الرحیق المختوم اور اس کے مؤلف شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کی کچھ یادیں اور باتیں

ڈاکٹر شمس کمال انجم تاریخ و سیرت

اللہ غریق رحمت کرے استاد گرامی قدر مفتی عبد العزیز اعظمی عمری کو-وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو شہرت حاصل کرنی ہو تو کہیں مجمعے میں کھڑے ہوکرکسی بڑے آدمی کے خلاف یا کسی مسلمہ حقیقت کے خلاف ایسی بات کہہ دے جو غلط ہو- ساری دنیا اسی آدمی کے بارے میں پوچھتی پھرے گی کہ وہ کون تھا جس نے اتنی غلط بات کہہ دی اور یوں وہ شخص ہر جگہ مشہورہوجائے گا۔ یہی حال کچھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر معرکۃ الآراء کتاب’’ الرحیق المختوم‘‘ کے ساتھ ہوا۔ یہ کتاب یوں تو شہرت کے ساتھ مقبولیت کی تمام حدیں پار کرچکی ہے۔ عرب وعجم میں اس کے ریکارڈ توڑ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں لیکن جب سے حال ہی میں کسی ادارے سے آئے ہوئے فتوے میں اس مقبول عام کتاب کو ’’سطحی مقالے‘‘سے تعبیرکیا گیا ہے لوگ اس کتاب کی طرف دوبارہ بڑھ رہے ہیں ۔ جو لوگ پڑھ چکے تھے از سر نو اسے پڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جنھوں نے نہیں پڑھا تھا وہ اس کا مطالعہ کررہے ہیں۔ میں اس کتاب کے علمی وادبی اور تنقیدی جائزے سے ہٹ کر کتاب اور مولف کتاب سے متعلق اپنی کچھ یادیں یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
یادش بخیر! وہ ۱۹۸۹ء کا سال تھا۔ہم لوگ جامعہ سلفیہ میں داخلے کی غرض سے بنارس گئے تھے۔ اس وقت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی شخصیت ماہنامہ محدث کی ادارت کی وجہ سے یوں بھی اہل علم سے مخفی نہیں تھی مگر الرحیق المختوم کے بعد ان کی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی تھی۔الرحیق المختوم کا اردو ایڈیشن بھی شائع ہوکر منظر عام پر آچکا تھا۔ چنانچہ ہم لوگ جب جامعہ سلفیہ میں داخلے کے لیے گئے تو میں نے وہاں شام کے وقت دار الضیافہ کے سامنے حضرت مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کو کچھ احباب کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا۔کم عمری کا عالم تھالہذا سلام کلام کی ہمت نہیں ہوئی۔ دور سے ہی آنکھوں کو زیارت کرادی اور بس۔ اسی دن یا اس سے ایک دن بعد کی بات ہے۔ جامعہ سلفیہ کے صدر دروازے سے بالکل سامنے جو ہال ہے جسے غالبا دار الحدیث کہا جاتا ہے اور جہاں داخلہ امتحان میں باہر سے حاضرہونے والے طلبہ کو ٹھہرایا گیا تھا، وہاں ہم لوگ اپنے ایک ساتھی کے پاس تھوڑی دیرکے لیے رکے وہ بھی ہماری طرح داخلے کے لیے آئے تھے۔وہ اپنی جگہ پرچپکے سے ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔پتہ چلا کہ وہ الرحیق المختوم پڑھ رہے ہیں۔ اسی سال جامعہ سلفیہ میں غالبا وہ کتاب پہنچی تھی اورجامعہ میں فروخت ہو رہی تھی۔ وہ صاحب اسے خرید کر اس کے مطالعے میں مصروف تھے۔وہ کوئی اور نہیں عبید الرحمن محمد حنیف تھے جو بعد میں شیخ عبیدالرحمن محمد حنیف کے نام سے مشہورومعروف ہوئے۔ میرا داخلہ جامعہ سلفیہ میں نہیں ہوا مگر شیخ عبید کا ہوگیا۔ میں جامعہ اثریہ دار الحدیث آگیااور پھرتین سال بعد بنارس سے شیخ عبید اور جامعہ اثریہ سے احقر کی ایک ساتھ منظوری آئی اور ہم لوگ ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے لیے ایک ہی دن روانہ ہوئے۔اس سفر میں میرے ساتھ ان کے علاوہ شیخ نور الہدی سنابلی(سنابل سے)، شیخ نور الدین بیت ناری (فیض عام سے)، شیخ مقیم الدین سراجی (جھنڈا نگر سے) ، شیخ امام الحق صاحب (بہار)اور شیخ ذکی انور صاحب (کلکتہ) (غالبا احمدیہ سلفیہ دربھنگہ سے)ہمارے شریک سفر تھے۔
عرض یہ ہے کہ میں جامعہ اثریہ دار الحدیث آگیا۔ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں ہمیں بہت ہی خوب صورت Batch اور خوب صورت علمی اورتعلیمی ماحول میسر آیا۔ہمارے کلاس کے پندرہ سترہ ساتھیوں میں ایک سے ایک ذہین اور قابل طالب علم تھے۔ تین چار توحافظ تھے۔ ایک دو کو صحافت سے بے انتہا دلچسپی تھی ۔کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ مجھے بھی یہیں لکھنے کا شوق ہوا اور سب سے پہلا مضمون میں نے یہیں لکھا جو نواب صدیق حسن خان کی شخصیت اور خدمات پر تھا او رجسے میں نے استاد محترم مفتی عبد العزیز اعظمی کی نگرانی میں تحریر کیا تھا۔ جامعہ اثریہ میں اس وقت ہم نے ماحول یہ بنایا تھا کہ کوئی بھی طالب علم کوئی بھی لفظ غلط نہیں بولے گا۔ہر لفظ کا تلفظ اور معنی ومفہوم درست ہونا چاہیے۔کوئی بھی طالب علم ایسا کوئی جملہ نہیں استعمال کرے گا جو اپنی ترکیب سے یا معنی ومفہوم سے غلط ہو۔ چنانچہ فیروز اللغات اور مصباح اللغات اس وقت ہمیشہ ہمارے سرہانے رہتی تھیں۔ہمارے ساتھیوں کی قابلیت اور صلاحیت نے جامعہ میں بہت اچھا علمی ماحول قائم کردیا تھا۔ ہم نے بند پڑے ہوئے طلبہ کے مجلہ ’’معیار‘‘ کی دوبارہ اشاعت کی۔ مجلہ حائطیہ’’چراغ راہ ‘‘کااجراء کرایابلکہ یہ نام میں نے ہی تجویز کیا تھا جسے اس وقت کے شیخ الجامعہ مولانا محمد احمد اثری رحمہ اللہ نے منظورکرلیااور میں نے اس وقت پر ایک نظم بھی کہی تھی جس کی اس وقت مئو ناتھ بھنجن کے مشہور اردو اور فارسی شاعر جناب شوق اعظمی نے اصلاح کی تھی۔جامعہ اثریہ میں ہمی لوگ معتمد خطابت تھے۔ ہمی معتمد صحافت اور ہمی ندوۃ الطلبۃ کے ذمے دار۔ ہمارے ہی ہاتھ میں ندوۃ الطلبہ کی لائبریری کی چابی بھی تھی۔ چنانچہ ہم نے اس وقت لائبریری سے بے شمار کتابیں نکال کر پڑھیں۔ اس وقت ہم نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا ان میں’’ الرحیق المختوم‘‘سر فہرست تھی۔مجھے آج بھی وہ وقت وہ لمحے اور وہ دن یاد ہیں جب میں الرحیق المختو م کا مطالعہ کررہا تھا۔ میں نے اسے پڑھ کر سیرت پر ایک چھوٹا سا نوٹ بھی تیار کیا تھا۔ کتاب کے اس مطالعے کے بعد اس کے مؤلف سے عقیدت اور محبت ہوگئی تھی۔ چنانچہ ایک بار پتہ چلا کہ شیخ صفی الرحمن صاحب اپنے آبائی گاؤں حسین آباد آئے ہیں تو ہم کچھ طلبہ شیخ سے ملاقات کے لیے نکل پڑے اور پھرمبارک پور، املو، حسین آباد اور اس کے مضافات کے علاقے کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ احیاء العلوم اور جامعہ اشرفیہ بھی دیکھا۔انھی دنوں مئو میں الرحیق المختوم کا جعلی نسخہ بھی فروخت ہورہا تھا جسے میں نے خرید لیا تھا۔ اس کے بعد جب مجھے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ مل گیاتو میں وہاں چلا گیا۔ اس وقت شیخ صفی الرحمن مبارکپوری (علیہ رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ) یونیورسٹی کے مرکزخدمۃ السنۃ سے وابستہ ہوچکے تھے۔ چنانچہ وہاں بھی شیخ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔یونیورسٹی میں بک فیئر لگا تو میں نے ’’الرحیق المختوم‘‘ کے عربی نسخے سے استفادے کے لیے اسے خرید کر پڑھنا چاہا۔ لیکن میں جس نسخے کی تلاش کررہا تھا وہ نسخہ اس معرض میں مجھے نہیں ملا۔ میں اس نسخے کی تلاش کررہا تھا جس میں شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے اپنی سوانح لکھی ہے اور خاص طور سے جس میں اپنے نسب نامے میں اپنے انصاری ہونے کی توجیہ لکھی ہے۔ میں نے مدینہ منور ہ کاایک ایک مکتبہ چھان ڈالا۔ بالآخر ایک جگہ مجھے ’’الرحیق المختوم‘‘ کا وہ نسخہ مل گیا جس میں شیخ کی سوانح مذکورہے اور وہ نسخہ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ شیخ نے اس میں اپنے انصاری ہونے کی دو وجہ تسمیہ لکھی ہے۔ پہلی یہ کہ ہندوستان میں جو انصاری ہیں انھیں اس لیے انصاری کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری کے خاندان سے ہیں۔ اسے شیخ نے بعید از قیاس لکھا ہے۔ دوسری وجہ یہ لکھی ہے کہ جب صحابۂ کرام ہندوستان میں قدم رنجہ ہوئے تو جن لوگوں نے ان کی مدد کی وہ ’’من انصاری الی اللہ‘‘ کی نسبت سے اپنے آپ کو انصاری کہنے لگے۔ اس نسبت کو شیخ نے اقرب الی القیاس قرار دیا ہے۔ایک مرتبہ باب الرحمہ پر غالبا شیخ سے اس بابت میں نے سوال کیا تو شیخ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر کسی وجہ سے بس اپنے مخصوص انداز میں زیر لب مسکراکر رہ گئے۔
جامعہ اسلامیہ میں شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کا تعلق تدریس سے نہیں تھا لیکن وہ برصغیر کے اردو داں طلبہ کو اپنی شفقت ومحبت سے نوازتے رہتے تھے۔اسی لیے میری بھی شیخ سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔شیخ بہت مرنجاں مرنج بڑی ظریف طبیعت کے مالک تھے۔ بڑی سے بڑی بات وہ ظریفانہ انداز میں کہہ جایا کرتے تھے اور برجستہ کہتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکرہے ہم لوگ جامعہ اسلامیہ کی جامع مسجد کے بیرونی حصے کے مشرق میں واقع اس دروازے پر کھڑے تھے جو مرکزی مکتبہ کے جنوبی اور شمالی حصوں کے درمیانی راستے کی طرف ہے۔ ایک طالب علم آئے اور انھوں نے سب سے سلام اور مصافحہ کیا۔ شیخ سے بھی سلام کیا اور پھر اپنا ہاتھ انھوں نے اپنے سینے پر رکھ لیا۔ ایک دوسرے طالب علم نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ نے اپنا ہاتھ سینے پر کیوں رکھا؟ وہ طالب علم میرے کلاس فیلو تھے اور انھیں عربی کا بڑا چسکہ تھا۔ وہ ہمیشہ عربی میں ہی بات کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے عربی میں کہا کہ میں نے اپنا ہاتھ سینے پر اس لیے رکھا تاکہ یہ اطمینان کرسکوں کہ آپ میرے دل میں ہیں۔ شیخ صفی الرحمن مبارکپوری بھی وہیں کھڑے تھے۔ آپ اپنے مسکراتے ہوئے بشاش چہرے کے ساتھ برجستہ گویا ہوئے کہ ہاں آپ نے اس لیے سینے پر ہاتھ رکھا تاکہ اس بات کا اطمینان کرسکیں کہ آپ ہمارے دل سے نکل چکے ہیں۔ اس پر محفل زعفران زار ہوگئی۔ ایک اور مرتبہ کا ذکر ہے۔ ہم لوگ مغرب کی نماز کے بعد باب الرحمۃ پر حسب عادت کھڑے تھے۔ ایک پاکستانی طالب علم آیا اور اس نے پوچھا: کیا کسی نے شیخ صفی کو دیکھا ہے۔ ایک اور ظریف طبیعت کے طالب علم وہیں کھڑے تھے۔ انھوں نے برجستہ فرمایا کہ ہم ابن صفی کو جانتے ہیں شیخ صفی کو نہیں۔ اس لیے ہم نے انھیں نہیں دیکھا ہے۔ہاں شیخ صفی الرحمن کے بارے میں آپ اگر پوچھ رہے ہیں تو ہم بتاسکتے ہیں وہ ابھی ابھی یہیں تھے۔ اس پر وہاں کھڑے سبھی لوگ ہنسنے لگے۔
مدینہ منورہ میں شیخ کے ساتھ گاہے بگاہے مجھے اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا۔ کچھ اور یادیں بھی ہیں مگر انھیں پھر کسی اور مجلس میں پیش کروں گا۔ میں جب جامعہ اسلامیہ سے فارغ ہونے لگا تو شیخ کے دفتر گیا اور اپنے لیے تزکیہ لکھنے کی درخواست کی ۔ شیخ نے ایک منٹ بھی نہیں لگایا، اپنا لیٹر ہیڈ نکالا اور تزکیہ لکھ کر دے دیا۔ آپ نے حمد وصلاۃ کے بعد لکھا تھا:
’’فان الاخ شمس کما ل انجم الطالب بالجامعۃ الاسلامیۃ من الطلاب المعروفین لدی، وھو فیما اعلمہ مستقیم السیرۃ والسلوک ، متخلق بالأخلاق الحسنۃ ومتمسک بعقیدۃ السلف الصالح ومنہجہم فی الاحکام الشرعیہ، نرجو منہ الخیر وندعو لہ بالتوفیق‘‘

شیخ کا یہ تزکیہ اپنی اصل اور یجنل شکل میں آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
شیخ صفی الرحمن مبارکپوری (علیہ الرحمہ) علم کے پہاڑ تھے۔ آپ کی کتاب الرحیق المختوم کو اللہ تعالی نے شہرت کے ساتھ مقبولیت سے بھی نوازا ہے۔ در اصل شہرت اور شے ہے مقبولیت اور شے ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ کوئی شے یا شخص مشہور ہو تو مقبول بھی ہو مگر شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کی تالیف لطیف الرحیق المختوم کو اللہ تعالی نے عرب وعجم میں شہرت بھی دی اور مقبولیت بھی۔ اس کا عربی نسخہ جتنا شاندارہے اس کا اردو نسخہ بھی اسی قدر زبان وبیان کی لطافت اور شیرینی سے معمور ہے۔ مجھے امید ہے کہ الرحیق المختوم کی یہ شہرت اور مقبولیت تا قیام قیامت قائم ودائم رہے گی اورمولف محترم کے لیے صدقۂ جاریہ بنی رہے گی ۔ ان شاء اللہ

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

بہت خوب ڈاکٹر صاحب۔۔
کافی شاندار مضمون۔۔
بارک اللہ فیکم

Shahzad Ahmad parra

الله الله ۔ بہت ہی شاندار یادوں کا ایک گلدستہ ، اہل علم واخلاق کی صحبت میں رہنا واقعی آپ کے کمالات میں سے ہے۔ ۔
واقعی یہ سیرت کی کتاب اہل عرفان کے ہاں بہت بڑا مقام رکھتی ہے ۔ اگرچہ یہ بھی معلوم ہے کہ ایک بشر کی تخلیق ہے۔۔
اس مضمون کو پڑھ کر دل میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوی ۔ اور یہ احساس ہوا کہ “یادیں سرمایہ ہوتی ہیں ان کی قدر کرنا ہماری ذمہ داری ہے”