ادب اور مذہب

طارق اسعد

کہا جاتا ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے جس میں انسان اپنے گردو پیش کے تمام احوال کا مشاہدہ کرتا ہے اور ا س کے ذریعے سماجی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے ادب کا زندگی سے اٹوٹ رشتہ ہے ، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی زبان کا ادب اپنے اندر بہت سارے موضوعات کو سموئے ہوئے ہے۔ اس کو کسی ایک دائرے میں محدود کرنا یاایک تنگ نظریے میں مقید کرنا ادب کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ زیر نظر مقالے میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ادب کا مذہب سے کیا رشتہ ہے اور آیا ادب کے موضوعات میں مذہب داخل ہوتا ہے یا نہیں؟

ادب اور مذہب کے موضوع پر گفتگو سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی تعریف کر دی جائے تا کہ اس کے خد وخال واضح ہوجائیں اور اس کی روشنی میں ادب اور مذہب کے باہمی ربط کودیکھا جائے۔
ایک مغربی ادیب نارمن جوک کے مطابق :”ادب مراد ہے ان تمام سرمایہ خیالات واحساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہو کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہو۔”(وکی پیڈیا: زمرہ ’’ادب‘‘)

سید عابد علی ادب کی تعریف میں رقمطراز ہیں:”وہ تمام تحریریں ادب کے دائرے میں داخل سمجھی جائیں گی جن کے مطالب کو ذوق سلیم معیاری تصور کرے گا اور جن کا اسلوب نگارش صناعانہ اور فن کارانہ ہوگا کہ حسن صنعت یا فن کی صنعت لازم ہے۔”(اصول انتقاد ادبیات،ص:۲۹)

ڈاکٹر وزیر آغا ادب او ر ادیب کا دائرہ عمل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں: “ادب بنیادی طور پر ایک اخلاقی فعل ہے اور ادیب اخلاقیات کا بہت بڑا نمائندہ۔”(تعمیری ادبی تحریک از پروفیسر احمد سجاد، ص:۹۴)

ادب کی ان تمام تر تعریفات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ادب ایک محدود اور مقید فن نہیں کہ جس میں ایک مخصوص ہیئت اور ایک خاص طرز کی تحریریں ہی داخل ہوسکتی ہیں، اور ان موضوعات سے خارج تحریریں ادب کے دائرے سے خارج تصور کی جائیں گی ۔ بلکہ ادب کی تعریف میں فن کاری ، ندرت خیال ، حسن صنعت اور تاثیر کو مرکزی نقطہ نظر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس مرکزی خیال کی رو سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی مذہبی تحریرات جو اذہان وقلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ایک خاص قسم کا وجدان بیدار کرتی ہیں ، کوئی وجہ نہیں کہ انھیں ادب کے زمرے میں نہ داخل کیا جائے!

سید عابد حسین لکھتے ہیں:”وہی عقائد پائدار ثابت ہوتے ہیں جنھوں نے کائنات کی توجیہ میں کسی نہ کسی مافوق ہستی کا سہارا لیا ہے ، غرض ادب کا مقصد یہی ہے کہ اس میں صحیح اور صالح اخلاقی اقدار پیدا کیے جائیں اور وہ اخلاقی اقدار دراصل مذہبی ہوں گی۔” (تعمیری ادبی تحریک،ص:۱۱۴)

پروفیسر اسلوب احمد انصاری فرماتے ہیں:”یہ فرض کر لینا کہ مذہبی جذبے کی شاعری اعلی اور کھری نہیں ہوسکتی محل نظر ہے اور عصبیت کی چغلی کھاتا ہے ۔ اصل معاملہ احساس کی شدت اور اس کے مکمل شعری اظہار کا ہے ۔ بالفاظ دیگر جس موضوع پر شعری کا رنامہ وجود میں لایا جارہا ہے ، اگر وہ پوری طرح شعور کی گہرائیوں میں جذب ہوچکا ہے اور اس نے شعری حس کی ایک خاص حد تک تحریک کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسی شاعری ہمیں اپیل نہ کرسکے۔” (نقد ونظر ،علی گڑھ ، شمارہ :۲ ،ص:۳۳۶)

آل احمد سرور لکھتے ہیں:” یہ کہنا کہ مذہبی نظریہ ادب میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا،غلط ہوگا ،علاوہ اس کے کہ ماضی میں اس کے اثرات سارے ادب پر ملتے ہیں ۔ حال میں بھی یورپ میں رومن کیتھولک عقائد کا پرچار اہمیت اختیار کر گیا ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں کروڑوں آدمی گہرے مذہبی اثرات کی وجہ سے اس کے ذریعے سے نشہ اور نجات تلاش کرتے ہیں ، اس لیے سوال اس کی صحت اور غلطی کا اتنا نہیں جتنا اس کے جامع یا محدود ہونے کا ۔ یہ ادب کے تقاضوں کو پورا کرنے کا سوال ہے…”( تنقیدی نظریات از سید احتشام حسین۲؍۹۱۔۹۲)

دنیا کی دیگر زبانوں کے ادب کے برخلاف اردو ادب کا یہ ایک بڑا المیہ رہا ہے کہ ادب کے دائرے سے مذہب کو خارج کرنے کی سعی مذموم کی جاتی رہی ہے، حالانکہ اردو ادب روز اول ہی سے مذہبی اور روحانی اقدار سے سرشار ہے اور مختلف ادیان کے سرچشموں سے زندگی حاصل کی ہے ۔ امیر خسرو ، پنڈت دیا شنکر نسیم ، ڈپٹی نذیر احمد، پنڈت رتن ناتھ سرشار، علامہ اقبال، پریم چند ، حفیظ میرٹھی، جگن ناتھ آزاد، سر سید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، عبدالحلیم شرر، مولوی ذکاء اللہ ، وغیرہ وغیرہ ادبا وشعرا نے اردو ادب کو مذہبی ذخیرے سے مالامال کردیا ہے اور اس تعلق سے ان حضرات کا اصل مرجع مذہب۔خواہ ہندو ہو یا اسلام۔ رہاہے۔ علاوہ ازیں مولانا آزاد، علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا مودودی اور مولانا عبدالماجد دریابادی وغیرہ دانشوران ومفکرین نے جن اسالیب کے ذریعے مذہبی فکر کا اظہار کیا ہے وہ بھی ادبیات عالیہ کے شاہکار نمونے ہیں۔

اردو ادب سے مذہب کو خارج کرنے کی تاریخ اور اس کے پس منظر پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نقطہ آغاز ترقی پسند تحریک کے وجود میں آنے کے بعد سے شروع ہوتاہے۔ تحریک کا بنیادی مقصد تھاکہ اردو ادب کو قدامت ، فرسودہ روایات سے نکال کراسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور ادب کو محض تفریح کا ذریعہ بنانے کے بجائے انسانی زندگی کا آئینہ بنایا جائے ،ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کا فلسفہ اپنا کر اسے عوامی زندگی کا ترجمان قرار دیا جائے۔ چنانچہ تحریک کو اپنے اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی تو ملی لیکن بدقسمتی سے یہ محض پروپیگنڈہ اورنعرے بازی کا شکار ہوکر رہ گئی۔ دوسری طرف قدامت پرستی اور فرسودگی پر ضرب لگانے کی آڑ میں مذہبی اقدار کو بھی بھرپور نشانہ بنا یاگیا اور حتی الامکان کو شش کی گئی کہ اردو ادب سے مذہب کو خارج کرکے الحاد ، لادینی اور مذہب بیزاری کو فروغ دیا جائے ۔ چونکہ تحریک کمیونزم سے متاثر تھی اور اس کا بنیادی مرجع روسی ادب تھا ،اور روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ
“مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے، مذہب باطل تصور ہے ، انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے ، اسی طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت سے اعتقاد پیدا کرنا ہے، اس طرح یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔”(وکی پیڈیا)اس لیے اس نے ایسے لٹریچر کی مخالفت کی جو دین ومذہب پر مبنی تھا اور صحت مند مقصد کی دعوت دیتا تھا۔
’’تعمیری ادبی تحریک ‘‘ کے مصنف پروفیسر احمد سجاد لکھتے ہیں:” ..غرض سر سید اور حالی وشبلی کے بعد سے اب تک محض ایک صدی کے اندر اندر مغرب سے مرعوبیت کے اس جدید طرز احساس نے خدا پرستی سے الحاد ، شک وتذبذب، اور بابر بہ عیش کوش کے تمام مراحل سے اردو ادب کے ایک حصے کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ اس مرعوبانہ اور مقلدانہ طرز احساس نے اردو ادب میں ذیل کی چند بڑی خرابیوں کی وبا عام کرنے میں بڑا مؤثر رول ادا کیا :
(۱)جبریت اور فرار (۲) مایوسی وقنوطیت (۳) مذموم جذبات مثلا نسل پرستی ،علاقہ پرستی ، غرور، انتقام، وحشت، دہشت اور درندگی (۴) طبقہ واری منافرت (۵) حیوانی جذبات اور بے قید اخلاق (۶) برائیوں کو خوشنما بنانا اور متقیوں کا مذاق اڑانا وغیرہ” (ص:۳۱۔۳۲)

ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”بہت سارے لوگ ادب اور مذہب کے رشتے پر اجنبیت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ ادب کا دائرہ مذہب سے وسیع تر ہے ، ادب کو دینی مقاصد کے لیے نہیں استعمال کیا جاسکتا۔ اس تعلق سے یہ حضرات مغربی ادب کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ ایک مثالی ادب ہے اور تمام مشرقی ادبا کو اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ مغربی ادب کو دینی اغراض کے لیے استعمال کیا گیا ۔اور برابر کیا جاتا رہا ہے۔ مغربی ادبا نے لوگوں کو عیسائیت کی طرف مائل کرنے اور اس کی رغبت دلانے میں ادب کا بھرپور اسہارا لیا ہے۔” ( حقیقۃ الادب ووظیفتہ، از ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری،ص:۴۳)

اور یہ حقیقت ہے کہ مغرب کا ادبی سرمایہ بھی مذہبیات سے خالی نہیں رہا ہے۔ جان ملٹن، ڈرائڈن، ٹی ایس ایلیٹ، ہومر، ورجل وغیرہ یورپین ادبا وشعرا نے اپنی تحریرات میں مذہب کا کھل کر استعمال کیا ہے ۔ فرانسیسی ادب کے متعلق ڈاکٹر یوسف حسین لکھتے ہیں:
’’عقلیت اور لا دینیت کی شہرت کے باوجود فرانس یورپ میں مسیحیت کے عقائد اور اصول کی سب سے بڑی تجربہ گاہ رہا ہے۔ نوجوان مزدوروں کی مسیحی تحریک جو ژوکست کہلاتی ہے موجودہ فرانس کی سیاست میں بڑی جاندار تحریک ہے۔ اس کی تہ میں مذہبی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی مقاصد بھی ہیں جو جماعت کی زندگی کو فروغ دینے والے اور اخلاق کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والے ہیں ۔ یہ تحریک ادب پر بھی اپنا اثر ڈال رہی ہے اور اس پر اثر انداز ہو رہا ہے۔‘‘ (فرانسیسی ادب از ڈاکٹر یوسف حسین خان،ص:۵۶۸)

مغربی ادب وتنقید کا امام ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے:’’میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ سارا کا سارا جدید ادب لا دینیت کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے اور وہ فطری زندگی کے مقابلے میں فوق الفطرت زندگی کی اہمیت وتقدیم سے ناواقف و بے خبر ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے میں بنیادی اہمیت دیتا ہوں۔‘‘ ( ایلیٹ کے مضامین از مذہب اور ادب ،ترجمہ جمیل جالبی، ص:۲۳۵)

ڈی ایچ لارنس کے مطابق ’’اب کوئی نیا اور جاندار ادب ہوگا تو وہ انسان اور خدا کے باہمی رشتے کے بارے میں ہوگا‘‘(تعمیری ادبی تحریک،ص:۳۲)

مذہب کو ادب سے خارج کرتے ہوئے علامہ اقبال کو بھرپور نشانہ بنایا گیا اور ان پر فسطائیت کاالزام بھی عائد کیا گیا۔ چنانچہ اقبال کے تئیں ایک ترقی پسند نقاد کا یہ بے لاگ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
’’ اقبال فسطائیت کا ترجمان ہے اور یہ درحقیقت زمانہ حال کی جدید سرمایہ داری کے سوا کچھ نہیں….وطنیت کا مخالف ہوتے ہوئے بھی اقبال قومیت کا اس طرح قائل ہے جس طرح مسولینی ۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی…فاشسٹوں کی طرح وہ بھی جمہور کو حقیر سمجھتا ہے۔
اقبال کا فلسفہ زندگی کہتا ہے کہ دنیا کو سائنس اور مشینی صنعت سے منہ موڑ کر قدیم مذہبی نظام کی طرف آنا چاہیے جس کی تدوین مومنوں کے ہاتھ ہوگی۔ یہ نظام قائم کرنے کے لیے شاہیں کی مثال پر عمل کرنا ہوگا۔ یعنی بوقت ضرورت جبر سے کام لینا ہوگا‘‘۔(ادب اور انقلاب اختر حسین رائے پوری۔ص:۸۰۔۸۴۔۱۱۰)

حالانکہ اقبال کی شاعری نے جس طرح سے مسلمانوں کے دلوں کو جھنجھوڑا، ان کی تہذیب گم گشتہ کی بازیافت کے لیے جس طرح تاریخ اور فلسفہ کے حوالے سے گفتگو کی اور اسلامی روایات کے استحکام کے لیے اپنے مذہبی تعلیمات ،قرآن و حدیث کے خرمن سے خوشہ چینی کی وہ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لیے خواب بیداری سے غفلت کا سبب بنی بلکہ ادب عالی کا ایک شاہکار نمونہ بھی قرار دی گئی۔ لیکن چونکہ ان کا ’’جرم ‘‘ یہ تھا کہ ان کی شاعری کا تانا بانا اسلام تھا جہاں سے وہ اپنی فکر کشید کرتے تھے اس لیے ان پر مذکورہ بالا الزامات عائد کیے گئے۔رشید احمد صدیقی علامہ اقبال کے دفاع میں فرماتے ہیں:
’’اقبال کو کمیونلسٹ (فرقہ پرست) بتایا جاتا ہے جس دیار میں فرقہ پرستی کی وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں بڑی شاعری اور بڑا شاعر کا تصور ذہنوں میں نہیں آسکتا ، اقبال بڑے شاعر تھے اور بڑاشاعر کمیونلسٹ نہیں ہو سکتا ۔ ہمارے نقاد اس نکتے سے یقیناًباخبر ہوں گے کہ بڑے شاعر کی سرحدیں کمیونلزم سے نہیں انسانیت سے ملی ہوتی ہیں۔‘‘(جدید غزل،رشید احمد صدیقی،ص:۳۶)

مذہب کو ادب سے خارج کرکے اس کس رخ پر لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ اس کی چندنثری وشعری مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

شبیر حسن خان نہیں لیتا بدلا
شبیر حسن خاں سے بھی چھوٹا ہے خدا
(جوش)

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
(فیض)

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
(ندا فاضلی)

جی خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
(عدم)

نہیں اس دریچے کے باہر تو دیکھ
خدا کا جنارہ لیے جارہے ہیں
اسی ساحر بے نشاں کا
جو مغرب کا آقا ہے مشرق کا نہیں
(ن،م، راشد)

’’واعظانہ اور خطیبانہ انداز بھی ہماری انقلابی نظموں میں کافی پایا جاتا ہے، یہ بھی پرانے طرز کی شاعری کا ایک ترکہ ہے، جس سے ہم دامن چھڑا لیں تو اچھا ہے۔ نوجوانوں سے خطاب، طالب علموں سے خطاب، سپاہی سے خطاب، مزدوروں اور کسانوں سے اب خطاب بند ہونا چاہیے۔اگر آپ کو کچھ لکھنا ہے تو آپ’’ ملاپن‘‘ چھوڑیے لوگ آپ کا بھی مذاق اڑانے لگیں گے۔‘‘(سجاد ظہیر بحوالہ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، از خلیل الرحمن اعظمی،ص: ۲۹۱،۲۹۲)

’’ظاہر ہے کہ یہ درویشی اور قلندری، شاہینی اور انفرادیت ،تجدید مذہب ، اور احیائیت اور تصوف ہمارے کام کی چیزیں نہیں کیوں کہ اس سے آج کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘‘(ترقی پسند ادب، سردار جعفری۔ص:۱۱۴)

الحاد اور مذہب بیزاری کے علاوہ فحش نگاری کو بھی خوب خوب فروغ ملا اور اردو ادب کو فحاشی اور عریاں نگاری سے بھر دیا گیا ، جنسی اور انفرادی موضوعات کو کھلم کھلا بیان کیا گیا ، ترقی پسندی کے نام پر جو گل کھلائے گئے اور جس طرح سے مذہب بیزاری کی دعوت دی گئی اس کا نتیجہ فحش نگاری کی شکل میں بھی برآمد ہوا۔ بعض ناقدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ۳۰ کی دہائی کے بعد اردو کی کمان شر پسندوں کے ہاتھ میں آگئی :
میری نظر میں ادب ہی نہیں وہ اے تابشؔ

جو میری قوم کے بچوں کو بے حیائی دے

پس حرف:اس تمام تر بحث کا ماحصل یہ ہے کہ دین ومذہب کا ادب سے بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ مذہب کو ادب بدر نہیں کیا جا سکتااور نہ ہی اسے نظر انداز کیا جاسکتاہے۔ دنیا کے تمام ادبیات عالیہ میں مذہب پر مبنی لٹریچر کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔بنابریں یہ کہ تما م الہامی کتابیں خواہ وہ کسی بھی زبان کی ہوں اس زبان کے ادب میں سب سے اعلی مقام رکھتی ہیں اور بیشتر ادبی شاہکار مذہبی واخلاقی نوعیت کے ہیں۔اردو ادب سے جس طرح سے دین ومذہب کو دربدر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ ایک طرح سے ادب کے دائرہ عمل کو تنگ کرنے کی سعی بھی ہے ۔ اگر ادب عالی سے دین ومذہب کو خارج کر دیا جائے تو ہمیں اپنے بیشتر ادبی سرمایے سے ہاتھ دھونا ہوگا :
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شئ کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

آپ کے تبصرے

3000