آن لائن کوئزکمپٹیشن/تعلیمی مسابقہ میں داخلہ فیس کی شرعی حیثیت

مقبول احمد سلفی افتاء

آج کل بڑی تعداد میں آن لائن کوئز کمپٹیشن اور آن لائن تعلیمی مسابقے کرائے جارہے ہیں، مدارس وجامعات کی بندی میں ان کا بہتر بدل اور وقت کا بہترین استعمال ہے تاہم بعض کوئز اور تعلیمی مسابقےایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں قماربازی کی مداخلت نظر آتی ہے ۔ ایک بھائی نے میرے پاس ایک ایسےہی تعلیمی مسابقے کا اعلان بھیج کر سوال پوچھا ہے ۔ اس مسابقے کا نام ’’آن لائن پندرہ روزہ سرٹیفائیڈ تفسیر کورس و مسابقہ‘‘ ہے ۔ اس میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے لازمی طور پر پچاس روپئےبطور داخلہ فیس جمع کرنے ہیں، کورس کے اختتام پر تین لوگوں کومسابقہ کا ونر (winner) قراردیا جائے گا اور ان کو بالترتیب تین ہزار، دوہزار اور ایک ہزارروپئے انعام میں دیے جائیں گے ، ان کے بعد مزید دس لوگوں کو تشجیعی انعامات دیے جائیں گے ،اگر چند لوگوں کےنمبرات برابر آجائیں تو ان میں قرعہ اندازی کی جائے گی ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا داخلہ فیس لے کر کسی قسم کامسابقہ کرانا جائز ہے ؟ اس کا جواب جاننے سے قبل یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگر کوئی آن لائن تعلیمی کورس کراتا ہے اور اس کورس میں شرکت کرنے والوں سےمناسب فیس لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر کوئی تعلیمی کورس میں مسابقہ بھی داخل کرتا ہے تو اس وقت داخلہ فیس لینا جوا کے قبیل سے ہوگا۔ یقینااس کورس میں بہت سے حصہ لینے والے ایسے بھی ہوں گے جن کا مقصد تعلیم نہیں محض انعام حاصل کرنا ہوگا اس لالچ میں وہ فیس جمع کرکے کورس میں شامل ہوں گے بلکہ ایک شخص اپنے گھر کے کئی افرادکو شامل کرے گا تاکہ ایک کو انعام نہ ملے تو دوسرے کسی کو مل جائے۔اس طرح ممکن ہے وہ انعام پانے والوں میں سے ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اگر انعام پایا تو نفع کمانے والا اور نہیں پایا تو نقصان اٹھانے والا ہوگاچہ جائیکہ نقصان کم یا زیادہ ہو۔ اسی چیز کانام جوا ہے یعنی کوئی آدمی جوا میں اس شرط پر مال لگاتا ہے کہ ہار گیا تو نقصان اٹھانے والا اور جیت گیا تو نفع حاصل کرنے والا ہوگا۔
کسی نےشیخ محمد صالح المنجد سے سوال کیا کہ پچھلے دنوں ميں نے ايك اسلامى اخبار خريدا تو ميں نے ديكھا كہ اس اخبار نے انعامى مقابلے كا اعلان كر ركھا ہے اور ميں اس كے جوابات دينے كى استطاعت ركھتا تھاچنانچہ ميں نے مقابلہ ميں شركت كر لى ،اگر ميں مقابلہ ميں كامياب ہو جاؤں تو كيا ميرے ليے انعام لينا جائز ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے پہلے قماربازی کی وضاحت کی پھر بتایا کہ اگراخبار والے نے اس میں شركت كى فيس يا انعامى مقابلہ كے كوپن كى قيمت وغيرہ نام دے ركھے ہيں تو يہ سب جوا ہے ليكن اگر مقابلہ ميں شريك ہونے والا شركت كے بدلے كوئى پيسہ ادا نہيں كرتا تو يہ جوا شمار نہيں ہو گا اور اس ميں شركت كرنے ميں كوئى حرج نہيں۔(اسلام سوال وجواب، فتوی نمبر:۸۹۷۴۶)
اسی طرح قرعہ اندازى كے ذريعہ معين انعامى مقابلوں كے متعلق شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اگر ان انعامى مقابلوں ميں شريك ہونے كى رغبت ركھنے والا شخص كچھ رقم ادا كرنے كے بغير مقابلہ ميں شريك نہ ہو سكے، چاہے وہ رقم قليل ہو يا كثير، اس نے جو رقم دى ہے وہ بہت زيادہ ہو ممكن ہے اسے اس كا نقصان اٹھانا پڑے بعض اوقات يہ رقم دس ہزار تك بھى ہو سكتى ہے اور اس سے بھى زيادہ۔اور بعض اوقات وہ انعام بھى حاصل كر سكتا ہے، تو يہ اس قمار بازى اور جوے كى قسم ميں شامل ہوتا ہے جسے آج كے دور ميں لاٹرى كا نام ديا جاتا ہے مثلا ايك شخص اپنى گاڑى ايك لاكھ ريال ميں پيش كرتا ہے، اور اس كے ليے دس ہزار خريدارى كارڈ جارى كرتا ہے، اور كارڈ كى قيمت دس ريال مقرر كرتا ہے، پھر وہ تمام كارڈ قرعہ اندازى ميں شامل كرتا ہے، اور ايك كارڈ والے كو گاڑى انعام ميں دے دى جاتى ہے، اور باقى سب كارڈ والوں كو نقصان ہو جاتا ہے۔(بحوالہ الاسلام سوال وجواب،فتوی نمبر:۲۰۹۹۳)
سطور بالا سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایسا کوئی بھی کوئز کمپٹیشن یا تعلیمی مسابقہ جس میں داخلہ فیس لی جاتی ہو جوا میں شامل ہے اس لیے ایسے کوئزاورمسابقوں میں حصہ لینا جائز نہیں ہے ۔ جو لوگ اپنے عمل میں مخلص ہیں اور لوگوں کوکوئزیا علمی مسابقوں کے ذریعہ انعام سے نوازنا چاہتے ہیں انھیں مسابقہ میں حصہ لینے والوں سے شمولیت فیس نہیں لینی چاہیے ۔ اسی طرح وہ جملہ معلمین ومدرسین جو آن لائن تعلیمی کورس کراتے ہیں وہ بلاشبہ طالب علموں سے کورس کا مناسب معاوضہ لے سکتے ہیں لیکن اگراس کورس میں انعامات کا بھی اعلان کرتے ہیں تو معاوضہ لینا قمارمیں داخل ہوجائے گا۔ ہاں اعلان کے بغیر محنت کرنے والے کچھ طالب علموں کی اپنی طرف سے تکریم کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

آپ کے تبصرے

3000