سچ بتاؤں تو مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بچپن ہی سے بڑا لگاؤ رہا ہے۔ ’’عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ‘‘جیسا مبارک جملہ میری سماعتوں سے اس وقت ٹکرایااور اسے میں نے اپنی زبان سے اس وقت ادا کیا جب میں نے بلوغت کی سیڑھیوں پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔مجھے ابھی بھی یاد ہے والد صاحب نے اپنی ایک تقریر میں حضرت ابو ہریرہ کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے ان کی کنیت کے سبب تسمیہ کی تشریح کی تو جب میں اپنے وطن کے ایک شخص ابوہریرہ کو دیکھتا حضرت ابو ہریرہ اور ان کی کنیت کی وجہ تسمیہ میرے ذہن میں گھوم جاتی۔حدیث کی پہلی کتاب بلوغ المرام اور اس کے بعد مشکوۃ المصابیح اس وقت میں نے پڑھی جب میں بے شعور تھا۔ چنانچہ جب شعور کا قافلہ ذرا آگے بڑھا اور حضرت ابو ہریرہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ صفہ کے سب سے نادار طالب علم حضرت ابو ہریرہ کو صرف چار سال حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں میسر آئے مگر وہ سب سے زیادہ حدیث روایت کرنے والے صحابی جلیل اور محدث کبیر بن گئے۔ ہائے! اتنے وقت میں تو آج کے ذہین سے ذہین طالب علم انجینئر اور ڈاکٹر بھی نہیں بن پاتے۔ لوگ زبان وادبیات کے ماہر نہیں بن پاتے۔ شاعروادیب نہیں بن پاتے مگرہمارے ممدوح گرامی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وارضاہ چار سال میں محدث العصر بن گئے۔حدیث کے سب سے بڑے راوی بن گئے۔
پتہ ہے آپ کو ! صفہ کے اس نادار طالب علم کوحدیث پاک سے بے انتہا شغف تھا۔ شب وروز صفہ کے چبوترے پر بیٹھے رہتے۔ کھجور کے خوشوں پر گزارہ کرتے اور جیسے ہی حبیب پاک مسجد نبوی میں تشریف لاتے ان کی خدمت میں بیٹھ کر آپ کی پیاری پیاری باتیں سنتے۔لیکن بھول جاتے۔حدیثیں ذہن نشین نہیں رہ پاتیں۔ تو ایک دن حبیب پاک کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے فرمایا:یا رسول اللہ ’’میں آپ کی بہت ساری حدیثیں سنتا ہوں۔ مگر وہ ذہن نشین نہیں رہ پاتیں۔ میں بھول جاتا ہوں۔ (کیا کروں) آپ نے فرمایا: ابوہریرہ اپنی چادر کو پھیلاؤ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی چادر پھیلائی۔ تو حبیب پاک نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس میں انڈیل دیااور کہا ’’ضمہ‘‘یعنی اس کو سمیٹ لو۔ چنانچہ میں نے اپنی چادر سمیٹ لی۔اور پھر میں کوئی بھی حدیث نہیں بھولا۔(صحیح البخاری)
ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں، زید بن ثابت اور ایک اور صاحب مسجد نبوی میں دعا کررہے تھے۔ اتنے میں حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم آگئے اور ہمارے بغل میں بیٹھ گئے۔ابو ہریرہ کہتے ہیں جب آپ ہمارے بغل میں بیٹھ گئے تو ہم لوگ خاموش ہوگئے۔رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعائیں مانگنا جاری رکھو ۔ زید بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے اور دوسرے صاحب نے ابو ہریرہ سے پہلے اپنے اپنے لیے دعا مانگی۔ہم دعا مانگتے جا رہے تھے او ررسول گرامی آمین کہتے جارہے تھے۔اس کے بعد ابو ہریرہ نے دعا کی’’اللہم انی اسالک مثل ما سالک صاحبای ہذان،واسالک علما لاینسی‘‘ یعنی اے اللہ میں تجھ سے ان تمام باتوں کا سوال کرتا ہوں جن کا سوال میرے ان دو ساتھیوں نے کیا ہے۔ ساتھ ہی میں ایسے علم کا بھی سوال کرتا ہوں جسے میں کبھی نہ بھولوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دعا پر آمین کہی۔ اس کے بعد دونوں ساتھیوں نے کہا یا رسول اللہ ہم بھی وہی دعا مانگنا چاہتے ہیں جو ابوہریرہ نے مانگی۔ آپ نے فرمایا۔ نہیں دوسی بچے نے آپ دونوں پر سبقت کرلی۔(سنن کبری از نسائی)
ایک اور حدیث میں آیا۔ ابو ہریرہ نے اللہ کے رسول سے پوچھا ’’من اسعد الناس بشفاعتک‘‘قیامت کے روز آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ ! حدیث کے بارے میں آپ کی حرص کو دیکھ کر مجھے اندازہ تھا کہ اس بابت آپ کے علاوہ کوئی اور شخص مجھ سے نہیں پوچھے گا۔(الحدیث)
حدیث سے آپ کو اس قدر رغبت تھی کہ ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ یہاں تک کہ صحابہ میں سب سے زیادہ حدیثیں روایت کرنے والے صحابی بن گئے۔ آپ کو اتنی زیادہ حدیثیں یاد تھیں کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی حدیث بیان کردیتے۔لوگوں نے کہا ابو ہریرہ کثرت سے حدیثیں بیان کردیتے ہیں۔ ابو ہریرہ نے کہا: (دوستو!)میں صفے کا نہایت نادار طالب علم تھا۔میرے مہاجر بھائی بازاروں میں اپنی تجارت میں مصروف ہوتے تھے۔ انصارکھیتی باڑی میں مصروف رہتے تھے اور میں بھوکے پیاسے ، پیٹ پر پتھر باندھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا۔ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا’’من یبسط رداء ہ حتی اقضی مقالتی ثم یقبضہ، فلن ینسی شیئا سمعہ منی‘‘ (کون ہے جو اپنی چادر پھیلائےیہاں تک کہ میں اپنی بات ختم کردوں۔ پھر وہ اپنی چادر کو سمیٹ لے۔ تو وہ مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات کبھی نہیں بھولے گا) ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی چادر پھیلائی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ،اس کے بعد میں کوئی بھی حدیث نہیں بھولا۔(صحیح بخاری)
یہی ابو ہریرہ ایک روز بہت بھوکے تھے۔ پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ نماز بعد وہاں جاکر کھڑے ہوگئے جہاں سے لوگ نماز پڑھ کر نکلتے تھے۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کا گزر ہوا تو میں نے ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا اور چلے گئے۔ حضرت عمر آئے ان سے بھی پوچھا۔ انھوں نے بھی جواب دیا اور چلے گئے۔ (میری نقاہت اور بھوک کااندازہ نہ کرسکے) اس کے بعد حبیب پاک کا گزر ہوا۔ دور سے ہی میرے چہرے کو دیکھ کر پہچان گئے۔ آپ مسکرائے اور (سوال کرنے کا موقع ہی نہ دیا اور ) فرمایا ابوہریرہ میرے ساتھ آؤ۔وہ اپنے گھر گئے۔ پوچھا کچھ ہے؟ کہاگیا ایک پیالہ دودھ ہے۔ پوچھا کہاں سے آیا ہے؟ کہاں کسی نے ہدیہ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ جاؤ تمام صفہ والوں کو بلالاؤ۔میں نے سب کو بلایا۔ سب آئے اور سب نے شکم سیر ہوکر دودھ پیا۔ آخر میں آپ نے مجھے دیا میں نے بھی پیا اور اس کے بعد باقی بچا دودھ آپ خود پی گئے۔ (صحیح البخاری)
یہ تھے صحابی جلیل حضرت ابو ہریرہ۔ آپ بہت ہی متقی وپرہیزگار تھے۔ بے انتہا نفل نمازوں اور روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ تہجد کا کثرت سے اہتمام کرتے تھے۔ آپ نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ میں نے رات کو تین حصے میں بانٹ رکھا تھا۔ ایک حصے میں سوتے تھے۔ ایک میں عبادت کرتے اور ایک میں آپ کی احادیث کو یاد کرتے۔(دارمی)
حضرت ابو ہریرہ کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کے کچھ نام نہاد علماء کی طعن وتشنیع کا کئی دنوں سے چرچا سن کر یہ سطریں خود بخود صفحۂ قرطاس پر آگئیں۔در اصل حضرت ابو ہریرہ انھی صحابہ کرام کی جماعت کے ایک فرد تھے جنھیں اللہ تعالی نے ’’رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ‘‘کے تمغۂ امتیازسے مشرف کیا ہے۔بے شمار آیتوں میں جن کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ یہ حبیب پاک کی صحبت میں رہنے والے وہ ہراول دستے تھے جن کی روایتوں پر دین کی بنیاد قائم ہے۔ جن سے محبت دین سے محبت کی اساس ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحابۂ کرام سے محبت کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے