تھی۔آپ ضلع بستی کے معروف گاؤں انتری بازار میں پیدا ہوئے،آپ کا گھر علم و دعوت کا گھر تھا۔آپ کے والد گرامی مولانا مفتی عبدالحنان فیضی صاحب ایک مشہور عالم، باکمال مدرس،معتبر و مستند مفتی تھے ،جن کی پوری زندگی دعوت وتدریس کے میدان میں گذری، آپ مرکزی دارالعلوم بنارس یعنی جامعہ سلفیہ کےسابق مدرس رہے ہیں، علمی زندگی کا زیادہ حصہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر میں تدریسی و دعوتی خدمات انجام دیتے ہوئے گزارا اور وہیں پر آخری سانس لی ، علمی حلقہ مفتی علیہ الرحمہ سے بخوبی واقف ہے۔
مولانا سلفی کے جد مکرم مولانا محمد زمان رحمانی ہیں ، انتری کی جامع علمی شخصیت جن سے پورا علاقہ واقف تھا ، ان کی علمی استنادی حیثیت کے لیے “رحمانی” نسبت ہی کافی ہے۔متعدد تراجم علماء اہل حدیث پر مشتمل کتابوں میں آپ کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔
موصوف مولانا سلفی صاحب (جو رحمانی علیہ الرحمہ کے لایق ترین پوتے اور مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند ارجمند ہیں ) ایک انتہائی معروف و مشہور عالم دین جامعہ سلفیہ بنارس کے مستند فاضل ہیں۔
آپ پر ہی بجا طور پر یہ جملہ صادق آتا ہے کہ “آپ کا تعلق علمی گھرانے سے تھا یا آپ کی پیدائش علمی گھرانے میں ہوئی”۔
مولانا موصوف نے تعلیم کا آغاز کیا، علاقہ و جوار کے مدارس میں ابتدائی وعربی درجات کی تکمیل کے بعد آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس میں عالمیت و فضیلت کا کورس مکمل کیا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔
مرور ایام کے ساتھ اپنی محنت و جانفشانی سے اپنی علمی لیاقت و صلاحیت میں خوب اضافہ کیا کہ ایک عالم آپ کا شمار علماء کبار میں کرتا ہے ۔جامعہ سلفیہ بنارس میں آپ ایک نشیط و مجتہد طالب علم کے طور پر بھی معروف تھے ، ندوۃ الطلبہ کے پلیٹ فارم سے اپنے آپ کوعلمی طور پر نکھارا اور نمایاں کیا ، آپ کی ادارت میں “المنار” شائع ہوا ، آپ کا اداریہ قابل تحسین رہا ۔
1982میں آپ جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ التحصیل ہوئے ، یہ علمی شغف ہی تھا کہ آپ نے جامعہ سے تخرج کے بعد ہی اپنا رشتہ تدریس سے جوڑ لیا ،مولانا عبدالحمید رحمہ اللہ کا قائم کیا ہوا ادارہ “معہد التعلیم الاسلامی”جوگا بائی ، نئی دہلی بالکل نیا تھا ، آپ نے وہاں پرتدریسی فریضہ انجام دینا شروع کیا ، وہاں پر کچھ دنوں تک قیام رہا۔
اس کے بعد آپ نے مدرسہ قاسم العلوم گلرہا ، ضلع بلرام پور میں پڑھانا شروع کیا ، وہاں پر چند سال تدریسی خدمات اور دیگر متعلقہ علمی و دعوتی فرائض انجام دیے۔
دہلی اور گلرہا کے ایام آپ کے لیے اپنی علمی قابلیت میں نکھار پیدا کرنے کے لیے خوب ممد و معاون رہے۔اس کے بعد مولانا موصوف کو مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات کرشنا نگر نیپال میں طلب کر لیا گیا۔یہ ایک نسواں درسگاہ تھی شروع ہوا تھا ، جس کی تاسیس 1989 میں مرکز التوحید نیپال کے زیر نگرانی ہوئی تھی۔اس مرکز سے ایک مجلہ ماہنامہ “نور توحید” کی اشاعت بھی ہوتی تھی ، جو تا ہنوز جاری ہے۔
مولانا عبد المنان سلفی اس ادارے میں ایک طرف بچوں کو پڑھاتے تھے، تو دوسری طرف وہ مجلہ نور توحید کے مدیر مقرر ہو کر اس مجلہ کی ترتیب کا کام کرتے تھے۔ یہ مجلہ، مرتب و مدیر مسئول مولانا عبداللہ مدنی جھنڈا نگری اور مولانا عبدالمنان سلفی کی کاوشوں سے اردو اسلامی صحافت کی دنیا میں اپنا جلوہ بکھیرنے لگا۔
اپنی علمی و دعوتی زندگی کے کچھ بہترین ایام آپ نے مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ میں گزارے اور اس ادارہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار بھر پور ادا کیا۔پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی تقدیر یہی تھی کہ آپ اس عظیم درسگاہ کی خدمت سے علاحدہ ہو گیے۔
بعدہ آپ نیپال کی قدیم ترین درسگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ سے وابستہ ہو گیے اور تا دم واپسیں اسی جامعہ سے منسلک رہے۔جامعہ سراج العلوم سے وابستگی کے بعد آپ تدریسی ، دعوتی،تصنیفی و تنظیمی وادارتی متعدد مناصب پر فائز ہوئے اور تمام مفوضہ ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا جس کا علم و اعتراف وہاں کے ذمہ داران وابستگان کو تو رہا ہے، یہ بات ان کے متعارفین کو بھی معلوم ہے ، اس کا مفصل تذکرہ اور دیگر اہل قلم ہی بہتر انداز میں کریں گے۔
آپ نے جامعہ سراج العلوم میں جو خدمات انجام دیں وہ ہمہ جہت ہیں۔ آپ ایک بہترین مدرس کے طور پر طلبہ کو اہم کتابیں پڑھاتے رہے ، متعدد اہم مواد کی تدریس آپ کے ذمہ ہوا کرتی تھی ۔آپ جامعہ سے شائع ہونے والے مجلہ ماہنامہ السراج کے مدیر تھے۔ یہ ایک بڑا وقیع مجلہ ہے جس کی وقعت کے اسباب و عوامل کئی ایک ہیں ، ان میں مولانا سلفی کی ادارت اور فن ادارت سے ان کی معرفت، خاص شغف اور ان کی علمی صلاحیت و قابلیت بھی شامل ہیں۔ مجلہ کے سرسری مطالعے سے ایک قاری، موصوف مدیر کی کاوشوں اور ادارتی استعداد سے آگاہ ہوسکتا ہے۔
ایک وقت آیا جب مولانا سلفی کو جامعہ کی عظیم الشان جامع مسجد کا خطیب مقرر کر دیا گیا، خطابت میں آپ کو کمال حاصل تھا، جلسوں اور کانفرنسوں میں اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے تھے۔ جب آپ خطیبِ جامع نامزد ہوئے تو آپ نے واقعی خطابت کا پورا حق ادا کر دیا، حاضرین و سامعین کو اس سے کافی فائدہ پہنچایا، تا وفات آپ اس اہم منصب پر فائز رہے۔
آپ جامعہ کے وکیل تھے جس کو انگریزی میں ریکٹر کہتے ہیں ، آپ نے اس عہدہ پر رہ کر جامعہ کو اندر اور باہر کافی ترقی دی ، اور جامعہ کو اور خود کو نکو نام کیا ، یہ ایک بڑا حساس عہدہ ہوتا ہے ، اس پر ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہے۔
آپ طلبہ جامعہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف ثقافتی پروگراموں کاانعقاد کرتے رہے اور متعدد اہل علم و فضل کو بحیثیت لکچرر مدعو کیا ، خود منسق منصرم ہوتے اور یہ سلسلہ کامیابی سے چلاتے اور طلبہ استفادہ کرتے ۔
ایسے ہی توسیعی محاضرات کے اہتمام کی ذمہ داری بھی آپ کے سر تھی ، اور اس نوع کے محاضرات کے انعقاد کا سہرا آپ کے ہی سر جاتا ہے ۔اس سے جامعہ کے طلبہ کی معلومات میں کافی اضافہ ہوتا تھا ،اللہ کرے یہ سلسلے قائم رہے اور کوئی بھی خیر خلف لخیر سلف کا مقام لے ۔وما ذلک علی اللہ بعزیز
جامعہ میں 2013میں دعوتی و تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا ، اس کے کنوینر آپ مقرر کیے گئے تھے ، اس اہم کانفرنس کی ذمہ داریاں اصلاآپ ہی کے سر تھیں ، آپ نے انھیں بحسن و خوبی انجام دیا کہ لوگ عش عش کر اٹھے ۔
غرضیکہ مولانا سلفی نے اپنے خون جگر سے جامعہ کو خوب سینچا اور اس کا نام اونچا کیا ۔ جزاہ اللہ کل خیر
راقم السطور مولانا سلفی سے ایک عرصے سے واقف رہا ہے، اس واقفیت میں مزید اضافہ ہوا جب میں مرکز الامام احمد بن حنبل الاسلامی نیپال میں تدریس و دعوت کے عمل پر مامور ہوا ،محب مکرم مولانا وصی اللہ عبدالحکیم مدنی کی تحریص پر کچھ لکھنا شروع کیا۔یوں میرے مضامین مجلہ السراج میں شائع ہونے لگے ۔
ایڈیٹر السراج مولانا سلفی کا یہ زبردست علمی احسان ہے کہ وہ مضامین کے نوک پلک درست کر کے اسے شامل اشاعت کر لیتے، اس احسان کا بدلہ میری جانب سے یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ان کی مغفرت فرما دے اور جنت دے۔
پھر میں تولہوا سے جھنڈا نگر منتقل ہو گیا، وہاں پر مولانا سلفی اور ان کے علمی مشاغل و مصروفیات کو جاننے کا موقع ملا ۔
وہ ایک انتہائی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے،جامعہ کی ذمہ داریاں ،متعدد مناصب اور ان کے فرائض، تصنیف و ترجمہ کی مشغولیات ،ساتھ ہی اجلاس عام اور کانفرنسز، سمپوزیم اورسیمینار میں سرگرم شرکت، مقالات وبحوث کی خواندگی اور دیگر محافل میں جامعہ کی نمائندگی وغیرہ۔
موصوف ایک بہترین مؤلف تھے۔ آپ کی مطبوعہ تالیفات یہ ہیں:
(۱)فتنہ قادیانیت (۲)تحفہ رمضان المبارک (۳)مناسک حج و فضائل عشرہ ذی الحجہ، وغیرہ۔البتہ غیر مطبوعہ تصانیف و تراجم کے سلسلے میں مجھے علم نہیں ہے ۔
اس مشغول شخص کی یہ عظمت ہی تھی کہ تقریبا چھ سال قبل ضلع سدھارتھ نگر کی جمعیت کا عہدہ نظامت بھی انھی کے سپرد کیا گیا اور دوسرے ٹرم میں بھی آپ کو اس عہدہ جلیلہ پر باقی رکھا گیا ۔جمعیت کے تعلق سے آپ کی خدمات کے تذکرے کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔
اس سرسری تذکرہ سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ کی حیات متنوع خدمات سے معمور تھی ۔کرونائی فتنے کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے بعد آپ سے ملاقات نہ ہو پائی تھی کہ ایک روز مورخہ 20 اگست کو مولانا وصی اللہ مدنی کے فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے مولانا سلفی کی شدید علالت کی خبر معلوم ہوئی۔ دعاء صحت کی اپیل کا ایک سلسلہ قائم ہوا ، محب گرامی مولانا وصی اللہ مدنی کے پوسٹ سے معاملہ کی شدت وسنگینی عیاں تھی۔
بالآخر 22اگست2020 کو آپ کی وفات ہوگئی، یہ سب کچھ آنا فانا ہوا ،دوست احباب اورتمام متعلقین غم و اندوہ میں ڈوب گئے، مجھے ذاتی طور پر بہت صدمہ ہوا اور اس علمی شخصیت کی وفات پر غم لاحق ہوا اور صرف یہ دعا ورد زباں رہی:اللہم اغفر لہ وارحمہ و ادخلہ الجنہ
مولانا سلفی کی وفات اور اس کا غم غمِ ملت ہے۔آپ کے پسماندگان میں اولاد ذکور و اناث و احفاد کی ایک لمبی تعداد ہے ۔اللہ سبھی کو صبر جمیل کی توفیق دے اور ان کا حامی و ناصر ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا سلفی کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000