مولانا امیرالحسن ندوی رحمہ اللہ (۱۹۵۲-۲۰۲۰)

عبدالخالق محمدی تاریخ و سیرت

یوں تو ہر انسان کو دنیا چھوڑ جانا ہے لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے اور جن کی خدمات کی وجہ سے وہ ہمیشہ یادرہ جاتی ہیں۔ انھی شخصیات میں سے ایک امیرالحسن ندوی رحمہ اللہ بھی تھے۔ ۳؍نومبر ۱۹۵۲(سوموار) کو پیدا ہوئے تھے، ۲۷؍ستمبر۲۰۲۰(اتوار) کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
مولانا امیرالحسن ندوی رحمہ اللہ جو میرخان مطوع کے نام سے عوام میں مشہور و معروف تھے، بھوج کچھ گجرات کے ایک چھوٹے سے سرحدی گاؤں گھوریوالی سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک سرحدی غیر ترقی یافتہ پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود علم حاصل کرنے کا عزم مصمم کیا۔اس وقت سوئیلہ گاؤں میں ایک مدرسہ تھا جہاں ضلعی امیر مولانا عبداللہ رحمہ اللہ استاد تھے، ان کے پاس ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر جامعہ سلفیہ شکراوہ تشریف لے گئے۔ وہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی طرف رخ کیا۔ ۱۹۷۱ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ وہیں نوکری بھی مل رہی تھی لیکن اصلاح قوم اور اپنے علاقہ کی تعلیم و ترقی کی خاطر اپنے گھر لوٹ آئے اور اپنی خدمات کے سفر کا آغاز سرزمین پچھم کے ایک گاؤں دینارا کے ایک فلاحی ادارے میں سماجی کارکن کی حیثیت سے کیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد اپنے گاؤں گھوریوالی تشریف لے آئے اور مدرسہ و اسکول کی بنیاد رکھی۔ مکتب جو گاؤں میں چلتا تھا اسے بھی ضم کرکے ایک جامعہ کی شکل دی۔ یہ وہ دور تھا جب ایسا تنظیمی شعور کسی اور کے اندر نہیں تھا، اس وقت علاقہ کچھ میں صرف تعلیمی پسماندگی ہی نہیں بلکہ سیاسی سوجھ بوجھ کی بھی کمی تھی اور لوگ سیاست سے دور ہی دور رہتے تھے۔ موصوف نے تعلیم و سیاست کی طرف توجہ کی اور ایک قائد و رہبر بن کر تعلیم کی طرف قوم کی توجہ مبذول کرائی۔ یہاں کے لوگوں نے بھی پرخلوص ہو کر تعاون کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں ہی ایک سیاسی انقلاب آ گیا۔ ساتھ ہی اعلی و معیاری تعلیم کے مراکز مختلف جگہوں پر قائم کیے جن سے ہزاروں طلبہ مستفید ہو کر آج اپنی اپنی فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔
اللہ رب العزت نے آپ کو دینی و دنیوی دونوں حلقوں میں اعلی مقام دیا۔ اسی طرح جماعت و جمعیت سے بھی ہمیشہ منسلک رہے، ساتھ ہی قوم و سماج کے مسائل کو حل کرنے میں بھی پیش پیش رہے نیز تعلیم و سیاست کو اپنے سر کا تاج بنائے رکھااور زندگی کے آخری ایام تک تعلیم و سیاست سے جڑے رہے۔
اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا۔ خوش مزاج، نرم دل، صلح پسند، مہمان نواز، حق گو، اچھے خطیب اور خوب سیرت انسان تھے۔ چہرہ پر ہمیشہ تبسم ہوتا تھا۔ ہر امیر غریب مسلم غیر مسلم آدمی کے مسائل کو سنتے اور حل کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔اپنے اہل و عیال کا بھرپور کا خیال رکھتے تھے۔
میں نے آپ کی زندگی میں بہت ساری مشکلات دیکھیں لیکن ان کے اثرات چہرے پر نہ کے برابر تھے۔ ہمیشہ پریشانیوں کو بلندی کی طرف چڑھنے کا زینہ بنایا اور معترضین کے اعتراضات کے باوجود اپنا وقار مجروح ہونے نہیں دیا بلکہ دشمنوں سے ہنس کر ملاقات کیا کرتے تھے۔ آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ہر چھوٹے بڑے سے شفقت و احترام سے پیش آتے تھے۔ اتنے بڑے بڑے کام کرنے کے باوجود عاجزی و انکساری ایسی تھی کہ ہر آدمی اپنی بات کھل کر کرسکتا تھا اور اکثر مسائل کا جواب مثبت لہجہ میں ہی ملتا تھا۔
اپنی سیاسی سوچ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ سیاست کرنا ہے تو مولانا ابوالکلام آزاد جیسی کرو جنھوں نے پورے ملک کا رخ بدل دیا۔اسی طرح اکثر آپ اپنے خطاب میں اتحاد و اتفاق کے متعلق کہا کرتے تھے:’’ایک بنو نیک بنو‘‘
کئی خطابات میں میں نے آپ سے یہ شعر بھی سنا جو علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید کو خط میں لکھا تھا کہ؎

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

ایک اور شعر بھی آپ اکثر پڑھا کرتے تھے؎

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

علاقہ میں جہاں بھی پروگرام ہوتا وہاں ضرور شرکت فرماتے اور اکثر آپ تعلیم کی اہمیت کے متعلق ہی بات کرتے تھے۔اپنے وطن سے محبت اور اپنے دین کو ترجیح دینے کے متعلق کہا کرتے تھے کہ ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں پہلے ہم مسلمان ہیں پھر ہندوستانی ہیں۔
یقینا اللہ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا۔ جس طرح ایک عمارت کی تعمیر ہوتی ہے بالکل اسی طرح قوم و معاشرہ کی تعمیر آپ نے کی اور اپنی شخصیت کو علم و ادب، حکمت و دانائی اور خطابت و سیاست سے ایسے سنوارا کہ ہر آدمی اس کا معترف ہوگیا۔
آپ کی زندگی ایک خوبصورت باغ کی طرح تھی جس میں قسم قسم کے پھل پھول تھے جس سے طرح طرح کے جانداروں نے خوشبو اور غذا حاصل کی۔آپ کی اس علاقہ میں محنت کی مثال ایسی تھی جیسے ریگستان میں کھیتی کرنا جہاں کھارا پانی اور کھاری زمین ہو لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ واقعی ایک اعلی و معیاری کام ہوا ہے۔ ہزاروں طلبہ نے دینی و عصری تعلیم حاصل کی اور ہنوز جاری ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
سیاسی امور میں بہت ہی دقیق اور منفرد فکر رکھتے تھے۔ اللہ نے آپ کو علم کے ساتھ حکمت بھی دی تھی۔ اپنے سیاسی قد کا استعمال کبھی بھی کسی سے انتقام لینے کے لیے نہیں کیا۔ مولانا بہت ہی صابر و شاکر انسان تھے، اپنی تکلیف کو چہرہ پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے نہ ہی اس کا ذکر مناسب سمجھتے تھے۔
مولانا کی وفات بہت مختصر علالت میں اچانک ہوئی اس لیے جب جہاں جس کو خبر ملی وہ بے ساختہ انا للہ پڑھ کر آپ کے جنازہ میں شرکت کے لیے نکل پڑا۔ شام کے وقت آپ کاانتقال ہوا۔ رات میں ساڑھے دس بجے گھوریوالی گاؤں میں ہی لوگوں کی کثیر تعدادجمع ہوگئی۔ لوگوں کی کثرت اور کورونا لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو دیکھتے ہوئے پہلی جنازہ نماز گاؤں کے اندر ہی پڑھی گئی اور دوسری قبرستان کے پاس پڑھی گئی ۔
کچھ اہم ادارے جو آپ نے قائم کیے:
(۱)مولانا آزاد اتر بنیادی ہائی اسکول گھوریوالی
(۲) امیر فیصل اتر بنیادی ہائی اسکول نَرا لکھپت
(۳) امیر فہد اتر بنیادی ہائی اسکول جونا تگا
(۴) حاجی دلیل خان اتر بنیادی ہائی اسکول ہوڑکا
(۵)الحاج زکریا اتر بنیادی ہائی اسکول بھنڈیارا
(۶) بکشی پنچ آشرم شاڑا گھوریوالی
(۷) امیر فواد انگلش میڈیم اسکول
(۸) المعھد الاسلامی گھوریوالی
(۹) آئی ٹی آئی
اللہ رب العزت آپ کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے، تمام خطاؤں کو درگزر فرمائے اور تمام حسنات کو قبول فرمائے نیز تمام علمی و سیاسی خدمات کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔آمین یا رب العالمین

آپ کے تبصرے

3000