تحریر: سلوی الطریفی
ترجمانی: ارشادالحق روشاد
فطرتا عورت ایک کمزور مخلوق ہے، جسے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کا معاون و مددگار ہو، مصائب و مشکلات میں اس کی مدد کرے، اس کا دست و بازو بنا رہے، اس کی دیکھ ریکھ کرے اور اس کی درست رہنمائی کرے۔ مرد فطرتا عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے، پھر بھی کاموں سے گھبرا جاتا ہے، عاجز اور درماندہ ہوجاتا ہے، جبکہ عورت گھر کے کام کاج کرتی ہے، باہر کمپنیوں اور اداروں میں ملازمت بھی کرتی ہے۔
جب واپس آتی ہے گھر کی صاف صفائی کرنا، کھانا تیار کرنا، مزید برآں بچوں کی تعلیم و تربیت، حمل و ولادت، رضاعت، برتن مانجھنا، جھاڑو لگانا، کمروں کو منظم کرنا، کپڑے اِستری کرنا، کھانا پروسنا، دسترخوان سجانا، کپڑے دھلنا، تَہ کرنا، تعلیم حاصل کرنا،ملازمت کرنا، یا سِلائی،بُنائی،کڑھائی جیسے اہم پیشوں کی سند حاصل کرنا، بسا اوقات مٹھائی،جُوس، اچار کا چھوٹا کاروبار کرنا وغیرہ۔
گھر کا کوئی فرد جب بیمار پڑتا یا تھک جاتا ہے وہ راتوں کو اپنی نیند قربان کر کے اس کی دیکھ بھال کرتی ہے، مردہ جسم کی مانند سوتی ہے، صبح سویرے بیدار ہوجاتی ہے، بچوں کے لیے ناشتہ بناتی ہے،پھر اپنی ملازمت کے لیے چل پڑتی ہے، کام سے کبھی جی نہیں چُراتی اور نہ ہی وقت کا احساس کرتی ہے، ڈیوٹی کا وقت ختم ہوتے ہی گھر پہنچتی ہے، کاموں میں لگ جاتی ہے، معاشرے میں ہر عورت کا ایک مقام و مرتبہ ہے اس کی حیثیت (کنواری، بیوی، مطلقہ، چھوٹی، بڑی) سے قطع نظر، اس کا درجہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، عظیم عہدوں اور مناصب پر گرچہ فائز ہو، پھر بھی اپنی سیفٹی (حفاظت) کے لیے وہ ایک سرتاج کی محتاج ہوتی ہے جو اس کے شانہ بشانہ کھڑا رہے، اس کے جذباتی خلا کو پر کرے۔
اس کے جذبات کی پیاس بجھائے، اس کی خواہشات پوری کرے، اس کی زندگی خوشیوں سے بھر دے، عورت نرم و نازک مزاج کی حامل ہوتی ہے، جسے پیار و محبت کی طلب رہتی ہے، اپنی حفاظت اور سلامتی چاہتی ہے، آزادئ رائے اور آزادی اُسے حاصل نہیں، اس کا نان و نفقہ مرد کے ذمہ ہے، گرچہ وہ خود کفیل ہو، ہمارے اس معاشرے میں ایک خاتون حقیقی عورت بن کر زندگی بسر کرنے کا صرف خواب دیکھتی رہتی ہے، اپنی مرضی سے شریک حیات منتخب نہیں کرسکتی، وراثت سے محروم کردی جاتی ہے، تعلیمی اور ملازمتی حقوق اسے حاصل نہیں، جبکہ عورتیں ہزار مردوں سے بہتر ثابت ہو سکتی ہیں اور آج نوبت بہ ایں جا رسید کہ وہ مردوں سے علیحدگی اختیار کریں، انھی محرومیوں کے سبب وہ اداس ہوجاتی ہیں۔
اس پر جو بھی ظلم و ستم اور جبر و تشدد ہو رہا ہے خود اس سے نجات پانے کی کوشش کرے، اس کو دور کرے، وہ نوک جھونک جو ذہن پر دباؤ ڈالتے ہیں،وہ تنگیاں و دشواریاں جس کا وہ سامنا کرتی ہے سو رفیق سفر اور کفیل کی محتاج ہوتی ہے، پھر کسی کا سہارا نہیں کرتی، رات میں اس کا تکیہ پوشیدہ آنسوؤں سےتَر ہوجاتا ہے، پرجوش جذبات کا اظہار نہیں کرتی، خاموشی سے روتی ہے، سنبھل کر دبی آواز میں باتیں کرتی ہے، مسکرا کر ہنستی ہے، شرمیلی نگاہوں سے دیکھتی ہے، اس کی شکل و صورت میں نسوانیت ہے، لہذا عورتوں کو نسوانیت سے محروم نہ رکھیں۔
Mash allah
بارک اللہ فیک یا اخی الکریم