سَارِعِي لِلْمَجْدِ وَالْعَلْيَاء
مَجِّدِي لِخَالِقِ السَّمَاء
وَارْفَعِ الخَفَّاقَ أَخْضَرْ
يَحْمِلُ النُّورَ الْمُسَطَّرْ
رَدّدِي اللهُ أكْبَر
يَا مَوْطِنِي
مَوْطِنِي عِشْتَ فَخْرَ الْمُسلِمِين
عَاشَ الْمَلِكْ: لِلْعَلَمْ وَالْوَطَنْ
تو شہرت و بلندی کی طرف رواں دوں رہ!
آسمانوں کے پیدا کرنے والے کی بزرگی بیان کر!
تو سبز پرچم کو سربلند کر!
جس میں ہدایت والے کلمات مسطور ہیں!
اور بار بار’’اللہ بہت بڑا ہے‘‘ دہرا!
اے میرے وطن! تو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے باعث فخر بنا رہ!
بادشاہ لمبی زندگی پائیں! اس پرچم اور وطن (کی خدمت وسربلندی) کے لیے!
مجدد سعودی عرب شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حکم پر سعودی شاعر ابراہیم الخفاجی کے ذریعے لکھا گیا توحید کے نعرے پر مشتمل سعودی عرب کا یہ قومی ترانہ جب کانوں میں گونجتا ہے اور کلمہ شہادت ’’لا إله إلا الله محمد رسول الله‘‘ پر مشتمل جب سعودی عرب کا سبز پرچم آسمان کی بلندیوں میں لہراتا ہے تو دلوں میں فرحت و انبساط کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں، بانہیں کهل جاتی ہیں، قلوب و اذہان منور ہوجاتے ہیں اور ہمیں ماضی قریب کی عمیق تاریخ و ناقابل فراموش داستانوں میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کردیتی ہیں تاکہ ہم ان عظیم واقعات کو یاد کرسکیں جن کے پیش خیمے میں یہ ترانہ قلمبند کیا گیا اور کلمہ توحید پر مشتمل یہ پرچم آسمان میں سربلند ہوسکا نیز ہم ان خطرات کی جھانکی دیکھ سکیں کہ جن کا موسس عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کی قیادت میں سپہ سالاران مملکہ نے سینہ سپر ہوکر ایک ایسے ماحول میں کہ جب تخلف و پسماندگی اور قلق واضطراب کا دور دورہ تها، لوگوں کا اپنے عقائد سے تعلق کمزور پڑچکا تها، ڈٹ کر مقابلہ کرکے اس مملکت توحید کی داغ بیل ڈالی تھی!
چنانچہ تب جاکر ہمیں مملکت سعودی عرب کے قومی دن کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے کہ حقیقت میں 23 ستمبر بڑی اہمیتوں کا حامل دن ہے، یہی وہ عظیم دن ہے کہ جس روز اس مبارک سرزمین نے لوٹ کهسوٹ، ناخواندگی ولاعلمی اور تخلف و تشتت کے ایام اپنے پیچھے چھوڑا تها، اسباب ظلمت و تاریکی کو درکنار کرتے ہوئے اس سنگلاخ و ریگستانی زمین پر تہذیب و تمدن، ترقی و کامیابی کے جهنڈے گاڑے تهے جو آگے چل کر ایک عظیم اسلامی قلعے کی بنیاد ثابت ہوئیں!
بلاشک ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سن 1932ء میں مملکت سعودی عرب کی شکل میں ایک مبارک و بابرکت پودے کی شجرکاری کی تھی جسے مرحوم کے بعد ان کے بیٹوں نے بڑے عہد واخلاص سے آبیاری کی، اسے بڑی جانفشانی، جد و جہد، عزم مصمم اور بلند ہمت کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رکھا چنانچہ جس کے گواہ اقوال سے پہلے افعال بنے، تصریحات سے پہلے ڈیولپمنٹ نے اپنی گواہیاں پیش کیں اور اس طرح مملکت توحید علمی، اقتصادی اور ثقافتی غرضیکہ ترقی و ازدہار کے تمام گوشوں میں ایک قابل ذکر ومثالی ملک بن گیا!
محترم قارئین!
آج جب کہ سعودی عرب اپنا 90/واں قومی دن منارہا ہے ہم سب کی بحیثیت مسلم یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس ملک کی ناقابل فراموش قربانیوں اور عظیم الشان جہود و خدمات کو یاد کریں جن کی بنا پر یہ ملک ایک عظیم اسلامی ملک بن سکا تاکہ الفت و محبت اور شکر وتقدیر جو اس مبارک سرزمین کے لیے ہمارے دلوں میں پنہاں ہیں انھیں ہم بیان کرسکیں اور اللہ کے فضل وکرم کے بعد جن ہستیوں کا اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار رہا ہے انھیں یاد کرسکیں، چنانچہ یہ اللہ جل شانہ کا فضل وکرم ہی ہے کہ اس ملک کی قیادت و سیادت ایسے ہاتھوں میں ہے جو اعلی اخلاق و کردار پر فائز ہیں، پس خیر و بھلائی کا یہ سلسلہ موسس مملکہ کنگ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود سے لے کر آج خادم حرمین شریفین کنگ سلمان بن عبدالعزیز کے عہد زریں تک مستقل بلا کسی پڑاؤ کے چل رہا ہے۔ سعودی عرب نے مختلف مجالات میں کچھ ہی سالوں میں اتنی ترقی کی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی، گزشتہ سالوں میں سعودی عرب نے اتنے منازل سرکر لیے ہیں جنھیں دیگر ممالک کئی سو سالوں میں بھی انجام دینے سے قاصر ہیں!
ایک اہم گوشہ جو اس قومی دن کی مناسبت سے قابل ذکر ہے وہ سعودی عرب کا اپنے شہریوں، ان کی تعلیم و تعلم اور مختلف مجالات میں انھیں خود کفیل بنانے میں حد درجہ تک اہتمام و کوشش کرنا ہے، چنانچہ اس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سعودی عرب کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا، اعلی دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں غیر سعودی طلباء کو بھی بلا تفریق اسکالرشپ دی گئی،اس کا اثر آج پوری دنیا میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
سعودی قومی دن کی مناسبت سے جس بات کا ذکر کرنا اہم ہے وہ سعودی عرب کا امت اسلام کے لیے پیش کردہ بیش بہا خدمات ہیں۔ابتدا ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں سعودی عرب کی خصوصی عنایات و اہتمامات روا رکھی ہیں، آج تک اسلام کے لیے جتنی خدمات اکیلے سعودی عرب نے پیش کی ہیں اتنی پورے عالم اسلام کی مل کر بهی نہیں ہیں۔ اور یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں کیونکہ یہ مہبط وحی، منبع رسالت اور قبلہ مسلمین ہے!
پس کتنے ہی مساجد ومدارس دنیا کے مختلف گوشوں میں تعمیر وآباد کی گئیں۔ سعودی خرچے پر کتنی ہی دعوتی و تعلیمی سرگرمیاں بیرون ممالک منعقد کی گئیں۔ حرمین شریفین کو سعودی دور حکومت میں نہایت ہی قابل ذکر اہتمام ملا چنانچہ دونوں مسجدوں میں تاریخ کی سب سے بڑی و عظیم الشان توسیع سعودی دور حکومت ہی میں پیش آنا اس بات کی سب سے بڑی گواہی ہے، حج بیت اللہ جوکہ نہایت ہی مشقت کا سفر مانا جاتا تھا اب وہ نہایت ہی آسان ہوگیا! حجاج بیت اللہ اور زائرین مسجد نبوی کی راحت و آرام کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی گئیں، اطمینان و سکون کے ساتھ تمام شعائر کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے اس حکومت نے اپنا سب کچھ نچھاور کردیا، حجاج کرام جوکہ ضیوف الرحمن بھی ہوتے ہیں ان کی مہمان نوازی میں اس ملک نے اپنے تمام مادی، جسمانی اور روحانی وسائل کو صرف کردیا، ان کی خدمت کے لیے ’’قدومكم يسعدنا وراحتكم مطلبنا‘‘ آپ کی آمد ہمارے لیے باعث سعادت اور آپ کی راحت ہمارا اولین مقصد اور ’’خدمة الحاج والزائر وسام فخر لنا‘‘ حاجی اور زائر کی خدمت ہمارے لیے فخریہ تمغہ ہے‘‘ کو اپنا شعار بنا لیا۔ نیز اسی طرح قرآن مجید کی نشر واشاعت، پرنٹنگ و طباعت کے لیے عالمی معیار کا مجمع الملک فہد پرنٹنگ کمپلیکس کے نام سے طباعتی مرکز بهی کھول دیا گیا جہاں سے دنیا کی مختلف زبانوں پر مشتمل لاکھوں قرآن کریم کے نسخے چھاپے جانے لگے اور حجاج و معتمرين میں مفت تقسیم کیے جانے لگے اور یہی پوری دنیا کی مساجد و مدارس و حلقات تحفیظ میں ارسال کی جانے لگی۔ اسی کڑی میں کنگ سلمان حدیث کمپلیکس کی داغ بیل بھی ہے تاکہ پوری دنیا تک پیارے حبیب صلی اللہ صلی اللہ وسلم کے ارشادات وفرمودات بلا کسی کمی و زیادتی محقق ومستند انداز میں پہنچائی جاسکیں، چنانچہ مملکت سعودی عرب کی ان عظیم خدمات کی گواہی ہر عام و خاص دیتا نظر آتا ہے!
محترم قارئین!
ان کے علاوہ مملکت سعودی عرب نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی پیمانے پر بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے چنانچہ خواہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ممالک، ہر جگہ، ہر محاذ اور ہر پڑاؤ پر سعودی عرب نے ضرورتمندوں کی مدد کرکے، قدرتی آفات پر ریلیف کیمپ قائم کرکے اس ملک نے مملکت انسانیت ہونے کا بہتر ثبوت پیش کیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر اس ملک کا پوری دنیا کے سامنے ایک اسلامی حکومت ہونے کا بہتر نمونہ پیش کرنا ہے جس کا دستور قرآن و سنت ہے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کے لیے ملی تشخص کا جذبہ ہے۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزيز آل سعود نے امت مسلمہ کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ اسلام اور امت مسلمہ کے لیے سعودی حکومت کی مخلصانہ و ہمدردانہ خدمات کو امت مسلمہ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ رابطہ عالم اسلامی کا قیام، 40 اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد اور اسلام کی نشر واشاعت کے لیے بیرون ممالک دعوتی وفود و سرگرمیاں جس کا بین ثبوت ہیں۔
مذکورہ تمام باتوں کے علاوہ ایک اہم بات جس کی طرف اشارہ کرنا نہایت ضروری ہے وہ سعودی عرب کا بین الاقوامی میدان میں قابل ذکر پیش قدمی ہے چنانچہ توحید الہٰی کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس ملک کی مثال آج پوری دنیا میں ایک مستحکم، خوشحال اور پرامن ملک کے طور پر دی جاتی ہے، آج سعودی عرب کا شمار دنیا کے سپر پاور ممالک میں ہونے لگا ہے، آج دنیا تعلیم و ترقی کے میدانوں میں سعودی عرب کی سربراہی کو تسلیم کرچکی ہے جس کا بین ثبوت سعودی عرب کو جی 20 ممالک کی میزبانی حاصل ہونا ہے، نیز اسی طرح تجارتی میدان میں بھی سعودی عرب کا رول نہایت ہی اہم ہے خواہ وہ اوپیک اتحاد کے ذریعے تیل کے دام میں استحکام لانا ہو یا سپر پاور ممالک کے ساتھ مل کر ایک اقتصادی کونسل کا قیام یا کوئی اور میدان غرضیکہ سعودی عرب نے اپنی موجودگی کا لوہا منوایا ہے۔
سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اس ملک کے پاس کثیر تعداد میں تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ چنانچہ یہی وہ وجہ ہے جس نے عالمی اقتصادی بحران کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور زندگی کی گاڑی نارمل طریقے سے سرپٹ دوڑنے میں اپنا خصوصی تعاون(مستحکم و مناسب تیل دام کے ذریعے) پیش کیا ہے ۔ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ مستحسن قدم دہشت گردی کو فروغ دینے والے ممالک کو بالکل بھی راس نہیں آتا ہے جس کے بدلے وہ آئے دن سعودی عرب اور اس کے تیل کے ذخائر کو نشانہ بناتے رہتے ہیں اور یہاں کی سرزمین پر رہائش پذیر شہریوں اور مقیمین کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے رہتے ہیں۔
اسلامی بھائیو!
مذکورہ باتیں سعودی عرب کی طرف سے عالم اسلام اور سعودی شہریوں و مقیمین کے لیے پیش کردہ خدمات کے بعض پہلو ہی ہیں وگرنہ سعودی عرب کی دین اسلام کے لیے مثالی خدمات ان چند سطور میں سمیٹنا بحر بیکراں کو کوزے میں سمیٹنے کے مترادف ہے جوناممکن ہے۔ لہذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بارگاہ خداوندی میں اس عظیم مملکت انسانیت کے لیے دعاء خیر کی جائے۔ اس ملک کے قومی دن کی مناسبت پر اس ملک کی بیش بہا خدمات عوام الناس میں اجاگر کی جائے۔ بعض شرپسند عناصر کے ذریعے لوگوں کے درمیان پھیلائی گئی شبہات و خدشات کا ازالہ کیا جائے۔ اخوان المسلمون اور روافض کی ریشہ دوانیوں سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے تاکہ بھولی بھالی قوم خصوصا نوجوان ان کے دام فریب میں نہ آسکیں اور ان کی ریشہ دوانیاں طشت از بام ہوجائیں۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ مولی کریم! اس عظیم ملک کی حفاظت فرما! اسے دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرما! یہاں کے امراء و علماء سے دین کی خدمت کا کام لے! انھیں حاسدین کے حسد اور ماکرین کے مکرو فریب سے محفوظ رکھ۔آمین!تقبل یا رب العالمین!
ماشاءاللہ
بہت ہی عمدہ شیخ
اللهم احفظ بلاد الحرمين الشريفين وسائر بلاد المسلمين
بقول ابولکلام آزاد ہر تخریب میں تعمیر پوشیدہ ہوتی ہے، چلیں کچھ بہتر کریں اور امت سے بھلائی کریں ، لیکن آپ خود وزٹ کریں تو دیکھیں گے کفار کو مینیجر بنائے ہوئے ہیں اور اچھے خاصے مادیت کے مرید ہیں ، آقا انکل سام خوش رہیں بس