علم کااعتباراوراستادکی اہمیت

ابوالمحبوب سیدانورشاہ راشدی تعلیم و تربیت

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی مایہ نازتصنیف’’الجامع الصحیح‘‘کے ’’باب العلم‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:
’’وانماالعلم بالتعلم‘‘(علم سیکھنے سے حاصل ہوتاہے) [صحیح البخاری مع الفتح :1/ 210]
حافظ ابن حجراس کی شرح میں لکھتے ہیں:
ھوحدیث مرفوع ایضا،اوردہ ابن ابی عاصم والطبرانی من حدیث معاویۃ ایضا بلفظ : یاایھاالناس تعلموا، انماالعلم بالتعلم، والفقہ بالتفقہ،ومن یرداللہ بہ خیرایفقہہ فی الدین. واسنادہ حسن، الاان فیہ مبھمااعتضدبمجیئہ من وجہ آخر، وروی البزارنحوہ من حدیث ابن مسعود موقوفا،ورواہ ابونعیم الاصبھانی مرفوعا،وفی الباب عن ابی الدرداء وغیرہ، فلایغتربقول من جعلہ من کلام البخاری
[صحیح البخاری مع الفتح :1/ 212](یہ حدیث مرفوع بھی ہے، جسے ابن ابی عاصم اورطبرانی نے بطریق معاویہ روایت کیاہے…. مجموعی اعتبارسے یہ حدیث حسن ہے، اسی کے ہم معنی بزارنے بھی حدیث ابن مسعود کوموقوفا جبکہ ابونعیم نے اسے مرفوعاروایت کیاہے،نیزاس باب میں ابوالدرداء وغیرہ سے بھی حدیث مروی ہے، لہذا جس نے اسے یعنی ’’انماالعلم بالتعلم‘‘ کے الفاظ کوامام بخاری کاکلام کہاہے اس سے دھوکہ نہیں کھاناچاہیے)
علامہ ہیثمی حدیث معاویہ کودرج کرنے کے بعدفرماتے ہیں:
رواه الطبراني في الكبير ، وفيه رجل لم يسم ، وعتبة بن أبي حكيم وثقه أبو حاتم ، وأبو زرعة ، وابن حبان ، وضعفه جماعة
[مجمع الزوائد:1 /154]
عرض ہے کہ حدیث معاویہ قابل اعتضاد اورقابل تقویہ ہے،حدیث ابن مسعود کتاب الزھد لوکیع (3/831، تحت رقم 518)وغیرہ میں جیدسندکے ساتھ مروی ہے، جبکہ حدیث ابی الدرداء اپنے ضعف شدید وغیرہ کی وجہ سے کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتی۔ حافظ ابن حجرکے مطابق یہ حدیث امام بخاری کے ہاں مجموعی اعتبارسے قوت رکھتی ہے۔
اصل مدعایہ بیان کرناتھاکہ علم حاصل کرنے میں دورصحابہ ہی سے استادایک اہمیت اورمقام رکھتاہے۔ علم کے حصول میں وہی علم قابل اعتبارجاناگیا جسے استاد محترم کی دہلیزپربیٹھ کرحاصل کیاگیاہو۔یہی موقف ان صحابہ کے علاوہ خودامام بخاری اور پھرابن حجر کابھی ہے۔ چنانچہ آپ ’’انماالعلم بالتعلم‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
والمعنی لیس العلم المعتبرالاالمأخوذ من الانبیاء وورثتھم علی سبیل التعلم
(وہی علم معتبرہوگاجوانبیاء اوران کے وارثین(یعنی علماء) سے سیکھ کرحاصل کیاگیاہو)[ایضا]
امام بخاری اپنی ’’الجامع الصحیح‘‘ کی ابتداکتاب الوحی سے کرکے اس بات کی طرف لطیف اشارہ کررہے ہیں کہ علم کاحصول ایک استاذ سے ہو، یہی وجہ ہے کہ جبرئیل امین پہلی وحی سورہ علق کی ابتدائی آیات ’’اقرأباسم ربک الذی خلق‘‘ لےکراترے،جوایک سیکھنے سکھانے کے مرحلہ پرمشتمل ہیں۔
بہرکیف! پہاڑ کی مانندیہ ائمہ اس بات پرزوردے رہے ہیں کہ علم وہی قابل اعتبار ہے جسے سیکھنے کے مرحلے سے گزارکرحاصل کیاگیاہو۔ باقی جوشخص استاد کوچھوڑ کر محض کتب اور وہ بھی تین، چاراردو کتابیں پڑھ کر علمی میدان میں کود کراپنے سے اکبراور اعلم کوللکارتاہے ایساشخص علمی اعتبارسے یتیم ہےوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اب ان حضرات کوچاہیے کہ ان جلیل القدرصحابہ کرام، علماء عظام اور محدثین کرام کوبھی ڈانٹ ڈپٹ سنائیں اور انھیں بھی حاسد اور بغض رکھنے والاقراردیں۔ ہم نے تویہاں تک دیکھاہے کہ محض عامی بندے ادھرادھرسے جمع پونجی کرکے علم الرجال اور اصول حدیث جیسے اہم فنون پر لب کشائی کرکے ان علوم کی خوب درگت کرتے نظرآتے ہیں۔ مزید افسوس توان اہل علم پرہے جوپیچھے کھڑے ہوکرایسے عامی بندوں کو دیگر علماء کے مدمقابل کمک فراہم کرتے ہیں،حالانکہ جولوگ عربی تک نہیں جانتے ان کی یہ اہل علم سپورٹ کرکے جان بوجھ کر ان لوگوں کو فن حدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کو خوب راستہ بھی دکھاتے ہیں۔ بتائیے! ایسی صورت میں علی مرزا جیسے لوگ پیدانہیں ہوں گے تو کیاعلامہ البانی رحمہ اللہ جیسے محدث پیداہوں گے۔ جب پیچھے سے کمک دینے والے اہل علم ان عامی بندوں کی خوب سپورٹ کرتے ہیں تو پھر ان کے منہ سے علی مرزا کے خلاف رد اور تعاقب مناسب نہیں لگتا کہ اسے ٹارگیٹ کرتے پھریں۔

آپ کے تبصرے

3000