جب سے چارلس ڈارون نے انسان کے بندری ہونے کا فریبی نظریہ متعارف کرایا ہے، مذہبی لا ادریت اور الحاد کے پروموشن کا ایک سنہرا موقع لوگوں کے ہاتھ لگ گیا۔ پچھلی ڈیرھ صدی تک سارے ملحدانہ نظریات اسی فکر کی آڑ میں مذہب کو کوستے رہے ہیں ، ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں یہ بندری نظریہ اب بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ اس کے دفاع کے لیے بندر کے غیر ضروری لیبارٹی تجربات کرائے جاتے ہیں۔
جبکہ یورپ اور روس جو اس طرح کے مجرمانہ سائنسی خرافات کی فکٹریاں ہیں وہ اس نظریہ کو کب کا مسترد کر چکے ہیں، خود انھیں اپنے عقلی نظریات کی تشریح اس قدر بھاری پڑ گئی کہ کئی کیمیائی تجربات بھی ان کی تائید میں مثبت رائے قائم نہ کرسکے۔ مگر ہمارے ماہران تعلیم ہیں کہ آج بھی اس فرسودہ نظریہ کو اپنے اسکول اور کالج کی زینت بنائے بیٹھے ہیں، ہمیں ادنی سی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ کم سے کم سائنسی نقطہ نظر یا قرآن کریم کے بیان کردہ مقصد انسانیت کے تناظر میں اس پر غور کریں۔ نظریہ ارتقا کا کیپسول اب بھی ہمارے بچوں کو کھلایا جاتا ہے، جس کے بموجب یہ سکھایا جاتا ہے کہ انسان پہلے بندر یا کیڑا مکوڑوں تھا، ماحولیاتی اور حیاتی طبیعیات کی تبدیلی نے اسے موجودہ شکل کا انسان بنایا ہے۔
جب سے چارلس ڈارون نے اپنی کتابThe origin of species by means of natural selectionمیں اس نظریہ کو پیش کیا ہے ، نہ جانے بندر کی کتنی قسمیں اب تک انسان دریافت کرچکا ہے، پلٹ ڈاون مین، نبراسکا، ایروکٹوس،ہومو سیفائن نام کی بندری نسلیں متعارف کرائی گئیں۔
ڈارون کے پیش کردہ نظریات کتنے سچے اور جھوٹے ہیں آج کے بائیو کمیسٹری کے اس دور میں اسے ثابت کرنا بہت آسان ہوچکا ہے، قرآنی ابطال اس نظریہ کی تردید کےلیے کافی ہے ہی ، مگر ڈی این اے مالیکیول ٹیسٹ اور جنیٹکل سیلز جیسی تحقیقات نے اب پردہ فاش کردیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی گئی ہے ، بلکہ ایک عظیم طاقتور نے ہر چیز کا نظام تقدیر متعین کرکے اسے ایک خوبصورت پیرائے میں ڈھالا ہے، انسان کو اشرف المخلوقات بناکر اس میں غور وفکر کے ذریعہ اس عظیم طاقت کی الوہیت وعبادت کے اعتراف کا حکم دیا ہے۔
ڈارون کے نظریہ کا سب سے پہلے ابطال ۱۸۶۵ء میں ڈاکٹر جارج منڈیل(George Mendel) نے کیا، تاہم اسے خاصی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی ۔۱۹۱۲ءمیں ایک یورپی شخص چارلس ڈاسن نے دعوی کیا کہ اسے پیلٹ ڈاون کے قریب ایک کھوپڑی ملی ہے جو پانچ لاکھ سال قدیم ہے ، پھر کیا تھا ، سائنسی لیبارٹریوں کو نئی زندگی مل گئی، اس کھوپڑی کو Piltdown manکا نام دیا گیا۔تقریبا ۴۰ سال تک اس پر تحقیق جاری رہی اور ڈارون کے نظریاتی اوہام کو سند وحی کا درجہ دیا جانے لگا، جوں ہی ۱۹۵۰ کے قریب ڈی این اے مالیکویول کا وجود ہوا تو اس کھوپڑی پر دوبارہ تجربہ کیا گیا، فلورین تابکاری کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ یہ کھوپڑی ۵۰۰ سال سے زیادہ پرانی نہیں تھی۔ سائنسدانوں نے بندری نظریہ کو فروغ دینے اس پر Orangutan کا جبڑا ساتھ میں ملا دیا تھااور مصنوعی گھسائی کے ذریعہ اسے انسانی کھوپڑی کے ساتھ ملا دیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ۱۹۲۲ء کے قریب کا ہے جب نبراسکا مین(Nebraska man) کا نظریہ وجود میں آیا ، جسے امریکہ میں ماہر طبیعات ہنری فیئر فلڈ نے پیش کیا،جس کے تحت انسان اوربندر کے دانتوں میں قدرے مشابہت کا دعوی پیش کیا گیا،پھر رامائن اور مہا بھارت کی طرح دیو مالائی قصوں کے ذریعہ اسے انسانی نسل کا پرتو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے لیے ایک مفروضہ سائنسی نام Hesperopithecus Harold cookei تجویز کیا گیا ،۸؍ سالہ تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہ دانت نہ کسی انسان کے ہیں نہ بندر کے ، یہ سور کی کسی ایسی نسل کے ہیں جو کسی زمانہ میں انسان رہے ہوں گے۔قرآن کریم کی آیت جس میں اہل کتاب کو مخاطب کرکے ان کی سرکشی کے سبب بندر و سور بنانے کا تذکرہ ممکن ہے اسی جانب اشارہ ہو۔( سورہ مائدہ، آیت:۶۰)
مختصر یہ کہ بندروں کی اس ہومو سیریز کو ثابت کرنے کے لیے ارتقا پسند سائنسدانوں نے جتنے بھی نظریات پیش کیےہر جگہ انھیں مایوسی اور نامرادی کا منہ دیکھنا پڑا، انسان ہمیشہ سے انسان ہی تھا اور بندر بندر تھا، ہاں قرآنی آیات کے حوالہ سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ چند سرکش اور شیطانی فطرت نسلوں کو بندر و سور اور طاغوت کی پوجا کرنے والا ضرور بنایا گیا ہے، تاکہ اشرف المخلوقات ان کے انجام کار سے عبرت حاصل کرسکے۔
تاہم یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتی ہے، تقریبا سارے آسمانی مذاہب اس بات پر متفق ہیں، جن کے جنت سے نکالے جانے اور زمین میں نسل انسانی کو بڑھانے کا قصہ قرآن،تورات وانجیل میں تعبیر و شرح کے مختلف زاویوں سے وارد ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اس دنیا کا سب سے پہلا انسان ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں سب سے پہلے توحید باری تعالی کا وجود تھا ،نہ کہ شرک کا اور اسی توحید آدمی (علیہ السلام ) پر قائم رہنے کا مطالبہ نسل انسانی سے کیا گیا ہے، عبادات والہیات میں ہمیں اسی تصور کی پابندی کا حکم ہے جو نسل انسانی کے سب سے پہلے فرد ’’بابا آدم‘‘ کو دیا گیا کہ یہی عقل و فطرت کے عین موافق ہے۔ عبادت صرف اسی ایک ذات کے لیے سزاوار ہے جو اس ساری کائنات کا تن تنہا خالق و مالک ومنعم ورازق ہے، شرک اور اہل شرک تو نوح علیہ السلام کے زمانہ میں سواع ویغوث سے بے جا عشق کی بنیاد پروجود میں آئے ہیں۔ ( دیکھیے: سورہ نوح، آیت: ۲۳، صحیح بخاری:۴۶۳۶)
اس الحادی دور میں مسلم اساتذہ و ماہرین تعلیم پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہماری عقلوں پر تھوپے گئے اس نصاب تعلیم کو آنکھ بند کرکے نہ پڑھائیں، ان مغالطہ آمیز نظریات کو صرف امتحان میں پاس ہونے کی حد تک رکھیں،اپنے دین و مذہب کی اقدار کو مجروح ہونے سے بچائیں، کم سے کم کائنات کی تخلیق کے مقاصد، وجود باری تعالی کی دوچار فطری و عقلی ثبوتوں کا علم خود حاصل کریں اور اپنے مسلم طلباء کو بھی سکھائیں،اس موضوع میں سب سے بہترین گائیڈنس قرآن کریم ہے کہ یہ کتاب مقصد ہدایت ہے اور بامقصد سائنسی نظریات کے عین موافق بھی۔
اللہ ہم سب کا حامی ہو!
Jazakallah khairan
May Allah SWT increase ur knowledge
Aamin