مسئلہ فلسطین: فلسطینی قیادت، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا کردار

ساجد ولی المدنی سیاسیات

حالیہ دنوں العربیۃ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا ایک چشم کشا انٹرویو بندر بن سلطان کے ساتھ
اردو قالب: ساجد ولی المدنی

بندر بن سلطان مملکت سعودی عرب کے نہایت دانش مند سیاسی اور ڈپلومیٹ رہے ہیں۔ حالیہایام میں عالم اسلام کی موجود سیاسی ہما ہمی نیز مملکت توحید کے خلاف سیاسی مورچہ بازی کے گرم ماحول میں العربیۃ ٹیلی ویژن نے آپ کا ایک نہایت معلوماتی چشم کشا انٹرویو نشر کیا ہے۔جس میں آپ نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ دوسرے اور مسائل سے متعلق بڑے حیران کن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔آپ کے اس انٹرویو کو یہاں بنیادی نکات کی شکل میں قارئین کی دیدہ گزار کیا جاتا ہے۔ملاحظہ ہو مسئلہ فلسطین کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں:
– حالیہ دنوں فلسطینی قیادت کی زبانی مملکت سعودی عرب کے خلاف بیان بازیاں نہایت تکلیف دہ امر ہیں، کیونکہ خلیجی ممالک اور ان کے حکمرانوں کے خلاف یہ بدکلامی ایسے لوگوں کی طرف سے سامنے آئی ہےجو یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے انھیں سارے مسلم ممالک کا ساتھ چاہیے۔یہ بدکلامی ناقابل قبول ہی نہیں بلکہ مردود ہے،البتہ آپ اس موضوع پر دوسرے ناحیے سے غور کریں گےتو آپ کو ان کی طرف سے کسی کو خائن قرار دینے کی عادت کوئی زیادہ تعجب خیزنہیں لگےگی۔کیونکہ ان کے باہمی تعاملات میں وہ اس چیز کے عادی ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس کی مغوبی کنارے والی حکومت غزۃ کی انفصالی حکومت کواس بات سے متہم کرتے رہی ہے کہ انھوں نے ہمارےساتھ خیانت کی اور ہماری پیٹھ پر وا ر کیا۔
– آخری سالوں میں بجائے اس کے کہ ہماری ساری کوششیں اس بنیادی مسئلے کے حل پر مرکوز ہوتیں تاکہ اس کا کوئی مناسب حل نکل سکے،ہماری کوششیں کسی اور رخ پر لگ گئی ہیں۔اس طعن وتشنیع سے میرے ذہن میں مسئلہ فلسطین سے متعلق بہت ساری یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔جن کا تعلق ۱۹۷۸ ء سے لے کر ۲۰۱۵ء کے درمیانی حادثات سے ہے۔بنفس نفیس میں نے خود جن کا بڑےقریب سے مشاہدہ کیا ہے۔میں کچھ یادوں کو اپنی سعودی قوم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
– ۱۹۳۹ ء سے لے کر ۱۹۷۸ء تک سعودی قیادت کے مواقف کا میں نے بلا واسطہ مشاہدہ تو نہیں کیا ہے البتہ یہ مواقف ثابت شدہ حقائق ہیں اور میں نے ڈپلومیٹک ڈیوٹی جوائن کرنے کے بعد ڈائریکٹ ان لوگوں سےانھیں سنا ہے جنھوں نے بنفس نفیس ان مواقف کا مشاہدہ کیا ۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک عبد العزیز اور آپ کے جانشینوں نے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ اپنے دل میں سجا کر رکھا۔اور کھل کر عالمی برادری کے سامنے اس کے عادلانہ حل کے لیے آواز اٹھائی۔ حتی کہ ملک عبد اللہ رحمہ اللہ تعالی علیہ نے اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ فلسطینی خون کا ایک قطرہ پوری زمین کے خزانوں اور اس کے مشمولات سے متفوق اور قیمتی ہے۔
– میں یہاں پر چند بنیادی باتیں ذکر کرنے سے قبل مقدمے کے طور پر ایک بات کہتا ہوں وہ یہ کہ فلسطینی قضیہ مبنی بر عدل قضیہ ہے۔ البتہ اس کی وکالت کرنے والےناکام لوگ ہیں۔اس کے بالمقابل اسرائیلی قضیہ مبنی بر ظلم مسئلہ ہے البتہ اس کی وکالت کرنے والا فریق اپنی پالیسیوں میں کامیاب ترین فریق رہا ہے۔
– یہاں پر ایک بات سارے فلسطینی قائدین کے اندر قدر مشترک رہی ہے وہ یہ کہ انھوں نے اپنے موقف کی تقویت کےلیے ہمیشہ کمزور سہاروں پر تکیہ کیا ہے۔جیسا کہ ہٹلر کے خلاف صف بستہ ممالک کوچھوڑ کر جرمن نازی حکومت پر تکیہ کرنا،نیز کویت پر صدام کے ناجائز قبضے کے بعدابوعمار یاسر عرفات کا صدام حسین کے ساتھ مل کرخوشی کا اظہار کرنا اور مراسم الفت ومحبت قائم کرنا۔ اس وقت پورے خلیجی ممالک بشمول کویت فلسطینی قضیہ کے ساتھ کھڑے تھے،اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ فلسطینی قیادت صدام حسین کے ساتھ کھڑی ہے۔ساری خلیجی برادری کو اس بات سے نہایت گہرا صدمہ پہنچا،خصوصا صدام کے ناجائز قبضہ کے خلاف آواز اٹھانے والی کویتی عوام کو۔
– فلسطینی قیادت کے غیر موفق مواقف–جنھوں نے قضیہ فلسطین کو بھاری نقصان پہنچایا – کی ایک مثال اس دردناک حادثے کے چند ماہ بعد یہ دیکھنے کو ملی کہ صدام حسین سعودی عرب کی راجدھانی ریاض پر ان میزائلوں سے بم باری کرتا ہے جنھیں ایران کے خلاف عراقی جنگ کے دوران خود سعودی عرب نے خرید کر اسے مہیا کرایا تھا۔ پھر اس حادثے پر نابلس کے اندر کچھ ناسمجھ نوجوان صدام کی تصویر لیے مارے خوشی کے رقص کرتے نظر آتے ہیں۔یہ باتیں بھولنے کی نہیں ہوتیں، البتہ ہم نے فلسطینی عوام کی بھلائی کے لیے انھیں نظرانداز کیا۔
– ۲۰۱۱ء سے لے کر آج تک مصر اور مصر کی ساری قیادتیں لگاتار صرف اس مقصد کے لیے کانفرنسوں پر کانفرسیں منعقد کرتی چلی آرہی ہیں کہ فلسطینی قیادتوں میں باہم صلح وصفائی کراکر اتحاد قائم کیا جا سکے۔آپ ہی بتلائیں یہ عقل مندی ہے؟ ہم عالمی برادری کے سامنے کس کو اس قضیہ کا ذمہ دار بناکر پیش کریں؟ فتح یا حماس، کسے؟
– تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہےاور حقائق کو بھلاپانا نہایت ہی مشکل امر ہے۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہےکہ یہ آپس میں اختلاف کا شکار ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو خائن قرار دے رہے ہیں۔ملک عبد اللہ رحمہ اللہ نے ابومازن اور اس کے ساتھیوں اور خالد مشعل اور اس کے ساتھیوں کو باہم اکٹھا کیا،امیر سلطان اس وقت کے ولی عہد تھے، انھیں اس لیے لایا گیا تاکہ وہ باہم صلح کرلیں اور ہم فلسطینی متحد قیادت کے موقف کو قوت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے پیش کرسکیں اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو ملیں۔ مکہ کے اندر ان کا قیام رکھا گیا، تقریبا ڈیڑھ دن کی کوششوں کے بعد بعض چند مشترکہ نکات پراتفاق ممکن ہوسکا، ملک عبد اللہ رحمہ اللہ نے فریقین کو اس باہمی اتفاق پر مبارک باد پیش کی اور امیر سعود الفیصل – جو کہ اس وقت سعودی وفد کی قیادت کررہے تھے -سے کہا کہ سارے بھائیوں کو بیت اللہ لے جاؤ اور اللہ تبارک وتعالی اور فلسطینی قوم کی شہادت میں ان کا معاہدہ طے کراؤ۔ہوا یہ کہ وہ سعودی عرب سے لوٹنے کے چند روز بعد ہی اختلاف کا شکار ہوگئے اور ہمارے پاس دونوں طرف سےعہد شکنی کی خبریں آنے لگیں کہ فریقین میں سے ہر فریق اپنے کیے ہوئے وعدے سے مکر چکا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں لگ گیا ہے۔ ہم اپنی اچھی نیت کے چلتےہمیشہ یہی کاز بار بار دہراتے، وہ جب بھی ہم سے مالی وفکری تعاون کی درخواست کرتے ہم بلا شرط ان کا تعاون بھی کرتے اور بہتر مشوروں سے بھی نوازتے۔اور جب وہ مساعدہ لے کرواپس فلسطین لوٹتے توہماری نصیحت اورمشوروں کے بالکل خلاف عمل کرتے۔پھر ناکامی کاسامنا کرنا پڑتا۔ ہمارے پاس دوبارہ آتے، ہم یہ جانتے ہوئے بھی ان کی تائید کرتے کہ انھوں نے ہمارے مشورہ پر عمل نہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
ہمیں یہ بھی علم ہوتا تھا کہ وہ اس بات کو جان رہے ہیں کہ ہم نے انھیں جو مشورہ دیا تھا وہی بہتر تھا۔پھر ہم دنیا کے مختلف ممالک سے رابطہ کر انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ فلسطینیوں نے جو موقف اختیار کیا ہے وہی حق ہے، جب کہ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ ان کا وہ عمل صحیح نہیں تھا،ہم یہ بالکل نہیں چاہتے کہ ان کے خلاف کسی اور فریق کے ساتھ کھڑے ہوں،البتہ ہم ان سے ایسا موقف ضرورچاہتے تھے جو فلسطینی عوام کے حق میں بہتر ہو۔ ہمیشہ سعودی قیادت کی یہی پالیسی رہی۔میرے خیال میں ان کی اس روش سے ان کے اندر ایک ناحیہ سے لاابالی پن او ردوسرے ناحیے بے فکری جیسی صفات پیدا ہوگئیں۔ انھیں یہ یقین ہوچلا کہ سعودی عرب یا خلیجی ممالک کے معاملے میں وہ جو چاہے کریں انھیں اس کی کوئی قیمت نہیں چکانی ہوگی۔میں سمجھتا ہوں کہ اب حالات بدل چکے ہیں، فلسطینی عوام ابھی ایسے پروپیگنڈے دیکھ اور سن رہی ہے جو پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آئے یا سرے سے انھیں نشر ہی نہیں کیا گیا۔
آپ دیکھیں آج یہ لوگ کن لوگوں کو اپنا سچا حلیف سمجھ بیٹھے ہیں۔ایران جو فلسطینی عوام کی مصلحت کو پس پشت ڈال کر اس قضیہ سے اپنی سیاست چمکانے میں لگا ہے،کہتے ہیں کہ یہ ایران اور خامنی قدس شریف کو یمن، لبنان اور شام کے راستے آزاد کرائیں گے۔ اگر وہ حقیقت میں یہ چاہتے ہیں تو قدس کا راستہ معروف ہے، حماس کے قائدین ترکی اس لیے گئے تاکہ وہ اردگان کا شکریہ ادا کریں کیونکہ وہ حماس اور مسئلہ فلسطین کےمفاد میں امارات سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ کوئی ہے جو مجھے یہ بتلا سکے کہ کیا حماس کی قیادت نے اردگان سے اس مجلس میں یہ مطالبہ بھی کیا ؟ کہ بجائے اس کے تم اپنے خرچے سے امارات سےاپنے سفیر کو واپس بلاؤ۔ انقرہ میں تمھارے پاس اسرائیلی سفارت خانہ ہے اسے بند کرو اور تل ابیب میں بیٹھے ہوئے ترکی کے سفیر کو واپس بلالو۔ لیکن یہ لوگ- جیسا میں نے آپ سے پہلے کہا – ان کے دل میں کینہ ہے،اللہ کے کلام میں کوئی اخذ ورد کی گجائش نہیں: {إن اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسہم} یعنی اللہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی۔ آج تک بلا شک وشبہ وہ بذات خود –یعنی فلسطینی –ان بڑے اسباب میں ایک ہیں جن کے چلتے مسئلہ فسطین کو بھاری نقصان پہنچا۔
۱۹۳۹ء میں عالمی برادری نے یہ فیصلہ کیا کہ برطانیہ میں مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک کانفرنس منعقد کی جائے، جس میں یہود اور فلسطینی قیادتوں کو دعوت دی جائے۔ بعض عرب ممالک کوبھی اس میں شامل کیا گیا، مملکت سعودی عرب کو بھی اس کانفرس میں شمولیت ملی۔ ہم سب حاضر ہوئے،ہمارے وفد کی قیادت امیر فیصل کے ہاتھ میں تھی۔ اس میں بطور رکن کے امیر خالد بھی شامل تھے، برطانیہ کی طرف سےپیش کردہ تجویز کو یہود نے مسترد کردیا۔فلسطینیوں نے بھی اسے ٹھکرا دیا۔ فطری بات تھی کہ خلیجی ممالک بھی اس کی تائید کرتے۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد ہی برطانیہ جنگ عظیم دوم میں مشغول ہوگیا اور فلسطینی قضیہ اس کے لیے ایک ثانوی قضیہ بن گیا۔ اسی دوران فلسطینی سرزمین پر کچھ اسرائیلی مسلح گروپس سرگرم عمل ہوئے اور فلسطینی عوام کے خلاف فوجی قتل، ٹارگیٹ کلنگ اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بالمقابل دفاعاً کچھ فلسطینی مسلح دستے بھی وجود میں آئے۔
۱۹۴۵ ءمیں عالمی جنگ عظیم دوم کے اختتام سے چند دنوں قبل ملک عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی نےصدر روزویلٹ کے ساتھ ایک ملاقات کی، جس میں ایک بڑا وقت فلسطینی مسئلے پر بحث ومباحثے کے لیے مختص کیا گیا۔ یہ ملاقات فروی ۱۹۴۵ میں منعقد ہوئی۔ اس کے دو تین ہفتہ بعد یعنی مارچ ۱۹۴۵ میں ملک عبد العزیز نے صدر روزویلٹ کو ایک لمبا خط لکھا جس میں آپ نے اپنی ان باتوں کو دہرایا جو دوران ملاقات ان سے ہوئیں تھیں تاکہ وہ جواب دیں اور طے شدہ باتوں کی تصدیق بھی ہوجائے۔ یہ دونوں خطوط ابھی بھی ہمارے پاس موجود ہیں او رمیں ان کی تفصیلات سعودی شہریوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ انھیں یہ علم ہوسکےکہ سر زمین فلسطین کے اندر بعد کے زمانے میں پیش آمدہ خون آشام حوادث سے سالہا سال پہلے سعودی قیادت اس مسئلہ کے حل کے لیے کتنی فکر مند تھی۔ میں یہاں ایک بات یہ بتلاتا چلوں کہ سنہ ۱۹۴۵ ء میں دو حادثات اور پیش آئے،عرب یونین کا قیام جس کے پانچ چھ اراکین ممالک میں مملکت سعودی عرب بھی حصہ دار تھی اور عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام۔
چنانچہ ۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۹۴۷ تک برطانیہ نے یہ طے کر لیا کہ وہ فلسطین کے اندر اپنی ذمہ داری کو ختم کر نے کے لیےکوئی ایسا حل ڈھونڈ نکالیں گے جس کو فلسطینی قیادت اور یہود کی موافقت حاصل ہواور عرب بھی اس پر اتفاق کرسکیں تاکہ یہ خطہ پرسکون ہوجائے۔ لیکن جب بد قسمتی سے وہ کوشش بسیار کے بعد خودکسی متفق علیہ حل تک نہیں پہنچ سکےاور انھوں نے اس کے تصفیے کے لیے سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس وقت اس کی رکنیت امریکہ، سوویت یونین، فرانس اور برطانیہ کے پاس تھی۔ اقوام متحدہ کے دائمی ارکان کی قراردادیں تنفیذ کا حق رکھتیں تھیں اور یکساں طور پر انھیں ویٹو پاور حاصل تھا۔ اس کونسل میں وہ ۱۸۰ نمبر قرارداد تقسیم کو پاس کردیتے ہیں۔ اس میٹنگ میں شرکت کرنے والا یہودی وفد دو حصوں میں منقسم تھا البتہ ان میں سرکاری وفد قرارداد نمبر ۱۸۰ پر اس لیے اتفاق کرلیتا ہے کیونکہ قرارداد میں سر زمین فلسطین کے اندر ہی فلسطینی اور یہودی دو اسٹیٹ کے قیام کی بات تھی۔ گرچہ اس قرارداد کے اندر مکمل فلسطینی حقوق کی رعایت نہیں کی گئی تھی، پھر بھی یہ قرارداد دو ایسے ممالک کی تاسیس کی مجاز تھی جنھیں عالمی برادری میں حصد داری ملتی اور اقوام متحدہ کی رکنیت بھی۔یہودی وفد کا دوسرا غیر رسمی فریق قرارداد نمبر ۱۸۰ کو ٹھکرا رہا تھااور لگاتار دہشت گردی قتل وخون خرابہ جیسے حالات کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ چونکہ ان میں سے سرکاری وفد نے اس قرارداد کو مان لیا، اس لیے انھیں ایک ملک کی حیثیت سے عالمی برادری میں جگہ مل گئی اور اقوام متحدہ کی رکنیت بھی۔فلسطینی فریق نے اس قرارداد کو ٹھکرا دیا، ان کا ساتھ دیتے ہوئے خلیجی ممالک نے اسےماننے سے انکار کردیا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس کےبہت سالوں بعد فلسطینی اتھارٹی عالمی برادری سےمطالبہ کرنے لگی کہ اب اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۱۸۰ پر عمل در آمد کرایا جائے۔آپ نے پہلے تو اسے مسترد کردیا تھا، اب آپ سے اس مسئلے پر کون بات کرے گا۔ آپ کے پاس کوئی قانونی اسٹیج ہی نہیں، فلسطینی سرزمین پر پیش آمدہ حادثات کے بہت سارے مقدمات، اسباب اور پلیٹ فارم ہیں جہاں سے انھیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ۱۹۴۸ کی جنگ ہوتی ہےکیونکہ یہود نے فلسطینی عوام پر ظلم کی انتہا کر رکھی تھی جسے دیکھتے ہوئے عرب لیگ کے ممالک نے یہ طے کیا کہ وہ فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے ڈائریکٹ جنگ میں کود پڑیں۔
مسئلہ فلسطین سے متعلق ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کا اپنا ایک موقف اور عرب لیگ کے اراکین کو ایک نصیحت تھی، یہ دو نکات پر مرکوز تھی:
پہلا یہ کہ فلسطینی حدود سے لگے مسلم ممالک پر واجب ہے کہ وہ کسی بھی فلسطینی کو ہجرت کی اجازت نہ دیں،فلسطینیوں کو ان کی زمین ہی پر رکھا جائےکیونکہ اگر انھیں ہجرت کی اجازت دی جاتی ہے تو انھیں پناہ گزیں خیموں میں رکھ دیا جائے گا۔ ہاں اگر انھیں خیموں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے تو سرزمین فلسطین ہی پر ان کے خیمے بنائے جائیں۔آپ کی رائے تاریخ سے صحیح ثابت ہوئی کیونکہ ابھی شام، لبنان، اردن پناہ گزینوں کے خیموں سے بھرے پڑے ہیں۔ آپ سوچیں کہ اگر یہ خیمے سرزمین فلسطین پر ہی ہوتے تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ خیمے کیسے فلسطین کی داخلی صورت حال پر اثر انداز ہوتے۔
دوسرا نکتہ یہ تھا -جس پر ملک عبد العزیز کی رائے مرکوز تھی – کہ عرب لیگ مال اسلحے اور رضاکار فوج کے ذریعہ فلسطینیوں کی مدد کرےاور عرب فلسطین کی طرف اس مقصد سے ہجرت کریں۔ من وعن اسی طریقے سے جس طریقے سے یہود اسرائیل کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔دونوں رایوں کو عرب برادری نے رد کردیااور سعودی عرب نے بھی (ید اللہ مع الجماعہ) نیز ( من شذ شذ فی النار) کے اصولوں پر چلتے ہوئے اپنی رائے ترک کردی کیونکہ اگر ہم شاذ موقف اپنائیں گے تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے۔
پھر ۱۹۴۸ ء اور ۱۹۵۶ ء کی درمیانی مدت میں مصر پر تہرا حملہ ہوا۔اس کی قیادت سیکورٹی کونسل کے دو دائمی ارکان ممالک برطانیہ اور فرانس کے ساتھ اسرائیل کے ہاتھ میں تھی۔یہ حملہ دو سبب کے چلتے ناکام ہوا:
پہلا سبب: یہ کہ امریکہ اور وہاں کے آرمی چیف ڈوائٹ دی ایزہاور Dwight D Eisenhower اس حملے کے خلاف تھےاور اس بات پر مصر تھے کہ یہ تینوں ممالک مصر سے اپنی فوج واپس بلائیں اور اس حملے کو بند کریں۔ سویت یونین نے بھی مصر کی مدد کی، جس کی بنیاد پر حملہ آوروں کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلالیں۔
دوسرا سبب: یہ تھا کہ مصر کی داخلی مزاحمت – جو اس وقت جنگ کے لیے بالکل تیار نہ تھی – کو جمال عبد الناصر نے نہر سویز پر مرکوز کردیا تھا۔ اس حملے سے متعلق وہ باتیں جو عام لوگوں کو معلوم نہیں وہ یہ کہ اس تہرے حملے کے نتیجے میں نہر سویز پر فرانس اور برطانیہ کا قبضہ ہوگیا او رصحرائے سیناء پر اسرائیل نے قدم جما لیے۔ بعد میں برطانیہ اور فرانس نے تو نہر سویز سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں، البتہ اسرائیل نے صحرائے سیناسے فوجیں ہٹانے کے لیے ایک شرط رکھی وہ یہ کہ خلیج عقبہ پر عرب ممالک کی طرف سے اسرائیلی بحری آمد ورفت پر لاگو پابندی کو ہٹایا جائےاور اسرائیلی مصری بورڈر پر بین الاقوامی ایمرجنسی افواج کی پہرہ داری قبول کی جائے۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی بد نیتی کے علاوہ مصر اسرائیل جنگ بھڑکنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ مصر نے خلیج عقبہ کو بند کردیا تھا اور اپنی اسرائیل سے لگی سرحد سے بین الاقوامی فورس کی نگرانی ہٹا لی تھی۔ یہ جنگ بالخصوص مصر اور بالعموم سارے عرب کے لیے بہت بڑا سانحہ ثابت ہوئی جس سے فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین کو بھاری نقصان پہنچا۔
آپ کو معلوم ہے ۱۹۶۷ء کی تباہی کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصرکے صدر جمال عبد الناصر رحمہ اللہ نے جنگی پالیسی تو بڑی اسٹریٹجک بنائی تھی لیکن اس کی بنیاد وہ غلط اور غیر دقیق معلومات تھیں جو اس وقت کی فوجی قیادت کی طرف سے اسے مل رہیں تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی فوج ایک خاص پوزیشن میں ہے جبکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔نتیجہ وہ ہوا جو آپ نے دیکھا، صحرائے سینا ہاتھ سے نکل کر اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا، غزہ مغربی کنارہ اور جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل حاوی ہوگیا اور ان سب سے اہم علاقہ قدس شریف بھی اس کے کنٹرول میں آگیا۔ اگر اسے ہم تباہ کن حادثہ اور سخت پسپائی یا شکست کا نام نہیں دیں تو میں نہیں جانتا کہ اس تاریخی حادثے کو کیا نام دیا جائے؟ لیکن جمال عبد الناصر رحمہ اللہ نے جنگ کے خاتمے کے فورا بعد سے لے کر سنہ ۱۹۷۰ ء میں اپنی وفات تک دو بڑے کام کیے، ایک یہ کہ مصری فوج کی تشکیل نو کے لیے ہر ممکن وسیلہ اختیار کیا۔دوسرا یہ کہ فلسطینی عوام کے باہمی مسائل واختلافات کے تصفیے کے لیے کوشش کی۔اس وقت اردن کے اندر موجود فلسطینی پناہ گزینوں کے اندر یہ رجحان پیدا ہونے لگاتھا کہ اب فلسطین کی آزادی کے بجائے اردن کو شاہ وقت کے تسلط سے آزاد کرایا جائے۔ ایک سازش کی گئی جسے ناکام کرنے کی خاطر اردن کے دفاع میں جولوگ کھڑے ہوئے وہ اردن کا بادشاہ، اس کی فوج، اردنی عوام اور سعودی فوج تھی۔
جی ہاں سعودی فوج اردن کے دفاع میں اردن کے ساتھ کھڑی ہوئی، اس لیےکہ یہ فوج اسرائیل کے خلاف پیش آنے والی ساری جنگوں میں اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا لگاکر ساتھ کھڑی رہی۔مصری محاذ سے اپنے مصری بھائیوں کے ساتھ فلسطین کے اندر تک پہنچی اور پوری بہادری سے لڑی۔ اس وقت کی مصری قیادت اور تاریخ نے اس بات کی شہادت دی،۳۰۰۰ سعودی فوجی مصر اور فلسطین کے اندر موجود تھے۔ اس جنگ میں ۱۵۰ سعودی فوجی شہید بھی ہوئے،سعودی فوج اس وقت تشکیل نو کے مرحلے گزر رہی تھی،کوئی خاص امکانیات کی مالک نہیں تھی لیکن جو فوجیں اس سے پہلے تشکیل پاچکی تھیں، ان کے پاس بھی کوئی بڑی جنگی طاقت وصلاحیت نہیں تھی۔ہوا یوں کہ فلسطینی برادری [اپنی منافقانہ روش، ریشہ دوانیوں اور غیرقانونی حرکتوں کی وجہ سے] دوسری مرتبہ اردن سے لبنان ہجرت کرنے پر مجبور کی گئی۔ لبنان کے اندر ایک سال بھی انھوں نے قیام نہیں کیا ہوگا کہ وہاں بھی وہی کارستانیاں شروع کردیں جن کی وجہ سے انھیں اردن سے نکالا گیا۔اب اردن کے بعد لبنان ان کا دوسرا ہدف بن گیا جبکہ فلسطین علاقہ کوئی خطہ ارض سے غائب نہیں ہوگیا تھا لیکن لبنان کو آزمائش میں ڈال دیا گیا۔ فلسطینی جنگ کی شروعات ہوئی جس کے نتیجےمیں لبنان کو خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑا۔ آج تک لبنان اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ پھرنتیجۃ اسرائیلی فوج کا وہ حملہ سامنے آیا جس میں پہلی مرتبہ وہ کسی عرب ملک کی راجدھانی تک پہنچ گئے۔
ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں گرچہ سعودی عرب اور مصر کے درمیان یمن کے موضوع پر بڑے شدید اختلافات تھے،۱۹۶۷ء میں جب مصر پر حملہ ہوا، اس سے تقریبا ایک ہفتہ قبل یمن سے سعودی شہر جیزان اور نجران پر مصری لڑاکا جہاڑوں کے ذریعہ بم باری ہورہی تھی۔پھر مصر کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیاتو اس نے سعودی عرب سے مدد مانگی۔سعودی عرب نے ساری امکانیات کے ساتھ مصر کے تعاون کا وعدہ کیا۔ مصر نے ہم سے یہ درخواست کی کہ یمن میں جو ان کے جنگی جہاز ہیں اور جن جہازوں کو انھوں نے سوڈان کی طرف بھیجا تھا جدہ میں انھیں لینڈنگ کی اجازت دی جائے۔ جیسا انھوں نے ہم سے چاہا ویسا ہی ہوا۔ میں یہاں سعودی قوم کوان فلسطینی شواذ کی سطحی اور گری ہوئی اخلاقیات کے بالمقابل اس کی قیادت کی بلند اخلاقیات سے متعارف کرانے میں لگا ہوں، جدہ کے اندر اس علاقے کے قائد مرحوم منصور الشعیبی تھے جنھوں نے امیر سلطان بن عبد العزیز – جو کہ اس وقت کے وزیر دفاع تھے – کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ مصری جہازوں کی سعودی عرب میں موجودگی کو کیمروں میں قید کرلیں تاکہ بعد میں بوقت ضرورت ہم اپنی کارکردگی اور تعاون کو لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ امیر سلطان نے کہا کہ ہمیں ملک فیصل سے اس بات کی اجازت لے لینی چاہیے۔ جب امیر سلطان نے ملک فیصل سے اجازت طلب کی تو آپ شدید ناراض ہوئے اور فرمایا: کیا یہ عقل مندی ہےکہ ہم اپنے مصری بھائیوں کا اس وقت مذاق اڑائیں جب کہ اسرائیل ان کی زمین پر حملہ آور ہوچکا ہے؟ ایسا ناممکن ہےاور فوجی قائد فریق منصور الشعیبی کو آگاہ کیا کہ اگر میں نے سنا کہ کسی نے ان جنگی جہازوں کی ایک بھی تصویر لی ہےتو اس کا ہاتھ کاٹ لوں گا۔ مملکت سعودی عرب کا اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ یہ موقف رہا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سعودی لشکر تبوک میں جمع ہوکر اردنی محاذ کی طرف کوچ کرتا ہےجو کہ ہمارے اعتبار سے اس جنگ میں شرکت کے لیے سب سے قریبی محاذ تھا، جہاں سے اپنی صلاحیت بھر ہم اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کی مصیبت کو ہلکا کرنے میں تعاون کرسکتے تھے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہےکہ اگر دشمن اردن میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا تو جنگ وہیں پر ختم ہوجاتی اور کچھ نہیں بچتا۔ ملک حسین او رجمال عبد الناصر نے سعودی فوج کو حکم دیا کہ وہ اردن ہی میں مورچہ سنبھالے رکھے،اس حکم کی تعمیل میں سعودی فوج ۱۹۶۷سے ۱۹۷۳ تک سرزمین اردن پر باقی رہی۔گویا ہم سے کوئی ایسی جنگ نہ بچی جس میں ہماری شرکت نہ رہی ہو۔ جب ۱۹۷۳ کی جنگ پیش آئی اور اردن نے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئےفیصلہ کیا کہ وہ جنگ میں شرکت نہیں کرے گا کیونکہ آخری مرتبہ جب جنگ میں شرکت کی تھی تو مغربی کنارہ اور قدس ہاتھ سے نکل گئے تھے، اب پتہ نہیں کیا ہوگا۔سعودی عرب اور مصر نے ملک حسین کی رائے کا احترام کیالیکن ملک فیصل نے کہا کہ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہماری فوج اردن میں بیٹھی بیٹھی پیش آمدہ حالات پر تماشائی بنی رہے۔آپ نے فورا اپنی فوج کو وہاں سے ہٹاکر شام بھیجنے کا حکم دیا،بالفعل سعودی فوج شام پہنچی اور اپنے شامی بھائیوں کے ساتھ مل کر جولان مورچے پر جنگ میں شرکت کی۔ ۱۹۷۳ کی جنگ کے اختتامی دورانیے تک اور شروعات سے لے کر جنگ بندی کی مکمل مدت تک یعنی ۱۹۷۳ سے لے کر ۱۹۷۸-۱۹۷۹ ء تک سعودی فوج جولان میں موجود رہی۔ کوئی آکر ہمیں عرب قوم کے مشکل حالات میں اپنی شرکت کی داستان توسنائے ہم عرب قوم کی فرحت وشادمانی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب بھی مشکل وقت آتا ہے ہم قولا وفعلا ساتھ دیتے ہیں،یہ بات سعودی شہری کی سمجھ میں آنی چاہیے۔
میں اس وقت اس اسلوب میں کیوں بات کر رہا ہوں،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ماضی کے مقابلے میں حالات کی نوعیت یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ہم معلوماتی زمانے میں جی رہے ہیں۔ آج دنیا کے شہریوں کی اکثریت فیس بک، انٹرنیٹ،سوشل نیٹ ورک وغیرہ سے خبریں حاصل کرتی ہے۔ جرائد ومجلات سے بہت کم لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ بسااوقات یہ ٹیلی ویژن کا بھی سہارا لیتے ہیں لیکن ٹیلی ویژن بھی زہر آلود ہوچکے ہیں۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے میں بالخصوص ٹیلی ویژن چینلوں کے متعلق یہ کہوں گا کہ ان کا پیغام مبنی بر کذب اور ہدف مبنی برحقد وعناد ہوتا ہے، بالخصوص اگر معاملہ خلیجی ممالک اور ان کے حکمرانوں سے متعلق ہوجیسا کہ المنار اور ایران کا دوسرا اسٹیشن الجزیرہ۔ قطر ی قیادت اور الجزیرہ دونوں ایک ہیں اور حقیقت میں مسئلہ قطر ہمارے لیے ایک جانبی مسئلہ ہے۔ قطری قوم ہمارے اپنے ہیں، ہم ان کے ہیں۔ جہاں تک حکومت کا مسئلہ ہے تو وہ ایک غیر مہم جانبی حکومت ہے، وہ اس لائق ہی نہیں کہ اس کے متعلق گفتگو میں اپنا وقت ضائع کیا جائے یا پھر اس پر رد کیا جائے، یاپھر ان کے رد فعل کا انتظار کیا جائے۔ اس باب میں افضل ترین رویہ یہ ہے کہ آپ اسے بھول جائیں لیکن بالتاکید آپ سب جانتے ہیں کہ چیچڑی بسا اوقات اونٹ جیسے جانور کو پریشان کردیتی ہے اور اسے طیش پر مجبور کردیتی ہے پھر بھی چیچڑی چینچڑی ہی رہتی ہے، اونٹ اونٹ ہی ہوتا ہے۔ میرے نقطہ نظر سے یہ موضوع ختم ہوا۔
۱۹۶۷ ء تک مغربی کنارہ، غزہ، جولان اور سینا میں یہودی نوآبادکاری صفر تھی۔اس کے تین سال کے بعد ۱۹۷۰ء میں صرف مغربی کنارے میں یہودی نوآبادی کی تعداد تیس ہزار تھی،۱۹۷۳ ء میں – جو حرب رمضان یا حرب اکتوبر کاسال تھا – ان کی یہ تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ پھر ۱۹۷۸ ء – جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا سال تھا- میں یہ تعداد مختلف اعداد وشمار کے اعتبار سے دو سے تین لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ آج یہاں چھ لاکھ سے زیادہ یہود بسادیے گئے ہیں۔ شروع ہی سے عرب کی اسرائیل سے جنگی تیاریوں اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے تک کی درمیانی مدت میں فلسطینی قیادتوں کے سامنے بہت ساری قراردادیں رکھی گئیں، جیسے اقوام متحدہ کی ۲۴۲ نمبر قرارداد، کیمپ ڈیوڈ معاہدہ جنھیں فلسطینیوں اور ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے عرب نے بھی مسترد کردیا تھا۔
اور پھر ہم سے وہ غلطی ہوئی جس کا فلسطینی عوام کی مزید تباہی میں بڑا رول تھا کہ عرب نے مصر- جو کہ ام الدنیا کہلاتا ہے- سے اس لیے قطع تعلقی کی کیونکہ فلسطینی احباب نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے اس بند کو مسترد کردیا تھا جس کا تعلق فلسطینی خود مختار ریاست کے قیام سے تھا۔ ان کے گمان میں اس بند کو تسلیم کرلینا فلسطینی عوام کے ساتھ خیانت تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ اس دوران اسرائیل کیا کر رہا تھا؟ وہ نوآبادکاری مزید زمین پر قبضہ کرنے، اپنے آپ کومضبوط کرنے، فوجی طاقت کو بڑھانے میں لگا تھا اور ہر اہم مورچے پر ہم سے نبرد آزما تھا۔نیز ایسے مواقع پر ہماری پسپائی کی کوششوں میں مشغول تھا جہاں سے پوری دنیا میں اپنی آواز کو سنایا جاسکتا ہو۔ عرب باہمی انتشار کا شکار تھے اور اس انتشار کی نکیل فلسطینی قوم کے ہاتھ میں تھی یعنی وہی اس انتشار کی وجہ تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعدمیں نے ابوعمار رحمہ اللہ سے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں جوڑے گئے خودمختار ریاست کے قیا م سے متعلق بند کے بارے میں ان کی اپنی رائے جاننا چاہی – علی کل حال جیسا کہ کہا جاتا ہے فوت شدگان کی حسنات ہی کا ذکر ہونا چاہیے –تو انھوں نے کہا کہ بندر ! کیمپ ڈیوڈ کا یہ بند اوسلو معاہدے سے دس گنا بہتر تھا۔ میں نے پوچھا پھر تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں مانا؟ تو کہنے لگے کہ میں تو اس پر متفق تھا لیکن حافظ الاسد نے مجھے قتل کی دھمکی دی۔ میری نظر میں ایسا ہوسکتا تھا کہ اس وقت کسی اختلاف کے چلتے ایک آدھ مسلمان شہید بھی ہوجاتا البتہ لاکھوں فلسطینیوں کی جان چھوٹ جاتی۔ لیکن یہ اللہ کا حکم اور اس کی مرضی تھی، ہم اس کے خلاف کر بھی کیا سکتے تھے۔ [کچھ تصرف کے ساتھ از: ساجد ولی المدنی]

مسئلہ فلسطین: یاسر عرفات اور ملک فہد کا کردار انٹرویو بندر بن سلطان

آپ کے تبصرے

3000