لیبر ڈے یعنی مزدوروں کا عالمی دن

ریاض الدین مبارک

آج یکم مئی ہے اور کم وبیش ایک صدی سے یہ دن مزدوروں کے نام معنون ہے۔
خوش بختی کہیں یا بد قسمتی کہہ لیں اس دن کا سہرا بھی سرمایہ داری کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ کے ہی سر جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ چار مئی 1886 میں امریکی شہر شکاگو کے ہے مارکیٹ Haymarket ٹریجڈی کے تناظر میں پہلی مئی کو انٹرنیشنل ورکرز ڈے یا لیبر ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ لیا گیا۔ یہ فیصلہ بھی سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی آرگنائزیشن نے سن 1904 میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم میں ایک کانفرنس میں لیا تھا جہاں ایجنڈے کے اہم نکات میں جو بات بڑے شد مد سے اٹھائی گئی وہ تھی مزدوری کے لئے صرف آٹھ گھنٹے کی تخصیص اور مئی کی پہلی تاریخ کو یوم مزدور منانے کی۔ کانفرنس میں خوب مباحثہ ہوا اور بڑی اٹھا پٹھک ہوئی لیکن اس کے بعد بھی جب اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا تو کئی روز چلنے کے بعد کانفرنس کی طنابیں کھول دی گئیں اور کانفرنس ناکام ہو گئی۔ پھر کیا تھا پوری دنیا میں شور و واویلا مچا، مزدوروں کی عالمی تحریک چلائی گئی اور اس طرح جب ان تحریکوں نے زور پکڑا تو رفتہ رفتہ یکے بعد دیگرے کئی ممالک نے اسے تسلیم کر ہی لیا۔ کتنی عجیب بات ہے افسوسناک واقعہ رونما ہوا امریکہ میں اور اسکی یاد کو اَمَر کرنے کی خاطر آواز بلند کی گئی یوروپ میں!
امریکیوں نے چونکہ لیبر ڈے کے طور پر ستمبر کا پہلا سوموار پہلے ہی مخصوص کر رکھا تھا سو انھوں نے انٹرنیشنل کمیونٹی کے نئے اعلان کردہ تاریخ کو کوئی اہمیت نہ دی اور خود کو اس سے ممتاز رکھا۔ اب صرف امریکہ اور کینیڈا ہی ستبمر میں لیبر ڈے مناتے ہیں باقی دنیا سال بھر مزدوروں کا خون چوس کر جب تھک جاتی ہے اور مزدور کی آنکھ کا آنسو سوکھ جاتا ہے تب فرسٹ مئی کو انہی نیم مردہ مزدوروں کو آرام دینے کے لئے یوم تعطیل مناتی ہے۔
شروع شروع میں یہ دن مزدوروں کے نا ادا کردہ حقوق کی بازیافت، بیروزگاری اور افلاس کا خاتمہ، نوکریوں کو سیکیورٹی کی فراہمی کے علاوہ مزدور یونینوں کی آزادی اور سوشل تحفظ جیسے مسائل کے لئے مختص کیا گیا تھا لیکن جوں جوں کمیونزم کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی اور سرمایہ داری کا عفریت مزید تونگر ومستحکم ہوتا گیا یہ دن بھی آہستہ آہستہ صرف ورکرز یعنی مزدوروں میں کم مراعات یافتہ طبقے کی سماجی اور اقتصادی محرومیوں کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔
فی زمانہ مزدوروں کی سب سے زیادہ سرگرم تنظیمیں یوروپ میں ہیں اور انتہائی طاقتور تصور کی جاتی ہیں۔ آج بھی وہ اس ورکرز ڈے پر جرمن فلاسفر کارل مارکس کو خصوصی طور پر یاد کرتی ہیں کیونکہ وہ شخص کارل مارکس ہی تھا جس نے سرمایہ داری کے نظام کو للکارا اور محنت کشوں کو ایسی زبان عطا کی جو انمول ہے۔ اس فلسفی کے افکار نے جہاں اوروں کو متاثر کیا وہیں علامہ اقبال بھی اس سحر کی تاثیر سے نہ بچ سکے اور اسی کارل مارکس کی فکر میں ڈوب کر اپنی وہ نظم لکھی جسکا عنوان ہے:

(لینن خدا کے حضور میں)

چنانچہ علامہ آفاقی فرماتے ہیں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
یوں تو مزدوروں کا یہ دن عالمی سطح پر منانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، گلوبلائزیشن کے اس دور میں آجر (ایمپلائر) اور مزدور کے تعلقات کے ڈائمنشن بدل بھی رہے ہیں لیکن سرمایہ داروں کا نظام اب بھی اسی تاک میں ہے کہ مزدوروں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے، یہ بات اور ہے کہ وقتی طور پر اسکا سورج گہن آلود ہوگیا ہے! حالات اس بات کے غماز ہیں کہ بادلوں کے اوٹ سے سرمایہ داری کا سورج پھر طلوع ہوگا اور دنیا پھر سے کراہنا شروع کرے گی!

دین اسلام نے بھی مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے سخت قوانین بنائے، مزدوروں سے متعلق احادیث میں موجودہ ضوابط کو اگر نافذ کردیا جائے اور آجر و ماجور کے رشتے کو اسلامی کسوٹی پر پرکھ کر لائحہ عمل تیار کیا جائے تو معاشرے میں مزدور کا استحصال ختم ہوجائے! لیکن افسوس مزدوروں کے حقوق کی پائمالی میں مسلم ممالک اور مسلم معاشرہ دوسروں سے چار قدم آگے ہیں! اس کی وجہ صرف اسلامی اصولوں کے نفاذ سے بیزاری ہے!

اردو زبان کے ترقی پسندوں نے مزدور اور محنت کش کے موضوع پر بہت کچھ لکھا، بہت آواز اٹھائی اور بالکل ناکام تو نہیں کہہ سکتے کچھ کامیابی ضرور ملی۔ کیفی اعظمی نے بھی اپنے قلم کا جوہر دکھایا اور مزدوروں کو ان کے عالمی دن پر انہیں جگانے کی یوں کوشش کی:

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی

یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر
ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے

ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے
کی یہ دیوار بلند، اور بلند، اور بلند
بام و در اور، ذرا اور سنوارے ہم نے

آندھیاں توڑ لیا کرتی تھیں شمعوں کی لویں
جڑ دیئے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورش تعمیر لیے

اپنی نس نس میں لیے محنت پیہم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لیے
دن پگھلتا ہے اسی طرح سروں پر اب تک
رات آنکھوں میں کھٹکتی ہے سیہ تیر لیے

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی

 

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
صفی الرحمن (منّا)

سکّے کا دوسرا رخ :
اس دور کا سب بڑا “مزدور” کسی بھی فرم کا اصل” مالک” ہوتا ہے..
جو تمام مزدور، مینیجر، ساہوکار، پارٹی وغیرہ.. تمام لوگوں کو جھیلتے ہوئے اپنی کمپنی کو برقرار رکھتا ہے…
یہ خوش لباسی، لبادہ ہے غم چھپانے کا.
اگر چہ اجڑے ہوئے ہیں، مگر سجے ہوئے ہیں.