ہفت روزہ دعوت نئی دہلی ۲۰ تا۲۶ ستمبر۲۰۲۰ میں ’’نئے مسائل کا حل تلاش کرنا شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کا تاسیسی مقصد‘‘ کے عنوان سے جناب وسیم احمد صاحب کی ایک رپورٹ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ جو زیادہ تر محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی حفظہ الله جنرل سکریٹری شریعہ کونسل کی گفتگو پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں ایک سے زائد بار بالخصوص آخری حصہ میں پورا زور دے کر یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ”جماعت اسلامی ہند کسی فقہی مسلک کی پابند نہیں ہے۔‘‘ یہ خبر پڑھ کر مجھے دو باتوں کا شدت سے احساس ہوا۔ جماعت اسلامی ہند کی نئی مؤقر قیادت نے یہ نئی پالیسی اختیار کرکے بڑا اچھا اقدام کیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کا ہر انصاف پسند مسلمان کو استقبال کرنا چاہیے۔
دوسری بات ماضی قریب کی پالیسی اور اس کے اثر میں ہونے والا ایک واقعہ شدت سے یاد آگیا؛ آپ سب جانتے ہیں کچھ عرصہ قبل طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو لے کر ملک بھر میں جو طوفان اٹھا تھا اور ہر ایرا غیرا مسلمانوں کو گھیر کر سوال کر رہا تھا بلکہ ہر چینل پر یہی بحث ہورہی تھی کہ ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک جھٹکے میں میاں بیوی کا رشتہ ازدواج ختم ہوجاتا ہے؟ جناب وزیر اعظم صاحب تک نے مسلمانوں سے اپنے ایک خطاب میں پورا زور دے کر یہ درخواست کی تھی، جو ملک کے کئی اخبارات میں شائع بھی ہوئی، کہ ’’مسلمان تین طلاق کے مسئلہ کو خود حل کرلیں اور مسلمان خواتین کو ریلیف دے دیں ورنہ ہم قانون بنانے پر مجبور ہوں گے۔‘‘ اسی وقت ایک موقعہ پر پریس کے نمائندوں نے مولانا جلال الدین انصر عمری حفظہ الله (اس وقت مولانا جماعت کے امیر تھے ) سے طلاق ثلاثہ اور حلالہ کے متعلق سوالات کیے، شیخ محترم نے حنفی مسلک کی نمائندگی کرتے ہوئے دونوں مسئلوں کا جواب دیا تھا۔ مولانا کے جوابات سن کر ایک نمائندہ نے پھر یہ سوال کیا کہ اہل حدیثوں کے پاس تو ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جاتی ہے آپ لوگ ان لوگوں کی بات مان کر تین طلاق کو ایک رجعی طلاق کیوں نہیں مان لیتے؟ اس سوال پر شیخ محترم کے جواب نے نہ صرف مجھے بلکہ سبھوں کو حیران کردیا تھا۔ مولانا کا جواب تھا کہ ’’ملک میں نناوے فیصد حنفی ہیں اور اہل حدیث آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔‘‘ اس جواب کو لاکھوں افراد کے ساتھ میں نے بھی ٹی وی چینلز پر براہ راست دیکھا اور سنا تھا۔ غالبا بعض اخبارات نے بھی اس بیان کو شائع کیا تھا۔ اس وقت میں طلاق ثلاثہ پر قائدین کو مسلسل تجاویز لکھ بھیج رہا تھا۔ وقت رہتے داخلی طور پر اس مسئلہ کا حل نکال لیا جائے ورنہ دیر ہوجائے گی اور شریعت میں مداخلت کا دروازہ کھل جائے گا۔ اس وقت میں نے مولانا جلال الدین انصر عمری حفظہ الله کا نام لیے بغیر فیس بک پر ان کے اس اسٹیٹمنٹ کو بھی کوٹ کیا تھا۔
اولا یہ بات کہ ’’ملک میں اہل حدیث آٹے میں نمک برابر ہیں‘‘ غلط تھی۔ ایک سروے کے مطابق ملک میں تقریبا چار کروڑ اہل حدیث بستے ہیں۔ دوسری بات اے کاش کہ مولانا اور جماعت توسع کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم یہ بیان دے دیتے کہ ہاں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک اسٹیک ہولڈر اہل حدیث بھی ہیں ان کا مسلک ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اس وقت جماعت اسلامی کی قیادت مسلک حنفی کی پیروی کر رہی تھی۔ کاش کہ اس وقت موجودہ پالیسی کو اپنالیا گیا ہوتا! بہرحال دیر آید درست آید ۔ ہمیں اس اعلان کا خوش دلی سے استقبال کرنا چاہیے۔ آئے دن محقق علم سامنے آرہا ہے، تقلید کی قید سے نکل کر کتاب وسنت کے عین مطابق ہمارے فیصلے ہونے چاہئیں اور اسی روشنی میں فتاوے بھی دیے جانے چاہئیں۔ اسی روش پر امت کے اتحاد کی راہیں کھلیں گی۔ اس موقع پر لگے ہاتھوں جماعت کی نئی مؤقر قیادت سے میں امید کرتا ہوں کہ فروعات کے ساتھ امت کے مسلمات پر بھی توجہ دیں گے۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ جماعت مسلمات پر گفتگو کا دائرہ بھی متعین کردیتی اور امت کے اجماعی اور متفق علیہ مسائل پر بحث وتحریر سے جو انتشار پیدا ہوتا ہے اس پر روک تھام کی تدبیریں اختیار کرتی۔تقلیدی جمود یقینا بہتر نہیں ہے مگر خارجی اثرات و عناصر پر بھی نظر رکھنی نہایت ضروری ہے۔فلتدبروا!
میں اس موقع پر صمیم قلب سے جماعت اسلامی ہند کی نئی قیادت اور شرعی کونسل کے صدر محترم مولانا جلال الدین انصر عمری اور سکریٹری محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی حفظھم الله کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ الله تعالى ہمیں اور آپ سب کو کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
’’نئے مسائل کا حل تلاش کرنا شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کا تاسیسی مقصد‘‘
[کونسل کے صدر مولانا سید جلال الدین عمری اور سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی سے گفتگو پر مبنی رپورٹ]
از:وسیم احمد ، دلی
’’آج کے سائنسی دور میں نئے مسائل سامنے آرہے ہیں ۔ ان مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں تلاش کیا جاتا ہے ، لیکن جب ان سے متعلق کوئی صراحت قرآن و حدیث میں نہ ہو اور صحابہ کے قول و عمل میں بھی اس کی توضیح نہ مل رہی ہو تو ایسی صورت میں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق تمام ائمہ فقہ کے اقوال میں غور وخوض کرکے وقت سے ہم آہنگ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔ اگر ایک مسلک میں اس کا کوئی حل نہ ہو تو دوسرے ائمہ کے مسلک میں اس کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔‘‘یہ کہنا ہے جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کے صدر و سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلال الدین عمری کا ۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ اس سلسلے میں مسلکی تنگ نظری سے گریز کرتے ہوئے جس مسلک میں حل ملتا ہو اس پر علماء کرام کو اتفاق رائے بنا کر فتویٰ دینا چاہیے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ تقریباً ایک سال قبل جماعت اسلامی ہند کی شریعہ کونسل کی تشکیل کی گئی تھی ۔ یہاں جدید دور کے مسائل اور نئی صورت حال پیش آنے پر شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جاتاہے ۔ ملک میں متعدد دارالافتاء پہلے سے موجود ہیں ، جہاں سے فتاویٰ جاری کیے جاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود مزید ایک ادارہ شریعہ کونسل کے نام سے قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال پر کونسل کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے کہا : ’’جماعت اسلامی ہند کسی مسلک کی پابند نہیں ہے ، اس کے وابستگان میں حنفی مسلک کے لوگ بھی ہیں اور شافعی اور اہل حدیث مسلک کے افراد بھی ۔ جماعت نے اپنے وابستگان کو آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جس مسلک پر چاہیں عمل کریں ۔ البتہ جماعت کے ارکان و کارکنان بسا اوقات مرکز جماعت سے رجوع کرتے ہیں اور ذمہ داروں سے رہ نمائی چاہتے ہیں ، اس لیے کونسل قائم کی گئی ہے اور اس کے ذریعہ وابستگان جماعت کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کی رہ نمائی کی جاتی ہے۔
اس سوال پر کہ کونسل کس طرح کام کرتی ہے؟ انھوں نے بتایا کہ کونسل کسی مسلک کی پابند نہیں ہے ۔ اگرچہ بیش تر فتاوٰی میں فقہ حنفی کی رعایت کی جاتی ہے ، لیکن ماحول و حالات کے سیاق و سباق کا لحاظ رکھ کر اور بسا اوقات اس سے ہٹ کر بھی استفتاء کے جوابات دیے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مسائل جن پر بڑے ادارے قدیم روایت پر قائم ہیں اور نیا رخ اختیار کرنے سے بچتے ہیں، ان پر یہاں نئے سرے سے غور وخوض کرکے قرآن و حدیث اور مقاصد شریعت کی روشنی میں جدید دور سے ہم آہنگ حل تلاش کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اپنی بہو کو شہوت کے احساس کے ساتھ چھو لے تو تمام حنفی دارالافتاء قدیم روایت پر برقرار رہتے ہوئے بیٹے کے لیے اس کی بیوی کو حرام قرار دیتے ہیں ، لیکن شریعہ کونسل نے دیگر ائمہ کی آراء کی روشنی میں نکاح کے عدم فسخ ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔‘‘
سکریٹری شریعہ کونسل نے مزید کہا کہ ’’اسی طرح دیگر کئی مسائل ہیں جن پر شریعہ کونسل نے شریعت کی روشنی میں نیا پہلو مشتہر کیا ہے ، مثلاً تراویح میں مصحف دیکھ کر پڑھنے کا مسئلہ ۔ اس موضوع پر احناف نے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ایسی صورت میں جو حافظ قرآن نہیں ہیں اور کوئی حافظ بھی دستیاب نہیں ہے جس کے پیچھے قرآن سن سکیں تو اس صورت میں کیا کریں؟ اس مسئلے پر دیگر حنفی دارالافتاء کا کہنا ہے کہ وہ سورہ تراویح سے کام چلائیں ، جب کہ کونسل کا کہنا ہے کہ وہ اس حالت میں مصحف دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ چوں کہ نئے مسائل کا پیش آنا اور انھیں حالات حاضرہ کے مطابق حل کرنا ، جن میں امت کی دشواریوں کا خاص لحاظ رکھا گیا ہو ، علماء کرام کو اپنا دینی فریضہ سمجھنا چاہیے ، لیکن کہیں نہ کہیں اس میں کمی محسوس ہو رہی تھی ، چنانچہ اسی کمی کو دور کرنے کے لیے اس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔
کونسل کو قائم ہوئے تقریباً ایک برس ہوا ہے ، لیکن اس قلیل عرصے میں ڈیرھ ہزار سے زیادہ مسائل کا استفسار اس سے کیا جا چکا ہے ۔ کونسل کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلک کے مطابق مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی کے مسلک کے مطابق جواب دیا جاتا ہے ، لیکن اگر وہ اس پر اصرار نہیں کرتا تو اس کے سامنے تمام مسالک کا تذکرہ کرتے ہوئے موجودہ دور میں جو رائے بہتر ہے اس کا تذکرہ کر دیا جاتاہے۔
اس استفسار پر کہ نئی صورت حال اور نئے طرح کے مسائل پیش آنے پر کونسل کے غورو خوض کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ ڈاکٹر ندوی نے کہا : ’’دراصل قرآن و سنت میں کچھ احکام صراحت سے بیان کیے گئے ہیں اور کچھ اصولی ہدایات دی گئی ہیں جن کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے ۔ علمائے امت نے قیاس اور دیگر شرعی اصولوں کو کام میں لا کر بے شمار احکام مستنبط کیے ہیں۔ ہندوستان میں فقہ اسلامی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ یہاں ہزاروں فقہاء پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے ملت اسلامیہ ہند کی شرعی رہ نمائی کی ۔ ملک کے بیش تر حصوں میں فقہ حنفی کا رواج ہے ۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں اور بعض دیگر مقامات پر فقہ شافعی پر عمل کرنے والے پائے جاتے ہیں ۔ اہلِ حدیث بھی قابلِ لحاظ تعداد میں ہیں ۔ ان مسالک میں تصنیف و تالیف کا خاطر خواہ کام انجام پایا ہے اور فتاویٰ کی بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ مستفتی جس مسلک کا ہوتا ہے کونسل کے اراکین اسی کے مطابق جواب دیتے ہیں۔‘‘
جب ڈاکٹر ندوی سے پوچھا گیا کہ نئے دور سے ہم آہنگ شرعی جوابات کی ضرورت تو برسوں سے ہے ، پھر اچانک ایک سال قبل قائم کی گئی کونسل سے امت کی یہ ضرورت کیسے پوری کی جا رہی ہے؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’اب تک فقہی معاملات میں جو ارکان و وابستگان مرکز جماعت سے رجوع کرتے رہے ہیں انھیں شعبۂ اسلامی معاشرہ کی طرف سے جواب دیا جاتا تھا ۔ بعض اجتماعی معاملات میں ریاستی حلقوں کی طرف سے مرکز سے رجوع کیا جاتا تھا تو محترم امیر جماعت ، جماعت کے اصحابِ علم سے مشورہ کرکے جواب دیتے تھے ۔ جماعت کی میقاتِ رواں (اپریل۲۰۱۹ء تا مارچ ۲۰۲۳ء) میں فیصلہ کیا گیا کہ ارکان و وابستگان کی شرعی رہ نمائی کے لیے ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے ، تاکہ اجتماعی غور وخوض اور مشاورت کے بعد مسائل کا حل تجویز کیا جاسکے ۔ اس کے لیے’شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند‘ کا قیام عمل میں آیا۔امت کی اس تشنگی کو سابق میں مختلف طریقوں سے بجھانے کی کوشش ہوتی رہی ہے، مثلاً: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی نگرانی میں جاری ہونے والے ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ میں ’رسائل و مسائل‘ کے عنوان کے تحت ایک طویل عرصے تک اسلام کے مختلف پہلوؤں پر قارئین کے سوالات کے جوابات دیے جاتے تھے ۔ یہ سوالات عقائد و ایمانیات ، عبادات ، قرآنیات ، تاویلِ احادیث ، سماجیات ، سیاسیات ، معاشیات ، تعلیم ، تصوف و اخلاق ، اسلام اور سائنس ، جدید فقہی مسائل اور دیگر موضوعات پر ہوتے تھے ۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد جماعت اسلامی ہند کی تشکیل ہوئی اور اس کے ترجمان ماہ نامہ’زندگی نو‘ کا اجرا ہوا تو اس میں بھی فقہی استفسارات کا کالم ’رسائل و مسائل‘کے عنوان سے شروع کیا گیا اور تقریباً ربع صدی تک مولانا سید احمد عروج قادری اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ ان کے جوابات ’احکام و مسائل‘کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند و پاک کے دیگر اصحاب علم نے بھی یہ خدمت انجام دی ہے اور مذکورہ رسالوں کے ذریعہ اب تک وابستگان جماعت اور دیگر قارئین کی شرعی رہنمائی کی جا رہی ہے ، مگر اب کام میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی تو شریعہ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے ذریعے امت کے بہت سے مسائل حل کیے جا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی نگرانی میں قائم شریعہ کونسل کے بارے میں یہ بنیادی بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کسی فقہی مسلک کی پابند نہیں ہے۔ جماعت سے وابستہ افراد میں حنفی مسلک پر عمل کرنے والوں کے علاوہ شوافع اور اہلِ حدیث مسلک سے وابستہ لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں ۔ فقہی توسع کے مقصد سے ہی سوالات کا جواب دینے میں حنفی مسلک کے ساتھ دیگر مسالک کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے،تاکہ قارئین کو دیگر مسالک کا بھی علم رہے اور عمل کی آزادی بھی برقرار رہے ۔ نیز جماعت کے ارکان ، کارکنان اور وابستگان کو یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے ذاتی معاملات میں فقہی رہنمائی کے لیے مقامی علماء سے رجوع کریں ۔ اس مشورے کے باوجود استفسار کرنے والوں کی بڑی تعداد مرکز سے رابطہ قائم کرتی ہے ۔ اس کے لیے وہ کبھی مرکز تشریف لاتے ہیں اور کبھی رابطہ کے دیگر ذرائع ، مثلاً خط ، فون ، واٹس ایپ اور ای میل وغیرہ استعمال کرتے ہیں ۔ شریعہ کونسل کے ذریعہ حتیٰ الامکان ان تمام کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔[شائع شدہ :ہفت روزہ دعوت نئی دہلی، 20 تا 26 ستمبر 2020]
بہت بہترین انداز سے سمجھایا گیا ہے فی زمانہ اس طرح کاعمل شریعہ کونسل کا قیام قابل قبول ہی نہیں بلکہ لازمی ہے اعتدال کی راہ سے مسائل حل ہوتے ہیں اور ملت کا فایدہ اسی میں مضمر ہے ۔
سید محمود عمری
یہ مسئلہ بھی فقہ حنفی کے مشہور تکیہ باب کتاب الحیل پر عملی اقدام کی مخفی کوششیں لگ رہی ہے۔اللہ خیر کرے۔
مساجد میں کرسیوں پر نماز ادا کرنے کا شرعی عذر کیا ہے