بابری مسجد کی ماب لنچنگ ہوئی تھی

ابوالمیزان منظرنما

وہ بابری مسجد جس کے انہدام کی منصوبہ بندی دس مہینے پہلے ہی آر ایس ایس، بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے سینئر نیتاؤں نے کرلی تھی اور جس کی خبر کانگریسی نیتاؤں بشمول وزیر اعظم پی وی نرسمھا راؤ اوروزیر داخلہ ایس بی چوان کو بھی تھی مگر انھوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا، ایکشن لینا ہی نہیں تھا۔
یہ باتیں انٹلیجنس بیورو کے سابق جوائنٹ ڈائریکٹرMaloy Krishna Dhar نے اپنی کتاب اوپن سیکریٹس (Open Secrets) میں لکھی ہیں۔
ان ساری باتوں کو آئینی طور پر جھوٹ ثابت کرنے میں ۲۸سال لگ گئے۔ ۲۸ سال میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوکر دو بچوں کا باپ ہوجاتا ہے۔ بھیڑ میں کسی کنارے کھڑا جشن کا حصہ بننے کی کوشش کرتا ہوا ایک شخص نہ صرف یہ کہ وزیر اعظم بن جاتا ہے بلکہ جشن کا سہرا پہنے ہوئے شخص کو اسی جرم میں بلیک میل کرکے تماشائیوں کی پچھلی صف میں بٹھادیتا ہے۔ بابری مسجد گرائی جاچکی ہے، پولیس گرفتار کرنے دروازے تک پہنچ گئی ہے اور فتح کا نشہ اتنا گہرا ہے کہ منظر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے گرفتاری کا ذرا احساس نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس کرمی لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے والے کم باڈی گارڈ زیادہ لگ رہے ہیں۔
اسپیشل سی بی آئی جج ایس کے یادو نے آج لکھنؤ میں بابری مسجد انہدام سے متعلق جو فیصلہ سنایا ہے اس کے مطابق (۱)بابری مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں تھا(۲)ملزمین کے خلاف ثبوت ناکافی نکلے(۳)سی بی آئی نے جو آڈیو اور ویڈیو مہیا کیے تھے ان کی تصدیق نہیں ہوسکی(۴)سماج مخالف عناصر نے مسجد کو گرانے کی کوشش کی اور الزام ان لیڈروں پر لگادیا تھا جنھوں نے انھیں روکنے کی جدوجہد کی (۵)اس وقت جو بھاشن دیے گئے تھے ان کا آڈیو صاف نہیں ہے۔
جج ایس کے یادو صاحب کو ۲۰۱۹ میں ہی ریٹائر ہونا تھا مگر بابری مسجد انہدام کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے انھیں ایکسٹینشن دے دیا گیا تھا۔ سی بی آئی کی طرف سے پیش کیے گئے ۳۵۱ چشم دید گواہ اور ۶۰۰ دستاویزات بالآخر کسی کام نہیں آئے۔
حاکم کا نام وزیراعظم ہو یا صدر، آمر ہویا بادشاہ جیسا اس کا مزاج ہوگااسی کا مظہر سارا سماج ہوگا۔ عدل سے کام لے گا تو عوام میں بے چینی نہیں ہوگی، ظلم روا رکھے گاتو حکومت، عدلیہ،مقننہ، بیوروکریسی، میڈیا ہر جگہ ستم کا دور دورہ ہوگا۔ ایک مالدار شخص کی دلجوئی میں انسان ہر حد سے گزر جاتا ہے، کسی عام آدمی کی ایک چائے پینے کے لیے چاپلوسی پر اتر آتا ہے تو اولوالامر کی خوشنودی میں اگر پورا سسٹم لگا ہوا ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔
جن سماج مخالف عناصر نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا ان کی باقاعدہ تربیت کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اس زمانے کے بلیک اینڈوائٹ کیمروں نے تصویریں اتار لی تھیں۔ماب لنچنگ کے حادثات کو ہم اب تک اتفاقیہ واردات سمجھتے رہے،اس فیصلے سے ایسا معلوم ہوتا ہے یہ منظم آئیڈیالوجی کی حیثیت رکھتی ہے۔۳۲ ملزمین باعزت بری کردیے گئے اور سارا الزام تھوپ دیا گیا ’’سماج مخالف عناصر‘‘پر، جیسے گذشتہ کچھ سالوں سے ماب لنچنگ کیسز میں ہورہا ہے۔
عدلیہ سے انصاف کی امید رکھنے کے باوجود جب کبھی ایسے فیصلے آتے ہیں جو حقائق کے خلاف معلوم ہوتے ہیں، شواہد کو نظر انداز کرنے والے لگتے ہیں تو بھی اس دنیا میں وہ بندہ جو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، اللہ کے انصاف پر یقین رکھتا ہے اور تقدیر کی برائی بھلائی کو مانتا ہے وہ محض اپنےساتھ ہونے والے ظلم پر نہیں کڑھتا، اپنا محاسبہ بھی کرتا ہے۔ اپنے ایمان وعمل پر نظر ثانی بھی کرتا ہے۔ ایسا نہ کرے تو وہ ساری عمر ناامیدی اور ناکامی میں گزار دے گا۔ عروج کا دور بھی امتحان سے خالی نہیں ہوتا، زوال میں تو الگ طرح کی آزمائش ہوتی ہے۔ طاقت کا درست استعمال ٹاسک ہے اور کمزوری میں صبر اور بزدلی کے درمیان فرق اور پھر اس کے مطابق عمل کا ادراک چیلنج ہے۔
ظلم کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، آزادی کے فورا بعد جو حاکم تھا وہ آج محکوم ہے، جو مجرم تھا وہ آج شاہ ہے، جو امیر تھا وہ غریب ہے اور جو غریب تھا آج اس کی کوٹھیاں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں۔ ساٹھ ستر سال میں ایک انسان کمزوری کے دونوں نشان (بچپن اور بڑھاپا) چھولیتا ہے۔ شونیہ سے شونیہ تک کے سفر میں کتنے اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ ظلم کی ہزاروں داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنا کام نہیں چھوڑنا چاہیے، اپنے حصے کی اچھائی ، اپنے فریضے کی ادائی،اپنے ذمے کی گواہی، اپنے نصیبے کی بھلائی کچھ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کے خالص بندے بن کر جئیں، اللہ کے بندوں کی خیرخواہی میں جئیں، ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں جئیں، اللہ کی جس زمین میں بیماری اگتی ہےاسی میں اللہ نے ادویات شفا اگانے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ ہمارا کام اس کی دریافت ہے۔دوا کی طرح ہم بھی مفید بنیں، اپنے ماحول کے لیے بیماری نہیں۔ ہم سے علاج ہوگا تو ہمیں سونت کر رکھا جائے گا، اپنی آب وہوا کے لیے مضر ہوجائیں گے تو کیٹ ناشک دواؤں کا چھڑکاؤ کیا جائے گا۔ ظلم کی اپنی ٹائم لائن ہوتی ہے، مظلوم کی اپنی۔ ہر کہانی کا ایک آغاز ہوتا ہے تو ایک انجام بھی۔ ۶دسمبر کو جو ہیرو تھا وہ آج زیرو ہے، آج جو ہیرو ہے وہ کل کیا ہوگا کسے خبر؟ جسے دل کے بھیدوں کی خبر ہے اس کی چلتی ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ مظلوم کی حالت اس کے کسی جرم کی سزا بھی ہوسکتی ہے، مجبور کی حیثیت کسی بڑے انعام کی آزمائش بھی ہوسکتی ہے اور منصور کا ابومسلم ساری پریشانیوں پر باندھ بھی ہوسکتا ہے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
منیراحمد

گھر کے ذمدار ہونے کی وجہ سے جو فیصلہ ہوگا وہ پورے گھر والوں کو ماننا پڑے گا کوئ کچھ کر نہیں سکتا ہے کیونکہ میں باپ ہوں بس اور کچھ نہیں میری سمجھ سے ،

Abdul Rehman Abdul Ahad

عمدہ مضمون ماضی سے حال تک کا سفر ۔۔پر مستقبل کا کائحہ عمل کی کمی کھٹکتی ہے