بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل(دوسری قسط)

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی عقائد و نظریات

(سلمان ندوی کی رافضی فکر کا تدریجی ارتقا)
سلمان ندوی صاحب نے اپنے شاذ افکارکو جن بنیادوں کے سہارے پیش کیا ہے اور وہ اسباب جن کے دوش پر سوار یہ فکر لوگوں کو متاثر کررہی ہے ان میں سے چند نمایاں اسباب اور سہارے درج ذیل ہیں:
۱۔ بعض تاریخی روایات کا حوالہ:
تاریخی روایات کے سلسلے میں ان کے موقف میں کیا جھول ہے اس کا تذکرہ پچھلی سطور میں ہوچکا ہے۔ (ملاحظہ ہو پہلی قسط)
۲۔ آل بیت سے محبت کا زعم:
دوسری بنیاد آل بیت رسول کی محبت کا زعم ہے۔ اہل سنت کے نزدیک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آل بیت رسولﷺ سے عقیدت ومحبت دین وایمان کا حصہ ہے تاہم اس کا مطلب دور دور تک یہ نہیں ہے کہ صحابہ کرام یا بعض صحابہ کی شان میں گستاخی کی جائے۔
سلمان ندوی صاحب نے صحابہ کے سلسلے میں بتدریج اپنے افکار ونظریات کا اظہار جب بھی کیا حب ِآل ِبیت کے تقدس کی چادر میں لپیٹ کر ہی کیا ہے۔اس پر تعجب بھی نہیں ہے کہ رافضیت کی بدعت نے یہ سارا کھیل اپنی ابتدا میں بھی انھی بنیادوں پرکھیلاتھااور آج چہرہ وچولا بدل کر پھر سے ایک بار آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آڑہی میں یہ کھیل جاری ہے۔
البتہ سلمان ندوی صاحب کے ساتھ مزید ایک دھوکہ یہ جڑ گیا ہے کہ انھیں خاندان کے حوالے سے سیدی نسبت حاصل ہے اوراپنی اس نسبت کا احساس بھی ان کے اندراس قدر شدید ہے کہ یوں لگتا ہے کہ نام سلمان نہ ہو کر محمد ہوتا تومہدی منتظر ہونے کا دعوی ہی کربیٹھتے۔ویسے بھی جس طرح عرب وعجم اور مشرق ومغرب کو للکارتے ہیں اور حسنین شہیدین سے اپنے نانا کی نسبت کا اظہارکرتے ہیں اورخود کو ان کے مشن کا علمبردار گردانتے ہیں اس کے بعد صرف دعوی ہی کی کمی رہ جاتی ہے۔
امام ابوسعید عثمان بن سعید دارمی(۲۸۰)نے اپنی ما یہ ناز تصنیف الردعلی الجھمیۃ میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے۔ أبوالربیع سلیمان بن داودزہرانی جو امام مالک، حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ جیسے ائمہ حدیث وفقہ کے شاگرد ہیں اور امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، اسحاق بن راہویہ،ابوزرعہ رازی، امام ابوداود اورامام مسلم جیسے اساطین علم کے استاذ ہیں بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص تھا جو جہمیہ(جہم بن صفوان کی طرف منسوب ایک بدعتی فرقہ جس کی بدعت کفریہ ہے) میں سے تھا مگر لوگوں کے سامنے حب ِعلی بن ابی طالب اور تشیع کااظہار کیا کرتا تھا۔ایک شخص نے جو اس جہمی کی حقیقت سے واقف تھااس سے پوچھا : مجھے معلوم ہے کہ دین اسلام سے حقیقت میں تمھارا کوئی واسطہ نہیں پھر تم یہ حب ِعلی اور تشیع کا اظہار کیوں کرتے ہو؟ اس جہمی شخص نے جواب دیا: سچی بات یہ ہے کہ اگر ہم اپنی اصلی فکر کا اظہار کردیں تو لوگ ہمیں کافر اور زندیق ہی سمجھیں گے۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو حب ِعلی اور اس کے مظاہرہ کو اپنا شیوہ بنالیتے ہیں پھروہ جس کے بارے میں چاہیں زبان درازی کرتے ہیں،جو چاہتے ہیں عقیدہ رکھتے ہیں اور جو چاہیں کہتے ہیں اور لوگ انھیں پھر بھی شیعہ ہی سمجھتے ہیں،یہ صورت حال دیکھی تو ہمیں بھی لگا کہ اس سے زیادہ آسان کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ہم بھی حب ِعلی کو اپنا شعار بنالیں پھر جوچاہیں کریں، جو چاہیں عقیدہ رکھیں اور جس پر چاہیں زبان دراز ی کریں۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ لوگ ہمیں بھی شیعہ ہی سمجھیں گے اور ہمارے حق میں یہ بات اس سے بہتر ہے کہ کفر اور زندقہ کے حوالے سے ہماری پہچان ہوورنہ ہمارے نزدیک علی اور ان میں جن پرہم زبان درازی کرتے ہیں کوئی فرق نہیں ہے ۔(الرد علی الجہمیۃ :۳۸۲)
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جو تاریخ کاسبق یاد رکھتا ہے وہ ہاؤ بھاؤ یاظاہری رکھ رکھاؤ سے کبھی دھوکہ نہیں کھاتا۔ واقعہ پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ ایک بھولا سبق یاد آرہا ہے، اس واقعہ میں اس جہمی کی بیان کردہ چال کو دیکھیں اوراس کا موازنہ کریں سلمان صاحب کے حب ِآل بیت کے دعوی اور اس کی آڑ میں پروسی جارہی فکر سے۔ اس واقعہ کا یہ پہلو بھی دیکھیں کہ تاریخ میں حب ِآل بیت کے حوالے کا استغلال کیسے کیسے کیاگیا ہے،سلمان صاحب حب ِآل بیت کی آڑ میں نہ صرف اپنے گمراہ کن افکار چھپا رہے ہیں بلکہ آئندہ اس قسم کے متعدد الأغراض طالع آزماؤں کی رہنمائی کافریضہ بھی انجام دے رہے ہیں اور ان کے سامنے راستہ کھول رہے ہیں اور انھیں سکھلا رہے ہیں کہ تمھیں اپنی بات کس چابکدستی سے رکھنی ہے ۔
اہل باطل کے اسی طرز ِتلبیس کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
۔۔۔۔ وأخرجت الروافض الإلحاد والکفروالقدح في سادات الصحابۃ وحزب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأولیاء ہ وأنصارہ في قالب حب أھل البیت والتعصب لھم وموالاتھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکل صاحب باطل لایتمکن من ترویج باطلہ إلا بإخراجہ في قالب حق، والمقصود أن أھل المکر والحیل المحرمۃ یخرجون الباطل في القوالب الشرعیۃ
(روافض نے الحا د وکفر اور سادات صحابہ اور رسول اللہ ﷺ کی جماعت اور آپ کے قریبی ساتھیوں اور جان نثاروں پر زبان درازی کو اہل بیت کی محبت اوران کی جانبداری اور ان سے تعلق کے لبادے میں پیش کیا ۔۔۔۔ ہر صاحب باطل اپنے باطل کو حق کے لبادے میں پیش کیے بنا رواج نہیں دے پاتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ مکار اور ناجائز حیلہ سازی کے ماہر یہ لوگ باطل کو شرعی لبادوں ہی میں ظاہر کرتے ہیں ۔(إغاثۃ اللھفان:۲:۸۲)
جہاں تک سلمان صاحب کی شخصی سیدی نسبت کامعاملہ ہے اور بار بار اس کا اظہار کرنااور اپنی راستی کو بتلانے اور جتلانے کے لیے اس نسبت کا سہارا لینے کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں یہ اصولی بات یاد رکھی جائے کہ آل بیت رسولﷺ میں سے جو حق وہدایت پر ہوں وہ صحابہ کی طرح امت کے سلف صالحین کا حصہ ہیں جن کے نقش قدم پر چلنا اور ان سے نسبت رکھنا باعث سعادت ہے۔ کتاب وسنت کی تعلیمات کے دائرے میں ان کی پیروی کرنا اور ان کو نمونہ بنانا باعث عز وشرف بھی ہے اور دنیا وآخرت میں سرخ روئی کی ضمانت بھی۔البتہ یہاں ایسا کوئی ضابطہ نہیں ہے کہ جس کسی کو یہ نسبت حاصل ہو وہ کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا،خود علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ اشعار اسلام کے اس اصولی موقف کی ترجمانی کرتے ہیں:

لعمرک ما الإنسان إلا بدینہ

فلا تترک التقوی اتکالا علی النسب

فقد رفع الإسلام سلمان فارس

وقد وضع الشرک الشقي أبالھب

(قسم ہے !انسان کی قدروقیمت اس کے دین کی وجہ سے ہے لہٰذا تم نسب کے بھروسے تقویٰ کو نہ چھوڑو، کیوں کہ اسلام نے فارس کے سلمان کو عزت بخشی اور شرک نے بدبخت ابولہب کو ذلیل کیا)
تاریخ اسلام میں آل بیت رسول ﷺ کے سلسلے میں اس قسم کی اندھی عقیدت اورتقدیس کا تصور رافضیوں کے پاس رہا ہے کہ وہ آل بیت رسول ﷺ ہی کو سنت مانتے ہیں، رافضی اصول کے مطابق آل بیت اور سنت رسول ایک سکے کے دو رخ ہیں، جو کبھی جدا نہیں ہوسکتے۔
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد کے اندر ایک حدیث طبرانی کی سند سے نقل کی ہے اور اس کو حسن بھی قرار دیا ہے، جس کے مطابق یہ ایک فتنہ ہے جس کی پیشین گوئی نبیﷺ نے فرمادی تھی کہ کچھ لوگ حب ِآل بیت کا چولا پہن کر امت کو دھوکہ دیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :میں نبیﷺ کے پاس تھا، علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : اے علی ! ایک وقت آئے گا کہ کچھ لوگ حب ِآل بیت کا حوالہ دیں گے جبکہ ان کی پہچان ہی رفض (صحابہ کاانکار بالخصوص ابوبکر وعمر کی خلافت کا انکار ہے) ہوگی، جب ایسے لوگوں سے سامنا ہو تو ان سے لڑو کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہوں گے۔(مجمع الزوائد:۱۶۴۳۴- ہیثمی نے مسندأبی یعلی، طبرانی وغیرہ کے حوالے سے اس مفہوم کی متعدد روایتیں نقل کی ہیں اور ہر سند میں کوئی نہ کوئی ضعف بیان کیا ہے البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت پر حکم لگا یا ہے کہ ’’رواہ الطبراني وإسنادہ حسن‘‘)
قارئین کے سامنے اس حقیقت کو واضح کردیں کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے (تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألباني: ۵۵۹۰/۵۵۹۱/۶۲۶۶/۶۵۴۱ جس میں شیخ البانی نے امام ہیثمی کی تحسین کا بھی جواب دیا ہے)لہذا اس سے کسی قسم کا استدلال درست نہیں ہے اور ہم خود بھی یہاں اس سے کسی قسم کا استدلال نہیں کرنا چاہتے مگریہ ضرور بتلانا چاہتے ہیں کہ جس طرح سلمان صاحب محض بعض تاریخی حوالوں سے بنا تحقیق صحابہ کے کردار پر حرف گیری کر رہے ہیں انھی کے اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر اس ضعیف حدیث کے سہارے سلمان صاحب کوبھی تولا جاسکتا ہے اور ان کو آئینہ دکھلایا جاسکتا ہے۔
کوئی یہ بھی سوچے کہ اچانک آل بیت کا یہ درد جو جاگا ہے کیا یہ واقعی حسینی نسبت کا درد ہے ؟؟یا پھر سلمان صاحب غم ِدوراں کی آڑ میں غمِ جاناں کو چھپا رہے ہیں؟؟
حقیقت کیا ہے اللہ جانے مگر جو سنا ہے اس کے مطابق سلمان ندوی صاحب ندوۃ العلماء کے داخلی معاملات میں خود کو مظلوم تصور کرتے ہیں اوربین الأقوامی معاملات کے تناظر میں سعودی عرب کوبھی ایک ظالم تصور کرتے ہیں۔ ظالم کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے کے جذبے میں ڈوبے، پہلے ندوہ پھر ’’ظالم ‘‘سعودی عرب کے خلاف بولتے ہیں۔ اسی پس منظر میں ان کو تاریخ کا بھی ایک بیانیہ ملتا ہے اور وہ ہے خلافت کے معاملے میں آل بیت کی مظلومیت کا رافضی نظریہ،یہ بیانیہ انھیں خوب بھاتا ہے کہ خود بھی سید ہیں اور خود کو مظلوم بھی سمجھتے ہیں اس طرح نسبت کے ساتھ ساتھ یک گونہ مناسبت بھی نکل آتی ہے۔اب اس نئے بیانیہ کو ہو بہو قبول کرنے میں تردد ہے کہ اس سے اپنی سنیت کی پہچان ختم ہوجائے گی تاہم تحریکی فکر سے وابستگی ایک نیا زاویہ فراہم کرتی ہے اور وہ زاویہ ہے خلافت علی منہاج النبوۃ کے مقابلے ملوکیت کا۔ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی وجہ سے صفین والوں کو نشانہ پر رکھنے کا۔لہٰذا آل بیت کی مظلومیت کی داستان اپنے اس نئے بیانیہ میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ چلتے چلتے ’’منافق صحابہ‘‘ کو بے نقاب کرنے تک جا پہنچتے ہیں۔ اور یہ سب انھیں (کلمۃ حق عند سلطان جائر )کے مختلف مظاہر لگنے لگتے ہیں ۔
دوسری طرف خارجی فکر کی یہ خاصیت مہمیز کا کام کرتی ہے کہ حق بولنے کے لیے سب سے اچھا بیانیہ بغاوت والا ہی ہے، حکمرانوں کے خلاف بغاوت، ذمہ داروں کے خلاف بغاوت، علمی اصولوں کے خلاف بغاوت، مسلمہ عقائد کے خلاف بغاوت، متقدمین اہل علم کے راستے سے بغاوت، ایک ایسی فکر جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی اوراپنے وقت کے سب سے متقی انسان علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا قتل کروا کے بھی قاتل ابن ملجم کو احتساب اور اللہ کے پاس اجر کا یقین دلائے رکھتی ہے۔سلمان صاحب کو یہ فکر بھی اور یہ بیانیہ بھی خوب بھاتا ہے اور وہ اسی رنگ میں خود کو رنگ لیتے ہیں۔
سلمان ندوی صاحب کے اس بیانیہ کا خلاصہ بس دو اصول ہیں۔ اس بیانیہ کی بنیاد مظلومیت کا احساس ہے اور اس کا راستہ بغاوت کا ہے۔ سلمانی فکر کا کل سرمایہ یہی دو باتیں ہیں اور اگر آپ رافضی فکر کا تجزیہ کرپائیں تو اس کا نچوڑ بھی بس یہی دو باتیں ہوں گی، آل بیت رسولﷺاور ان کے متبعین کی مظلومیت اور بغاوت کے راستے ان کے حقوق کی بازیابی کا علم بلند کیے رکھنا۔
حقیقت یہ ہے کہ سلمان صاحب خود کی مزعومہ مظلومیت کے احساس میں ڈوب کر تاریخ پڑھ رہے ہیں تو انھیں پوری تاریخ ظلم کی تاریخ نظر آنے لگی ہے۔تاریخ کا کمال یا اس کا یہ نقص ہے کہ آپ اگر ایک مخصوص ذہن لے کر اسے پڑھیں یا آنکھوں پر مخصوص رنگ کا چشمہ لگا کر پڑھیں تو پوری تاریخ اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔
۳۔ فطری صلاحیتیں:
تیسری چیز جس کے سہارے سلمان صاحب لوگوں کے ذہن ودماغ پر حاوی ہو نے کی کوشش کررہے ہیں وہ ان کی خداداد صلاحیتیں ہیں۔اللہ تعالی نے سلمان ندوی صاحب کو فطری طور پر بہت ساری خوبیوں اور صلاحیتوں سے مالامال کیا ہے، بالخصوص ان کی زبان وانداز بہت سوں کے لیے ساحرانہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ محض کسی کے کروفر سے دنیا زیر و زبر ہوسکتی تو حضرت والا کے ناز وانداز کو دیکھ کر پتا نہیں کیا کچھ ہوچکا ہوتا۔انھی صلاحیتوں کے نتیجے میں عقیدت مندوں کا ایک معتد بہ حلقہ آپ کا گرویدہ ہے، اس پر مستزاد اگرمعتقدین کا مزاج تقلیدی ہو اور ماحول شخصیت پرستی کا ہو تو پھر دلائل سے زیادہ شخصیات کا سحر اوردبدبہ ذہن ودماغ کو مسخر کرلیتا ہے۔ سلمان صاحب کے معتقدین کم یازیادہ جتنے بھی ہوں ان سے عقیدت اس درجہ کی رکھتے ہیں کہ اکثرانھیں’’امام ‘‘کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور پھر سلمان صاحب اس قدر اونچائی سے بولتے بھی ہیں کہ لگتا ہے ان کا انگ انگ اس احساس میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے؎

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صلاحیتیں اگر ہدایت یافتہ نہ ہوں اور شاہراہ سنت اور سلف صالحین کے نقش پا کی پیروکار نہ ہوں تو پھر وہ جدھر مڑتی ہیں اسی طرف موڑدی جاتی ہیں۔ پھر وہ چاہے جتنا سرپٹ دوڑیں یا دُلکی چال چلیں منزل تو ہاتھ آنے سے رہی:
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا
[النساء : ۱۱۵](جو شخص باوجود اس کے کہ اس پرراہ راست واضح ہوگئی رسول سے اختلاف کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کرچلے تو ہم اسے اسی رخ پرچلائیں گے جدھر وہ مڑچکا ہے اور اسے جہنم رسید کردیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسی ہی بعض غیر ہدایت یافتہ صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
أوتوا ذکاء وما أوتوا زکاء،وأعطوا فھوما وما أعطوا علوما وأعطوا سمعا وأبصارا وأفئدۃ فما أغنی عنھم سمعھم ولا أبصارھم ولا أفئدتھم من شیئ إذ کانوا یجحدون بآیات اللہ وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزؤون
[الفتوی الحمویۃ الکبری:۵۵۶](انھیں ذہانت تو نصیب ہوئی مگر فکرونظر کی نزاہت ان کے حصہ میں نہ آئی، انھیں عقل وخرد تو ملے مگر حقیقی علم سے محروم رہے، انھیں سماعت، بصارت اور دل تو ملے مگران کی سماعت اور بصارتیں اور دل ان کے کچھ کام نہ آئے، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور اسی انجام نے انھیں گھیر لیا جس کووہ ٹھٹا مذاق سمجھتے تھے)
خود ہمارے اپنے ملک کی تاریخ میں ایک نام مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی ہے جس نے پہلے پہل لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا تھا پھر گل کھلائے تھے ۔ مقصود بس اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ کسی کی ذاتی صلاحیتیں اپنی جگہ اوردینی حقائق کی ترجمانی اپنی جگہ۔ محض کسی کی ذاتی قابلیت اور استعداد یا متاثرکن شخصیت کبھی دلائل اور شواہد کی جگہ نہیں لے سکتی ۔لہذا شخصیات کو ایک طرف رکھ کر افکار کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔
۴۔ سعودی عرب کی مخالفت:
چوتھی اہم چیز جس کے سہارے سلمان صاحب نے اپنی بات لوگوں کے سامنے رکھی ہے وہ ہے سعودی عرب مخالف جذبات کا استحصال۔ بر صغیر میں مختلف صحیح یا غلط اسباب اور حوالوں سے سعودی مخالف ایک ذہن پہلے سے موجود ہے،سلمان ندوی صاحب نے صحابہ کی عدالت اورثقاہت جیسے انتہائی حساس اور نازک موضوع کو بھی جس غیرسنجیدہ مزاج کے ساتھ لیا ہے وہ بے حد تشویشناک ہے۔سلمان صاحب اس انتہائی اہم موضوع پر گفتگو علمی کم جذباتی زیادہ کرتے ہیں، ساتھ ہی شاید انھیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ صرف اس موضوع پر گفتگو کرکے جذباتی تائید نہیں بٹور پائیں گے اس لیے دوران خطاب کبھی ندوہ کے خلاف تو کبھی سعودی عرب کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہاراور حق پرستی کا دعوی ایسے زوردار انداز میں کرتے ہیں کہ معتقدین کے برانگیختہ جذبات اسی رو میں بہہ جاتے ہیں اور غیر شعوری طور پر مان لیتے ہیں کہ مولانا ندوہ میں بھی برحق، سعودی عرب کے معاملے میں بھی برحق اور صحابہ کی نقد وجرح کے باب میں بھی برحق۔
ہمارے قارئین اورسلمان صاحب کے سامعین کویہ سمجھنا چاہیے کہ وقتی طور پر سعودی عرب کے معاملے میں سلمان صاحب کو سو فیصد درست بھی مان لیں اور سعودی عرب کو ان کے الفاظ میں وقت کا طاغوت اکبر بھی تسلیم کرلیں تو کیا اس سے یہ جواز فراہم ہوجاتا ہے کہ صحابہ کی شان میں زبان درازی کریں ؟ کیا یہ سمجھنا ایک گمراہی نہیں ہے کہ مولانا سعودی عرب کے معاملے میں درست ہیں، ندوہ کے معاملے میں درست ہیں تو صحابہ کے باب میں ان کی موشگافیاں بھی درست ہوں گی؟؟
۵۔ ابوہریرہ فقیہ نہیں ہیں:
سلمان ندوی صاحب نے عدالت صحابہ پر شبخون مارا ہے۔ أبوہریرہ رضی اللہ عنہ کو درباری مولوی اور حدیث رسول کو چھپانے والا قراردے کر ان کی دیانت وامانت پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے اور پھر اپنی اس دریدہ دہنی کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس قدیم بحث کا حوالہ دیا ہے کہ بعض علما ء احناف نے بھی حضرت ابوہریرہ کو غیر فقیہ قرار دے کر جرح کی ہے۔سلمان صاحب نے بعض علماء احناف کی اس فقیہ اور غیر فقیہ والی بحث کے سہارے اپنے مخصوص افکار کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلے میں علماء احناف خود اپنے موقف کو واضح کریں اورسلمان صاحب کی اس تدلیس پر سے پردہ اٹھائیں تو بہتر ہوگا تاہم یہاں حضرت ابوہریرہ کی فقاہت کے بارے میں مذکورہ بالا موقف کے سلسلے میں بس اس قدر بتلادیا جائے کہ ایک تو یہ تمام علماء احناف کا موقف نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ یہ موقف محقق اہل علم کے نزدیک مردود ہے اور تیسری بات جو زیادہ اہم ہے کہ فقاہت پر سوالیہ نشان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علم وتدبر کے سلسلے میں ہے جس کا ان کی عدالت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ بعض اہل علم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت پر سوال اٹھائے ہیں تب بھی سلمان صاحب کی طرح ان کی عدالت، دیانت اور امانت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت پر ماضی وحال میں اہل بدعت ہی نے سوال اٹھا یا ہے بلکہ یوں کہا جائے ان کی عدالت پر سوال اٹھانا بدعتی ہونے کی علامت ہے ۔سلمان صاحب کسی بھی راوی کے علمی مقام اور اس کی عدالت کے مذکورہ بالا فرق کو بخوبی جانتے ہیں مگر ہوائے نفس کا جب غلبہ ہوتو پھر انسان کی عقل پر پردہ پڑ جانا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔
۶۔عہد ِصحابہ میں منافق ومرتد:
اس موضوع کا ایک دلچسپ پہلو ماضی میں بھی اور حال میں بھی یہ رہا ہے کہ صحابہ کی عدالت پر جب بھی جرح کرنی ہوتی ہے تو ایسے لوگ دوباتوں میں سے کسی ایک کا سہارا لیتے ہیں :
أ۔ ایک تو یہ کہ بعض لوگ نبیﷺ پر ایمان لاکر صحابی تو بنے تھے مگر آپ ﷺکی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔
ب۔ نبیﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان منافق بھی تھے۔
یہی دوسراطریقہ سلمان ندوی صاحب نے ’’منافق صحابہ‘‘ کی سرخی قائم کرکے اپنایا ہے۔
ان دونوں باتوں کا حوالہ دے کر یہ لوگ یا تو اس مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ صحابہ میں سے بعض منافق تھے اور بعض مرتد ہوگئے تو پھر تمام صحابہ کی عدالت کا ضابطہ صحیح نہیں ہوسکتایا پھر وہ یہ دعوی کرنا چاہتے ہیں کہ جب کچھ لوگ منافق اور مرتد ہوئے تو بقیہ کے سلسلے میں کیا ضمانت ہے ؟؟
ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صحابی کی جو تعریف اہل علم کے نزدیک معتبر ہے اس کے مطابق مرتدہو کر مرنے والا شخص صحابی کی تعریف میں داخل ہی نہیں ہے کیونکہ صحابی کہلانے کے لیے ایمان کی حالت میں وفات پانا ضروری ہے۔ اور مزیدیہ بھی کہ اسی تعریف کے مطابق ’’ایمان کی حالت میں‘‘ نبیﷺ سے ملاقات کرنا ضروری ہے جس کی روسے منافق نبیﷺ کے ساتھ تھے مگر آپ کے ساتھی (صحابی) نہیں بن پائے تھے کیونکہ’’ان کے اندر ایمان نہیں تھا ‘‘ مزیدیہ بھی کہ نبیﷺ کی حین حیات جو منافق آپ کے ساتھ اپنا کفر چھپا کرلگے ہوئے تھے وہ اس قدر ڈرے سہمے اورمعاشرہ کے نزدیک معروف تھے کہ علم اور دین کی نسبت تو کجا سماج میں گردن اٹھا کر جینے والے بھی نہیں تھے بلکہ وہ سماج کی نظروں میں گرے ہوئے لوگ تھے۔ ان کا دین کی نشر واشاعت اور اس کی تبلیغ وترویج سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں تھا۔اسی لیے تاریخ اسلام میں ان منافقین کے وجود کو کبھی کسی نے علمی ودینی معاملات میں درخود اعتنا نہیں سمجھا اور نہ ہی ان کے وجود کی وجہ سے عدالت صحابہ کے اصول میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کو قبول کیا البتہ منکرین سنت اور رافضی مفکرین نے ہمیشہ ان باتوں کا سہارا لے کر سنت کی اور اہل سنت کی استنادی حیثیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔اس طرح آپ یوں سمجھ لیں کہ سلمان صاحب کی یہ بدعت بھی جدت کے زمرے میں نہیں ہے یہ بدعت بھی قدیم ہے اور اس کے موجد اہل بدعت تھے تو آج ان کا مقلد بھی بدعتی ہی ہوگا۔
مختصرا یہ کہ سلمان ندوی صاحب نے یہ جو بکھیڑا کھڑا کیا ہے یہ نہ علمی اصولوں پر کھرا اترتا ہے اور نہ منہجی کسوٹی پر۔یہ یا تو ایک منحرف شخص کی فکری کجی ہے یا ایک منتشر ذہنیت کے حامل شخص کی پراگندہ خیالی جو زبان حال سے خودسلمان صاحب سے پوچھ رہی ہے؎

بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو

منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی

سلمان صاحب کی ان حرکتوں سے ایک ہلچل ضروری مچی ہے مگر اس کا حاصل سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ بعض لوگوں کے دین وایمان کی آزمائش ہوگی۔ پھر تاریخ کے اوراق میں یہ اپنی فتنہ سامانیوں کے ساتھ دفن ہوجائیں گے ۔
سلمان صاحب کی توبہ:
سلمان ندوی صاحب نے سب سے پہلے تو دل کھول کرجو کہنا چاہا کہہ دیااور جب اپنی کہہ چکے اور ہر طرف سے تعقب ہونے لگا توموضوع کوبند کرنے کا اعلان کردیا۔ بعض نادان اسے سلمان صاحب کی توبہ باور کرانے میں لگے ہیں۔یہ یاد رکھا جائے کہ موضوع کو بند کرنے کا اعلان کرنے والی تحریرمیں خود اس کا اعلان ہے کہ ان کا کہا حق ہے اور یہ حق دلائل کی روشنی میں واضح ہوچکا ہے اس لیے وہ بحث کوطول دینا نہیں چاہتے ۔ لہذا کوئی یہ غلطی نہ کرے کہ اسے سلمان صاحب کی توبہ قرار دے ۔اور اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ ان کی توبہ ہے تب بھی یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ جو شبہات، مقدمات اورالزامات سلمان ندوی صاحب نے قائم کیے تھے وہ سب لوگوں کے ذہن ودماغ سے لے کر کاغذ کے صفحات پر اور یوٹیوب اور فیس بک وغیرہ کے چینلوں پر موجود ہے۔ سچی توبہ یہ ہوگی کہ وہ ان ساری باتوں کو حذف کردیں،صراحتا اپنے ان افکار سے رجوع اوراہل سنت کے عقائد ہی کو اپنا عقیدہ تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔
ایک پیغام معتقدین کے نام:
ملک کے طول وعرض میں سلمان ندوی صاحب کے معتقدین کی ایک معتد بہ تعداد موجود ہے۔تأثر وتاثیر انسانی طبیعت کا خاصہ ہے،تاہم ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر شخص کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کواپنی عقیدت سے زیادہ اپنے عقیدہ کی فکر میں جینا چاہیے ورنہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ عقیدت کے مارے اندھ بھکت ہی اکثرفتنوں کا پہلا شکار بلکہ پہلا ایندھن بنتے ہیں ۔ اسی لیے علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ سنہری اصول دیا ہے کہ:
’’لاتعرف الحق بالرجال اعرف الحق تعرف أہلہ‘‘
(حق کی پہچان شخصیتوں سے نہ کر و، حق کو پہچان لو تو حق پرست کو بھی پہچان لوگے(جلاء العینین في محاکمۃ الأحمدین للآلوسي ۱:۶۵۱)
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک انسان ہمیشہ ہر معاملہ اور مسئلہ میں صحیح ہو یہ ضروری نہیں، زندگی کی آخری سانس تک کبھی بھی کسی کا بھی قدم ڈگمگا سکتا ہے۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اپنا مقتدی ورہنما بنانا ہے تو پھر ان اصحاب رسول کو بناؤ جو حق پر قائم رہتے ہوئے اس دنیا سے جاچکے ہیں کیونکہ زندوں کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب کون سا فتنہ ان کو اچک لے:
من کان مستنا فلیستن بمن قد مات فإن الحي لاتؤمن علیہ الفتنۃ أولئک أصحاب محمد ﷺ أبر ھذہ الأمۃ قلوبا واأعمقھا علما وأقلھا تکلفا
(أصول الإیمان:۱۳۷:۱۰۱)
سلمان صاحب کے معتقدین کو چاہیے کہ ایک بار اپنے آپ سے کہیں، خود کو بھولا سبق یاد دلائیں کہ سلمان ندوی صاحب ہمارے بڑے ہیں تاہم حق سب سے بڑا ہے ۔
اہل اسلام کے نام:
بات کو سمیٹنے سے پہلے ایک آخری بات اہل اسلام سے کرنی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اہل اسلام اطمینان رکھیں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، تاریخ اسلام کے بڑے بڑے فتنوں کے پیچھے اکثر ایسی ہی غیرہدایت یافتہ صلاحیتیں رہی ہیں جو اٹھیں تو یوں لگا جیسےیہ طوفان بلا خیز بہت کچھ بہا لے جائے گا لیکن انجام کار یہی ہوا کہ وہ موج:
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
اللہ کی سنت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ایسے فتنے اٹھتے ہیں اور عقیدت میں اندھے اورنفس پرستی کے مارے بعض لوگ اس کا شکار بھی ہوجاتے ہیں تاہم دین اسلام اپنی آب وتاب کے ساتھ پھرسے ابھر کر آتا ہے۔یہ نبیﷺ کی پیشین گوئی ہے کہ:
’’لا یضرھم من خذلھم ولا من خالفھم حتی یأتي أمر اللہ ‘‘

دوسری بات یہ بھی کہ اہل سنت کے اہل علم کو وقتا فوقتا اٹھنے والے ایسے فتنوں کا سد باب تو کرناہی چاہیے اور حق کی وضاحت کرکے اتمام حجت کی ذمہ داری نبھانی چاہیے تاہم سنت کے راہی اہل علم کو کسی خاص شخص کو موضوع بحث بنانے کے بجائے، صحابہ کی بابت اہل سنت کا عقیدہ، مشاجرات صحابہ سے متعلق اہل سنت کا موقف اور اس کی معقولیت، فضائل صحابہ،صحابہ کے حقوق، صحابہ کی بابت قرآن وسنت کے نصوص اور ان کی روشنی میں متعین ہونے والا صحابہ کاکرداروغیرہ کو موضوع بحث بنائیں جس سے صحابہ کرام کے تئیں الفت ومحبت، عظمت وعقیدت ہی نہیں بلکہ ان کے احترام کی وہ عظیم بنیاد ذہن ودماغ میں نقش ہوجائے جو اس قسم کے فتنوں کے مقابلے میں پتھر کی لکیر کی ثابت ہو ۔
ملت اسلامیہ ہند اور سلمان ندوی صاحب:
سب سے آخر میں سلمان ندوی صاحب سے ایک گزارش ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کی آواز پر بھی ذرا کان دھریں، آپ سے مختلف مکاتب فکر کے اہل علم کو پہلے بھی اختلاف تھا اور آئندہ بھی ہوسکتاہے ، تاہم اب کی باربات اختلاف رائے کی بالکل بھی نہیں ہے، نہ ہی اپنی اپنی صوابدید کے مطابق عمل کرکے ایک دوسرے کو برداشت کرلے جانے کی ہے۔ اب کی بار سنجیدہ اہل علم میں سے سبھی آپ کی اس نئی اپج سے برہم ہیں اور سب کے سب شکوہ کناں ، ملت اسلامیہ ہند اور آپ کی اس باہم صورت حال کو دیکھ کر ایک واقعہ یاد آتا ہے جو دارصل ہم سب کے لیے ایک مثالی پیغام اپنے اندر رکھتا ہے۔ میں اپنی اس تحریر کا اختتام اسی واقعہ کے تذکرہ پر کر رہاہوں۔
ہمارے مربی علماء میں سے ایک حضرت مولانا حبیب الرحمن زاہد اعظمی عمری رحمہ اللہ بھی تھے۔ کامیاب شاعر اور ماہنامہ راہ اعتدال کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی سے بڑی گہری عقیدت رکھتے تھے اوران کے بڑے مداح تھے مگر جب جوش نے اپنے رنگ دکھلائے تو مولانانے جوش کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے شکایت بھی بڑے حسین پیرائے میں کی۔ زاہد اعظمی صاحب اشعار کی زبان میں یوں شکایت کناں ہوئے:

خوب ہیں اشعار تیرے خوب تر طرز ِکلام

کاش اسی انداز کو باقی تو رکھ سکتا مدام

تیرے طرز فکر کے مداح تھے سب خاص وعام

لوگ تیرا نام لیتے باادب بااحترام

اپنے ہاتھوں آہ تو نے کرلیا خود کو تباہ

ایک ہیرا پتھروں میں ہوگیا تبدیل آہ


کاش اسی انداز کے ہوتے ترے اشعار جوش

جوش کے طوفان میں کھویا نہ ہوتا عقل وہوش

علم کے غرّے نے تجھ کو کردیا مذہب فروش

ورنہ یوں پھرتا نہ بن کر دربدر خانہ بدوش

دین سے تو پھرگیا رحمت نے آنکھیں پھیر لیں

ساری دنیا کی بلائیں آکے تجھ کو گھیر لیں


تیری مذہب دشمنی سے مجھ کو نفرت ہے مگر

قدرداں ہوں میں ترے جذبات واحساسات کا

جادۂ حق سے بھٹک جاتے نہ یوں تیرے قدم

کاش تو ہوتا نہ قیدی سرپھرے حالات کا


اللہ نے بخشا ہے تجھے دیدۂ بینا

افسوس کہ تاریک ترا ہوگیا سینا

الحاد کی موجوں میں ترا ڈوبا سفینہ

اور مل گیا مٹی میں یہ تابندہ نگینہ

مذہب سے تعلق ترا گر ٹوٹ نہ جاتا

اس طرح مقدر بھی ترا پھوٹ نہ جاتا


شاعری میں حق نے بخشا تھا تجھے ایسا مقام

تھا ہمارے دل میں تیرے فن کا بے حد احترام

اول اول حرز ِجاں بنتا تھا تیرا ہر کلام

آخر آخر دور سے کرنا پڑا تجھ کو سلام

تجھ کو لکھنی ہی اگر تھی اپنی روداد حیات

کم سے کم لکھی نہ ہوتی تو نے ’’یادوں کی برات‘‘

یوں سمجھ لیں ملت اسلامیہ ہند بھی آپ سے انھی الفاظ میں شکوہ کناں ہے۔
اللہم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرناالباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

آپ کے تبصرے

3000