سلمان حسینی ندوی نے گزشتہ چند برسوں سے حکومت سعودی عرب ، وہاں کے علماء وفضلاء ، دعاۃ وائمہ اور وہاں کے فرماں روا طبقہ کے خلاف زہر افشانی کرنا اپنا شعار بنالیا ہے، حالانکہ مملکت توحید دنیا کی واحد ایسی مثالی رفاہی وفلاحی اسلامی حکومت ہے جو شرعی اصولوں پر قائم اور اسلامی آئین ودستور کی پاسدار ہے، لیکن سلمان حسینی ندوی اس مثالی حکومت کے خلاف پورے تسلسل سے زبانی وتحریری یلغار کرتے ہوئے دروغ گوئی، کذب بیانی، بہتان تراشی اور دجل وفریب کی ساری حدیں ایک ایک کرکے پار کرتے جارہے ہیں، انھوں نے ساتھ ہی احسان فراموشی کا نہ صرف ایک نفرت انگیز کردار پیش کیا ہے بلکہ اپنی حرکتوں سے قبائے انسانیت کو داغدار، ردائے شرافت کو تار تار اور انسانی واخلاقی قدروں کو شرمسار کیا ہے، انھوں نے سعودی درسگاہوں کے چشمہ صافی سے کسب فیض تو کیا لیکن اپنے اولیائے نعمت کے بہکاوے میں آکر اور تلبیس ابلیس کے شکار ہوکر اور اپنی رعونت وتکبر کے سحر میں گرفتار ہوکر اسی محسن سعودی عرب کے خلاف برہنہ تلوار بن گئے اور انھوں نے اس کی کرم فرمائیوں اور اس کے احسانات وانعامات کا برملا انکار کردیا پھر ان پر قدرت کی طرف سے ذلت ورسوائی کی ایسی مار پڑی اور عوام وخواص کی طرف سے لعنت وملامت کی ایسی پھٹکار ان کا مقدر بنی کہ ساری شیخی وتعلي بھول کر ان کے دربار میں معافی کے خواستگار ہوئے لیکن ان کی بدنصیبی یہ کہ اللہ کے دربار میں صدق دل سے عفو ودرگذر کے طلبگار نہ ہوئے جس پر دست غیب سے ان کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا مل کررہے گی اور مل رہی ہے اور وہ دیر سویر کیفر کردار تک پہنچ کر رہیں گے اور اب بلا اختلاف مسلک ومشرب ان پر چہار جانب سے جس طرح لعنتوں کے ڈونگرے برس رہے ہیں اور مختلف فورموں سے وہ ذلیل ورسوا کرکے جس طرح دھتکارے اوربھگائے جارہے ہیں اس سے صاف ہے کہ ان کے لیے راہ فرار کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔
حالات وواقعات اور ان کے بیانات پر نظر رکھنے والے ایک عام آدمی اور ذہن رسا رکھنے والے ایک معمولی شخص کے لیے یہ بھی سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ یہ سب وہ کس کے اشارۂ چشم وابرو یا کس کی واضح ہدایت پر کررہے ہیں اور اس حرکت کے پیچھے وہ کون سے مخفی اور درپردہ اہداف ہیں جنھیں وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے کون سے آقاؤوں کو خوش کرکے مالی ومادی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کی ان حرکتوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ وانتشار پیدا کرنے اور حکومت سعودی عرب کے کردار کو مجروح کرنے کا کام یقینی طور پر کیا ہے۔
حکومتوں کے بارے میں تو ہر شخص کو اچھی بری رائے قائم کرنے کا حق ہے لیکن اس کی رائے لاجک، دلیل اور ٹھوس حقائق کی بنیاد پر ہونی چاہیے، جھوٹ فریب ، جھوٹے پروپیگنڈے، اکاذیب واباطیل اور بے جا الزام تراشی کی بنیاد پر کسی بھی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے یہ دیانت داری کے خلاف ہے اور اس وصف سے سلمان حسینی ندوی بہت پہلے محروم اورتہی دامن ہوچکے ہیں، پھر بھی حکومتوں کے ساتھ اختلاف کی گنجائش مانی جاسکتی ہے اور اختلاف یا اتفاق کو کسی کا ذاتی فعل کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے،لیکن ادھر سلمان حسینی نے کچھ عرصہ سے رفض وتشیع اور مجوسیت کی جانب جس تیزی سے قدم بڑھائے ہیں اور دشمنان اہل سنت کی گود میں بیٹھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں جس طرح گستاخیاں اور زبان درازیاں کی ہیں ان کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے اور ناموس صحابہ پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے انھیں بے وقار اور ساقط الاعتبار قرار دینے کی سعی نامشکور کی ہے، اس نے تمام مسلمانوں کے دلوں کو دو لخت کر کے انھیں غم وغصہ سے دوچار کردیا ہے اور اگر کسی کو اب تک اس بات میں کوئی شبہ رہا ہو کہ انھوں نے سعودی عرب کے خلاف محاذ کس کے اشارہ پر کھولا ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات ہائے اقدس کو ہدف تنقید وملامت بنانے کی ان کی کوششوں نے ان کی نیت کو پوری طرح طشت ازبام کردیا ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کردیا ہے کہ ان کی ہفوات وخرافات کا مصدر وماخذ کیا ہے اور پردۂ زنگاری میں کون سا معشوق ہے۔
مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن ناموس رسالتﷺ اور عظمت صحابہ ؓپر آنچ آئے اسے برداشت کرنا اس کے لیے ممکن نہیں، وہ صحابہ جن کے تقدس وعظمت، جن کی حق شناسی وحق گوئی وبے باکی کی قرآن نے شہادت دی ہے اور جنھیں رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے خطاب سے نوازتے ہوئے جنت کی بشارت دی ہے، جو انسانیت کے معمار، رب کے سچے وفادار، باطل کے لیے برہنہ تلوار اور باہمی الفت ومحبت کے نمونہ وشاہکار تھے، جو رسول اللہ ﷺ کے ایک اشارہ پر متاع دل اور نقد جاں لٹانے کے لیے ہمہ وقت تیار اور شوق شہادت سے لبریز وسرشار تھے، جو حاملین قرآن وسنت کا سب سے پہلا مقدس گروہ اور اللہ کے دین کو ہم تک پہنچانے والی سب سے پہلی اور مضبوط کڑی ہے، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدف تنقید وہدف ملامت بنانا دین کی بنیادوں کو مسمار کرنے کے مصداق ہے۔
آج جب سلمان حسینی نے عظمت صحابہ اور ناموس صحابہ پر حملہ کیا، حضرت امیر معاویہ ، حضرت عمرو بن عاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت ابو ہریرہ حتیٰ کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان طعن وتشنیع درازی کی،ان پر کھلے طور پر سب وشتم کیا اور صحابہ کی ایک بڑی تعداد پر نفاق کی تہمت لگائی تو صحیح العقیدہ مسلمانوں کے دل پارہ پارہ ہوگئے۔
ان کی فطرت میں تلون مزاجی اور صفت سیمابی ہے، ان کو علمیت کا غرور بے جا اور ہمہ دانی کا زعم باطل ہے، ان کی شخصیت اور ہاؤ بھاؤ رعونت واستکبار کا چلتا پھرتا اشتہار ہے، وہ اپنے بے جا غرور علم کے سامنے اپنے اساتذہ ومحسنین اور اپنے بزرگوں وکرم فرماوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور اپنے سامنے سب کو طفل مکتب سمجھتے ہیں، وہ مادر علمی ندوۃ العلماء کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اسے تودۂ خاک بنانے کی دھمکی دیتے پھرتے ہیں، لیکن ہوا کیا اسی ندوہ سے جہاں ان کا طوطی بولتا اور ان کا چراغ جلتا تھا ان کو بہزار رسوائی بوریہ بستر گول کرنا پڑا، انھوں نے اسی غروربے جا کے زیر اثر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بنایا اور بے آبرو ہوکر وہاں سے نکالے گئے، انھوں نے بابری مسجد کا سودا کرنے کی ناپاک کوشش کی اور عوامی طوق رسوائی کو گلے لگایا اور ان کے ہاتھوں عزت سادات کا جنازہ نکل گیا اور جہاں کل تک ان کے حاشیہ بردار ان کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی میں رطب اللسان اور ان کو وقت کا صاحب عزیمت امام مان کر ان کے پیچھے چلنا اپنے لیے فخر وشان سمجھتے تھے آج وہ ان کے سایہ سے بھی کترا کر نکل جانا چاہتے ہیں،یہ ساری عزت افزائیاں؟وہ نوشتہ دیوار ہیں جنھیں وہ اب بھی پڑھنا نہیں چاہتے اور اپنے موجودہ حشر سے سبق حاصل کرنا نہیں چاہتے یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں۔
ہمیں ان عبرت خیز رسوائیوں سے غرض نہ ہوتی اگر انھوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہ کی ہوتی کیونکہ ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ صحابہ کرام کی حیثیت ان نفوس قدسیہ کی ہے جن کے واسطہ سے ہم کو حدیث وقرآن اور دولت ایمان ملی۔
صحابہ کرام کی شخصیت کو مجروح کرنے والے اپنے جن دعووں کو وہ ایک حیرت انگیز انکشاف اور اپنے عقل کل کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ وہی ازکار رفتہ باطل دعوے ہیں اور وہی مزعومہ وخود ساختہ عقائد ہیں جنھیں سبائی ٹولہ صدیوں سے پیش کرتا آیا ہے، ان میں نیا کچھ نہیں ہے، یہ وہی پرانی شراب ہے جسے سبائی ٹولہ صدیوں سے امت کے سامنے پیش کرتا آیا ہے، سلمان حسینی نے پرانی شراب کو نئی بوتل میں انڈیل کر صرف اس پر نیا لیبل لگانے کا کام کیا ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ شراب پرانی ہونے کے بعد اب اور دو آتشہ ہوگئی ہے یا امت کا حافظہ اس قدر کمزور ہے کہ وہ مجوسیوں اور روافض کی قرن اول کی خباثتوں کو بھول چکے ہوں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے، امت نے پہلے بھی اس کا مسکت ومدلل جواب دیا ہے اور آج بھی اس کے لیے تیار ہے، کیونکہ یہ وہی فتنہ سامانی وریشہ دوانی ہے جسے مجوسی صفت روافض ، صہیونیت کے پرستار یہودی اور سبائیت کے علمبردار نام نہاد مسلمان صدیوں سے بروئے کار لاتے رہے ہیں اور جسے سلمان حسینی جیسے ان کے دم چھلے وآلۂ کار اپنی باخبری اور اپنے علم ومعرفت کا شاہکار سمجھتے ہیں وہ حقیقت میں ان کی جہالت وحماقت کا بین ثبوت ہے۔
سلمان حسینی کی ان دل آزار حرکتوں سے صحابہ کرام کی عظمت پر مرمٹنے والے مسلمانوں کے جگر چھلنی ہوگئے ہیں اور ان میں اس کے خلاف شدید رد عمل اورغم وغصہ پایا جارہا ہے، ان حرکتوں سے وہ اپنے علم وفضل میں ممتاز خاندان اور اپنے مادر علمی ندوۃ العلماء کی بدنامی ورسوائی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال، اس کے اساتذہ وکارکنان اور اس کے تمام وابستگان بشمول مسلمانان نیپال سلمان حسینی ندوی کی اس دریدہ دہنی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان کو ان حرکتوں سے باز آنے اور اپنے باطل افکار ونظریات سے رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اللہ سے دعاگو ہیں کہ انھیں عقل سلیم عطا کرے اور نیک توفیق عطا فرمائے۔
آپ کے تبصرے