اردو زبان میں صحابہ کرام پر باضابطہ تنقید کی روایت مولانا مودودی کی قائم کردہ ہے۔ اس کے لیے مولانا نے ایک مستقل کتاب ہی تصنیف فرما ڈالی اور اس کا نام خلافت وملوکیت رکھا۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے مولانا کا مدعا تھا کہ خلافت ملوکیت میں تبدیل کس طرح ہوئی،تاریخ کے طالب علم کو یہ بتانا بہت ضروری ہے۔ پھر اس سوال کا جواب دینا مولانا کے یہاں اہم ترین اس لیے تھا کہ وہ ملوکیت کو ایک بھیانک چیز سمجھتے تھے اور سمجھتے اس لیے تھے کہ مولانا کا علم حدیث بڑا ناقص قسم کا تھا اور خلافت کی بابت مولانا اسلامی تعلیمات سے مستفید ہونے کے بجائے رافضیت کے نسلی تصور اور امامی خیالات سے متاثر تھے۔
انھوں نے نقد صحابہ کو جہاں بہت ساری کمزور اور ناجائز بنیادوں پر روا رکھا ہوا تھا وہیں ایک بنیاد یہ تھی کہ اس نقد سے صحابہ کی بزرگی پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا بشری کوتاہیوں کے باوجود اور جو کچھ ان سے غلطیاں ہوئیں ہم انھیں بیان کریں گے اور بزرگ بھی سمجھیں گے۔ چنانچہ ان کا بیانیہ تھا کہ نقد صحابہ سے صحابہ کی بزرگی پر حرف نہیں آتا۔ یہ بیانیہ آگے بڑھ کے اب یہ ہوگیا ہے کہ تمام صحابہ بزرگ تھے ہی نہیں، ان میں سے بہت سے منافق بھی تھے اور ایسے اور ویسے تھے یعنی مولانا مودودی نے جو بات پردے میں کہی تھی اور کتاب میں کہی تھی وہ بات ان سے متاثر کم ظرفوں نے بے پردہ کہنا شروع کردیا ہے اور سربازار کہنا شروع کردیا ہے۔
زیر نظر تحریر کا مقصد یہ ہے کہ نقد صحابہ کے لیے جو بیانیے اور مغالطات علم وفن کی حیثیت سے مرتب کیے گئے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے۔ یہ جائزہ لینا ضروری اس لیے ہے کہ روایات میں، تاریخ میں، علماء کی تحریروں میں اور خود قرآن مقدس میں عظمت صحابہ پر پورا ذخیرہ موجود ہے مگر بدباطن لوگ جواز کے نقد کی جو تمہید مقرر کرتے ہیں اس کی بنا پر تمام نصوص کا محمل بدل جاتا ہے اور لٹریچر والے ثقافی قسم کے افراد جن کا علم سے واسطہ کم ہوتا ہے اپنا ذہن خراب کرلیتے ہیں۔ سو میں نے سوچا کہ نصوص تو ہمیشہ سے ہیں ان کی تذکیر کوئی بھی کرسکتا ہے مگر صحابہ کرام کی سادہ زندگیو ں پر جو گل افشانی افکار کی جارہی ہے اس کی روح نکالنی بہت ضروری ہے۔ آئیے ان تمام مغالطات کا جائزہ لیتے ہیں:
(۱)نقد ایک سادہ مسئلہ ہے، اس سے صحابہ کی بزرگی پر کچھ حرف نہیں آتا۔
یقینا کسی بدباطن کے نقد سے صحابہ کی بزرگی پر کچھ حرف نہیں آتا کیونکہ بزرگی کا وہی اعتبار معیار ہے جو اللہ کے یہاں معتبر ہے۔ اگر فرق آتا ہے تو ناقد کی بزرگی پر آتا ہے کہ وہ شیطان کا ساتھی بن گیا اور اس نے برے اعمال کو تاریخ اور نقد کے نام سے مزین کردیا ہے۔
نقد صحابہ سے تمام خوش عقیدہ سنی جماعت کو بہت فرق پڑتا ہے۔ انھیں حبیب کبریا کے محبوبین سے جنون کی حد تک محبت ہے اور یہ محبت قرآن وسنت کے قطعی اور متواتر نصوص کی بنا پر ہے۔ ایسی صورت میں عدل پسند کفار ومشرکین بھی اس بات کا لحاظ کرتے ہیں مگر خود ہماری صفوں سے تعلق رکھنے والا اس عقیدت ومحبت کی پروا کیے بغیر اگر لکھنے بولنے کی ہوس پوری کرتا ہے تو یہ افسوسناک ہے۔
یہ فرق ایمان وعقیدہ تک ممتد ہوتا ہے اور اس طرح کی باتوں سے صحابہ کے تئیں لوگوں کے رجحانات بدل جاتے ہیں اور اصحاب رسول کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔ آپ کے ایمان کی داد خدا ہی دے سکتا ہے کہ رسول کے پیاروں کو باغی، جابر، ظالم، نومسلم، کچے ایمان والے، بدعتی، خائن، جاہ پرست، متعصب کہیں اس کے باوجود وہ آپ کی نگاہوں میں ایمان وعقیدہ اور کردار وعمل کی رشک افروز بلندیوں پر بھی فائز نظر آئیں تو صاحب اتنا مضبوط اور ایسا معجزاتی ایمان عام مسلمان کے پاس ہرگز موجود نہیں ہے سو وہ رضی اللہ عنہ کہنا چھوڑ دیتا ہے۔اس لیے عدم فرق اور عدم اثر کی بات قطعی لغو ہے۔
بھلا بتائیے اگر ہم آپ کے محبوب امام وعالم اور محقق ومفسر کے بارے میں بعض قرائن ودلائل اور سماعات کی روشنی میں مثلا کسی دن یہ کہنا شروع کریں کہ: سلمان ندوی اول درجے کے چور ہیں، تعصب اور پھکڑ پنی ان کی نشانی ہے، سنا گیا ہے اور لوگوں کا بیان ہے کہ نعوذ باللہ وہ بے نسب بھی ہیں، غیبت وبہتان ان کا وطیرہ ہے۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ انھوں نے ایرانی مجوسیوں کی دلالی کے لیے بڑا روپیہ بھی تہ دامن رکھ لیا ہے۔ پھر ان باتوں کو مختلف حوالوں سے مزین کروں تو بھلا بتائیے کیا آپ ہمیں اس تنقید کی اجازت دیں گے اور کیا واقعی ہر شخص مولانا کو اس بیان کے بعد بھی پہلے تصور کے مطابق دیکھنے کی کوشش کرے گا۔
پھر سلمان ندوی تو ایک بدترین شخص کی حیثیت سے مشہور ہو چکے ہیں۔ آپ کسی متفق علیہ شخصیت کی مثال لے لیجیے، مولانا رابع صاحب کی مثال لے لیجیے، علامہ احسان ظہیر کی مثال لے لیجیے، مفتی حنیف قریشی کو لے لیجیے، ان لوگوں کی چھوٹی بڑی غلطیاں جن سے لوگ واقف بھی ہیں مرتب انداز سے یکجا کرکے ایک خاص تجزیاتی اسلوب میں بیان نتائج کے ساتھ تحریر کیا جائے اور پہلو بہ پہلو ان غلطیوں کی بابت قرآن وسنت کی وعیدوں کو بھی کوٹ کیا جائے پھر کسی کانفرنس میں ان پر تقریر کی جائے آپ بتائیے یہ سب کیسا محسوس ہوگا اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ کیا واقعی ان کی بزرگی پر فرق نہیں پڑے گا۔ سو جب آپ اپنے علماء کی بابت اتنے حساس ہیں تو صحابہ کی بابت ہماری حساسیت پر تعجب کیوں؟
کیا اگر امام ابو حنیفہ پر صحابی کے نصف درجہ کی ہرزہ سرائی کرتا تو ہمارے حنفی بھائیوں کو برداشت ہوتا قطعا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ اپنے حب صحابہ پر نظر ثانی کا بھی مرحلہ ہے ان بھائیوں کے لیے جنھیں پورا قضیہ معلوم ہے اور خاموش ہیں۔
تو چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ایک خاص ترتیب میں بیان کرنے سے اثر مختلف ہوجاتا ہے۔پھر جن باتوں کو لے کر اصحاب رسول پر نکتہ چینی کی جاتی ہے وہ پایہ ثبوت کو تو پہنچیں۔ ایک عام شخص کے بارے میں پختہ ثبوتوں کے بغیر کوئی بات کرنا ہمارا سماج بھی جرم گردانتا ہے مگر اصحاب رسول اتنے مظلوم کہ کہیں سے کچھ بھی مل جائے اسے نقد کا عنوان بنا دیا جائے۔ فنعوذ باللہ من شرور أنفسنا
ناقدین صحابہ اور محبوب رسول کے شاتمین کا دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ :
(۲)ہم جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ معتبر مؤرخین کی تاریخ میں موجود ہے ابن جریر طبری، ابن اثیر اور فلاں فلاں لوگوں نے یہ باتیں لکھی ہیں۔
یہ بیانیہ زیادہ عذر گناہ کادرجہ رکھتا ہے اور ایک بدترین حیلہ جوئی ہے۔ کسی عام شخص اور عام شخصیت کے بارے میں بھی یہ اصول قطعی غلط ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کی تحریروں، تقریروں اور بیانات میں جو چیز ملے اسے جانچ پڑتال کے بغیر پیش کردیا جائے وہ بھی علم وتحقیق کے نام پر….. پوری علمی دنیا کیا احمق ہے جو مؤرخین پر تو سخت اعتراض نہیں کرتی مگر ان مؤرخین کی کتابوں سے استدلال کرنے والوں پر معترض ہے۔ اس کا صاف معنی یہ ہے کہ تاریخ سے اخذ واستفاد کا جو صحیح طریقہ تھا اسے اختیار نہیں کیا گیا۔ مؤرخین نے تاریخ میں جو کچھ لکھا ہے ظاہر ہے وہ جمع وتدوین کی قبیل سے ہے ورنہ تاریخ میں تو اور بھی بھیانک اور خطرناک چیزیں بیان ہیں خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بابت جو عجیب وغریب روایات تاریخ میں موجود ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ لہذا مؤرخین کی جمع کردہ روایات وحکایات کے برعکس یہ دیکھنا چاہیے ان کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انھوں نے کوئی فیصلہ دیا ہو تو اس فیصلہ پر یقینا گفتگو ہوسکتی ہے۔یہ تو عجیب بات ہوگی کہ جمع کردہ ذخیرہ سے من مانی فائدہ اٹھانے کی خاطر خود مؤرخین نے اپنے جمع کردہ مواد کی بابت جو فیصلہ دیا ہے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔
پھر قرآن وسنت سے پہلے تاریخی روایات کیوں اتنی مستند بن گئیں وجہ صاف ظاہر ہے کہ سب وشتم اور بے جا نقد وتبصرہ کے لیے تاریخ ایک آسان پلیٹ فارم ہے۔
دراصل طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ قرآن وسنت کے ذریعہ اصحاب رسول کی ایک گروپ تصویر کھینچ لی جائے۔ پھر قرآن وسنت کے ذریعہ ان کی انفرادی تصویر کھینچ لینی چاہیے۔ اس کے بعد یہ دیکھنا چاہیے کہ اصحاب رسول پر نقد جائز ہے کہ نہیں۔ اگر جائز ہے تو اس کا اہل کون ہے؟ پھر اس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ قرآن مقدس نے ان پر نقد وتبصرہ کی بابت کیا اصول بتائے ہیں؟ درجات کی تفریق کا قرآن وسنت کا کیا معیار ہے؟ سلف نے مذکورہ بالا مسائل کو کس طرح سمجھا اور برتا ہے؟ جب یہ تمام اصولی باتیں طے ہوجائیں تب کہیں جاکر اصحاب کرام کے مشاجرات کی بابت صرف معروضی گفتگو کی جاسکتی ہے جس میں ایمان وعقیدے کی سلامتی کو ترجیح حاصل ہو۔ورنہ پھر سکوت اختیار کیا جائے۔
یہی طریقہ مبنی بر انصاف اور صحیح طریقہ ہے ااور اسی پر اہل سنت سلفا خلفا قائم ودائم رہے ہیں۔ ورنہ تاریخ تو رہنے ہی دیجیے احادیث کے ذخیرے میں بھی کیا کچھ موجود نہیں ہے۔ ایسی ایسی روایات ہیں کہ اللہ کی پناہ! اب اگر محدثین کے مناہج اور ان کے فیصلوں کو چھوڑ کر من مانی طریقے سے روایات سے استدلال کیا جائے تو یہ بے حد عجیب بات ہوگی اور اس سے عجیب بات کسی کا یہ کہنا ہوگا کہ اگر یہ روایات اتنی ہی مخرب عقائد تھیں تو محدثین کیا بے عقل تھے جو انھوں نے ایسی روایات کو جمع کرڈالا۔
سو محدثین عظام کی مدونات سے استفادہ کرنے کے لیے ان کے جمع وتدوین کا منہج جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔انھوں نے فن کے جو اصول وضوابط بنائے ہیں اس کی روشنی میں ہی ہم ذخیرہ احادیث سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ورنہ بھٹک کے رہ جائیں گے اور جو بھی ھوی کی اتباع کرے گا اس کا مقدر بھی یہی ہے۔
(۳)شاتمین اصحاب رسول کا تیسرا بیانیہ اور مغالطہ صحابہ کے مابین درجات کی تفریق کا ہے۔
درجات کی تفریق کو اپنے بغض وعناد کے ذریعہ کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے متعدد صحابہ کی بالتعیین اور ہزاروں صحابہ کی بالعموم تنقیص لازم آتی ہے اوران کی بابت ایسا تصور پیدا ہوتا ہے جو امت کے متفقہ تصور کے قطعی خلاف ہے۔
اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام کا درجہ یکساں ہرگز نہیں ہے۔مگر یہ عدم یکسانیت فضیحت کے باب سے نہیں فضیلت کے باب سے تعلق رکھتا ہے، علم وفن کے ابلیسی مدعیان کو یہ نکتہ پیش نگاہ رکھنا چاہیے۔
خلفاء اربعہ ایک الگ مقام کے حامل ہیں۔ باقی ستہ مبشرہ الگ درجہ رکھتے ہیں پھر باقی اہل بدر یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ درجہ فتح مکہ سے قبل کے اہل ایمان اور بعد کے اہل ایمان میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ پھر اس تقسیم میں بھی وہ اصحاب کرام جن کو نبی کی خاص دعائیں نصیب ہوگئیں، نبی کی طرف سے خاص امور جنھیں سونپ دیے گئے، خلفائے کرام نے مختلف عہدہ ومناصب کے تعلق سے جن پر بھروسہ کیا، دین وایمان اور عقیدہ سے مطمئن رہے۔ فقہاء صحابہ نے جن کے علم وفقہ کی داد دی پھر ان میں بھی وہ صحابہ کرام جنھیں قیادت وسیادت بھی نصیب ہوئی وہ ایک الگ طرح کا درجہ اور الگ ہی شان رکھتے ہیں۔
پھر وہ اصحاب کرام ہیں جن کی صرف صحبت ثابت ہے وہ مختلف درجہ رکھتے ہیں۔ اہل سنت کا یہ اصولی موقف ہے اور طبقات کے ذریعہ سلف نے ان کے درجات وفضائل کا بیان فرمایا ہے۔
اب منافقانہ طریقہ اور منصوبہ بند شیطانی درجہ بندی یہ کی جاتی ہے کہ صاحب یہ طلقاء ہیں اور یہ غیر طلقاء ہیں اور گفتگو کا ٹون، تحریر کا رنگ یا اس کی خشونت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ با نصیب صحابہ کرام ان کے اماموں،مولویوں اور ان کے اکابرین کے برابر کجا ان سے کمتر درجہ رکھتے ہیں۔ بلکہ میں صاف صاف عرض کردوں کہ یہی وہ ڈھلمل رویہ ہے جس کی بنا پر آج صحابہ کرام کی کوثر وتسنیم والی طبیعتوں کو ننگی خطابت کی آگ میں راکھ کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ اتنا دبا دبا سابیان ایسا ٹوٹا ہوا لہجہ لگتا ہے امیر معاویہ کا نام پورے ذوق ایمانی سے لے لینے پر کوئی زبان کاٹ لےگا اور ہاتھ قلم کردے گا۔
غرض پہلے طلقاء اور غیر طلقاء کی تقسیم کی جاتی ہے اور علم کے نام پر اس تفریق کو خوب ابھار کر بیان کیا جاتا ہے ۔جب اچھی طرح یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ درجہ بندی کے ان کے اپنے زہریلے طریقے سے قاری اور سامع کا تصور کسی قدر تبدیل ہوگیا ہوگا تب وہاں سے اکابر صحابہ کے فضائل اس رنگ میں پروسے جاتے ہیں جس سے پہلو بہ پہلو اصاغر اصحاب کرام کے لیے تکدر کا ماحول بنے۔ پھر جہاں مناسب موقع دستیاب ہو تو اکابر اصحاب عظام پر بھی ہاتھ ڈالنا آسان ہو جیسا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت حضرت کی رٹ کے ساتھ نشانے پر لے لیا جاتا ہے ……….. معلوم رہے بیان فضیلت کا مذکورہ پیچیدہ اور مکارانہ طریقہ خود رسالت مآب کے لیے بھی جائز نہیں۔ ہزار فضیلت وبرتری کے باوجود اگر ہم اپنے رسول کی فضیلت اس طرح بیان کریں کہ کسی دوسرے پیغمبر کی تنقیص کا احساس پیدا ہو تو یہ بیان بھی جائز نہیں ہے…… پھر ذرا آگے بڑھ کر صحابہ کے عیوب کی فہرست سازی کرتے ہیں خواہ وہ عیوب ثابت ہوں نہ ہوں بس کہیں کسی نے لکھ دیا ہو اتنا ان کے لیے کافی ہوتا ہے اور پھر اپنے گندے الفاظ سے یہ کم نصیب اصحاب رسول کو یاد کرتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ طلقاء میں سے تھے حالانکہ طلقاء میں سے ہونا بذات خود ایک فضیلت ہے بعد والوں کے مقابلے میں… مگر اس فضیلت کو عیب بنانا کوئی رافضی نوازوں سے سیکھے۔ پھر طلقاء کا جو وسیع مفہوم ہے اس لحاظ سے بھی طلقاء میں مختلف طرح کے اصحاب پائے جاتے ہیں ان میں بہتوں کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں۔
مذکورہ بالا تقسیم قرآن مقدس میں بھی ہے۔ آئیے تفریق شیطانی اور تفریق ربانی کا فرق دیکھتے ہیں:
لَا یَسۡتَوِی مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَۚ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةࣰ مِّنَ ٱلَّذِینَ أَنفَقُوا۟ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُوا۟ۚ وَكُلࣰّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِیرࣱ[سورة الحديد :10]
یہ آیت کریمہ ایک اصولی موقف کا اعلان کرتی ہے کہ جن اصحاب عظام نے فتح مکہ سے قبل انفاق اور قتال کیا ہے وہ عظیم درجہ کے حامل ہیں بعد میں انفاق اور قتال کرنے والے ان کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتے لیکن جنت کا وعدہ تمام لوگوں سے ہے۔
پھر آخر میں ندوی منافقوں، جماعت اسلامی اور اخوان کے بدزبانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ نے یہ درجہ اور یہ وعدہ ہر چیز کا علم رکھتے ہوئے دیا ہے، ان کی کوتاہیاں اور غلطیاں خواہ وہ فتح مکہ سے پہلے والے ہوں یا بعد والے اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہیں اس کے باوجود اللہ نے انھیں فضیلت اور جنت سے سرفراز فرمایا ہے۔ کسی کو آگ لگتی ہے،یا کسی کو یہ بات ناپسند ہے کہ یہ مقام ایسے کیسے فلاں کو مل جائےگا تو وہ اپنے ایمان کی فکر کرے اور بس۔
مذکورہ آیت کریمہ میں ایک اہم بات جو توجہ کرنے کی ہے کہ عظیم درجہ والے فتح مکہ سے قبل کے تمام اصحاب ہیں اور فی الواقع اصحاب سے وہی مراد ہوتے ہیں جو ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں مگر لوگوں کے سینے میں اتنا بغض بھرا ہے کہ لفظ صحابہ اور صحابی آتے ہی بزرگی اور نیکی کا جو اعلی ترین تصور پیدا ہوتا ہے اسے دھیما کرنے کے لیے اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ صحابہ میں تو منافق بھی تھے اور ایسے بھی ویسے بھی العیاذ باللہ العظيم بہرحال مذکورہ آیت کریمہ میں درجات کی جو تعیین ہے وہ بہت صاف ہے اور بے حد واضح ہے۔
اب اتنی واضح تعیین کے بعد بھی سابقین کی فضیلت کو اس انداز میں کوٹ کرنا کہ محسوس یہ ہو جو اس فضیلت کا حامل نہیں ہے وہ گویا… خاکم بدہن…. فروتر مقام رکھتا ہے، صریح گستاخی اور صریح دھاندلی ہے۔ یہ گستاخی ان سے سرزد اس لیے ہورہی ہے کہ ان کے دلوں میں کدورت ہے اور اس کدورت کو انھوں نے علمی طور پر حلال کیا ہوا ہے کہ صحابہ پر تنقید جائز ہے حالانکہ صحابہ سے ہمارا تعلق سرے سے تنقید کا ہے ہی نہیں، ہمارا تعلق صرف ترجیح کا ہے۔ ہم فقہی مواقف میں بھی جو اس قدر نازک نہیں ہوتے اور جہاں یک گونہ گفتگو کی وسعت ہوتی ہے وہاں بھی ہم یوں کہتے ہیں کہ فلاں صحابی کا قول فلاں کے مقابلے راجح مقام رکھتا ہے اور فلاں کا موقف شاذ ہے یا انھیں روایت نہیں پہنچی وغیرہ۔
درجات کی تعیین میں ایک اور بات پیش نگاہ رکھنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو درجہ بندی صراحت سے طے فرمادی ہے وہ تو واضح ہے جیسے عشرہ مبشرہ، اہل بدر، بیعت رضوان والے وغیرہ مگر جہاں رسول اللہ نے صرف فضائل بیان کردیے ہیں وہاں درجہ بندی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اصحاب فضائل کے درمیان دقیق انداز کی درجہ بندی بہت پیچیدہ امر ہے اس لیے جو لوگ سابقین اولین اور مہاجرین وانصار کے علاوہ دیگر صحابہ کرام کو ہلکے میں لینے کی کوشش فرماتے ہیں وہ اپنے ایمان وعقیدہ پر نظر ثانی کریں۔ قرآن مقدس نے فتح مکہ سے قبل کے تمام صحابہ کو عظیم درجہ کا حامل قرار دیا ہے۔
اصحاب عظام کی درجہ بندی کی جو مجموعی فضا بن رہی ہے اسی مجموعی فضا کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی ان کے بارے میں کوئی گفتگو کی جائے گی کیونکہ ان کی اصل فضیلت ومنقبت ہے۔ ہمارے کسی بھی بیان سے خواہ آپ کے نزدیک وہ کتنا ہی علمی کیوں نہ ہو اگر مجموعی فضیلت کی فضا مکدر ہوتی ہے یا تکدر کا شائبہ ہوتا ہے تو یہ جرات بے جا ہے اس کی اصلاح فورا کرلی جائے۔
بارك الله فيكم