حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کس نے مارا؟

شعبان بیدار تاریخ و سیرت

صحابہ نے ایمان بالرسول کو آسان کردیا:
صحابہ کی عظمتوں کے لاکھوں حوالے ہیں۔ غور کیجیے تو ایسی ایسی حقیقتیں ابھر کر آتی ہیں کہ فکر و نظر کی ندیا ں پایاب محسوس ہوتی ہیں ۔ تصور کیجیے جب رسول ﷺفقط ایک ذہین اور ایماندار شریف نوجوان کی حیثیت سے اہل مکہ کے درمیان زندگی گزاررہے ہیں اور پھر ایک دن یہ نورانی خبر دیتے ہیں کہ ’’میں اللہ کا نبی ہوں‘‘۔کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے قریب کے لوگوں کو ایک ایسامقام دینا جس کے بعد آپ خودبونے نظر آنے لگیں لیکن اصحاب کرام کی بصیرت تھی کہ پیارے رسول ﷺپر صدق دل سے ایمان لاتے ہیں۔
آج رسولﷺ کی ذات ہمارے لیے ایک تاریخی حقیقت بن چکی ہے، صحابہ کے ذریعہ ایک مقدس ذات کا نقشہ بیٹھ چکا ہے، رسول گرامی کی پوری شخصیت آپ کے تمام خد وخال بصحّت تمام ایک جگہ موجود ہیں پھر رسولﷺ کو تسلیم کرنے کے لیے انسان کی ذات کے اندر موجود وہ معارضہ بھی نہیں ہے جو آدمی کو اپنے اردگرد کے لوگوں کے سلسلے میں رہتا ہے۔
تو صحابہ کی عظمتوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی بصیرتو ں ، اطاعت شعاریوں اور جاں نثاریوں کے ذریعہ بعد کے لوگو ں کے لیے ایمان بالرسول کو آسان عمل بنا دیا۔
صحابہ کی زندگیوں کا یہ پہلو بھی ہمارے سامنے ہے کہ وہ بول چال، اٹھنے بیٹھنے ، معاملہ کرنے میں اعلیٰ تہذیبی شناخت رکھتے تھے حالانکہ ان کی زندگیوں میں بڑی مفلسی تھی کبھی یہ مفلسی اختیاری تھی توکبھی یہ مفلسی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ تھی ۔ غور کیجیے کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ انسان کی غربت تہذیب و تمدن کی دل آویز ی چھین لیتی ہے ،ایک شریف ترین آدمی جو بہت غریب ہو اس کی اور اس کے بچوں کی زبان، کھانے پینے کاماحول آپ پر سب کچھ عیاں کردے گا لیکن صحابہ کا معاملہ یہ تھا کہ انھوں نے شدید غربت کے عالم میں بھی تمام آداب اور تہذیب کا حسن قائم رکھا ورنہ تو غریبی کے بارے میں کسی شاعر نے یوں کہا ہے؎
مفلسی سانپ سے کچھ کم تو نہیں ہے اے دوست
حد سے بڑھ جائے تو ایمان کو ڈس لیتی ہے
توصحابہ کی عظمتوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غربتوں نے ان کے ایمان میں اضافہ ہی کیا تھا۔
عدالت صحابہ پر دراز ہوتے خونیں سائے:
اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے شیعوں نے صحابہ کرام کی عدالت پر سوال اٹھایا اور صرف سوال نہیں اٹھایا خلیفۂ رسول کو مظلومانہ شہید بھی کردیا۔ پھر تو انھیں صحابہ کے خون کا چسکا لگ گیا ایسی سازش رچی اور ایسا جال بُنا کہ عام اہل سنت کے ساتھ اصحاب کرام کا خون بہانا بھی آسان ہوگیا ۔اسی مزاج نے خارجیت کا رخ اپنا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سرتن سے جدا کردیا ،اور اسی مزاج بلکہ اسی جماعت نے خانوادۂ رسول کو محبتِ آل رسول کے نام پر تاراج کرکے رکھ دیا اور کل سے آج تک ان کا یہ مشغلہ ہمیشہ اپنے شباب پر رہا ۔ انھیں جب محسوس ہوا کہ آل رسول کے خون کا الزام یزید پر کم اور کوفہ کے شیعوں پر زیادہ آرہا ہے تو نوحہ و ماتم کی رسم ایجاد کرلی اور خون کے ان شوقینوں نے اپنابدن بھی لہو لہان کرلیا۔ آخر بیمار کربلا کی آہوں اور شہید کربلا کے آنسوؤں کی کچھ نہ کچھ سزا تو انھیں ملنی ہی چاہیے تھی بس یہ ہے کہ یہ سزا اپنے اوپر خود ہی نافذ کر رہے ہیں محبت کے نام پر۔
شیعوں کے تبرائی مشغلے کو راستہ چاہیے تھا سو یہ راستہ یزیدکی صورت میں انھیں دستیاب تھا پھر تاریخ میں بھی خوب خوب رنگ آمیز ی کر ڈالی۔ ادھر بعد کی صدیوں میں جمہوریت کے چرچے نے مرعوب ذہنوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ جمہوریت کو اسلام اور ملوکیت کو کافرانہ نظام حکومت باور کرائیں۔ اس فلسفے نے بھی صحابہ کی عظمتوں کو داغدار کرنے کا خوب خوب موقع عنایت کیا پھر شیعوں سے دو ستانہ تعلقات نے اور بعض دفعہ خاندانی نسبتوں نے عدالت صحابہ کو مجروح کرنے کے چور دروازے کھو ل دیے۔
معصوم عن الخطاء نہ ہونے کی دہائی دے کر بڑے معصومانہ انداز میں عرب و عجم کے متعدد حضرات نے صحابہ کو اپنی بنائی ہوئی عدالتی چوکیوں پر لاکھڑا کیا۔ اور غلطی کے امکان پر فرضی غلطیاں منسوب کرکے ان پاک نفسوں سے سخت باز پرس فرمائی پھر عدالت صحابہ کا نرالا قاعدہ بھی پیش فرمادیا : عدالت صحابہ کا مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺسے روایت کرنے میں یا آپ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابی نے راستی سے تجاوز نہیں کیا۔
اہل نظر غور فرمائیں عدالت صحابہ کی اس تعریف کے ابعاد کیا کیا ہیں؟عدالت کا یہ وہ معیار ہے جو محدثین نے عام لوگوں کے بارے میں ہیچ جانا ہے بلکہ سرے سے یہ عدالت کی بحث ہی نہیں ہے۔ پہلے عدالت کی عمارت بنتی ہے اس کے نواقض کا فہم بنتا ہے پھر کہیں روایت حدیث کا مرحلہ آتا ہے۔
دراصل اسی ذہن کا کرشمہ تھا کہ عرب دنیا کا ایک فاسق اہل علم کہا کر تا تھا ’’الصحابۃ کلھم عدول لایش‘‘ صحابہ سب کے سب عادل ہیں آخر کیوں؟ ہندوستان کے ہمارے مفکرین نے کھل کر تو نہیں لیکن دبے انداز میں کم تربیت یافتہ ، زیادہ تربیت یافتہ ،طلقاء اور غیر طلقاء کے بہانے اسی نقطۂ نظر کو پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یہ پیش کیا گیاکہ ’’لوگ بزرگی اور غلطی کو اجتماع ضدین جانتے ہیں جب کہ ہمارے نزدیک غلطی ہونے کے بعد بھی بزرگ بزرگ رہ سکتا ہے ‘‘اول تو لوگوں کی طرف اس امر کی نسبت ہی غلط ہے کیونکہ کوئی بھی مسلمان صحابہ کرام کے بارے میں غلطیوں کے امکان اور وقوع کا منکر نہیں ہے۔ مستند روایتوں سے جن لوگوں کی غلطیاں ثابت ہوئی ہیں مسلمان ادب سے ان غلطیوں کو بھی بیان کرتے ہیں البتہ حضرات صحابہ کے سلسلے میں انتہائی حساس ہیں۔ یہ لطیفہ ہی ہے کہ آپ کسی کے بارے میں کہیں اس نے بدعت کا ارتکاب کیا ، مال غنیمت کو اپنی ذات کے لیے استعمال کیا، اپنے رشتے داروں کو یونہی عہدہ و مناصب دیے، شریعت کے قوانین میں تبدیلی کی ، زنا کے رشتوں کو حلال کیا ، منبر پر کھڑے ہوکر صحابی کو گالیاں دیں، اپنے گورنروں کے لیے گالیاں دینے کی چھوٹ دی ، ذاتی مفاد کے لیے بیٹے کو ولی عہد بنایا اس کے بعد میاں معصوم بن کر پار سا لب و لہجے میں یوں فرمائیں:پھر بھی میں انھیں بزرگ مانتا ہوں رضی اللہ عنہ !! پھر جنھوں نے بقول آپ کے ایسے ایسے مکروہ اعمال انجام دیے ہوں اور گناہ کو پالیسی بنایا ہواس کے بارے میں یقین فرمائیں کہ قرآن و حدیث محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچایا بھی۔محض فریب نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
متفق علیہ عقائد پر مختلف فیہ نظر یہ کی بالادستی:
بر صغیر ہندو پاک اور مصر کی بعض دینی تحریکوں کی دعوت اتحاد امت پر مشتمل تھی لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں اتحاد امت کے بجائے محض سیاسی نظریہ لے کر اٹھی تھیں پھر یہ اتحاد بھی شیعوں کو منانے اور ایران کی طرف شدِّرحال کا عملی ترجمان بن گیا۔ یہ حضرات جمہوریت کی تعریف میں ایسے رطب اللسان رہتے ہیں مانوامریکہ ، برطانیہ اور ہندوستان و پاکستان کی جمہوریتیں عہد صدیق و فاروق کی خلافت کا آئینہ ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر حرم کی حکومت کسی کافر کو مل جائے بس طور طریق موجودہ شفاف جمہوریت کا ہو تو انھیں قبول ہے۔
ایک قوم قرآن کو محرف مانتی ہے، صحابہ کو صاف طور سے گالیاں دیتی ہے ، ائمہ و محدثین کو کافر اور ناصبی قرار دیتی ہے لیکن اس کے طرز حکومت میں امریکہ اور برطانیہ سے ناز ل شدہ جمہوریت آگئی سو وہ اس لائق ہے کہ حرم پاک کے نگہبانوں پر ترجیحی مقام پائے ۔ جس قوم نے ملوکیت کے سبب صحابہ کو معاف نہ کیا ہو تو سعودی عرب یوپی کے کسی دیہات میں رائی کا تیل بیچنے نکل جائے۔
سر مگیں آنکھوں والے بھائیوں سے بھی:
اتحاد کا یہی فارمولا ہمارے ان بھائیوں کے پاس بھی ہے جن کے نزدیک دین قبروں کو پختہ بنانے اور نہ بنانے پر منحصر ہے۔ اگر آپ قبروں کو پختہ رکھنے کے منکر ہیں تو گویا مقدسات کے بھی منکر ہیں ،پھر مقدسات کے نام پر عالم گیر ہلّا!! یہاں بھی صورت حال یکساں ہے، ایک طرف اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو۔۔۔۔۔کہنے والے ہیں ، صدیق و فاروق پر خصوصی لعنت بھیجنے والے ہیں جن کا عقیدہ ہے چند کو چھوڑ کر سب کافر ہیں ، صدیق و فاروق نعوذباللہ دو بت ہیں، اللہ بھول سکتا ہے ، جبریل وحی بھول کر رسول پر لے آئے لانا علی پر تھا، قرآن محرف ہے وغیرہ۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کوئی بھی بڑے سے بڑا ہو اس کی قبر پختہ نہیں ہو سکتی اور نہ تو صحابہ نے اپنی قبروں کو پختہ بنایا اس لیے ہم پختہ قبروں کو توڑ کران کی اصل حالت پر برقرار رکھنا مناسب جانتے ہیں بس:گستاخ گستاخ !! ایک کہرام مچ جاتا ہے او رہنگامہ شروع ہوجاتا ہے۔ تو کیا اب مان لیا جائے کہ ہمار ا دین قبروں کو پختہ بنانے اور نہ بنانے پھر ان کو مرکز تجارت بنانے میں سمٹ آیا ہے۔شاید اسی لیے ابو لو لوکا مزار بنانے والے صرف اس وجہ سے محبت کے مستحق ہیں کہ انھو ں نے مزار بنایا ہے۔مزار کس کا ہے یہ بعد کی بات ہے۔
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو:
دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کیا ہے؟ نہیں معلوم لیکن یہ معلوم ہے کہ دنیا کا سب سے کامیاب جھوٹ کیا ہے ؟ وہ جھوٹ یہی ہے کہ شیعوں نے حضرت عثمان غنی کو شہید کرنے کے بعد اہل بیت اطہار کے قتل کا ارتکاب کیا اور اب تک موقع بموقع مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام جاری ہے لیکن یہ ہر دفعہ آنسو بہا کر دانت میں لگا خون دھونے میں کامیاب رہے۔
تاریخ کے اس عظیم سچ کا کون انکار کرسکتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جنگ نہیں کی تھی مظلومانہ شہید ہوئے۔ حضرت حسین کی تین شرطوں سے بھلا کون ناواقف ہے ہاں مگر جب نگہبانوں میں شامل کوفیوں نے حضرت امام پر حملہ کردیا اور ایک ہی فوج کے لوگ آپس میں گتھم گتھا ہوگئے تو حضرت حسین کا قافلہ لٹ گیا اور اپنے اور گھروالوں کے دفاع میں آپ شہید ہوگئے۔ اگر آپ واقعی حق و باطل کی جنگ کرنے گئے تھے تو تین شرطیں رکھنے کا معنی کیا تھا ؟ پھر اس کردار کو افسانوں میں لپیٹ کر مشہور کیا گیا اور اپنی شقاوت قلبی کو نوحہ و ماتم کے آنسوؤں کے ذریعہ ملائمت کا پیکر ثابت کیا گیا۔
ایک کردار حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا تھا تاریخ کا ایسا کردار جس کی برکتوں کا شمار نہیں ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کردار اول بہت کم مشہور ہوا دوم جو لوگ اس کردار کو بھلی بھانت جانتے ہیں ان میں بہت کم لوگ اس کی اہمیت اور برکتوں کے ابعاد کا ادراک رکھتے ہیں ۔ حضرت حسن کا کردار جو مشہور کم ہوا اس کا ایک سبب تو یہی ہے کہ روافض کی فساد انگیزی کے لیے بہانہ زیادہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعے میں تھا ،جو تھا تو اتفاقی مگر انھوں نے اسے منصوبہ بند حیثیت سے پیش کیا کہ آپ جنگ کرنے نکلے تھے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اپنے سچے جھوٹے انقلابات اور سیاسی عزائم کے لیے لوگوں کو حضرت حسن کا کردار راس نہیں آرہا تھا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی اسلامی جمہوریہ کے نام سے غیر اسلامی خطوط پر انقلاب کا دعویدار ہے اور وہ کردار حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا پیش کرے گو کہ اس کے لیے حسینی کردار میں بھی فی الاصل کوئی دلیل نہیں ہے لیکن استدلال کا معاملہ یہاں نسبتاً بہت کچھ آسان تھا۔
نواسۂ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی تھے لیکن ان کی شہادت کا کوئی چرچا نہیں ہوا ،کم ازکم شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے ضمن میں شہادت حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا تاکہ پتہ چلے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سبب کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امت کے اتحاد کا قیام اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تسلیم کر لینا وہ جرم تھا جس کے سبب آپ کی شہادت عمل میں آئی۔ اگر اس تسلسل کوقائم رکھیے تو آگے کے حادثات سے بھی پردہ اٹھتا چلا جائے گا۔
ہمارا ایک ہی سوال ہے کہ کیا حضرت حسن نواسۂ رسول نہیں تھے ؟ حالانکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے عمر میں بھی بڑے ہیں اور کردار میں بھی کہ ان کے کردار کی صحیح روایت میں تعریف اور پیشین گوئی موجود ہے ۔
ہمارا عقیدہ جو بھی ہو لیکن جنھیں یہ بات تسلیم ہے کہ اولیاء اللہ بلائیں دور کرتے ہیں وہ صرف ’’یا حسین‘‘کے ذریعہ ہی کیوں بلائیں ٹا لتے ہیں یا حسن کے ذریعہ بھی تو ٹالا کریں۔
سنی بھائیوں سے بھی سوال ہے کہ علی رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ راشد ہیں پچھلے تینوں لوگ ان سے بہر طور افضل ہیں لیکن بلاؤں کے لیے علی رضی اللہ عنہ ہی کیوں ؟ علی مولا ! علی مولا!
رسول کی بیٹیا ں اور بھی ہیں صرف فاطمہ ہی تعویذ میں کیوں لکھی جاتی ہیں۔سبب مومنو! سبب؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
ہمارے ایمان کا حصہ تو سبھی لوگ ہیں ہم بھلا کیسے گالیاں دیتے ، ہمارے لیے تو احترام میں کمی بھی ایمان کے منافی معاملہ قرارپاتا ہے، ہمار ی محبتوں اور مظلوم محبتوں کو کوئی کیا سمجھے؟ وہ محبتیں کہ جن پر اعتدال اور عدمِ غلو کے سبب گستاخ رسول ﷺ سے لے کر گستاخ اہل بیت کی کالی مہر لگا دی گئی ہے، وہ محبتیں کہ سبائی حرکتوں کے چلتے جب کبھی اصحاب رسول ﷺ کے درمیان موازنہ کرنا پڑ جاتا ہے تو دل پر آرے چلتے ہیں۔ اگر شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ وہی کچھ ہے جو تم بیان کرتے ہو ’’ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی ‘‘تو پھر یاد رکھو تاریخ اور حدیث کی متواتر گواہی ہے کہ شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نتیجے میں ستر ہزار لوگوں کی جانیں گئی تھیں ،زمین و آسمان میں وہ لرزہ طاری ہوا کہ امت منتشر ہوگئی ،کیا کہو گے تم اس خون کے بارے میں جس کے چھینٹے قرآن اقدس پر پڑے ، بی بی نائلہ کی وہ کٹی ہوئی انگلیاں کیا رنج و الم کی جانکاہ تصویریں نہیں ، بھلا اس دکھے دل کی داستان کبھی تم نے سنی ؟ جس کی آنکھوں کے سامنے شوہر کے بدن پر تلوار وں کے پے در پے وار ہورہے تھے کیاان آنکھوں میں ہزاروں سمندر جل کر راکھ نہ ہوئے ہوں گے؟ تم نے اس واقعے میں پیاس کے افسانے بنائے ہیں جہاں دن بھر کا معاملہ بھی نہیں اور زمین ایسی جہاں تھوڑا سا گہرا کھڈا کھودو پانی نکل آئے ۔ یہاں عثمان رضی اللہ عنہ چالیس دن تک آب و دانہ کی مشقتوں میں گرفتار ہیں، کیا یہ پیاس اس لائق نہ تھی کہ تمھارے شاعروں نے اپنی فکر کےدجلہ و فرات میں کوئی پتھر پھینکا ہوتا۔
لائق ضرور تھے لیکن اصل بات یہ ہے کہ عثما ن رضی اللہ عنہ کی چالیس دن کے پیا س کے مجرم بھی تمھی ہو اور خانوادۂ رسول ﷺکے ایک روزہ پیاس کے مجرم بھی تم ہو ۔ ہاں دوسری پیاس کے افسانوں میں تمھارا جرم چھپ جاتا ہے ۔
اف سنی بھائیوں کو بھی دیکھو!
بھائیو! تمھیں کس نے بہکا دیا اگر یزید اس لیے مجرم ہے اور واقعی ہے کہ اس کی حکومت میں یہ واقعہ پیش آیا تو پھر کو فہ کے سبائیوں کو تم نے کیوں چھوڑدیا؟ تاریخ کی ہر زندہ شہادت یہی بتاتی ہے کہ قاتل وہی لوگ تھے جنھیں شیعان علی رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے لیکن مجوسی سیاست اتنی چالاک ٹھہری جس کا تصور ممکن نہیں ۔بھلا حضرت ابو لولوکامزار بنانے والوں کو تم کیوں نہ سمجھے؟
دسویں محرم:
حسین تو پیاسے تھے مگر یہاں شربتوں کا مزہ لیا جاتا ہے اور پاکستان میں حلیم کا ذائقہ بھی۔ دس محرم کی اہمیت و فضیلت کا جو بھی معاملہ ہے وہ شرعی اور قانونی ہے۔ پیارے رسول ﷺ نے اس دن امت کو روزہ کا حکم فرمایا تھا اور امت کل سے اب تک روزہ رکھ رہی ہے ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک طویل عرصے بعد پیش آئی اور اتفاق سے محرم کی دسویں تاریخ کو پیش آئی جیسا کہ مشہور ہے۔ ورنہ یہ تاریخ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے مسئلے میں متفق علیہ نہیں ہے۔ہمارے نزدیک محرم کی جو کچھ اہمیت ہے اس کا تعلق صرف نویں اور دسویں کے روزے اور اسلامی سال کی ابتدا سے ہے بقیہ اسلامی واقعات و حادثات جو اس تاریخ میں پیش آئے ان کی مناسبت سے محرم میں رسوم ورواج کی ایجاد اور عمل سراسر غیر شرعی ہے ورنہ تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی دل دوز شہادت کا واقعہ بھی آخری ذی الحجہ یا یکم محرم کو پیش آیا۔
سگ زمانہ ہیں ہم اور ہماری ہجرت کیا:
ہجرت کے مزاج میں ایک اعلیٰ درجے کا مثبت اور انقلابی رد عمل ہوتا ہے۔ اگر ہجرت محض ترک مکان کی ہجرت ہوتب بھی یہ عمل کا بہت بڑا محرک ہے ۔ ہم گناہ گار لوگ تلاش رزق میں یہاں وہاں منتقل ہوتے رہتے ہیں ، یہ عام سا انتقال بھی ’’مہجری ادب‘‘کے وجود کا باعث بن جاتا ہے۔ گاؤں کے کھیت کھلیان اور دھول دھپّا بھی غزل کی خلعتوں سے سرفراز ہو جاتے ہیں ۔ انتقال کا یہ کرب ایسا شدید ہوجاتا ہے کہ ہمار اشاعر اسے خانہ بدوشی کا نام دیتا ہے؎
میری خانہ بدوشی سے پوچھے کوئی
کتنا مشکل ہے رستے کو گھر بولنا
پھر صحابہ کی ہجرتوں کے پیچھے تو ظلم و جبر کی ایک طویل داستان بھی تھی۔ وہ وطن سے نکلنا نہیں چاہتے تھے لیکن کافروں نے حالات ایسے پیدا کردیے تھے کہ ہمیشہ کے لیے بدن سرائے کو اپنے کاندھے پر لاد کر رخصت ہونا تھا۔ آج ہمارے وطن عزیز کے حالات بھی ہجرت کی یاد دلاتے ہیں لیکن ان شاء اللہ یہاں جو ہجرت ہوگی ہندوستان سے ہندوستان ہی کی طرف رہے گی۔ پھر بھی دل کا کرب کب چھپتا ہے؎
وطن سے جا نہیں سکتا ہوں لیکن
مرادل ویسے گھبرانے لگا ہے
صحابہ نے جو ہجرت کی تھی وہ روزی رزق کی ہجرت نہ تھی، وہ ہجرت کائنات سے دست بردار ہونے کے ہم معنی تھی۔ یہی سبب تھا کہ انھو ں نے اپنی ساری امکانی صلاحیتیں دعوت توحید کے لیے صَرف کر ڈالیں ۔ ان کے اندر ہجرت نے عمل کے لافانی جذبات اور لاثانی قوتوں کا خزانہ بھردیا تھا۔ہجرت آج بھی بہت بڑی قوت ہے، شام کے جو مہاجرین محض اس لیے دربدر ہورہے ہیں کہ وہ سنی عقیدے کے حامل ہیں ان پر ہمارے علماء کرام دعوتی محنت کے ذریعہ ایک عظیم الشان امت کھڑی کر سکتے ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ انھیں ملازمت کے مواقع دیے جائیں، اپنا گھر اور اپنی زمین ان کے لیے کشادہ کر دی جائے لیکن رد عمل اور مظلومی کی جو ذہنی قوت ان کے اندر ہے وہ قوت بڑے کام کی چیز ہے ۔ شیعوں کے پاس نہ قرآن ہے، نہ کوئی نبی ہے ،نہ صاف ستھرا معبود ہے، اگر کچھ ہے تو مظلومی کا ایک جھوٹا فسانہ جو انھوں نے نواسۂ رسولﷺ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی الم ناک شہادت کے واقعے سے مستعار لیا ہوا ہے۔ مظلومی کے اس جھوٹے فسانے نے انھیں الحاد کے باوجود اکٹھا کر رکھا ہے وہ شراب بھی پئیں دجلہ وفرات کی موجوں پر مرثیہ ضرور کہیں گے۔
ہجرت کا واقعہ ہمارے اسلامی سال کی ابتدا کا سرنامہ ہے ،اس سے وہ ہزاروں کربلائیں وابستہ ہیں جن کو پڑھ کر اور سن کر طبیعت درد والم سے ابل پڑتی ہے۔ پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مہینہ صحابہ کی عظمتوں کا مہینہ بنتا اور ان کے تقدس کو سلام پیش کیا جاتا لیکن افسوس شیعوں اور شیعہ نواز وں کے نزدیک یہی مقدس ہستیاں بدترین شمار ہوتی ہیں اور یہ مہینہ تبرّا کا مہینہ بن گیا۔ ہجرت کا باب تو بالکل ہی گم ہو چکا ہے۔

آپ کے تبصرے

3000