سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ: ایک مختصر مگر جامع تعارف

عبداللہ صلاح الدین سلفیؔ تاریخ و سیرت

صحابہ کرام اس مقدس و محترم جماعت کا نام ہے جن کے واسطے سے قرآن وسنت کا گنج گراں مایہ ہم تک پہنچا ہے۔شرف صحابیت وہ عظیم عطیۂ الہٰی ہے جو کسی شخص کو محنت و کوشش سے نہیں ملتا، نہ تو علم کی بنیاد پر صحابیت کا شرف حاصل ہوتا ہے اور نہ عمل کی بنیاد پر؎

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

اس لیے صحابہ کرام سے محبت بھی رسول اللہ ﷺ کی محبت کی وجہ سے کی جاتی ہے اور ہر سچا مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتا ہے اور ان کی محبت کو جزوِ ایمان سمجھتا ہے، اس لیے کہ یہ وہ قدسی صفات نفوس ہیں کہ نگاہ نبوت کی جو بجلی آنکھوں کے راستے سے ان کے قلوب میں سرایت کر گئی وہ دنیا کے کسی غیر صحابی شخص کو ہرگز ہرگز میسر نہیں۔
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں اور جب وہ عادل ہیں تو پھر ہر قسم کے نقد و جرح سے بھی بالاتر ہیں۔ دشمنان اسلام خوب جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسلمانوں کے لیے آئیڈیل اور ہیرو ہیں اگر ان کی ذات اور شخصیت پر نقد کیا جائے تو بالواسطہ اسلام پر نقد و جرح ہوگی، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ معصوم نہ تھے۔یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معصوم نہ تھے اور نہ اہل سنت ان کو معصوم سمجھتے ہیں تاہم اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ کرام مغفور یعنی بخشے بخشائے ہیں، اگر ان میں سے کسی سے بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد بھی ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی عظیم نیکیوں کے سبب بخش دیا ہے۔
ادھر چند سالوں سے وقتا فوقتا اور بطور خاص ماہ محرم کے قریب آتے ہی کچھ بدقماش اور خبیث النفس افراد اپنی صحابہ دشمنی بلکہ اسلام دشمنی کا مختلف ذرائع سے اظہار کرتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ بنو امیہ اور بطور خاص یزید پر طعن سے شروع ہوا، پھر ان خبیثوں کی زبان طعن خال المؤمنین و کاتب وحی سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما پر دراز ہونے لگی اور سچ کہا ہے ابو توبہ ربیع بن نافع حلبی رحمہ اللہ نے:
معاوية ستر لأصحاب محمد ﷺ ، فإذا كشف الرجل الستر اجترأ على ما وراءه

(تاريخ بغداد للخطيب:۱/۲۰۹، تاريخ دمشق لابن عساكر:۵۹/۲۰۶)
یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ محمد ﷺ کے صحابہ کے لیے پردہ ہیں تو جب کوئی اس پردے کو چاک کردیتا ہے تو پیچھے والوں کے حق میں بھی جری ہو جاتا ہے۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا ہے، نوبت بایں جا رسید کہ ایک نام نہاد سید زادے نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر زبان طعن دراز کی ہے۔ شاید اس کا سبب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ امتیاز ہے کہ احادیث کا سب سے بڑا ذخیرہ آپ ہی کے ذریعہ امت تک پہنچا ہے، جودشمنان اسلام کو برداشت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وہ مظلوم صحابی رسول ہیں جن پر بعض اعداء نے یہ الزام عائد کیا کہ وہ اتنی کثرت سے روایات کیسے بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ۷ھ میں اسلام لائے ہیں۔ بعض دشمنوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا کہ انھوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کذاب کہا ہے۔مستشرقین نے یہ الزام لگایا کہ ابوہریرہ جھوٹی احادیث بیان کرتے تھے اور اب ایک نام نہاد سید زادے نے آپ رضی اللہ عنہ پر احادیث کو غلط نیت سے چھپانے کا الزام لگاتے ہوئے آپ کو سرکاری مولوی گھوشت کردیا ہے۔ (نعوذباللہ من ھذہ الأکاذیب والإتهامات)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک مختصر مگر جامع سوانحی خاکہ پیش ہے:
نام و نسب:
زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام عبد شمس تھا (التاريخ الكبير للبخاري:۶/۱۳۲، وسنده حسن) بعد میں آپ کا نام عبد اللہ یا عبد الرحمن رکھا گیا، آپ کے والد کا نام عمر یا صخر تھا، یمن کے ایک قبیلے دوس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ کو دوسی اور یمانی کی نسبت سے جانا جاتا ہے، تاہم آپ اپنی کنیت ابو ہریرہ سے زیادہ مشہور ہیں۔عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے پوچھا: آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی؟ تو انھوں نے کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ قسم اللہ کی ! میں آپ سے ڈرتاہوں ، پھر انھوں نے کہا: میں اپنے گھروالوں کی بکریاں چراتاتھا، میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اور اس سے کھیلتا، تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔ (سنن الترمذي:۳۸۴۰،امام محمد ناصر الدين الألباني نےاس حدیث کو صحیح، شيخ شُعيب الأرناؤوط نےإسناده صحيح اورمجلس علمی،دار الدّعوة، دہلی نےحسن الإسناد کہا ہے)
خود اللہ کے رسول ﷺ کبھی آپ کو أبو ھر(المستدرك للحاكم:۶۱۴۲، وسنده حسن) اور کبھی ياأَبَا هُرَيْرَةَ (صحيح البخاري:۹۹،صحيح مسلم:۳۷۱) کہہ کر مخاطب فرماتےتھے۔ اور صحابہ کرام آپ کو أبو ہریرہ کہہ کر بلاتے تھے۔(تاريخ دمشق لابن عساكر:۶۷/۳۱۳،وسنده حسن)
پیدائش:
آپ کی پیدائش ہجرت نبوی سے تقریباً بیس سال قبل ہوئی۔
قبول اسلام:
آپ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تشریف لانے سے قبل ہی سیدنا طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا تھا البتہ۷ھ میں غزوۂ خیبر کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور اس طرح آپ نے زائد از چار سال پیارے رسول ﷺ کی رفاقت میں گزارے۔(دفاع عن ابی ہریرۃ،ص:۲۵-۲۶)
حصول علم کا شوق:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ کو لازم پکڑ لیا ،سفر و حضر، جنگ و امن اور صحت و مرض ہر حال میں رسول رحمت ﷺ کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے، یہاں تک کہ اگر آپ ﷺ قضاء حاجت کے لیے جاتے تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کے لیے پانی کا برتن لے جاتے یا آپ کو مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر دیتے۔(صحیح البخاری:۳۸۶۰) بھوکے پیاسے آپ کے دروازے پر پڑے رہتے، انصار کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے، مہاجرین بازاروں میں کاروبار کر رہے ہوتے اور ابوہریرہ فرامین رسول ﷺیاد کر رہے ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری:۱۱۸)
آپ کے تمام صحابہ کرام سے زیادہ حدیث بیان کرنے کی وجہ بھی یہی ہے جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں لوگ کہتے ہیں: ابوہریرہ نے بہت احادیث بیان کی ہیں۔ اگر کتاب اللہ میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک بھی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر انھوں نے ان آیات کو تلاوت کیا:’’جو لوگ چھپاتے ہیں ان کھلی ہوئی نشانیوں اور ہدایت کی باتوں کو جو ہم نے نازل کیں ۔۔‘‘ الرحیم تک۔ بےشک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بازار میں خریدو فروخت کا شغل رہتا تھا اور ہمارے انصاری بھائی اموال و زراعت کے شغل میں لگے رہتے تھے لیکن ابوہریرہ تو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود رہتا تھا اور ایسے موقع پر حاضر رہتا جہاں لوگ حاضر نہ رہتے اور وہ باتیں یاد کر لیتا جو دوسرے لوگ یاد نہ کر سکتے تھے۔ (صحیح البخاری:۱۱۸)
آپ کے شوق علم اور اسے حاصل کرنے کی تڑپ کو دیکھ کر ایک بار اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ
[صحیح البخاری:۹۹](ابوہریرہ! مجھے یقین تھا کہ تجھ سے پہلے کوئی مجھ سے یہ بات نہیں پوچھے گا، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تجھے حدیث کی بڑی حرص ہے)
آپ کے بکثرت احادیث بیان کرنے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد کم وبیش پچاس سال تک زندہ رہے اور حدیث کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، اپنی پوری زندگی لوگوں کو احادیث پہنچانے اور احادیث پر عمل کے لیے وقف کردی۔
آپ کی اسی خوبی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک بار سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تھا:
أَنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ كُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعْلَمَنَا بِحَدِيثِهِ
(مسند احمد:۴۴۵۳، شیخ شعیب ارناووط نے’’إسناده صحيح على شرط مسلم‘‘ کہا ہے) یعنی اے ابو ہریرہ آپ ہم سب سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ کو چمٹے رہنے والے اور ہم سب سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیثوں کا علم رکھنے والے ہیں۔
تلامذہ:
آپ سے کم وبیش آٹھ سو لوگوں نے روایات بیان کی ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
روى عنه ثمانمائة رجل أو أكثر (التھذیب:۱۲/۲۶۵)شیخ عبد المنعم صالح العلی العزی نے آپ کے۷۲۵ شاگردوں کے نام مع حوالہ جات لکھے ہیں۔(دفاع عن أَبي هريرة،ص:۲۷۳-۳۱۲)
آپ کے شاگردوں میں انس بن مالک، جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور ابو امامہ رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ:
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کی دعا کی وجہ سے بڑا قوی حافظہ عطا فرمایا تھا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں پھر بھول جاتا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:ابْسُطْ رِدَاءَكَ(اپنی چادر پھیلاؤ) تو میں نے اپنی چادر دراز کردی، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو سا بنایا (اور چادر میں ڈال دیا)، پھر فرمایا: ’’اسے اپنے اوپر لپیٹ لو۔‘‘ میں نے اسے لپیٹ لیا، فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (اس کے بعد میں کوئی چیز نہیں بھولا)[صحیح البخاری:۱۱۹]
اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ ایک دفعہ مروان بن حکم اموی نے آپ سے کچھ احادیث لکھوائیں اور اگلے سال کہا:وہ کتاب گم ہو گئی ہے، وہی حدیثیں دوبارہ لکھوادیں۔ آپ نے وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔ بعد میں جب وہ کتاب مل گئی اور دونوں کو ملایا گیا تو ایک حرف کا بھی فرق نہ تھا۔(المستدرك للحاكم:۳/۵۱۰)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت:
بعض دشمنان صحابہ آپ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہہ کر آپ کی تنقیص اور توہین کرتے ہیں حالانکہ آپ نہ صرف عہد صحابہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے بلکہ آپ نے دور نبوت میں بھی بسا اوقات فتویٰ دیا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ۱۳ صاحب افتاء صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا ذکر چوتھے نمبر پر کیا ہے۔ (الاحكام في اصول الاحكام:۲/۹۲)جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ امیر المومنین فی الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی و مجتہد اور فقیہ بھی تھے۔ اسی لیے امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
أبو هريرة الإمام الفقيه المجتهد الحافظ صاحب رسول الله ﷺ ۔۔۔۔۔سيد الحفاظ الأثبات (السير:۲/۵۷۸)
تقوی اور دینداری:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بڑے متبع سنت اور پیارے رسول ﷺ کی ہر ہر حدیث پر عمل کرنے والے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان’’ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي ؛ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ الْوُضُوءِ‘‘ سنا ہے میں سونے سے پہلے، بیدار ہونے کے بعد،کھانے سے پہلے اورکھانے کے بعد بھی مسواک کرتا ہوں۔(مسند احمد:۹۱۹۴۔ شعیب ارناووط نے کہا: حديث صحيح وهذا إسناد قوي)
آپ کی عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ آپ نے رات کے تین حصے کر رکھے تھے، جن میں وہ، ان کی بیوی اور خادم باری باری نوافل پڑھتے تھے اور اس طرح آپ کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ساری رات عبادت میں ضرور مشغول رہتا۔ چنانچہ ابو عثمان سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں سات دن تک سیدنا ابوہریرہ ؓ کا مہمان رہا۔ وہ، ان کی اہلیہ اور ان کے خادم نے شب بیداری کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی۔ رات کے ایک تہائی حصے میں ایک صاحب نماز پڑھتے پھر وہ دوسرے کو بیدار کردیتے۔(صحیح البخاری:۵۴۴۱)
آپ کی خشیت الہٰی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے شاگرد امام محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی عمر کے آخری مرحلے میں یہ دعا مانگا کرتے تھے:
اللهم إني أعوذ بك أن أزني أو أعمل بكبيرة في الإسلام
( اے اللہ میں زناکاری یا اسلام میں کوئی بھی گناہ کبیرہ کرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں)
آپ کے ایک ساتھی نے کہا: آپ جیسی عظیم شخصیت ایسی بات کہتی ہے حالانکہ آپ عمر کے جس مرحلے میں پہنچ چکے ہیں سو پہنچ چکے ہیں، آپ کی شہوتیں ختم ہو چکی ہیں، آپ نے نبی ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہے اور آپ ﷺسے بیعت کی ہے اور آپ نے نبی ﷺ سے علم حاصل کیا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:تجھ پر افسوس! جب تک ابلیس زندہ ہے میں مامون اور بے خوف کیسے ہو سکتا ہوں۔(البيهقي:۲/۵۸، رقم:۸۳۰)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے مرض الموت میں ایک مرتبہ رونے لگے تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھاری اس دنیا پر نہیں رو رہا ہوں بلکہ اپنے سفر کی دوری اور زاد راہ کی قلت پر رو رہا ہوں، میں نے ایک دشوار چوٹی پر شام کی ہے جہاں سے اترنے کی جگہ جنت یا جہنم ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کہاں لے جایا جائے گا۔(الطبقات الكبرى لابن سعد:۴/۲۵۳، وسنده حسن)
مؤمنین اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے محبت:
رسول اکرم ﷺ کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی محبت کو ہر مؤمن کے دل میں ڈال دیا ہے، آپ کی محبت سے جس کا دل خالی ہو اس کو اپنے ایمان کی خیر منانا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجیے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا – يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ
(اے اللہ! اپنے اس پیارے بند ےیعنی ابوہریرہ اور اس کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے)
ابو ہریرہ کہتے ہیں:
فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي
( پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنا یا مجھے دیکھا ہواور مجھ سے محبت نہ کی ہو)[صحیح مسلم:۲۴۹۱]
سیدنا ابو ہریرہ کے تعلق سے امام ابو بکر محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے بڑی بہترین بات کہی ہے کہ:
چار طرح کے آدمی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر نقد کرتے ہیں:
(۱)جہمی معطل (جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں)
(۲) خارجی (تکفیری جو مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج اور بغاوت کے قائل ہیں)
(۳) قدری(معتزلی جو تقدیر اور احادیث صحیحہ کے منکر ہیں)
(۴)جاہل (جو فقیہ بنا پھرتا ہو اور بغیر دلیل کے تقلید کی وجہ سے صحیح احادیث کا مخالف ہو)
(المستدرك للحاكم:۶۱۷۶، وسنده صحيح)
حلیہ مبارک:
آپ کا رنگ گورا تھا، خوش مزاج اور رحم دل تھے، آپ سرخ خضاب لگایا کرتے تھے اور کاٹن کا کھردرا پھٹا لباس پہنتے تھے۔(طبقات ابن سعد:۴/۳۳۳-۳۳۴، وسنده حسن)
آثار علمیہ:
جہاں آپ نے آٹھ سو سے زائد شاگردوں کی عظیم جماعت تیار کی وہیں آپ نے صحابہ میں سب سے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں، جن کی تعداد امام ذہبی کے بقول۵۳۷۴ ہے۔ آپ کی طرف منسوب احادیث میں سے ۳۸۷۸ مسند احمد میں موجود ہیں۔(دفاع عن ابی ہریرۃ،ص:۲۶۷) آپ کے شاگرد ہمام ابن منبہ رحمہ اللہ نے آپ سے احادیث سن کر ۱۴۰ حدیثوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا جو سارے کا سارا بالکل صحیح ہےاور صحیفہ ہمام ابن منبہ کے نام سے شائع شدہ ہے۔ بغیر مکررات کے آپ کی کل حدیثوں کی تعداد کم وبیش ۱۴۷۵ ہے۔
وفات:
آپ مدینہ طیبہ کے قریب وادی عقیق میں فوت ہوئے اور آپ کا جسد مبارک مدینہ لایا گیا، ولید بن عتبہ بن ابو سفیان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو بقیع الغرقد میں دفن کیا گیا۔(دفاع عن أَبي هريرة،ص:۱۶۷)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو ہمارے اہل وعیال کو اور تمام مسلمانوں کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ و اہل بیت سے محبت کرنے والا، ان کے علم سے استفادہ کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنا دے اور ہم سب کو جنت میں ان کے ساتھ جمع فرمادے۔آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Anees Ahmad

ولید بن عتبہ نے نہیں بلکہ ولید بن عقبہ نے پڑھائی