مسئلہ فلسطین: یاسر عرفات اور ملک فہد کا کردار

ساجد ولی المدنی سیاسیات

مسئلہ فلسطین: فلسطینی قیادت، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا کردارانٹرویو بندر بن سلطان


امیر بندر بن سلطان آل سعود حفظہ اللہ کے ساتھ العربیۃ چینل کا دوسرا انٹرویو کچھ تاریخی حقائق کی روشنی میں
اردو قالب: ساجد ولی المدنی

تقریبا سنہ ۱۹۷۷ کے اخیر اور ۱۹۷۸ کی ابتدا میں امیر فہد رحمہ اللہ صدر جمی کارٹر [Jimmy Carter] کی زیارت پر تھے۔ اس دوران مسئلہ فلسطین پر گفتگو ہوئی۔سعودی قیادت کی عام طور سے یہ عادت رہی کہ کسی کے ساتھ بھی ان کی میٹنگ ہوتی تو ان کی گفتگو کا تقریبا آدھا یا تین چوتھائی حصہ مسئلہ فلسطین کے ارد گرد گھومتا تھا۔ اس میٹنگ میں بھی ملک فہد رحمہ اللہ کی یہ کوشش رہی کہ وہ صدرجمی کارٹر کو اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ بہتر کرگزرنے پر ابھارسکیں۔ آپ لگاتار اس مسئلہ کو اٹھاتے رہے، صدر جمی کارٹر نے بالآخر ایک تجویز رکھی کہ فلسطینی تنظیم آزادی کو فلسطینی عوام کا نمائندہ تسلیم کرکے واشنگٹن میں ان کے لیے ایک آفس کھول دیا جائے اور امریکی ڈپلومیٹس انھیں ایک قانونی فریق سمجھ کر ان سے اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات شروع کردیں۔ میں اس بات کے لیے تیار ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ فلسطینی تنظیم آزادی اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۲۴۲ اور ۳۳۸ کو تسلیم کرلے نیز اس بات کا اعلان کرے کہ اس خطے کے سارے ممالک کو امن وسلامتی کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ امیر فہد اس وقت ولی عہد تھے۔ آپ اپنے ملک لوٹے اور ابوعمار سے گزارش کی کہ طائف آکر ان سے ملاقات کریں۔ آپ تشریف لائے، آپ نے انھیں وہ ساری باتیں بتلائیں جو صدر کارٹر نے ان کے سامنے رکھی تھیں۔امیر فہد کہنے لگے ابھی آپ اتنا کریں کہ آپ تین چار لائن لکھ کر سائن کردیں پھر اس دستخط شدہ مکتوب کو امریکی سفیر کے حوالے کردیا جائے۔پھر دونوں طرفین کے لیے وقت متعین کردیا جائے جس میں وہ اس متفقہ علیہ امر کا اعلان کردیں[ یہ ساری باتیں میں نے ملک فہد رحمہ اللہ، امیر سعود الفیصل رحمہ اللہ اور صدر کارٹر سے ڈائریکٹ سنی ہیں] اس کے کئی سال کے بعد میں نے عجیب وغریب منظر دیکھا وہ یہ کہ ابوعمار خوشی منا رہے ہیں اور رقص کررہے ہیں کہ فلسطین کو آزادی مل گئی جب کہ ابھی ہم نے شروعات ہی کی تھی، اگر اللہ نے چاہا تو فلسطین ضرور آزاد ہوگا۔
ہم نے ابوعمار سے پوچھا کیا آپ تیار ہیں ؟ انھوں نے کہا میں تیار ہوں، بس مجھے کویت جاکر وہاں کی قیادت سے بات کرکے لوٹنے کی مہلت دی جائے۔ پھر ہم اپنی رضامندی کا اعلان کریں گے۔ امیر فہد نے ان سے کہا ابوعمار! یہاں ٹیلی فون موجود ہے، لیجیے ان سے بات کرلیجیے۔ کہنے لگے نہیں شخصی طور پر ڈائریکٹ ملاقات بہتر ہوگی۔ امیر فہد رحمہ اللہ نے فرمایا کیوں نہ ایسا کریں کہ امیر کویت اپنے خاص ہوائی جہاز سے یہیں تشریف لے آئیں اور ان کے ساتھ آپ یہیں پر میٹنگ کرلیں، آج رات ہم ساری کارروائی مکمل کرلیں اور کل آگے کی کاروائی میں لگ جائیں۔ کہنے لگے نہیں میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ مجھے ذرا کویت جانے کی اجازت دیں، امیر فہد نے فرمایا ٹھیک ہے جائیں۔
آپ کویت چلے گئے۔ پہلا دن گزر گیا، دوسرا دن گزر گیا،پانچ دن ہوگئے،کوئی جواب نہیں۔ اور ہر دن امریکی سفیر امیر سعود الفیصل کو کال کرتے کہ واشنگٹن کی حکومت فلسطینی قیادت کےجواب کا انتظار کررہی ہے۔ آخر میں اس نے کہا جانتے ہو صدر کارٹر کے سارے مشیران کار اس تجویز سے راضی نہیں ہیں، البتہ صدر کارٹر اس بات پر مصر ہیں کہ میں چونکہ زبان دے چکا ہوں اس لیےمیں اپنی تجویز سے مکر نہیں سکتا۔ ایسے اوقات میں جلدبازی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیتی۔ ایک دن کی مہلت کی ان کی گزارش کے دس دن بعد ہمیں ملک فہد کے نام ان کی طرف سے بھیجا گیا ایک خط ملتا ہے جس میں شکر وتقدیر کے ساتھ صدر کارٹر کے لیے ایک خط بھی ملحق تھا۔ حسب اتفاق سابق ملک فہد اسے دیکھتے ہیں، اس میں امریکہ پر تقریبا دس ایسی شرطیں ذکر ہوتی ہیں جنھیں اسے ’’ خطے کے ممالک امن وسلامتی کے ساتھ جینے کا حق رکھتے ہیں‘‘ والے فقرے کے عوض پورا کرنا ضروری ہوگا۔ سویت یونین جیسے طاقت ور ملک کی طرف سے بھی امریکہ پر کسی معاہدے میں ایسی شرطیں نہ لگائی گئی ہوں گی جیسی انھوں نے لگائیں۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو شرطیں آپ لگانے جارہے ہیں وہ امریکہ کے نزدیک قابل قبول ہوں گی۔
ملک فہد کے ساتھ جو ذمہ دار اور رفقاء کار تھے انھوں نے آپ سے کہا کہ آپ کے بس میں جو تھا وہ کیا اور فلسطینی اتھارٹی کا یہ جواب ہے، آپ اسےصدر کارٹر کے حوالے کردیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ آپ نے کہا نہیں اگر ہم ابوعمار کے اس خط کو امریکی حکومت کو بھیج دیتے ہیں تویہ سارے لوگوں میں – چاہے ان کا تعلق صحافیوں سے ہویا پھر کانگریس کے اعضاء سے- عام ہوجائے گا اور فلسطینیوں کے مخالفین پوری قوت کے ساتھ فلسطینی قیادت پر ہلہ بول دیں گے اور جس مسئلے کے حل کو لے کر ہم کچھ مثبت نتائج کے لیے کوشاں ہیں وہ مزید الجھ جائے گا۔ ابوعمار کے خط کو ہمارے پاس ہی رہنے دو اور کارٹر کے لیے میں اپنی طرف سے ایک خط لکھتا ہوں کہ مملکت سعودی عرب کی حکومت نےآپ کی تجویز پر ہر پہلو سے غور وفکر کیا چونکہ ہمارے لوگ ہی آپ کی تجویز سے متفق نہیں ہوپائے تو ہم اسے فلسطینی قیادت کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں۔ اس خط کو امریکی سفارت خانہ بھیج دیا گیا تاکہ وہ اسے صدر کارٹر تک پہنچا دیں۔ کیوں ہم نے ایسا کیا، اس لیے تاکہ ہم امریکی قیادت کو یہ باور کراسکیں کہ ہمی نے اس تجویز کو رد کیا ہے، فلسطینی قیادت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ فلسطینی مسئلے کے حل کی ناکامی کا سبب اہل فلسطین کی طرف منسوب کیا جائے اور پھر انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اس طرح کے مواقع بار بار آتے رہے اور یہی روش دہرائی جاتی رہی اور ہماری طرف سے فلسطینی قیادت کی ناکامیوں پر اسی طرح سے پردہ ڈالا جاتا رہا۔
ایسا ہوتا رہا لیکن میں نے کبھی کسی سعودی کو نہیں دیکھا کہ جو رد فعل کے طور پر ہی سہی ان حادثات کا ذکر کرتا ہو جو ۱۹۷۷-۱۹۷۸ سے لے کر ۱۹۹۰ تک پیش آئے، جن میں نابلس کے اندر ریاض پر بمباری کے بعد صدام کی تصویریں سروں پر اٹھائی گئیں۔ آپ کو ہرگز ایسا اس لیے نہیں ملے گا کیونکہ ہمارا مقصد فلسطینی عوام کی حتی المقدور خدمت کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ فلسطینی عوام کا مسئلہ مبنی برعدل قضیہ ہے لیکن اس تباہی میں جس کی ذمہ دار خود فلسطینی قیادت ہے ہمارا کوئی گناہ نہیں۔ ہم مبنی بر عدل ایک ایسے قضیے کی خدمت میں مشغول ہیں – جیسا کہ میں نے پہلےآپ کو بتلایا – جس کے نمائندے اپنی پالیسیوں اور اختیارات میں ناکام ترین لوگ ہیں جبکہ اسرائیلی ناانصافی پر مبنی قضیے کی وکالت کرتے آرہے ہیں لیکن کامیاب نمائندوں کی سرپرستی میں۔ چاہے ہم اس بات کو قبول کریں یا نہ کریں، سچائی یہی ہے اور اس ناکامی کے نتائج زمین پر ہمیں بڑی اچھی طرح نظر آرہے ہیں۔
۱۹۸۵ ء میں صدر رونالڈ ریگن [Ronald Reagan] نے امیر فہد سے تعاون کی درخواست کی، ان دنوں میں واشنگٹن کے اندر سعودی عرب کا سفیر تھا،ان کے یہاں نکاراگوا [Nicaragua]میں کچھ مسائل تھے۔ کانگریس کونترا کے ساتھ تھی، وہاں سے کئی مرتبہ ان کا تعاون ہوا اور پھر موقوف ہوگیا۔ اس کو مدد بہم پہنچانے کے مسئلے پر امریکن ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلک پارٹی کے نقطہ نظر کا اختلاف تھا۔ نکاراگوا کے اندر جنگ کے نہایت نازک مرحلے میں جب امریکی تعاون موقوف کر دیاگیا تو ہم سے درخواست کی گئی کہ کیا سعودی عرب دو تین ماہ کی مدت کے لیےاس خلا کوپر کرسکتا ہے؟ مجھ سے صدر ریگن نے کہا کہ اس درخواست کو ملک فہد تک پہنچا دیں۔ میں نے ان کی یہ درخواست آپ تک پہنچا دی، آپ فورا راضی ہوگئے اور فرمایا اللہ کے بھروسے آگےبڑھیے۔ مجھ سے کہنے لگے : بندر! ایک دن آئے گا جب میں اس تعاون کو اپنی مصلحت کے لیے استعمال کروں گا اور اس کا فائدہ اٹھاؤں گا۔ میں نے امریکہ لوٹ کر انھیں ملک فہد کی رائے سے خبردار کیا تو صدر ریگن نہایت خوش ہوئے۔
بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں کہ سعودی عرب کا نکاراگوا او رکونترا سے کیا مطلب تھا۔ حقیقت میں سعودی عرب کا ان دونوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن ہماری ایک مصلحت تھی اور میں بتلاتا ہوں کہ وہ کیا تھی؟ اس وقت اگر آپ سعودی عرب کے شہر ریاض، جدہ یا جوف کی کسی سڑک پر آکر کسی عام شہری سے یہ پوچھ لیتے کہ کیا آپ کونترا اورنکاراگواکو جانتے ہیں، تو وہ تخمینہ لگاکر آپ سے پوچھتا کہ کیا یہ کسی بیماری کا نام ہے، یا پھر یہ کیا چیز ہے؟ کیونکہ ہمارے ملک سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ لیکن اسٹریٹجک طریقے سے سوچنے والے شخص کے نزدیک تعلق ضرور تھا، اس وقت افغانستان پر سوویت یونین نے قبضہ کیا ہوا تھا، ہم نے افغان مجاہدین کی مدد کی تھی اور امریکی قیادت بھی اس تعاون کی تائید میں تھی۔ ملک فہد یہ چاہتے تھے کہ امریکہ اس جنگ کے آخری لمحے تک ہمارے ساتھ رہے تاکہ سوویت یونین اس ملک سے نکل نہ جائے۔ گویا افغانستان میں ہمیں ان سے نکاراگوا میں انھیں ہم سےفائدہ تھا، ہم اس بات کی گارنٹی چاہتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ افغانستان میں آخری وقت تک ساتھ دیں گے۔
سنہ ۱۹۸۶ ء میں مجھے ملک فہد نے حکم دیا کہ میں صدر ریگن سے فلسطینی قضیہ کے حل لیے کچھ اقدام کرنے کی درخواست کروں ۔ میں نے صدر ریگن سے ملاقات کی اور کہا ہم چاہتے ہیں اگر آپ فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے کچھ کرسکتے ہیں تو کریں۔اِس وقت کی فلسطینی قیادت اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۲۴۲ پر متفق تھی جسے ۱۹۷۸ء میں ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور انھوں نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔ ملک فہدنے اس قضیے کے حل کے لیے دوبا رپیش رفت کی، پہلی مرتبہ۱۹۸۱ء اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۲ میں۔۱۹۸۱ ء کی پیش رفت میں بھی اس قرارداد کوصرف اس وجہ نکتے کی سے ٹھکرا دیا گیا تھا کہ خطے کے دوسرےممالک کو امن وسکون کے ساتھ جینے کا حق ہو گا۔ بعد میں اسی نکتے کو اوسلو معاہدے میں تسلیم کر لیا گیا۔ دیکھیں کیسے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، وہ قراردادوں کو مسترد کردیتے، ہم یہ جانتے ہوئے بھی ان کے ساتھ کھڑے رہتے کہ ان کا موقف مصلحت کے خلاف ہے۔ پھر ایک زمانے کےبعد جب وہ تجویز ٹیبل سے غائب ہوجاتی تب ان کا جواب ملتاکہ اب ہم اس تجویز کومانتے ہیں۔ لیکن اب تو یہ موقع ضائع ہوچکا اب کیا فائدہ؟ ان کے ضائع شدہ مواقع پر افسوس کرتے ہوئے میری یہ داڑھی سفید ہوگئی۔ اگر ہم کسی خاص پوزیشن میں ہوتے اور ہمارا اثر ورسوخ ایک حد تک مضبوط ہوتا تب ایسا ممکن تھا کہ کچھ نتیجہ خیز چیزیں سامنے آجاتیں۔
اہم بات یہ کہ صدرریگن نے ہماری درخواست کو قبول کیا۔ البتہ ان کے خارجی امور کے ذمہ دار شوکس نے اعتراض جتایا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اسے امریکہ کے کہنے پر ہماری طرف سے کونترا کو دی گئی مدد اور صدر ریگن کے ساتھ طے شدہ اتفاق کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے ملک فہد کے نام لکھا گیا ان کا خط لیا، جس میں درج تھا کہ اگر فلسطینی اتھارٹی اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۲۴۲ کو تسلیم کرتی ہے –بالکل کارٹر کے خط کی طرح – اور دہشت گردی ترک کردیتی ہے اور خطے کے سارے ممالک کو بلا استثنا امن وسلامتی کے ساتھ جینے کے حق کو قبول کرلیتی ہے تو ہم فلسطینی تنطیم آزادی کا اعتراف کرلیں گے اور ان کے ساتھ مذاکرات کی شروعات کردی جائے گی۔ میں نے ان کے پاس سے نکل کر ملک فہد کو بتلایا کہ صدر ریگن ان باتوں پر متفق ہیں۔ آپ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے؟ میں نے کہا میرے ہاتھ میں ان کا لیٹر موجود ہے، جس میں ان باتوں پر ان کے دستخط بھی ہیں۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے اپنا کام شروع کریں، میں نے کہا کہ میں آپ کے پاس آتا ہوں کیونکہ یہ لیٹر تو ابوعمار کے لیے ہے نہ کہ میرے لیے۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ تیونس جاؤ، میں وہاں گیا اور مرحوم ابوعمار سے ملاقات کی۔ میں نے وہاں وہی دیکھا جو مجھے ان کے متعلق صدر کارٹر کی تجویز کے وقت امیر فہد سے ملاقات کی تفصیلات بتلائی گئی تھیں۔ وہ کھڑے ہوئے او ر اپنی عادت کے مطابق کہنے لگے کہ فلسطین کو آزادی مل گئی، فلسطین کو آزادی مل گئی۔ پھر رقص کرنے لگے، بوس وکنار کرنے لگے، ویسےلوگوں کے یہاں ابوعمار کی بوس وکنار کے قصے مشہور ومعروف ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ سب چھوڑیں اور مجھے بتلائیں اب آپ اس بات کا اعلان کب کریں گے؟ اور ملک حسین کے پاس جاکر اس جانب مشترکہ کاز کی شروعات کب ہوگی؟-جیسا کہ سابقہ طور پر اتفاق ہوا تھا- کہنے لگے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا ’’ایسا کبھی نہیں ہوسکتا‘‘ کا کیا مطلب؟ یہی آپ لوگوں کا ہم سے مطالبہ تھا۔ ہم نے محنت کی اور آپ کی رغبت کے مطابق کام کیا۔ کہنے لگے میں عربی ہوں۔ میں نے کہا ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ آپ عربی صفات کے حامل ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ پر بھروسہ کرکے آگےبڑھیں اور موقع کو دوبارہ نہ گوائیں۔ کہنے لگے ایسا ممکن نہیں کہ میں پہلے ملک حسین کے پاس جاؤں۔ میں پہلے سعودی عرب جاؤں گا اور ملک فہد کی محنت پر ان کا شکریہ ادا کروں گا، ان کی پیشانی چوموں گا پھر ملک حسین کے یہاں جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ ملک فہد آپ کے جذبات کو جانتے ہیں اور یقینا آپ کی زیارت کے بھی خواہاں ہیں البتہ آپ ملک حسین کے پاس جاکر اس بات کا اعلان کریں اور پھر امریکی حکومت بھی اپنےموقف کا اعلان کردے گی، موقع کا فائدہ بھی اٹھایا جائے گا۔ انھوں نے میری اس بات کو مسترد کردیا۔ میں نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو آپ سعودی عرب جائیں، کوئی بات نہیں۔ کہنے لگے مجھے ہوائی جہاز چاہیے،میں نے کہا کہ میں جس ہوائی جہاز سے آیا ہوں آپ اسے لے لیں اور جدہ چلے جائیں۔ آپ نے ہوائی جہاز لیا اور لگاتار ایک مہینہ ہم سے غائب رہے۔ تیونس سے جنوب یمن گئے، شمالی کوریا گئے – جس سے ہمارے کوئی تعلقات ہی نہیں تھے – بعض افریقی ممالک کی زیارت کی، ایشیا کے بعض ملکوں کا سفر کیا، پھر سعودی پہنچے۔ اس ایک مہینے کے دوران امریکی قیادت نے اس موضوع کو بھلا دیا۔ بہت سارے ایسے حالات بنے جن میں لوگ مشغول ہوگئے اور اس مسئلے ہی کو بھول گئے۔
ادھر جنوب لبنان کے اندر فلسطینی پناہ گزینوں پر حملہ ہوا، ادھر شامی فوج نےطرابلس میں ابوعمار کو محصور کررکھا تھا، ملک فہد اس بات پر نہایت غضب ناک تھے کہ اسرائیل جنوب لبنان میں مقیم فلسطینیوں پر کیوں حملہ آور ہوا ہے؟ آپ نے مجھے ایک پیغام دے کر صدر ریگن کے پاس بھیجا کہ جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ حملہ بند ہونا چاہیے۔ یہاں امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں نے انھیں ان کے خارجی امور کے ذمہ دار شوکس کے ذریعہ ملک فہد کا پیغام پہنچایا اور کہاکہ ملک فہد فوراً اس پیغام کو صدر ریگن تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہاں بڑی تباہی ہورہی تھی۔ کہنے لگے میں اسے پہنچاؤں گا تو سہی، لیکن آپ سے میں ابھی ایک بات کہہ دیتا ہوں، چونکہ میں صدر ریگن کی پالیسیوں اورطریقہ کار سے واقف ہوں اس لیے ابھی آپ کے سامنے اس کمرے میں میں سارے صحافیوں کو جمع کر اسرائیل کے اس حملے کی مذمت کا اعلان کرتا ہوں اور ان سے حملہ روکنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ میں نے اللہ کا شکر اداکیا اور دل ہی دل میں سوچا کہ راستہ نکل آیا۔ کہنے لگے : میری بس ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور فلسطینیوں پر شامی فوج کے حملے اور ان کے محاصرے کی مذمت کا اعلان کریں اور ان سے حملہ روکنے کا مطالبہ کریں۔ لاحول ولا قوۃ إلا باللہ۔ اس مسئلے میں ایک راز کی بات ہے، جب بھی کوئی آسانی نظر آتی ایک اور مشکل سامنے آجاتی، ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی دوسری آدھمکتی – جیسا کہ امیر خالد کہا کرتے تھے – میں نے کہا نہیں ہم اسرائیلی حملے کے خلاف آپ کا ایک اسٹینڈ چاہتے ہیں اور ہم اپنے شامی بھائیوں کے ساتھ مل کر ان کے حملے کو ختم کرانےکی کوشش کریں گے اور بالفعل اس طرح کی کوششیں ہوئیں۔ میں یہاں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ کچھ مواقع ملتے ہیں اور اس داستان میں ہمیشہ وہ ضائع ہوتے نظر آتے ہیں۔
۱۹۸۵ ء میں ملک فہد نے امریکہ کی زیارت کی۔اس دوران دو حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ صدر ریگن کے ساتھ ملک فہد کی ساری میٹنگیں مثبت رہیں۔ زیارت کے دنوں میں اس رات جس رات صدر ریگن کی طرف سے سرکاری طور پر شام کے کھانے کی دعوت تھی، ہم اس بات پر خوش تھے کہ وہ اس قضیے کے حل کے لیے نئی پیش رفت کرنے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں جنیف کے اندر ابوعمار اور شلس کی ملاقات ممکن ہوسکی تھی۔ جب ملک فہد اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے تو صدر ریگن کے قومی سیکیورٹی امور کے مشیر نے مجھے فون کیا-یاد رہے کہ میں اس وقت امریکہ کے اندر مملکت سعودی عرب کا سفیر تھا- اور مجھ سے پوچھا کہ کیا ہم آج رات کھانے کی دعوت میں ملک فہد کا خطاب دیکھ سکتے ہیں؟ میں نے کہا بالکل کوئی بات نہیں ہے لیکن کیا اسی طرح سے تم بھی صدر ریگن کےخطاب کی ایک کاپی ہمارےلیے بھیج سکتے ہو؟ کہنے لگے افسوس ! ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ امریکی صدر کا کوئی بھی پیغام قانونی طور پر صدر کی زبانی اسٹیج پر پیش کیے جانے سے قبل منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا۔ اس کے بعد ہی کسی کو دیا جاسکتا ہے اورصحافیوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔ میں نے اس بات پر کسی بھی اعتبار سے زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن میرے دل میں ایک خدشہ ضرور بیٹھ گیا۔
میں نے جب ملک فہد کو جب یہ بات بتلائی تو آپ نے پوچھا کیا ایسا ہے کہ آپ نے صدر کا خطاب ان سے مانگا تو انھوں نے منع کردیا؟ میں نے کہا بالکل ایسا ہی ہے، کہنے لگے ان شاء اللہ خیر ہی ہوگا، اس کے لیے میرے خط کا ایک نسخہ بھیج دو۔ ہم پورے سعودی وفد کے ساتھ سرکاری دعوت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ صدر ریگن ملک فہد کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھے ہوئے ہیں او راتفاقیہ طور پر میرا ٹیبل بالکل ملک فہد کے ٹیبل کے سامنے ہے۔ اچانک ملک فہد میری طرف ہاتھ ہلاکر اشارہ کرتےہیں، میں نائب صدر بش کے بائیں جانب بیٹھا تھا، انھوں نے مجھے کچوکہ لگاکر کہا کہ شاید تمھارے صدر تمھاری طرف اشارہ کررہے ہیں، میں دوبارہ ملک فہد کی طرف متوجہ ہوا تو آپ نے مجھے آنے کا اشارہ کیا۔ میں کھڑا ہوکر ان کے پا س چلا گیا، یہ سرکاری دعوت تھی، تقریبا ۱۵۰لوگ مختلف ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے جن میں سے کوئی ایک چوتھائی صحافی ہوں گے، دونوں طرف کے بڑے بڑے ذمہ داران بھی تھے۔ میں عربی سعودی طرز کا کپڑا پہنے ہوئے تھا، میں جب کھڑا ہوا تو سب لوگ مجھے دیکھنے لگے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ سعودی سفیر ملک فہد کے پاس جارہے ہیں۔ کہنے لگے دھیان سے سنو! باہر نکلو اور مکفیر -جو امریکی قومی سیکیورٹی کے مشیر ہیں – کوبلاؤ اور ان سے کہنا کہ میں چاہتا ہوں صدر ریگن کے خط میں مشرق وسطی سے متعلق جو پیراگراف ہے اسے سرے سےحذف کردیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تومیں اس پیراگراف کے رد میں ایسی بات کروں گا جس سے پوری مثبت میٹنگیں منفی رنگ اختیار کرلیں گی۔ میں نے کچھ کہنا چاہا تو آپ نے میری بات سنے بغیر کہا جاؤ۔ میں خاموش ہوگیا اور وہاں سے نکلا۔میں نے وہاں کے خدمت گزاروں میں سے ایک شخص کو روک کرکہا کہ اس شخص کو جاکر کہو کہ بندر تمھیں باہر بلارہے ہیں۔ میرے بلانے پروہ آیا او رکہنے لگا خیر تو ہے، کچھ ہوا ہے کیا؟ میں نے انھیں ملک فہد کی بات بتلائی۔ میری بات سن کر اس نے کہا کہ بتلاؤ تو سہی کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم ملک فہد نے مجھے کچھ نہیں بتلایا۔ کہنے لگا ملک فہد کو کیسے معلوم ہوا کہ صدر ریگن کے خطاب میں مشرق وسطی سے متعلق فقرے میں کیا لکھا ہے؟ میں نے کہا اس کے بارےمیں بھی مجھے کچھ نہیں معلوم، کہنے لگے کہ کیا یہی بات ہے، مذاق تو نہیں کر رہے؟ میں نے کہا بالکل نہیں، ملک فہد ایسی سنجیدہ جگہوں پر مذاق کے عادی نہیں، مسکراتے ضرور ہیں لیکن غصہ کے وقت نہیں۔مکفیر لوٹے اور اپنی ٹیبل پر بیٹھ گئے اور ایک پرچی اٹھاکر اس کے پیچھے کچھ لکھا اور ایک خدمت گزار کو دے کرصدر ریگن تک پہنچانے کا حکم دیا۔ انھوں نے جب اسے پڑھا تو اپنا مکتوب نکالا اور اس شخص کو دے دیا جو پرچی لے کر آیا تھا۔ مکفیر نے اسے لیا اور قلم لے کر صدر ریگن کے لیٹر سے کچھ حذف کیا اورصدر ریگن کو واپس کردیا۔ میں باہر کھڑا دیکھ رہا تھا، اس نے میری طرف دیکھ کر انگوٹھا اوپر کی طرف اٹھاکر دلچسپ اشارہ کیا۔
میں دوبارہ مجلس میں لوٹا تو ملک فہد نے سر ہلاکر میری طرف اشارہ کیا،میں بیٹھ گیا۔ مجھ سے نائب صدر بش نے پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا مجھے کچھ نہیں معلوم۔ ہم سب کھانے سے فارغ ہوئے، ذمہ داران اپنی اسپیچ دینے کھڑے ہوئے، صدر ریگن نے اپنا خطاب پیش کیا جس میں انھوں نے ملک فہد کا شکریہ ادا کیا، خوش آمدید کہی، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ اور صدر روزویلٹ سے لے کر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی تعریف کی۔ پھر کہنے لگے:’’ میں اس بات کو بخوبی جانتا ہوں کہ ملک فہد نوجوانوں کو اسپورٹس پر ابھارتے ہیں، آپ کی فٹ بال ٹیمیں ہیں جو مختلف ممالک کے میچوں میں شرکت کرتی ہیں۔ میں آپ کی کامیاب زیارت کی تمنا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہمارے ملک میں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی ہوگی‘‘۔ اس طرح حاضرین کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں یہ بات ختم ہوگئی۔ان کے بعد ملک فہد کھڑے ہوئے، اپنی جیب سے مکتوب ورقہ بھی نہیں نکالا اور بالکل اسی طرح کی باتیں کیں جیسی باتیں صدر ریگن نے کی تھیں۔ مضبوط تعلقات، شکر وتقدیر وغیرہ۔ پھر کچھ دیر خاموش رہے اور کہنے لگے: محترم صدر آپ درست کہہ رہے ہیں، میں بالکل نوجوانوں کو اسپورٹس اورکھیل کود پر ضرور ابھارتا ہوں، خاص طور سے فٹ بال پر۔ ہمارے پاس ابھی نوجوانوں کی دوٹیمیں ہیں، ایک ابھی چین کے شہر بیجنگ میں کھیل رہی ہے او ردوسری ٹیم روس کی راجدھانی ماسکو میں کھیل رہی ہے۔ ضروری ہے کہ نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جائے۔ آپ کی عمدہ ضیافت پر آپ کا شکریہ‘‘۔ پھر آپ بیٹھ گئے۔
پورا سعودی وفد- جن میں امیر سعود الفیصل بھی تھے- میری طرف دیکھ کر پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ پورے مکتوب خطاب کے اندر مشرق وسطی سے متعلق باتیں بھری پڑیں تھیں۔ میں نے کچھ نہیں کہا، خاموش رہا۔ ہماری زیارت ختم ہوگئی، صدر ریگن نے بھی ہمیں الوداع کہا۔ جب ہم وہاں سے چلنے لگے تو آپ نے کہا تم یعنی سعود الفیصل اور بندر میرے ساتھ گاڑھی میں بیٹھو۔ ہم آپ کے ساتھ بیٹھ گئے، ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ہم جب قیام گاہ پہنچے تو ملک فہد نے مجھ سے پوچھا تمھیں میری اسپیچ پسند نہیں آئی؟ میں نے کہا توفیق الہی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ پھر مجھ سے او رکچھ نہیں پوچھا۔ جب میں وہاں سے اپنی قیام گاہ جانے لگا تو پیچھے مجھے آواز سنائی دی کہ آپ کو ملک فہد بلا رہے ہیں۔ میں آپ کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے پوچھا آپ نہیں جانتے کہ کیا ہوا ہے؟ وزیر اطلاعات نے مجھےبتایا تھا کہ یہ خطاب سعودی عرب میں لائیو ٹیلی کاسٹ ہوگا، اس لیے میں سبب بیان کرنا چاہتا ہوں اور یہ بتلاؤں کہ جب تم سے لوگ سبب دریافت کریں تو تمھیں انھیں کیا جواب دینا ہے؟ کیونکہ میرے پاس سے جانے کے فورا بعد تمھارے پاس سعودی عرب سے بہت سارے ٹیلی فون آئیں گے، میرے خیال میں پہلا فون تمھارے پاس ولی عہد امیر عبد اللہ کا آئے گا۔ اسی طرح امیر سلطان بن عبد العزیز رحمہ اللہ، امیر سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ،امیر نائف بن عبد العزیزرحمہ اللہ اور دوسرے لوگوں کے فون آئیں گے۔ پہلا جواب تمھارا یہ ہوگا کہ میں کچھ نہیں جانتا،حتی کہ میں لوٹ جاؤں۔ پھر میں خود انھیں بتلاؤں گا۔ لیکن میں تمھیں ذاتی طور پر اس پورے حادثے کا سبب بتلاتا ہوں۔
جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ سابقہ طور پر تمھیں صدر ریگن کا خطاب نہیں دے سکتے میں اسی وقت سے متفکر تھا۔ہم شام کے کھانے کے لیے بیٹھے، میں نے ٹرانسلیٹر سے پوچھا کہ تم میری اسپیچ کو کس طرح ٹرانسلیٹ کروگے۔ اس نے کہا امبیسی والوں نے مجھے آپ کی اسپیچ کی ایک ٹراسلٹیڈ کاپی دے دی ہے، آپ عربی میں اسپیچ دیں گے اور میں اس نسخے کی روشنی میں آپ کی اسپیچ کو لوگوں کے سامنے پیش کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، تم صدر ریگن کی اسپیچ کو عربی میں کیسے ٹرانسلیٹ کروگے؟ اس نے کہا میرے پاس عربی میں ٹرانسلیٹیڈ کاپی ہے، صدر انگلش کاپی سے اپنی بات رکھیں گے تو میں اس اسپیچ کی عربی کاپی کو پیش کروں گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟ کہنے لگا بادشاہ سلامت! افسوس ! ہمیں یہ آرڈر ہے کہ صدر کی اسپیچ کی تفصیلات کسی کو اس وقت تک معلوم نہیں ہونی چاہئیں جب تک وہ اسٹیج پر آکر خود لوگوں کوبیان نہ کریں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ پھر میں نے اپنی رائے بدلی اور میں نے صدر ریگن سے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگلش میں کہا Mr president I like to see your speech, your talk یعنی محترم صدر میں آپ کی ہونے والی گفتگو یا اسپیچ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ فوراً انھوں نے ٹرانسلیٹر سے کہا کہ بادشاہ کو میری اسپیچ کی عربی کاپی دے دو۔ اس مسئلے میں وہ بہت زیادہ حساس نہیں دکھے۔ ٹرانسلیٹر نے اسپیچ کی عربی کاپی ملک فہد رحمہ اللہ کے حوالے کردی، آپ نے اس میں جو تفصیلات تھیں ان پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ مشرق وسطی سے متعلق پیراگراف کی شروعات کچھ اس طرح تھی:’’میرے دوست ! صدر کارٹر، صدر سادات اور وزیر اعظم بیگن نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے ایک تاریخ رقم کی تھی، میری بھی یہ خواہش ہے کہ میں ، آپ اور اسرائیل کے وزیر اعظم دوبارہ ایک نئی تاریخ رقم کردیں گے۔‘‘
یہ وہ پیراگراف تھا جسے ملک فہد حذف کرانا چاہتے تھے۔ اس کے بالمقابل ملک فہد کی اسپیچ میں مشرق وسطی کے متعلق یہ باتیں تھیں:’’ فلسطینی مسئلہ ہمارے لیے ایک بنیادی مسئلہ ہے، ہم فلسطینی قوم کے لیے عدل اور امن وسلامتی چاہتے ہیں۔‘‘ پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر تھا۔
ملک فہد نے کہا : چونکہ ہم نے ان کے خطاب سے مشرق وسطی کے متعلق تفصیلات کو حذف کرادیا ہے تو ہم بھی اپنے خطاب سے ان ساری باتوں کو حذف کرتے ہیں جو اس قضیے سے متعلق ہیں۔ اس وقت سارے لوگوں کی زبان پر تعجب بھرے انداز میں یہی ایک سوال تھاکہ ایسے حساس اور اہم وقت میں کیا یہ بات معقول ہے کہ ملک فہد فٹ بال اور اسپورٹس کے متعلق اسپیچ دیں اور بنیادی مسئلے پر – جس کے لیے یہ ساری میٹنگیں اور ملاقاتیں منعقد ہوئی تھیں- اس پر کچھ نہ بولیں۔ یاد رکھیں ’’اگر سبب کا علم ہوجائے توتعجب ختم ہوجاتا ہے‘‘۔آپ کے پاس سے نکلتے ہی مجھے خبر لگی کہ ولی عہد نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ امیر سلطان کا دومرتبہ ٹیلی فون آیا۔ امیر نائف نے بھی کال کیا تھا۔ امیر سلمان نے بھی تفصیلات جاننا چاہیں۔ میں نے سفارت خانہ جاکر سب سے گفتگو کی اور انھیں بتلایا کہ مجھے نہیں معلوم کیا ماجرا ہے، ہمارے پاس اس اسپیچ کا بھی نسخہ موجودہے جو ملک فہد کو کرنی تھی لیکن جو ہوا ہمیں پتہ نہیں کیوں ایسا ہوا؟
اس پوری داستان کو بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ ہمارے یہاں مبالغہ آرائیاں اور جھوٹے دعوے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہمارے اپنے موقف ہیں اور ان کو بروئے کار لانے کے لیے اپنا طریقہ کار۔ جب ہم ۱۹۸۵ سے لے کر۱۹۹۳ تک کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ فلسطینی قیادت اوسلو معاہدے پر مذاکرات کررہی ہے۔ اس وقت انھوں نے مصری قیادت کو خبرتک نہیں کی۔ حسنی مبارک نے ذاتی طور پر مجھے بتلایا کہ اوسلو معاہدے پر اتفاق رائے کے بعد اور امریکہ جاکر اس پر دستخط اور باہمی اعتراف کی تاریخ طے ہونے سے قبل رابن نے مجھ سے ملنے کی درخواست کی۔ وہ میرے پاس آئےاور ان سے مجھے معلوم ہوا کہ فلسطینی اوراسرائیلی اوسلو معاہدے پر راضی ہوچکے ہیں۔میں نے کہا کہ بہر حال بنیادی بات یہ ہے کہ وہ باہم ایک اتفاق پر راضی ہوگئے ہیں۔کہنے لگے بندر ! کیا یہ عقل میں داخل ہونے والی بات ہے ؟ میں نے کہا آپ اور وہ سب صدارت کے مقام پر ہیں، آپ ہی لوگ بہتر سمجھیں، میں نہیں جانتا۔ ہم نے آپس میں خوش کلامی کی اور ظریفانہ ماحول بنا، کچھ ہنسے بھی۔ ہوا یوں کہ اوسلو معاہدہ طے پاگیا۔ یہ وہی معاہدہ تھا جس کے متعلق ابوعمار نے مجھ سے کہا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اوسلو معاہدے سے دس گنا بہتر ہے۔لیکن ایک موقع تھا جو گنوا دیا گیا، اب انھوں نے خودمختار حکومت کے اس فقرے کو اوسلومیں شامل کرنا چاہا – جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں موجود تھا – لیکن ان کی بات کو نہیں سنا گیا اور انھیں بتلایا گیا کہ اب یہ موضوع بحث نہیں، اب دوسری پیش رفت ہے جس پر ہمیں گفتگوکرنی ہے۔ یہ وہ مصیبت ہے جس کا سب سے بڑا خمیازہ فلسطینی عوام کو بھگتنا پڑا اور یہی بات تکلیف دہ ہے۔ ہم یہ ساری باتیں دنیا کو نہیں اپنے سعودی شہریوں کوبتلانا چاہتے ہیں،سعودی نوجوانوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے علم میں یہ بات رہے کہ ہم نے کیا کیا؟ اور اس اہم مسئلے کے حل کے لیے کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟
تمھارے ملک اور تمھاری قیادت کی طرف سے اس مسئلے کے حل کے لیے ایسی کوششیں رہی ہیں جن کی تفصیلات جان کر تمھارا کا سر فخر سے اونچا ہوجائے گا۔ ہماری کارگزاریوں پر تاریخ شاہد ہے، دستاویزات گواہ ہیں۔ اس ملاقات میں میں نے آپ کےسامنے اس مسئلے کی گزری ہوئی داستان کے چند ہی نکات بیان کیے۔

فلسطین قضیے کا کوئی حل نہیں، ذمہ دار کون؟انٹرویو بندر بن سلطان

آپ کے تبصرے

3000