مادیت کے اس دور میں تقریباً ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت وثروت حاصل کرے۔اس کے پاس بینک بیلنس،گاڑی اور عمدہ سے عمدہ رہائش گاہ ہو۔اس کے شبستانِ طرب میں عیش وعشرت کے سارے آلات ووسائل موجود ہوں۔اس کا ہر لمحہ ٔزندگی محرومیوں کی سوگواری اور افسردگیوں کی جانکاہی سے ناآشنا ہو۔اس کے شجرِحیات کے پھولوں کا ایک ایک ورق حسن کا مرقع اور رعنائی کا پیکر ہو۔اپنی اس خواہش کی تکمیل کےلیے انسان انتھک کوششیں کرتا ہے۔دولت ستانی کی فضاے لامتناہی کی ناپیدا کنار وسعتوں میں اپنے آپ کو گم کرلیتا ہے۔اپنے توسنِ سعی کو تازیانے پر تازیانے لگاکر اس کی جولانیوں کو شدید سے شدید تر بنانے کی فکر میں محو رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ہی جست میں حضیضِ خاک سے اڑ کر رفعتِ افلاک تک پہنچ جائے۔
مال و زر کے حصول کی کوشش اور اسباب ِ حیات کی فراہمی کے لیے تگ ودو اسلام کی نظر میں معیوب چیز نہیں ہے۔بلکہ جادۂ اعتدال پر چلتے ہوئے اپنے دنیاوی نصیب وحظ کو حاصل کرنے کی سعی کرنا شرعاً مطلوب ہے۔انسان سفرِآخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ دنیاوی حصے کے حصول کی خاطر بھرپور کوشش کرے،خوشحال زندگی گزارنے کے لیے جتن کرے اور حلال طریقے سے جتنی چاہے دولت کمائے، اسلام میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔رہبانیت اور تعطل وتبتل کی اس کے اندر کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس کارگاہِ ہستی میں فطرت کا یہ بھی نظام ہے کہ ہر شخص کو حسبِ دلخواہ دولت نہیں ملتی۔امیری و غریبی اس کارخانۂ ظرف وزماں کا حسن ہے۔کسی کے پاس دولت وثروت کی ریل پیل ہوتی ہے تو کسی کے پاس نان ونمک تک میسر نہیں ہوتا۔ایسے میں دولت سے محروم انسان کی طبیعت میں انقباض کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔اس کے اندر احساسِ محرومی کا ہونا ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔اس کا ذہنی کشیدگی اور دماغی الجھن میں مبتلا ہونا بعید از عقل وخرد نہیں ہے۔لیکن کیا اس محرومی وافسردگی کو فرحت وانبساط میں بدلنے کا کوئی نسخہ اوراس الجھاو کو سلجھانے کی کوئی ترکیب نہیں ہے۔یقیناً اسلام کی تعلیمات کے اندر تمام پریشانیوں کا حل بدرجۂ اتم موجود ہے۔اس نے فقر وافلاس کی افسردگیوں کے ازالے کے لیے اس قدر خوبصورت اور حوصلہ بخش نسخہ تجویز کیا ہے کہ اگر کوئی افلاس زدہ شخص اس پر عمل کرلے تو اس کی طبیعت کا سارا انقباض فوراً رفع ہوجائےگا اور افسردگی وتنگی کی جگہ انشراح اور شگفتگی اس کے دل کے دروازے پر دستک دے گی۔
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ انسان اس بات پر پختہ ایمان وایقان رکھے کہ اس کے نوشتۂ تقدیر میں خالق ِکائنات اور رازق ِمخلوقات نے جتنی روزی لکھ رکھی ہے وہ اسے بہر صورت مل کر رہے گی۔مال و دولت میں تفاوتِ مراتب قانونِ فطرت ہے جو کہ حکمت سے خالی نہیں ہے۔دولت میں کوئی اس پر فوقیت رکھتا ہے تو کوئی اس سے کم تر بھی ہے۔اپنے سے اوپر کے افراد کو دیکھ کر اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالے، بلکہ اپنے سے نیچے کے افراد کو دیکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے بہتوں سے بہتر بنایا ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا:
انظروا إلى من هوَ أسفلَ منْكم، ولا تنظُروا إلى من هوَ فوقَكم، فإنَّهُ أجدرُ أن لا تزدَروا نعمةَ اللَّهِ عليْكم[الترمذي:۲۵۱۳-صححه الألباني](تم اس شخص کی طرف دیکھو جو (دنیاوی اعتبار سے) تم سے کم تر ہو۔اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو (دنیاوی اعتبار سے )تم سے بڑا ہو۔کیوں کہ اس طرح تم اللہ تعالی کی ان نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھوگے جو اس نے تمھیں عطا کر رکھی ہیں)
حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں اگر کسی شخص کے پاس صحت و عافیت،امن وامان اور ایک روز کی خوراک موجود ہے تو گویا اسے پوری دنیا عطا کردی گئی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
مَن أصبحَ مِنكُم معافًى في جسدِهِ،آمنًا في سربِهِ، عندَه قوتُ يومِه،فَكأنَّما حيزَتْ لَه الدُّنيا[ابن ماجة:۴۱۴۱-حسنه الألباني](جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ تندرست ہو،اپنے آپ میں پرامن ہو اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا جمع کردی گئی ہے)
اس تعلق سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں جتنی روزی لکھ دی ہے اس پر قناعت پسندی اور رضامندی کو اپنا شیوۂ حیات بنائے،حرص و طمع اور ہل من مزید کی موذی ومہلک بیماری سے دور رہے۔اس لیے کہ ہوسِ دولت اندوزی ایک ایسی خطرناک اور جاں گسل بیماری ہے کہ اگر کسی کو لگ جائے تو اس کا چین و سکون غارت ہوجاتا ہے،اس کی پوری زندگی ٹنشن،ڈپریشن اور حسرت وافسوس میں گزرتی ہے،اس کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، مال و دولت کی ظاہری فراوانی کے باوجود ہمیشہ مالیاتی مشکلات میں گھرارہتا ہے،ساری چمک دمک محض دکھاوا ہوتی ہے۔دلی اعتبار سے ایسا شخص بڑا مفلس اور کنگال ہوتا ہے۔اور اگر دل ہی کنگال ہو تو ظاہری آن بان سے سکون و اطمینان کہاں میسر ہوتا ہے۔تونگری تو دراصل دل کی تونگری ہے باقی سب محض دریوزہ گری۔تونگری بدل است نہ بمال کی توضیح حدیث رسول میں بہت خوبصورت پیرایے میں کی گئی ہے۔فرمان نبوی ﷺ ہے:
ليسَ الغِنَى عن كَثْرَةِ العَرَضِ، ولَكِنَّ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ[البخاري:۶۴۴۶](تونگری یہ نہیں ہے کہ سامان زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو)
حقیقی معنوں میں اگر آدمی سب سے بڑا مالدار بننا چاہتا ہے تو وہ اپنے دل کو مالدار بنائے اور اپنی قسمت میں لکھی ہوئی روزی پر خوش ہوجائے، کیوں کہ یہی اطمینانِ قلب اور سب سے بڑا مالدار بننے کا راز ہے۔اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جن پانچ باتوں کی نصیحت فرمائی تھی، ان میں سے دوسری نصیحت تھی:
وارْضَ بما قسَم اللهُ لك تكُنْ أغنَى النَّاسِ[الترمذي:۲۳۰۵-حسنه الألباني](کہ اللہ تعالی نے تمھاری قسمت میں جو روزی لکھ دی ہے اس پر راضی رہو، لوگوں میں سب سے بڑے غنی بن جاؤگے)
اللہ تعالی ہمیں نبوی ہدایات و تعلیمات پر عمل کر کے حقیقی چین وسکون حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
آپ کے تبصرے