شام ڈھل رہی ہے

خمار دہلوی شعروسخن

نہ تو نبض تھم رہی ہے نہ یہ جاں نکل رہی ہے

تری دید کی تمنّا مرے دل میں پل رہی ہے


ابھی مہرباں ہیں سانسیں مری آبجوئے جاں پر

ابھی زندگی کی کشتی کسی طور چل رہی ہے


یہی طرزِ حسنِ فطرت ہےمقیم اس جہاں میں

کہیں دن نکل رہا ہے کہیں شام ڈھل رہی ہے


کہیں منتشر پڑے ہیں سبھی وحدتوں کے غنچے

کہیں نفرتوں کی کھیتی بڑی پھول پھل رہی ہے


مری لغزشوں کو ہر دم نہ ہدف بنائے دنیا

انھیں ٹھوکروں سے آخرمری خُو سنبھل رہی ہے


کوئی سائباں نہیں ہے یہاں پر حدِ نظر تک

’’یہ ہے ریت کا سمندر یہاں چھاؤں جل رہی ہے‘‘


یہاں جھوٹ کی تجارت جو چلا رہے ہیں ان کو

تری فطرتِ صداقت اے خمارؔ کھل رہی ہے

آپ کے تبصرے

3000